اضمحلال و یاسیت سے بچاؤ


یہ بہت مشکل موضوع ہے لیکن اس حوالے سے کچھ اہم نکات ذہن میں آئے تو بیان کرتے ہیں۔

اس مرض سے نجات کے لیے علاج معالجہ تجویز کیا جا تا ہے لیکن معالج جو علاج تجویز کرتے ہیں وہ اتنا لمبا ہوتا ہے کہ اکثر افراد اس پر مکمل عمل درآمد نہیں کر پاتے۔ یہاں رک کر ہم یہ وضاحت کرتے چلیں کہ ہم باقاعدہ نفسیاتی علاج کی مخالفت ہر گز نہیں کر رہے۔ اگر آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے تو آپ اس سے ہرگز ہرگز نہ تو کترائیں اور نہ شرمندگی محسوس کریں بلکہ دلجمعی سے پورا علاج مکمل کریں۔ ہمارے مشورے علاج کا متبادل ہر گز نہیں ہیں۔ ہم جو زیل میں اس حوالے سے تجاویز دینے جا رہے ہیں، وہ اس بیماری کا شکار ہونے اور علاج کروانے کا مرحلہ ہی نہ آنے دینے کے حوالے سے ہیں لیکن اگر ایک دفعہ آپ اس مرض کا شکار ہو گئے ہیں تو پھر علاج سے غفلت نہ برتیں۔

اضمحلال و یاسیت سے بچنے کے لیے والدین کو علم ہونا چاہیے کہ بچوں کی شخصیت نو دس سال کی عمر میں تعمیر ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد کی زندگی اسی شخصیت کے تحت گزرتی ہے۔ والدین بچے کے بچپن ہی سے اس مرض کو اپنے ذہن میں رکھیں۔ چنانچہ کم سنی میں بچے کی ناز برداری اٹھانے کے ساتھ ساتھ غلط حرکت پر سرزنش بھی کریں تاکہ اس کی شخصیت نہ بگڑے۔ کیونکہ ماں باپ تو بچے کی ہر غلط صحیح بات مان لیتے ہیں لیکن جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو دوسرے ایسا نہیں کرتے، اس سے ان کے ذہنوں پر ایک مضر اثر ضرور ہوتا ہے۔ یا بعض اوقات والدین کے پاس اتنی سکت نہیں ہوتی کہ وہ ہر فرمائش پوری کر سکیں۔

پرانے زمانے میں لوگ اپنے بچوں کو غریبوں کے پاس رہائش کے لیے بھیجا کرتے تھے تاکہ وہ دو تین سال ان کے ساتھ رہ کر غربت میں زندگی بسر کرنا سیکھیں تاکہ ان میں برداشت آ سکے۔ وہ غربت کے ماحول میں رہ کر خود کو میسر نعمتوں کی قدر کرنا سیکھیں اور جب ان کے پاس دولت آئے تو اسے دیکھ بھال کر ، سوچ سمجھ کر خرچ کریں۔ پھر یہ رواج تو ختم ہو گیا لیکن پھر گورننس یا آیا کا رواج ہوا جو بچے کی بہتر تربیت کرتی تھی۔ بچوں کو بھی نصیحت کی جاتی کہ وہ ان کا ماں کی طرح ادب کریں اور بچے ان کا احترام کرتے تھے یوں آیا کے ذریعے انہیں خود سے کمتر طبقے کی محرومیوں کا علم ہو جاتا۔

بعد میں آیا کی جگہ ملازمہ رکھنے کا رواج ہو گیا جن کو بچے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں اور ان کا کوئی احترام نہیں کرتے۔ الٹی سیدھی چیزیں کھاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ چھوٹی عمر میں موٹاپے اور ذیابیطس وغیرہ جیسی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ والدین ان کا علاج کروانے اور انہیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں مگر تب تک چڑیاں کھیت چگ چکی ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے موجودہ نسل اداس ہونے کے ساتھ ساتھ انتہا پسند اور ذہنی طور پر ”بیمار نسل“ بن چکی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنی یا دوسرے کی جان لے لیتے ہیں۔ ان کو پڑھائی میں دلچسپی نہیں رہتی۔

بچوں کو شروع سے مایوسی سے نمٹنے اور اسے برداشت کرنے کی تربیت دیں۔ مثلاً اگر آپ ہر روز بچے کو ہزار روپے جیب خرچہ بھی دیتے ہیں، تو کبھی کبھار کچھ دنوں کے لیے اسے کم یا بالکل کوئی رقم نہ دیں اور جھوٹ موٹ کہہ دیں کہ آج کل مہنگائی کی وجہ سے آمدن نہیں ہو رہی ہے، گھر کے اخراجات بمشکل پورے ہو رہے ہیں۔ اس طرح سے بچے کو مایوسی کو برداشت کرنے کی مشق ہو جائے گی۔ یوں جب بعد کی زندگی میں اسے اپنی مرضی کی ملازمت یا شریک حیات نہیں ملے گی تو وہ اس مایوسی کو برداشت کرنے کی عادت بنا چکا ہو گا۔ اور یوں اس کے مایوسی اور اضمحلال کا شکار ہونے یا خود کشی کرنے کے امکانات کم ہو جائیں گے۔

لوگوں کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو زندگی کا حقیقی رخ دکھائیں اور تلخیاں بتائیں، اگر انہیں چڑیا گھر، یا دیگر خوبصورت مقامات کی سیر کو لے جاتے ہیں تو یتیم خانوں، ہسپتالوں میں لے جا کر یتیموں کی محرومی اور بیماروں کی بے بسی بھی دکھائیں۔ تاکہ وہ زندگی کے اس پہلو سے آگاہ ہوں کہ زندگی میں ہر وقت ہر شے نہیں ملتی۔ کبھی انسان کو محرومی پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب انسان کے ذہن کو خود اس کا ادراک نہ ہو جائے۔

اور یہ ادراک کرانے کے لیے ہسپتالوں، یتیم خانوں اور غریبوں کے گھر سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہے۔ بچوں کو یہ بھی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ زندگی محدود ہے۔ اس کے بعد لا محدود مدت تک کچھ نہیں ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ بچوں کو اپنے سے کم تر طبقے جس کے پاس زندگی گزارنے کے لیے ڈھنگ کا کچھ نہیں ہوتا، ان کی زندگیوں کو دکھائیں۔ اس طرح بچوں میں قناعت پسندی پیدا ہوگی اور وہ اپنی زندگی پر شکر ادا کرنے لگیں گے۔ کبھی سوچا ہے کہ خود کشی کے زیادہ تر خیال صرف امیر یا اچھی زندگی گزارنے والے طبقے کو ہی کیوں آتے ہیں یا وہ ایسا کر گزرتے ہیں؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان کو قدرت نے کتنی زیادہ نعمتیں عطا کر رکھی ہیں اور کتنے ہی لوگ ان نعمتوں کی حسرت لیے زندگی گزار جاتے ہیں۔ ایسی بے کجی کو دنیا کی کوئی دواء، کوئی معالج دور نہیں کر سکتا۔ یہ سب عوامل بچوں کی ذہنی صحت کو متاثر کرتے ہیں۔ اور مرض کا شکار ہونے کی صورت میں ذہنی امراض کے ماہر ان کی زیادہ مدد کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ روزانہ دیہاڑی دار مزدوری کرنے والے زیادہ خوش و خرم اور قہقہے لگاتے نظر آتے ہیں۔ چاہے ان کو مزدوری نہ ملے لیکن دوسرے دن ان کی خوش مزاجی پہلے سے زیادہ ہوتی ہے۔

لوگوں کو بچوں کو یہ بھی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ زندگی محدود ہے۔ تقریباً ساٹھ سال تک کارآمد زندگی ہوتی ہے۔ بعد کی جو بھی زندگی ہے، وہ کسی خاص پیداواری مقصد کے لیے نہیں ہوتی۔ اس کے بعد وہیل چئیر اور معذوری ہے۔ اردگرد کے لوگ تیمار داری کرتے ہیں تو تب کہیں جا کر لوگ سو سال یا اس سے زیادہ زندگی پاتے ہیں۔ سب کچھ دوسروں کے آسرے پر چلتا ہے۔ پہلے تو ہر کسی کی سو سال تک زندگی نہیں ہوتی ویسے سو سال یا اس سے زیادہ کی عمر بھی کچھ خاص بڑی نہیں ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ اس عرصے کو مفید کاموں میں صرف کریں۔

بچوں کے اس رویے کی ایک اہم وجہ ہمارے نصاب میں پائی جانے والی منافقت اور تضاد بھی ہے۔ بچے کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ سچ بولو لیکن وہ اپنے اردگرد بڑوں کو جھوٹ بولتے دیکھتے ہیں۔ وہ پڑھتے ہیں کہ ناپ تول لین دین میں بے ایمانی نہ کرو لیکن وہ اپنے بڑوں کو یہی کچھ کرتا دیکھتے ہیں۔ بچوں کو پڑھایا جاتا ہے کہ غریبوں کی مدد کرو لیکن وہ روزمرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ ان کے والدین عید، شادی، سالگرہ وغیرہ کی تقریبات میں امیروں کو مدعو کرتے اور غریبوں کو دھتکارتے ہیں، چنانچہ اگر آپ بچوں کو ذہنی و جسمانی بیماریوں سے بچانا چاہتے ہیں تو خود کو بھی بدلیں۔ ہر ایک کو حقیقت پسند ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments