بت پرستوں کی نئی نسلیں (9)


نوٹ : بت پرستی ان کا مذہب نہیں تھا۔ یہ تو ان کے اذہان کے جنگلوں میں ہزاروں سالوں سے پھیلا ہوا، وہ سم ہلاہل تھا، جو ان کی نسلوں کی شریانوں میں لہو کی طرح سرایت کر چکا تھا۔ وہ کسی رنگ، بے رنگ، وجودی یا غیر وجودی بت کو تراش کر اس کی پراسرار انداز میں پوجا شروع کر دیتے۔ کچھ دیر بعد انہیں احساس ہوتا کہ یہ تو خود ان کے ہاتھوں سے تراشا ہوا ہے، تو اسے پاش پاش کر دیتے۔ مگر پرانے بت کے ٹکڑوں کو پاؤں تلے روندنے اور نیا بت تراشنے کے درمیان بس ایک مختصر سا وقفہ ہوتا تھا۔

—————————————————-
نواں باب : نور بانو کے بیٹے کی بغاوت

اس سے چند سال قبل راشد عمیر جو میٹرک سے لے کر مسلسل وظیفے حاصل کرتا آیا تھا، ڈبل ایم اے کرنے کے بعد ایک اچھی سرکاری نوکری پر فائز اور اسلام آباد میں رہائش پذیر تھا۔ وہ تین چار اور کبھی کبھی پانچ چھ مہینوں کے بعد ماں سے ملنے ملک پور آیا کرتا تھا۔ ورنہ دونوں کا رابطہ صرف ٹیلی فون پر ہی ہوتا۔ ماں کے علاوہ ملک پور کے کسی اور فرد میں اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اور نہ ہی اس نے اجازت دی تھی کہ نور بانو سمیت کوئی بھی اسے ملنے کے لیے اسلام آباد کا رخ کرے۔ حالانکہ وہاں اس کے پاس سرکار کی طرف سے ملا ہوا اچھا خاصا گھر تھا۔ نوکر چاکر تھے اور گاڑی بمع ڈرائیور ہر وقت اس کے اختیار میں ہوتی تھی۔

محمد دین کی بیٹی مہرالنساء جسے نور بانو اس کے بچپن سے ہی اپنی بہو کے روپ میں دیکھتی چل آئی تھی، اب بی اے بی ٹی پاس کر کے ملک پور سکول میں ہی استانی لگی ہوئی تھی۔ اس سکول کو بھی اب ہائی سکول کا درجہ حاصل تھا۔ مہرالنساء سے چھوٹے محمد دین کے دو بیٹے بھی تھے جو کہ اب شادیوں کے لائق ہو چکے تھے، مگر وہ چاہتا تھا کہ پہلے بیٹی کی شادی کر دے اور پھر بہوئیں لائے۔ راشد عمیر پہلے تو بہت دیر تک ٹال مٹول سے کام لیتا رہا

”ابھی مجھے شادی نہیں کرنی ہے۔ ابھی میں اپنی نوکری میں ترقی کرنا چاہتا ہوں“ جیسی باتیں کرتا رہا، لیکن آخر مجبور ہو کر اس نے نور بانو کو بتا دیا کہ وہ اسلام آباد میں ہی رہنے والی ایک لڑکی کو پسند کرتا ہے اور وہ لڑکی بھی اسے چاہتی ہے۔ پھر یہ بھی کہ وہ لڑکی، محکمہ میں اس کے بڑے افسر کی بیٹی ہے۔ اب اگر اس نے انکار کیا تو اس کی ترقی کو تو خطرہ ہو گا ہی، اس کی نوکری بھی جا سکتی ہے۔ وہ ہمیشہ کی طرح اب بھی ماں سے بہت پیار کرتا ہے مگر یہ نوکری چھوڑنے کے لئے وہ کسی طور بھی تیار نہیں ہے۔

نور بانو کے لیے یہ خبر کسی قیامت سے کم نہیں تھی۔ وہ دوڑی دوڑی اپنے باپ کے پاس پہنچی۔ منشی چراغ دین بے شک عمر کے لحاظ سے اب کافی بوڑھا ہو چکا تھا مگر اس کی صحت ابھی بھی کافی اچھی تھی۔ دوسرا کوئی کام کاج تو اب نہ ہونے کے برابر ہی تھا، اس لیے اس کا زیادہ وقت اب کتابیں پڑھنے میں گزرتا تھا۔ بھاگ بھری تو تین سال پہلے ہی تھوڑا سا بیمار رہنے کے بعد فوت ہو چکی تھی۔ باپ بیٹی پہلے بھی پرانے وقتوں کو یاد کرنے کے لیے اکثر مل بیٹھا کرتے تھے مگر آج کی ملاقات بالکل علیحدہ تھی۔

گو منشی چراغ دین نے نور بانو کے آنے پر ہی سمجھ لیا تھا کہ معاملہ کافی سیریس ہے لیکن پھر بھی اس نے خود سے کوئی سوال نہ کیا۔ نور بانو بھی کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اصل مسئلے پر آ گئی۔ اس نے مختصر تمہید کے بعد پوچھا

”ایسا کیوں ہوتا ہے ابا؟ میں نے اس کے باپ کی وفات سے لے کر آج تک، اس سے بڑھ کر کسی کو اہمیت نہیں دی اور وہ ایک افسر کی بیٹی کے لیے میرے خوابوں کو ملیامیٹ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ میں کیا کروں ابا؟“ ۔

منشی چراغ دین کچھ لمحے خاموش رہا۔ پھر یوں گویا ہوا

”ہر انسان ترقی کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت راشد عمیر کو نظر آ رہا ہے کہ اگر وہ اپنے بڑے افسر کی بیٹی سے شادی کرے گا، ان کے خاندان کا فرد بن جائے گا تو اس کی ترقی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ بیوروکریسی میں اس طرز کے تعلقات بڑا مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔ اور وہ لوگ بھی جانتے ہیں کہ راشد آگے چل کر بہت ترقی کرنے والا ہے۔ تو وہ اسے کیوں جانے دیں؟ اس لیے تم اس کو نہیں روک سکو گی بیٹی، کیونکہ کوئی انسان بھی اسے حاصل ہو جانے والی آسائشوں اور مرتبے کو آسانی سے چھوڑنا نہیں چاہتا۔ دنیا میں بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو محبت، ماں باپ کے پیار یا کسی اور اعلیٰ مقصد کے لیے اپنے عیش و آرام کو ٹھوکر مار سکتے ہیں“ ۔

وہ چند لمحے خاموش رہا اور پھر کچھ سوچتے ہوئے بولا

”عیش و آرام دراصل وہ جال ہے جو انسان خود اپنے گرد بنتا ہے اور پھر اس کا اسیر ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ آزادی سے سوچ بھی نہیں سکتا۔ انسان کسی طرح کی بھی اور جتنی بھی طاقت حاصل کر لیتا ہے، اتنی ہی مزید طاقت کے لئے اس کی خواہش بڑھ جاتی ہے“ ۔

نور بانو : اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ انسان بچوں کو تعلیم ہی نہ دلوائے۔ نہ وہ طاقتور ہوں اور نہ ہی مزید طاقت کے لالچ میں ایسی حرکتیں کریں۔

منشی : بچوں کو تعلیم دلوانا، ان کو طاقت حاصل کرنے کے لائق بنانا تو ہر ماں باپ کا فرض ہے بیٹی۔ اور پھر سب بچے تھوڑا ہی راشد عمیر کی طرح سوچتے ہیں!

نور بانو : تو پھر اس نے کیوں ایسا سوچا ہے ابا؟

منشی : فطرت، بیٹی، فطرت۔ ہر انسان پیدائش کے ساتھ ہی اپنی ایک انفرادی فطرت لے کر اس دنیا میں آتا ہے۔ او ریہ فطرت ساری زندگی اس کے ساتھ رہتی ہے۔ انسان کی تعلیم اور پرورش کا ماحول ایک بڑا کردار ضرور ادا کرتے ہیں لیکن اس کی بنیادی انفرادی فطرت کبھی نہیں بدلتی۔ یہاں تک کہ اگر کسی ایسے آدمی کو خیرات بانٹنے کا کام دے دیا جائے جو فطری طور پر ظالم ہو تو وہ خیرات بانٹتے وقت بھی کوئی ایسی حرکت

ضرور کرے گا جس سے اس کی ظالمانہ فطرت کو تسکین ملے۔ چاہے وہ خیرات لینے والے کی تضحیک کا کوئی جملہ ہی کیوں نہ ہو؟ دوسری طرف ایک انسان جس کی فطرت میں نرم خوئی اور رحمدلی ہے، اس کو اگر جلاد بھی لگا دیا جائے تو اس کی کوشش ہو گی کہ پھانسی دیے جانے والے فرد کو مرتے ہوئے کم سے کم تکلیف پہنچے۔

نور بانو : مگر راشد میں یہ ظالمانہ فطرت آئی کہاں سے؟

منشی : اس کا تعین تو قدرت کرتی ہے۔ یہ انسان خود نہیں کرتا۔ نہ اس کا اس کے ماں باپ یا دادا پردادا سے کوئی واسطہ ہوتا ہے۔ اور جہاں تک راشد کا تعلق ہے، اس نے جب سے ہوش سنبھالا، خود کو غیرمحفوظ محسوس کیا ہے۔ ایسے لوگ زیادہ تر بزدل بن جاتے ہیں۔ اور بزدل آدمی عام طور سے موقع ملنے پر بڑا ظالم ثابت ہوتا ہے۔ جبکہ بہادر آدمی فطرتاً رحمدل ہوتا ہے۔

نور بانو : مگر وہ یہ ظلم ہم پر ہی کیوں کرنا چاہتا ہے؟

منشی : خواہشات! اس کی خواہشات ہماری حیثیت سے بہت بڑی ہیں بیٹی۔ اس لیے اچھا ہے اسے اس شادی کی خوشی خوشی اجازت دے دو۔ تاکہ اس کے اور ہمارے درمیان کچھ نہ کچھ بچا رہ جائے۔ ورنہ وہ یہ شادی تو کرے گا ہی، الٹا ہم سے ملنا جلنا بھی بند کر دے گا۔ اور آخر میں خود وہاں بہت اکیلا رہ جائے گا۔

نور بانو : ایسے تو میری زندگی ہی ختم ہو جائے گی ابا!

منشی :زندگی ایسے ختم نہیں ہوتی بیٹی۔ زندگی اپنے زندہ رہنے کے لیے اور بہانے ڈھونڈ لیتی ہے۔ اور پھر یہ تو دو نسلوں کے درمیان کا مسئلہ ہے، یہ ہمیشہ ایسے ہی رہتا ہے۔ ہر نئی نسل، پچھلی نسل سے زیادہ تیزرفتار ہوتی ہے۔ اس لیے گزرتی ہوئی نسل کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ اس کی تہذیب، اس کا تمدن، اس کی روایات، اس کے دیکھتے ہی دیکھتے کہاں غائب ہو گئیں؟ تم اب خود کو کبیر اور صغیر کے ساتھ جوڑو، ان کی شادیاں کرو اور پھر ان کے بچوں کی دادی اور دوست بن جاؤ۔ زیادہ اچھا ہے کہ اب تم محمد بشیر کی طرف بھی لوٹ آؤ۔ وہ بہت بھلا مانس ہے۔ اور آنے والے وقت میں تم دونوں کو ہی ایک دوسرے کے ساتھ رہنا ہو گا۔

نور بانو باپ سے گفتگو کے بعد گھر واپس آئی تو اس نے راشد عمیر سے کہا ”میں نے ابا سے بھی بات کر لی ہے۔ ہمیں تمہاری پسند کے ضمن میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اب تم بتاؤ کہ ہمیں تمہاری اس شادی میں کیا کردار ادا کرنا ہو گا؟“ ۔

راشد عمیر کے لیے یہ انتہائی خوشی کی بات تھی، کیونکہ اس کے ہونے والے سسرالی بھی چاہتے تھے کہ شادی میں وہ سب لوگ ضرور شریک ہوں۔ بعد میں چاہے ملنا جلنا کیسا بھی رہے۔ وہ بولا ”آپ سب نے بس وقت پر پہنچ جانا ہے۔ باقی سب انتظامات میں خود کر لوں گا۔ اور ہاں! ۔

شادی کے موقع پر پہننے کے لیے آپ کو کپڑے سلوانا پڑیں گے۔ اگر پیسوں کی ضرورت ہو تو مجھے بتائیے گا ”۔

نور بانو : نہیں، اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ پیسے ہمارے پاس ہیں۔ البتہ وہاں جو بھی لباس پہننا ہے وہ ہم اپنی مرضی کا بنوائیں گے۔

راشد عمیر : بالکل! بالکل! کیوں نہیں؟
(حالانکہ وہ یہ سب بھی اپنی مرضی کا چاہتا تھا)
نور بانو : تو بس طے ہو گیا۔ اب جب تم کہو گے ہم پہنچ جائیں گے۔
(اس کے لہجے میں ایک تحکمانہ غرور بھی تھا)

(راشد عمیر نے گلے سے لگا کر ماں کا شکریہ ادا کیا۔ وہ کچھ اور بھی وضاحت کرنا چاہتا تھا مگر نور بانو نے اسے منع کر دیا)

وقت آنے پر سب لوگ وہاں گئے، شادی میں شریک ہوئے اور تیسرے دن لوٹ آئے۔ اس کے بعد جب کبھی بھی راشد عمیر ماں کو اسلام آباد آنے کے لیے کہتا تو وہ ہمیشہ یہی جواب دیتی ”جب میری بہو بلائے گی تو آ جاؤں گی“ ۔

وہ اپنی بیوی سے فون کروا دیتا تو جا کر دو چار دن وہاں رہتی اور پھر کبیر صغیر کے ٹیلی فون آنے شروع ہو جاتے اور وہ ملک پور لوٹ آتی۔

آہستہ آہستہ اسلام آباد سے بلاوے آنے بند ہو گئے۔

نور بانو نے کبیر اور صغیر کی شادیاں کر دیں، اور جیسا کہ پہلے سے ہی خیال کیا جا رہا تھا، راشد عمیر ان میں شرکت نہ کر سکا۔ چھٹی نہ مل سکنے کا بہانہ، نور بانو کا دل قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔

کبیر اور صغیر کی شادیوں کے بعد نور بانو نے وکیل کے ذریعے اپنی وصیت لکھوائی اور زمین کبیر اور صغیر میں برابر تقسیم کر دی۔ دونوں بھائی ہائی سکول پاس کرنے سے لے کر اب تک باپ کے ساتھ مل کر سبزیاں کاشت کرتے چلے آ رہے تھے۔ ان کی آمدنی بھی معقول تھی۔ انہوں نے اپنے ماموں محمد دین سے بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔ وہ اعلیٰ سے اعلیٰ بیج حاصل کرتے اور کاشت کے سائنسی طریقے استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ فصل حاصل کر لیتے تھے۔ پھر انہیں غیر موسمی سبزیاں اگانے میں بھی مہارت حاصل ہو چکی تھی۔ ان کی زندگیاں آرام سے گزر رہی تھیں۔

نور بانو فرصت کے اوقات میں باپ کے پاس چلی جاتی اور پرانی یادوں کو دہرایا جاتا۔ اپنی وصیت بھی اس نے باپ کے پاس ہی رکھوائی ہوئی تھی اور کسی فریق کو بھی اس کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی۔

محمد بشیر بھی کافی خوش تھا۔ بیٹے بہوئیں سب اس کا احترام کرتے۔ اس کی خوراک اور آرام کا پورا پورا خیال رکھتے۔ نور بانو بھی جب تک گھر میں ہوتی محمد بشیر کے قریب رہنے کی کوشش کرتی اور یوں خود کو زیادہ پرسکون محسوس کرتی۔

ادھر وقت آنے پر عطا محمد کو بھی شادی کے پیغام آنے لگے۔ اور کیسے نہ آتے، اب اس کی عمر بھی ہو چکی تھی، جاب بھی بہت اہمیت والا تھا اور روپیہ پیسہ بھی ضرورت سے کچھ زیادہ ہی تھا۔ مگر تھوڑا وقت لگا، کیونکہ اس نے پہلے ہی سے واضح کر دیا تھا کہ شادی کے بعد بھی اس کے ماں باپ اس کے ساتھ ہی رہیں گے۔ اور ہونے والی گھر کی مالکہ کو گھر کے مالک کے علاوہ اس کے ماں باپ کا بھی خیال رکھنا ہو گا۔ آخر شہر کی ایک پڑھی لکھی لڑکی ان سخت شرائط کے باوجود عطا محمد کی بیوی بن کر آ گئی اور اب وہ سب بھی خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔

خوشی کی اگر کہیں کوئی کمی تھی تو وہ ملک فضل داد کی طرف تھی۔

وہ دو بار صوبائی اسمبلی کا اور تین بار قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہو چکا تھا۔ عمر بھی ستاون سال ہو چکی تھی۔ دونوں بیٹیوں، رخشندہ اور تابندہ نے ماں کی طرح پہلے ایم اے کیے، پھر شادیاں کیں۔ پھر سول سروس کے امتحان پاس کیے اور اب اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز تھیں۔ خود عروسہ فضل کے پاس بھی وزیر کے برابر عہدہ تھا۔ اس کا نام ایک تجربہ کار اور باوقار بیوروکریٹ کے طور پر لیا جاتا تھا۔

دادی گوہر جان ستتر سال کی ہو چکی تھی اور دو سال سے مسلسل بیمار چلی آ رہی تھی۔ اسے جسمانی بیماریوں کے علاوہ ایک اور دکھ بھی تھا۔ اس نے پانچ سال سے اپنے پوتے روشن داد کو نہیں دیکھا تھا۔ کیونکہ پچھلے پانچ سال سے وہ برطانیہ میں تھا۔ اگر گوہر جان تندرست ہوتی یا کم از کم چل پھر سکتی تو وہ خود پوتے کے پاس پہنچ جاتی۔ مگر بیماری کی اس حالت میں وہ بھی ممکن نہیں تھا۔

روشن داد، دو بہنوں سے چھوٹا بھی تھا اور لاڈلا بھی۔ اس کی پرورش بڑے ناز و نعم میں ہوئی تھی۔ ملک میں بھی اچھے اور مہنگے تعلیمی اداروں میں تعلیم پائی اور پھر گریجویشن کرنے کے بعد برطانیہ چلا گیا۔ لندن سے دوبارہ بی اے کیا تو اسے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ جہاں سے اس نے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ مگر اب دو سال سے پھر لندن میں مقیم تھا۔ ماں اور دونوں بہنیں بھی چاہتی تھیں کہ اب وہ واپس آ جائے اور فضل داد کی بھی خواہش تھی کہ آئندہ الیکشن (جو کہ نزدیک ہی تھے ) سے پہلے آ کر وہ باپ کے ساتھ ہر جگہ جائے، تاکہ اس سے اگلا الیکشن وہ باپ کی سیٹ سے لڑ سکے۔

دادی الگ اس کی جدائی میں تڑپتی اور دن رات اسے یاد کرتی رہتی تھی۔ وہ دس بار کال کرتی تو کہیں ایک بار اٹینڈ کرتا۔ دادی سے بہت سی محبت جتاتا اور مصروفیت کا بہانہ کر کے فون بند کر دیتا۔ دادی جب کئی ای میلز لکھوا چکتی تو جلد آنے کا وعدہ کر لیتا۔ مگر روشن داد تو ابھی واپس نہیں آ سکتا تھا۔ لیکن کیوں؟ جواب آئندہ باب میں ملے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments