آئین کا قیمہ اور چِلی ساس


ساس کو فارسی میں خوش دامن، عربی میں نسیبہ، اور انگریزی میں مدر اِن لا کہا جاتا ہے۔ شیکسپیئر نے کہا تھاگلاب کے پھول کو کسی بھی نام سے پکاریں ، وہ گلاب ہی رہتا ہے، خوش رنگ اور معطر۔ساس کے رشتے کا بھی یہی معاملہ ہے، ہر تہذیب اور زبان میں سینکڑوں لطائف مدر اِن لا سے منسوب ہیں۔ مغرب میں ایک فقرہ اس نسبت سے بہت مقبول ہے کہ ”آدم اور حوا دنیا کا وہ خوش قسمت ترین جوڑا تھا جن کی کوئی ساس نہیں تھی۔“ اورکل ایک عید ملن پر ایک دوست فرما رہے تھے کہ سِویاں اور ساس سال میں ایک دفعہ ہی اچھے لگتے ہیں۔عید پر اکثر خبروں کا کال پڑ جاتا ہے جس سے اس نشے کے عادی افراد کو ’ود ڈرال سمٹم‘ کی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے، مگر اس عید پر گرمی بازار کچھ سوا ہو گئی۔ ہوا کچھ یوں کہ ہیکرز نے قوم کو ایک چٹ پٹی آڈیو کی عیدی ’عطا‘ کی، جس سے عید کی رونق دوبالا ہو گئی۔ آڈیو کے مرکزی کردار دو معزز گھریلو خواتین ہیں، مبینہ طور پر ایک چیف جسٹس صاحب کی نسیبہ ہیں، اور دوسری سابق گورنر پنجاب خواجہ طارق رحیم کی زوجہ محترمہ۔ معزز جج کی معزز تر مدر اِن لا کی نجی گفتگو کی آڈیو لیک کی رسمی مذمت کے بعد عرض یہ ہے کہ کوئی بھی شخص اگر ملک میں جاری چیف جسٹس اور پارلے مان کے قضیے کو اچھی طرح سمجھنا چاہتا ہے تو اس آڈیو کو غور سے سنے، اگر کوئی جاننا چاہتا ہے کہ یہ گلشن کیوں کر اجڑا تو ایک منٹ کی یہ آڈیو سنے۔ آپ کو یقین آ جائے گا کہ آج تک آپ نے چِلی ساس کے نام پر جو کچھ چکھا ہے وہ تو کچھ بھی نہیں۔پورا پورا خاندان چیف جسٹس لگا ہوا ہے، پورا پورا خاندان فوری الیکشن کی خواہش میں گھلا جا رہا ہے، پورا پورا خاندان موجودہ حکومت کو ’ابھی‘ گھر بھیجنے کے لئے تڑپ رہا ہے، چاہے مارشل لا آ جائے۔اعتدال سے دور، اندھی محبت اور اندھی نفرت میں ڈوبا ہوا پورے کا پورا خاندان، ہمیں بہت سے عدالتی فیصلوں کی منطق سمجھا رہا ہے، افتخار عارف سے معذرت کے ساتھ

’ساسوں‘ کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

اس عید پر ایک ذاتی تجربہ یہ بھی ہوا کہ ہر بچہ عیدی کے ریٹ میں اضافے کا طلب گار نظر آیا۔ غالباً اسی ٹرینڈ کو دیکھتے ہوئے ہیکر صاحب نے دوسری آڈیو عیدی بھی ریلیز کر دی جس میں ثاقب نثار اور خواجہ طارق رحیم ہم کلام ہیں، قانونی امور پر ثاقب نثار کچھ زریں مشورے پیش کر رہے ہیں، یوسف رضا گیلانی کو جیسے توہین عدالت میں نکالا گیا تھا اس فیصلے کو پڑھنے کا مشورہ دے رہے ہیں، اور آزاد کشمیر کے وزیراعظم کو نکالنے والے فیصلے سے راہ نمائی لینے کی بھی ترغیب دے رہے ہیں۔ سادہ لفظوں میں وزیر اعظم شہباز شریف کو نا اہل کرنے کا نسخہ ’ متعلقہ‘ ججوں تک پہنچا رہے ہیں۔ مذکورہ دونوں آڈیوز سے ایک ہی بات سامنے آتی ہے، وہ ٹولہ جس نے ملک میں آئین سے بالا بالا ایک ہائی برڈ نظام کھڑا کیا تھا وہ اب تک پوری طرح متحرک ہے، عساکر تو پیچھے ہٹ گئے مگر ثاقب نثار اور ان کے مغبچوں سے لے کر بیگمات کے ’کرش‘ تک، سب اپنی جگہ ڈٹے ہوئے ہیں۔بات یہ ہے کہ جن اصحاب نے برہنہ آئین شکنی کی تھی وہ سزا سے بچنے کے لئے ’ساسانی‘ سلطنت کا احیا چاہتے ہیں، اور وہ بھی ستمبر میں ہونے والی ریٹائرمنٹس سے پہلے پہلے۔ وقت کم ہے اس لئے مسلسل ہیجان پیدا کیا جا رہا ہے، یہ بات قابلِ فہم ہے کہ ملک میں افراتفری کس ٹولے کو راس ہے۔ مارشل لا کی خواہش بس یونہی بیگمات کے دل میں کروٹیں نہیں لے رہی، یہ ا±ن کے گھر کے ماحول کا فیضان نظر آتا ہے۔ اب بیگمات کی آڈیو کا ایک تاریخی جملہ بھی سن لیجئے، ساس صاحبہ فرماتی ہیں ’مارشل لا بھی وہ کم بخت نہیں لگانے کو تیار ناں ‘۔ اس مکتب فکر کو داد تو دیجئے۔ مارشل لا نہ لگانے والے کی بدبختی کا نوحہ پڑھا جا رہا ہے، آئین کا نصیبہ دیکھئے کہ نسیبہ صاحبہ آئین شکنی کی لذت حاصل کرنے کے لئے کس قدر بے تاب ہیں۔یہ ہیں آئین کے محافظ اور ان کے خاندان، یہ ہیں نوے دن والی شق کی الفت میں گھلنے والوں کے اصلی چہرے۔

افسوس کہ سارا کالم تو ساس کھا گئی۔ ارادہ یہ تھا کہ اس’ عیدی‘ پر بات کی جائے گی جو محمد بن سلمان نے نواز شریف کو دی ہے۔ یہ تو قربِ قیامت کے آثار ہیں کہ ’مجرم اور بھگوڑے‘ نواز شریف کو شاہی پروٹوکول دیا جا رہا ہے اور پھر ایم بی ایس اس سے ملاقات بھی کر رہے ہیں۔ سعودی عرب کیا پیغام دینا چاہ رہا ہے؟ وہ پاکستان کا مستقبل کیا دیکھ رہا ہے اور آرمی چیف کے حالیہ دورہِ چین کے بنیادی اہداف کیا ہیں؟ ایک بات تو واضح ہے کہ دنیا میں اس وقت امریکہ اور ڈالر کی بالا دستی کے خلاف ایک واضح محاذ بن رہا ہے۔پاکستان کے موجودہ فیصلہ سازوں کا جھکاﺅ اب ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ بلا شبہ، پاکستان کی سیاست میں امریکہ اور نئے بلاک سے ہم دردی رکھنے والے موجود ہیں، یعنی سی پیک شروع کرنے والے بھی اور سی پیک بند کرنے والے بھی۔’مصائب اور تھے پر جی کا جانا…عجب ایک سانحہ سا ہو گیا ہے‘۔پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے، مسائل گمبھیر ہیں، ایک عالمی نظام لڑکھڑا رہا ہے، طاقت کا ایک نیا توازن ابھر رہا ہے۔ لیکن ہمارے اہلِ جبہ و دستار کے پاس ان ’خرافات‘ پر غور کرنے کا وقت نہیں ہے، یعنی ”اک ذرا سا غمِ دوراں کا بھی حق ہے جس پر….میں نے وہ ’ساس‘ بھی تیرے لئے رکھ چھوڑی ہے۔“

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments