دکھیارے


اس ناول میں آپ بیتی کا عنصر موجود ہے۔ راوی کے بیانیے میں دو چیزیں قاری کو جا بجا نظر آتی ہیں۔ ایک تو راوی کی ہر تحریر میں ان کی آپ بیتی موجود ہوتی ہے، دوسری چیز لکھنوی تہذیب و معاشرت کی عکاسی ہے۔ اس کہانی کا آغاز ہی راوی نے ماں اور بڑے بھیا کی موت سے کیا ہے۔ راوی یہاں پر اپنے حالات زندگی قاری کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ وہ اس قدر اکیلے ہو چکے ہیں کہ اپنا دکھ درد قاری کے ساتھ بانٹنا چاہتے ہیں۔ وہ ابھی بہت چھوٹے تھے جب ان کی ماں اس دنیا کو چھوڑ گئیں۔

بڑے بھیا ذہنی خلل میں مبتلا تھے، وہ ساری زندگی اپنے ٹھکانے بدلتے رہے۔ اسی دوران وہ گردوں کی بیماری میں مبتلا ہو گئے۔ انہوں نے ٹک کر اپنا علاج بھی نہیں کروایا، بالآخر وہ بھی خالق حقیقی سے جا ملے۔ منجھلے بھیا سے سب کو شکایت رہتی ہے، کیوں کہ اس نے کبھی بھی چھوٹے اور ماں کا ساتھ نہیں دیا۔ ماں اور بڑے بھیا کے مر جانے کے بعد راوی بالکل اکیلا رہ گیا ہے۔ وہ اپنے حزن و ملال میں قاری کو شامل کرنا چاہتا ہے۔ دکھیارے حزن و ملال سے بھرپور کہانی ہے۔

راوی کے والد ان کی ماں کو چھوڑ کر چلے گئے۔ ماں کے لیے تین بچوں کی پرورش اور ان کی تعلیم و تربیت ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ ماں نے اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے سکول میں بچوں کو پڑھایا، ہر طرح کی محنت، مشقت کی۔ اپنا گھر ایک مہاجن کے ہاں رہن رکھ دیا، جسے کبھی نہ چھڑوایا جا سکا اور ایک خاندان اپنے گھر سے محروم ہو گیا۔ یہی وہ المیہ ہے جو کہانی کے بیان کنندہ (راوی) کے ذہن پر سوار ہے۔ ایسی صورت حال میں اکثر مرد کو ایک عورت ہی پناہ دیتی ہے۔

ایک عورت ہی مرد کے دکھ درد سمیٹتی اور بانٹتی ہے۔ راوی کو شمامہ کی پرکشش نسوانیت اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ شمامہ راوی کے پڑوس میں رہتی ہے۔ یہ وہی کردار ہے کہ جس کے گھر میں راوی کے بڑے بھیا اکثر پناہ لیتے تھے۔ ایک دن راوی بڑے بھیا سے ملنے شمامہ کے گھر جاتے ہیں۔ اسی دوران شمامہ کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ شمامہ خوبصورت جسم اور لب و لہجے کی مالک ہے۔ راوی اس کی اداؤں، ناز نخروں اور حسن سے متاثر ہوتے ہیں لیکن بہکتے نہیں۔

جدید اور معاصر ناول نگاروں نے اپنی تحریروں میں فحاشی اور عریانی کو جگہ دی ہے۔ دکھیارے ایسی فحاشی اور عریانی سے کوسوں دور ہے۔ اس میں جو محبت دکھائی گئی ہے وہ سراسر مشرقی ہے۔ مشرقی محبت کی خوبصورتی یہی ہوتی ہے کہ اس میں نہ تو محبوب بازاری ہوتے ہیں اور نہ ہی عاشق رذیل اور کمینے۔ مشرقی محبت میں محبوبہ ایک باپردہ کردار کے طور پر سامنے آتی ہے۔ راوی شمامہ کے گھر جاتے ہیں، اس سے محبت کرتے ہیں، اس کی خوبصورتی سے بھی متاثر ہوتے ہیں لیکن شرم و حیا کی چار دیواری سے باہر قدم نہیں رکھتے۔

کردار نگاری کے حوالے سے اگر بات کی جائے، تو ناول کے چار مرکزی کرداروں کے علاوہ شمامہ، سائرہ، قیصر خالہ، میاں الماس اور حکیم صاحب ذیلی یا ثانوی کرداروں کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ انیس اشفاق نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ وہ کرداروں کی ذہنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق ان کے منہ سے جملوں کی ادائیگی کرواتے ہیں۔ حکیم صاحب حکمت کے دائرے میں رہ کر بات کرتے ہیں۔ منجھلے بھیا جو کچھ ہی دیر کے لیے کہانی میں سامنے آتے ہیں، وہ بھی اپنے کردار کے مقصد پر پورا اترتے ہیں۔

مرکزی اور ثانوی کرداروں میں ایک موزوں تال میل ہے۔ ثانوی کردار مرکزی کرداروں کی مکمل مدد اور حمایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سب سے اہم کردار بڑے بھیا کا ہے۔ بڑے بھیا کا کردار بلاشبہ ایک نہ بھولنے والا کردار ہے۔ اسے ہلکا سا ذہنی خلل ضرور ہے لیکن وہ پاگل نہیں۔ وہ کسی کو نقصان بھی نہیں پہنچاتا۔ ماں کے مرنے کے بعد وہ گھر چھوڑ جاتا ہے۔ اس کے بعد سے اس کا کوئی ایک مستقل ٹھکانہ نہیں ہے، وہ مسلسل ٹھکانے بدلتا رہتا ہے۔

کبھی مسجد میں رہنا شروع کر دیتا ہے تو کبھی مندر میں۔ کبھی چرچ میں چلا جاتا ہے تو کبھی کسی درگاہ پر ۔ چھوٹے کی بہت زیادہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ بڑے بھیا کو اپنے ساتھ رکھے، لیکن بڑے بھیا زیادہ سے زیادہ ایک دو بار ہی چھوٹے کے گھر میں رہنے آتے ہیں۔ صبح اچانک اٹھ کر غائب ہو جاتے ہیں۔ چھوٹے اور بڑے بھیا دونوں کو ماں کے مرنے کا غم ہے۔ چھوٹے مری ہوئی ماں کو یاد کرتے ہیں، جبکہ بڑے بھیا نے ابھی تک ماں کے مرنے کو تسلیم ہی نہیں کیا۔

وہ ماں کو زندہ ہی تصور کرتے ہیں اور اکثر ماں سے ملاقات کی خبر بھی سناتے ہیں۔ راوی نے بہت عمدہ انداز میں بڑے بھیا کا نفسیاتی جائزہ پیش کیا ہے۔ راوی نے بڑے بھیا کی جذباتی کیفیت اور اس کی نفسیات کو کلی طور پر قاری کے سامنے بیان کیا ہے۔ وہ ذہنی طور پر ماں کے مر جانے کو تسلیم کرنے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہیں۔ وہ ہر وقت ماں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ جب کسی سے اس قدر شدید نفسیاتی لگاؤ ہو جائے، تو اس سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے اور باتیں بھی کی جا سکتی ہیں۔

بڑے بھیا اکثر چھوٹے کو بتاتے کہ میری آج ماں سے ملاقات ہوئی تھی۔ آج میرے اور ماں کے درمیان فلاں فلاں باتیں ہوئیں۔ منظر نگاری کسی بھی ناول کی جان ہوتی ہے۔ ایک اچھا منظر نگار کسی مردہ چیز کی منظر نگاری بھی اس انداز میں کرتا ہے، کہ وہ چیز قاری کے سامنے ایک جیتا جاگتا وجود لے کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ مذکورہ ناول میں منظر نگاری کی طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ البتہ راوی کہیں کہیں منظر نگاری کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

ان کے بیانیے میں آپ بیتی اور لکھنوی تہذیب و معاشرت کی عکاسی شامل تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے قاری کو اس المیے سے متعارف کروایا ہے، جو المیہ موجودہ دور میں ہر گھر کا المیہ ہے۔ کہانی پڑھنے کے بعد ہر قاری کو یہ محسوس ہو گا کہ یہ اس کی اپنی کہانی ہے۔ راوی اپنے بیانیے کے ساتھ اس قدر سنجیدہ تھے، کہ وہ ایک عمدہ منظر نگاری کرتے ہوئے نظر نہیں آئے۔ انہوں نے اپنی ساری طاقت کہانی سنانے پر مرکوز کیے رکھی۔ اچھے مکالمات اچھے کرداروں کی پہچان ہوتے ہیں۔

مکالمہ نگاری بھی ایک مشکل فن ہے۔ منہ سے نکلنے والے الفاظ آپ کی شخصیت کو کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ دکھیارے کے کرداروں کی طرح اس کے مکالمات بھی مناسب دکھائی دیتے ہیں۔ لہجہ ہمیشہ زبر دست رہا ہے۔ راوی ہر کردار کی حیثیت کے مطابق اس کے منہ سے الفاظ کی ادائیگی کرواتے ہیں۔ جادوئی حقیقت نگاری ایک بہت بڑا فن ہے۔ راوی نے قاری کو حیران کن طور پر جادوئی حقیقت نگاری سے واقف کروایا ہے۔ یہاں پر ایک ایسا المیہ سامنے آتا ہے جو قاری کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔

ماں مر گئی اور اپنی یادیں چھوڑ گئی۔ چھوٹے اور بڑے بھیا ماں کی انہی یادوں میں گم رہتے۔ دکھیارے میں افسانوی عناصر کی بجائے حقیقت نگاری نظر آتی ہے۔ قدوائی کے مطابق راوی کے بیانیے میں نہ تو افسانوی سوانح ہے اور نہ ہی تاریخی افسانہ۔ بلکہ ایک ایسی گہری اور پر سکون کہانی ہے کہ جس میں حالات و واقعات بڑی آہستگی سے رونما ہوتے ہیں، جو ہماری غیر واضح اور دھندلی زندگیوں کی بڑی دلفریب تصویر دکھاتے ہیں۔ بالکل راوی یہاں پر کوئی داستان سنانے نہیں اترے ہیں۔

وہ تو بڑی دھیمی رفتار کے ساتھ اپنی کہانی بیان کرتے جا رہے ہیں۔ اس کہانی میں قاری خود کو کہیں نہ کہیں موجود پاتا ہے، کیوں کہ یہ ایک عام کہانی ہے اور عام کہانیاں ہر گھر میں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ راوی بڑی آہستگی کے ساتھ صاف اور سادہ انداز میں کہانی بیان کر رہا ہے۔ کہیں کوئی ابہام یا ”قول محال“ موجود نہیں ہے۔ فلیش بیک کی تکنیک انگریزی ادب سے اردو ادب میں آئی، بلکہ پورا ناول ہی انگریزی ادب سے درآمد کیا گیا ہے۔

راوی کے اسلوب میں یہ تکنیک موجود ہے۔ فیلش بیک کا مطلب ہوتا ہے ماضی کی یادوں میں رہنا۔ ماضی کی یادیں خوفناک بھی ہو سکتی ہیں اور روح افزا بھی۔ دکھیارے ناول میں راوی کی یادیں غمگین ہیں۔ والد نے ساتھ چھوڑ دیا، ماں مر گئی، بڑے بھیا بھی مر گئے۔ منجھلے بھیا کی یادیں بھی خوشگوار نہیں ہیں، وہ بھی بے مروت اور بے حس رہا ہے۔ پھر کچھ محبوبائیں بھی تھیں، کچھ سے رشتہ نہ جڑ سکا اور کچھ مر گئیں۔ غربت نے سر چھپانے کے لیے جگہ بھی نہ دی، ایک گھر تھا وہ بھی چھن گیا۔

یہ ہیں ماضی کی یادیں، جن سے راوی قاری کو واقف کروانا چاہتا ہے۔ راوی نے بڑے خوبصورت انداز میں ماضی کو بیان کیا ہے۔ ماضی کو بیان کرنا بھی ایک فن ہے۔ مذکورہ ناول میں ہر ایک خصوصیت ایسی ہی ہے، جیسی درج بالا اقتباس میں بیان کی گئی ہے۔ راوی ہر ایک کے سامنے اپنی کہانی بیان کرتا چلا جاتا ہے۔ حکیم، مریض، قیصر خالہ، میاں الماس، شمامہ اور سائرہ کے سامنے ہر دفعہ کہانی کلی طور پر بیان کی جاتی ہے۔ بچپن کا ہر واقع بیان کیا جاتا ہے، ماں اور بڑے بھیا کے مرنے کی پوری داستان سنائی جاتی ہے۔

یہ کہانی اتنی دردناک ہے، کہ سب سننے والوں کو راوی سے بے تحاشا ہمدردی ہو جاتی ہے۔ خطوط کی تکنیک کا بھی ناول میں جا بجا استعمال کیا گیا ہے۔ بڑے بھیا ہر دفعہ ایک نیا خط چھوٹے کے لیے چھوڑ جاتے ہیں اور ہر دفعہ اس میں کچھ حیران کن تحریر پڑھنے کو ملتی ہے۔ بڑے بھیا در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں لیکن چھوٹے کے ساتھ اس کے گھر میں نہیں رہتے۔ دو چار دفعہ وہ چھوٹے کی فرمائش پر اس کے ساتھ اس کے گھر میں رات گزارنے آتے ہیں۔

چھوٹے کو سوتا چھوڑ کر وہ صبح جلدی چلے جاتے ہیں اور جاتے ہوئے ہر دفعہ ایک خط اس کے سرہانے چھوڑ جاتے ہیں۔ بڑے بھیا ذہنی خلل میں مبتلا ہیں۔ کبھی کبھی ان کا خلل بگڑ جاتا ہے ورنہ وہ ہوش و حواس میں ہوتے ہیں۔ ان کا لب و لہجہ اور آواز بہت شیریں ہے۔ وہ پڑھے لکھے ہیں، ہر دفعہ ایک خط چھوٹے کے لیے چھوڑ جاتے ہیں اور ہر دفعہ کچھ نیا اور عجیب پڑھنے کو ملتا ہے۔ بڑے بھیا ماں کے لیے ایک بہت بڑا اور عمدہ گھر بنوانا چاہتے ہیں۔

لکھنو میں آصف الدولہ اور واجد علی شاہ کے دور میں بے پناہ ترقی ہوئی۔ محل نما گھر اور بڑی بڑی حویلیاں تعمیر کروائی جاتی تھیں۔ زوال لکھنؤ کے بعد سب محل نما گھر انگریز نے گرا دیے۔ ان کے خطوط میں بھی ماں کے لیے ایک بہت بڑا گھر تعمیر کروانے کی منصوبہ بندی نظر آتی ہے۔ بڑے بھیا نے موسیٰ باغ میں کوئی گھر بنوایا ہے اور نہ ہی وہ کوئی گھر یا حویلی بنوانے کے قابل ہیں۔ ان کو خیالی دنیا میں رہنا اچھا لگتا ہے۔ ان کے خواب بہت بڑے ہیں۔

ان کا لاشعور انہیں جھنجھوڑتا ہے کہ ساری زندگی دکھوں اور مصیبتوں میں گزری ہے۔ ماں نے بہت ساری مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ وہ کچھ کر تو نہیں سکتا لیکن اس کی نیت صاف ہے۔ وہ اب بھی ماں کے لیے ایک شاہی گھر بنوانے کا ارادہ رکھتا ہے، اور ایسے خط لکھ کر وہ خود کو تسلی دیتا ہے۔ راوی نے ذہنی خلل میں مبتلا، ایک ایسے شخص کا نفسیاتی جائزہ پیش کیا ہے کہ جسے کوئی بھی معاشرہ ایسی صورت حال میں قبول نہیں کرتا۔ پلاٹ کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو مذکورہ ناول کا پلاٹ بہت سادہ ہے۔

پورے قصے کے اندر پائے جانے والے حالات و واقعات باہم مربوط اور منظم ہیں۔ ناول میں بیان کیے گئے تمام واقعات راوی کی آپ بیتی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان واقعات کو ترتیب دینے میں انہیں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے تھی۔ یقینی طور پر وہ واقعات کو ترتیب دینے اور منظم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ پلاٹ انتہائی سادہ ہے۔ کہیں پر بھی قاری کو کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ شروع سے آخر تک پوری کہانی کو قاری جلدی سمجھنے میں کامیاب ہوتا جاتا ہے۔

راوی بہت آہستگی اور روانی کے ساتھ کہانی بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ پورے قصے میں ایک ہی کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔ واقعات میں تسلسل ہے، تمام خیالات و واقعات مربوط ہیں، کڑی سے کڑی ملی ہوئی نظر آتی ہے۔ اسلوب کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو مذکورہ ناول کا اسلوب جاندار اور قابل داد ہے۔ ہر لکھاری کا اسلوب مختلف ہوتا ہے اور وہی اس کی پہچان بن جاتا ہے۔ راوی کے اسلوب میں امام باڑوں، مسجدوں، درگاہوں، شیعہ سنی فسادات، پرندوں، درختوں اور ذاتی کہانی سنانے کا عنصر سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔

وہ بات سیدھی اور آسان کرتے ہیں۔ کہیں پر بھی ابہام یا قول محال نظر نہیں آتا ہے۔ بڑے بھیا کا کوئی ایک ٹھکانہ نہیں ہے، وہ کبھی مسجد میں پناہ لیتے ہیں۔ کبھی کسی درگاہ میں چلے جاتے ہیں، کبھی امام باڑے کا رخ کرتے ہیں تو کبھی کسی گرجا گھر کو مسکن بنا لیتے ہیں۔ راوی کے تمام ناولوں اور افسانوں میں ان چیزوں کا ذکر ملتا ہے۔ لکھنؤ میں شیعیت کا صحیح پرچار آصف الدولہ اور واجد علی شاہ کے عہد میں ہوا۔ راوی نے ہمارے سامنے لکھنؤ کی جو تصویر رکھی ہے، وہ آخری فرمانروا واجد علی شاہ کے عہد کی ہے۔

راوی کو پرانی حویلیوں کے اجڑ جانے کا بھی غم ہے۔ وہ اس غم کو بھی اپنی فکر اور اسلوب میں جگہ دیتے ہیں۔ لکھنؤ بلند و بالا عمارتیں اور وسیع حویلیاں بنانے میں طاق رہا ہے۔ آصف الدولہ کے زمانے میں اس فن کو ترقی ملی۔ واجد علی شاہ نے بھی عمارتیں بنوانے پر توجہ دی۔ جب واجد علی شاہ کو معزول کر کے مٹیا برج بھیج دیا گیا، تو انگریزوں نے تمام شاہانہ عمارتوں کو مسمار کر دیا۔ راوی کی فکر اور اسلوب میں عمارتوں کے مسمار ہونے اور حویلیوں کے گر جانے کا غم بھی موجود ہے۔

اس حوالے سے دیکھا جائے تو راوی نے لکھنؤ کا شہر آشوب لکھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھنؤ کی بربادی پر ماتم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ لکھنؤ کے باسی ہیں اور کوئی باسی اپنے گھر، محلے یا وطن کی بربادی کو کیونکر برداشت کر سکتا ہے؟ لکھنؤ کی عمارتیں گرا دی گئیں اور درخت کاٹ دیے گئے۔ لکھنؤ پر زوال آیا تو عمارتوں کے علاوہ درخت بھی جڑوں سے کاٹ دیے گئے۔ درخت کسی بھی جگہ کی خوبصورتی بڑھانے کے علاوہ اس کی آب و ہوا کو معتدل رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

واجد علی شاہ کو عمارتیں بنوانے کے علاوہ باغبانی کا بھی بے حد شوق تھا۔ انہوں نے باغات کی طرف بھی خاص توجہ دی۔ راوی کے اسلوب اور فکر میں درختوں سے پیار بھی موجود ہے۔ ان کی اکثر تحریروں میں تو درخت باتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ راوی نے جس فکری پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ موجودہ معاشرے میں اب بھی موجود ہے۔ نئی بننے والی حکومت پچھلی حکومتوں کے تمام تر منصوبہ جات کو خاک میں ملا دیتی ہے۔ واجد علی شاہ کے بعد لکھنؤ کا مکمل کنٹرول انگریزوں کے پاس تھا۔

انگریزوں نے تمام عمارتیں گرا دیں اور درخت کاٹ دیے۔ اس سے لکھنؤ کی تمام خوبصورتی خاک میں مل گئی۔ اس سے پہلے واجد علی شاہ نے بہت خوبصورت حویلیاں، محل اور لائبریریاں بنوائی تھیں۔ راوی یہاں لکھنؤ کی بربادی پر ماتم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ قاری کو یہی گمان ہوتا ہے، کہ فی الوقت وہ بھی لکھنؤ کی گلیوں میں کہیں موجود ہے۔ کہانی کے بیان کنندہ ذاکر (راوی) اس عہد کے لکھنؤ میں شیعہ سنی فسادات پر بھی غمگین نظر آتے ہیں۔

تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ فسادات ہمیشہ ہی سر اٹھاتے رہے ہیں۔ وہ فسادات چاہے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہوں، یا پھر شیعہ سنی فسادات ہوں۔ راوی بڑے بھیا کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ اچانک خبر ملتی ہے کہ فسادات زوروں پر ہیں۔ وہ کئی دن کسی اجنبی جگہ پر پناہ لیے رکھتے ہیں۔ البتہ دکھیارے ہر لحاظ سے ایک مکمل ناول ہے اور لکھنو کا شہر آشوب ہے۔ ایسے لگتا ہے ہم کوئی سفر نامہ پڑھ رہے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments