سنہ 1973 کا آئین ایک جج نے دھوتی باندھ کر لکھا تھا


Loading

سنہ 1973 ء کے آئین کو بنے رواں ماہ پچاس برس ہو گئے ہیں۔ 10 اپریل کو قومی اسمبلی میں 1973 ء کے آئین کی گولڈن جوبلی بڑی دھوم دھام سے منائی گئی۔ 1973 ء کی اسمبلی کے زیادہ تر اراکین اب اس دینا میں نہیں ہیں۔ تاہم اس اسمبلی کے حیات ممبران میں سے ایک رکن سید قائم علی شاہ کو اسمبلی ہال میں بیٹھے دیکھ کر اچھا لگا۔

یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ ظاہری، قانونی اور آئینی طور پر 1973 ء کے آئین کو 1970 ء کے انتخابات کے بعد معرض وجود میں آنے والی قومی اسمبلی نے ملک کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ مگر اس آئین کو منظوری کے مراحل تک پہنچنے سے پہلے اسے ڈرافٹ کرنے میں بڑا حصہ ڈالنے والے ایک شخص کے متعلق بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ویسے بھی چونکہ ہمارے ہاں کسی کو خصوصاً قابل اور لائق سرکاری ملازمین کو ان کے حصے کی محنت یا ان کے کسی جائز کام کا کریڈٹ عوامی سطح پر دینے کا رواج کم کم ہے۔ آئیے آپ کو 1973 ء کے آئین کو ڈرافٹ کرنے اس والی شخصیت سے متعارف کرواتے ہیں۔

1973 ء میں منظور کیے گئے آئین پاکستان کا مسودہ عبدالحفیظ پیرزادہ کی سربراہی میں 25 اراکین پر مشتمل ایک آئین ساز کمیٹی نے تیار کیا تھا۔ اس کمیٹی نے ملک کے کئی ممتاز فقہا، علماء، سیاسی و قانونی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی تھیں۔ جنہوں نے آئین کی تیاری میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا تھا۔

تاہم 1973 ء کے آئین کی زیادہ تر شقوں کو ڈرافٹ کرنے کا سہرا اس وقت کے لیگل ڈرافٹنگ کے ماہر ایک سیشن جج محمد الیاس کے سر جاتا ہے۔ جو بعد ازاں جسٹس محمد الیاس کے نام سے جانے اور پہچانے گئے۔ جج محمد الیاس کی خدمات آئین سازی کے لیے اس وقت کی قومی اسمبلی نے بڑی مشکلوں سے مستعار لی تھیں۔ جسٹس محمد الیاس نے 1973 ء کے آئین کی تیاری اور اس میں اپنی قانونی معاونت کی کہانی اپنی کتاب ”اپ ڈیٹنگ دی کانسٹی ٹیوشن آف پاکستان“ میں بیان کی ہے۔ کہانی سنانے سے پہلے جسٹس محمد الیاس کا تھوڑا تعارف ہو جائے۔

جسٹس (ر) محمد الیاس یکم اکتوبر 1931 ء کو گجرات کی تحصیل کھاریاں کے گاؤں چک فاضل میں پیدا ہوئے۔ 1948 ء میں انہوں نے محض سترہ سال کی عمر میں بی اے کا امتحان پاس کر لیا۔ جبکہ 1951 ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کے امتحان میں وہ گولڈ میڈل حاصل کر کے ٹاپ پوزیشن پر رہے۔ اس کے بعد انہوں نے صرف ساڑھے بیس سال کی عمر میں گجرات میں بطور وکیل پریکٹس شروع کر دی۔ جولائی، 1952 ء میں انہوں نے صرف بیس سال نو ماہ کی عمر میں بطور سول جج (جوڈیشل برانچ) مقابلے کا امتحان ٹاپ پوزیشن لے کر امتحان پاس کر لیا۔

جسٹس محمد الیاس کے سول جج بننے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ جولائی 1952 ء میں سول ججوں کے لیے منعقد ہونے والے مقابلے کے امتحان کی حد عمر 21 سال تھی۔ سابقہ شاندار کارکردگی دیکھتے ہوئے بیس سال نو ماہ کی عمر رکھنے والے محمد الیاس کو مذکورہ امتحان میں بیٹھنے کی رعایت کی اجازت اس شرط کے ساتھ دی گئی تھی کہ اگر انہوں نے یہ امتحان پاس بھی کر لیا تو وہ 23 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے سول جج تعینات نہیں ہو سکیں گے۔

عمر میں رعایت نے جج محمد الیاس کی قسمت بدل دی:

جب مقابلے کے امتحان کا نتیجہ نکلا۔ تو نہ صرف نوجوان محمد الیاس بآسانی سول جج یہ امتحان پاس کر گئے بلکہ سب امیدواروں سے زیادہ نمبر حاصل کر کے پھر ٹاپ پوزیشن لے گئے۔ اس شاندار کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اس وقت لاہور ہائی کورٹ کے ایڈمنسٹریٹو جج کی جانب سے محمد الیاس کی بطور سول جج تعیناتی کے لیے عمر میں رعایت دینے کی سفارش کی گئی، جو بعد ازاں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ایس۔ اے رحمن کی جانب سے منظور کر لی گئی۔

سول جج سے سپریم کورٹ کے جج تک:

محمد الیاس اکیس سال سے بھی کم عمر میں سول جج بن گئے۔ انہوں نے 23 مارچ 1953 ء کو بطور سول جج اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ بعد ازاں وہ پاکستان کے ان چند ججوں میں شامل رہے جو سول جج سے شروع ہو کر سپریم کورٹ کے جج کے منصب تک پہنچے۔ سول جج محمد الیاس اپنے 43 سالہ طویل عدالتی کیریئر میں سول جج، سینئر سول جج، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج، سیشن جج، لاہور ہائی کورٹ کے ریکارڈ مدت تک جج، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، فیڈرل شریعت کورٹ کے جج اور بعد ازاں سپریم کورٹ کے جج بنے۔ بطور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ وہ کئی بار قائم مقام گورنر پنجاب بھی بنے۔ جسٹس محمد الیاس سول جج سے شروع ہو کر بطور جسٹس پاکستان سپریم کورٹ 65 سال کی عمر میں 30 ستمبر 1996 ء کو ریٹائر ہو گئے۔

1957 ء میں جسٹس محمد الیاس کو پورے مغربی پاکستان سے ان کی شاندار کارکردگی کی بدولت امریکہ کی ایک یونیورسٹی سٹنفورڈ، کیلیفورنیا میں لیگل سٹڈیز کے ایک کورس کے لیے منتخب کیا گیا۔ جہاں انہوں نے ایک فیلوشپ پروگرام کے تحت لیگل امور اور قانون سازی کی تربیت حاصل کی۔ جسٹس محمد الیاس سول جج سے شروع ہو کر بطور جسٹس سپریم کورٹ، 43 سال کی سروس کے بعد 65 سال کی عمر میں 30 ستمبر 1996 ء میں ریٹائر ہو گئے۔

دینا کے کم عمر ترین سول جج:

بعد ازاں گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈز نے جسٹس محمد الیاس کو ”دینا کا کم عمر ترین سول جج ”تسلیم کرتے ہوئے ان کا نام اپنے 1991 ء کے ایڈیشن میں شامل کیا۔ وہ عالمی سطح پر ایک طویل عرصے تک دینا کے کم عمر ترین سول جج شمار کیے جاتے رہے۔ تاہم گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق اب یہ ریکارڈ امریکی ریاست انڈیانا کے مارک۔ ایل۔ گریفن کے پاس ہے۔ جنھیں 19 فروری 1974 ء کو محض سترہ سال آٹھ ماہ کی عمر میں وہائٹ ریور ٹاؤن شپ میں“ جسٹس آف پیس ”تعینات کیا گیا۔

1973 ء کا آئین ڈرافٹ کرنے کی کہانی:

جسٹس محمد الیاس اپنی کتاب ”اپ ڈیٹنگ دی کانسٹی ٹیوشن آف پاکستان“ میں لکھتے ہیں کہ ”1972 ء میں ان دنوں وہ پنجاب کے لاء ڈیپارٹمنٹ میں بطور جوائنٹ سیکرٹری اپنے فرائض ادا کر رہے تھے، جب ایک روز انہیں اس وقت کے وفاقی سیکرٹری قانون جسٹس قاضی محمد گل کی ٹیلی۔ فون کال موصول ہوئی۔ جنھوں نے دوران گفتگو انہیں بتایا کہ انہیں قومی اسمبلی کے سیکرٹری اسلم عبداللہ خاں نے درخواست کی ہے کہ قومی اسمبلی میں 1973 ء کے آئین کی تیاری کے لیے انہیں ایک لیگل ایکسپرٹ کی ضرورت ہے۔

قومی اسمبلی کے موجودہ سٹاف میں ایسا کوئی آدمی نہیں ہے جو ان معاملات کا ماہر ہو۔ جسٹس قاضی گل کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے آئین سازی کے لیے موزوں ترین نام آپ کا تجویز کیا ہے۔ آپ کی چونکہ اس شعبے میں فارن ٹریننگ سمیت فیلڈ کا تجربہ بھی ہے۔ اس لیے آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس مقصد کے لیے قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ آ جائیں۔“

جسٹس محمد الیاس لکھتے ہیں کہ ”انہوں نے جسٹس قاضی محمد گل سے دوران گفتگو قومی اسمبلی جانے کی درخواست پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ اور دوسری جانب سے مسلسل اصرار پر انہوں نے اپنے اس خدشے کا اظہار کیا کہ قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ میں چونکہ ان کا میل جول اور واسطہ براہ راست سیاست دانوں سے بھی پڑے گا۔ جو بعد ازاں ان کے جوڈیشل کیریئر کے لیے بہتر نہیں ہو گا، اور اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔“

جسٹس محمد الیاس کے مطابق ”وفاقی سیکرٹری قانون جسٹس گل اپنے تئیں ان کے سارے خدشات دور کرنے کی یقین دہانی کراتے رہے۔ اور مسلسل قومی اسمبلی جانے کے لیے انہیں اصرار کرتے رہے مگر انہیں مجھے قائل کرنے میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ تاہم انہوں یہ کہتے ہوئے فون بند کر دیا کہ میں اس معاملے پر ٹھنڈے دل سے غور کروں۔ اور وہ مجھ سے اس مسئلے پر دوبارہ بات کریں گے۔“

جسٹس محمد الیاس لکھتے ہیں کہ ”اپنے خدشات کی بدولت اگلے روز بھی وہ اس اسائنمنٹ کو قبول کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار نہ کر سکے۔ جب دوبارہ جسٹس قاضی محمد گل نے درخواست کرتے ہوئے ان سے کہا کہ وہ بطور جوڈیشری کے ایک سینئر ممبر کے سیکرٹری قومی اسمبلی سے کہہ چکے ہیں کہ یہ کام محمد الیاس کرے گا۔ کیا اب تم اپنے ایک سینئر کو سیکرٹری قومی اسمبلی کی نظروں میں بے عزت کراؤ گے۔ جسٹس گل کی اس بات کے بعد میرے پاس بادل نخواستہ انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی۔ تاہم انہوں نے مجھے پرزور یقین دہانی کرائی کہ قومی اسمبلی جانے کے لیے میری سلیکشن میں کسی بھی طرف سے کوئی سیاست دان ملوث نہیں ہو گا۔“

قومی اسمبلی سیکرٹیرٹ آمد:

وفاقی سیکریٹری جسٹس قاضی محمد گل کی یقین دہانیوں کے بعد ڈیپوٹیشن پر ان کی خدمات وفاقی حکومت کے سپرد کرتے ہوئے مجھے قومی اسمبلی سکریٹریٹ میں گریڈ۔ 20 میں جوائنٹ سیکرٹری تعینات کر دیا گیا۔ بعد ازاں اس اسائنمنٹ کے دوران ہی انہیں گریڈ۔ 21 میں ایڈیشنل سیکرٹری قومی اسمبلی بنا دیا گیا۔ قومی اسمبلی میں انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائے ہوئے 1973 ء کے آئین کی تیاری اور اس کے رولز ڈرافٹ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ ہر مرحلے پر قومی اسمبلی کی آئین ساز کمیٹی کو آئین کی شقوں کی ڈرافٹنگ سے لے کر معاونت فراہم کرتے رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے 1973 ء کے آئین کے پاس ہونے کے بعد اس کے تحت معرض وجود میں آنے والی دو ایوانی مقننہ (قومی اسمبلی و سینٹ) کے رولز بھی ڈرافٹ کیے۔ ”

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments