عمران کی گرفتاری اور فوجی تنصیبات پر حملے


عمران خان کی سیاسی دشمنی شریف برادران اور زرداری سے تھی، وہ پہلے روز سے کرپشن کے خلاف تقاریر کر رہے تھے۔ ریاست مدینہ بنانا چاہتے تھے۔ ایاک نعبدو ایاک نستعین سے بات شروع کرتے تھے۔ پاکستان کو حقیقی آزادی دلوانا چاہتا تھے تو کبھی نیا پاکستان بنانے کی خواہش تھی۔ عمران خان کو 2018 میں سابق آرمی چیف باجوہ اور فیض حمید نے انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے کامیاب کروایا، جہانگیر ترین، علی احمد خان جیسی اے ٹی ایم دلوائیں۔

سندھ میں پی پی مخالف سرداروں اور بلوچستان میں نوابوں سرداروں، کے پی میں علی امین گنڈا پور، پرویز خٹک اور پنجاب میں شیخ رشید اور پرویز الہی جیسے لوگ شامل کروائے گئے۔ بزدار کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ یوں پیرنی اور گوگی نے کھل کر پیسا کمایا۔ پشاور بی آر ٹی اور ملین درخت لگانے جیسے ڈرامہ ہوئے۔ 4 سال کے اندر ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا گیا۔ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا 25 ہزار ارب روپے سے زائد کا قرضہ لیا گیا۔ ملک معاشی اقتصادی طور پر بیٹھ گیا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا گیا۔ دوست ممالک کو مخالف بنایا گیا۔ اپنے مخالفین پیپلز پارٹی کے رہنماؤں آصف علی زرداری، فریال ٹالپر، سید خورشید شاہ، ڈاکٹر عاصم، نواز لیگ رہنما نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز صاحبہ، شاہد خاقان عباسی، رانا ثناء اللہ، سعد رفیق و دیگر رہنماؤں کو نیب کیسز میں جیل بھیج دیا گیا۔ سینکڑوں افسران، تاجر، زمینداروں، رکن اسمبلی و دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خلاف نیب میں تفتیش شروع کردی گئی۔

جو سیاستدان عمران خان کے ساتھ تھا وہ نیب سے آزاد تھا۔ جو مخالف تھا وہ اس کی زد میں آ رہا تھا۔ عمران خان کے خلاف سب سے پہلے جے یو آئی کے قائد مولانا فضل الرحمن نے میدان سجایا، 22 ملین مارچ کیے۔ کراچی سے لے کر اسلام آباد تک 2 آزادی مارچ کیے ۔ یوں پی ڈی ایم کا بنیاد پڑا۔ پیپلز پارٹی، نواز لیگ، جے یو آئی دیگر جماعتوں نے مل کر اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عمران خان کو گھر بھیج دیا اور حکومت گرا دی۔ عمران خان نے الزام عائد کیا کہ امریکا نے ان کے خلاف سازش کی۔ پھر کہا کہ باجوہ نے ان کے خلاف سازش کی۔ پی ڈی ایم کی مشترکہ حکومت بنی۔ عمران خان نے پنجاب اور کے پی کے کی حکومتیں ختم کردی۔ پھر کہا کہ باجوہ کے کہنے پر انہوں نے حکومتیں ختم کی۔

ایک نیب کیس میں رینجرز نے اسلام آباد سے عمران خان کو گرفتار کیا۔ ویل چیئر پر آنے والے سابق وزیر اعظم کو ٹھڈے مار کر گاڑی میں لے گئے۔ جس کے بعد عدالت نے گرفتاری پر نوٹس لیا۔ عدالت میں نیب کے گرفتاری وارنٹ پیش کر دیے گئے۔ عدالت نے بھی گرفتاری قانونی قرار دے دی۔ یوں ریاست مدینہ کے دعوے داروں نے ملک میں توڑ پھوڑ، املاک نذر آتش کرنا شروع کر دی۔ ریاست مدینہ کا دعویٰ، پاک فوج سے محبت، اسلام کی سربلندی اور مسلمانوں کی جنگ لڑنے والوں کا نشانہ یہاں تک کہ مساجد شہید کرنا، پاک فوج کی تنصیبات پر حملہ کرنا، شہداء یادگار مسمار کرنا، قائد اعظم کا گھر، کور کمانڈر ہاؤس، ریڈیو پاکستان اسٹیشن پشاور، گاڑیاں جلانا، پاکستانی پرچم نذر آتش کرنا اور فوج کو گالی دینا شامل تھا۔

پورے ملک میں حکومت نے انٹرنیٹ سروس معطل کردی۔ پی ٹی آئی کے مسلح افراد نے کور کمانڈر لاہور کے رہائش گاہ پر حملہ کر دیا، گھر نذر آتش کر دیا۔ کور کمانڈر کی وردی فوجی ڈریس پہن کر بدمعاشی کرتے رہے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے دشمن ملک کی فوج نے ملک کو فتح کر دیا ہو۔ خواتین کے کپڑے لہراتے رہے۔ کور کمانڈر ہاؤس میں قائم مسجد کو آگ لگا کر شہید کر دیا گیا۔ ملک میں جہاں بھی فوج کی املاک، گاڑیاں، سوات ٹول پلازہ، ہو یا کراچی ہاک فوج کے شہدا کا یادگار ہو نذر آتش کر دیا گیا۔

پشاور میں ایمبولینس میں زخمیوں کو اتار کر آگ لگا دی گئی۔ پشاور ریڈیو اسٹیشن اور موجود تمام گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔ مجبوراً حکومت کو اسلام آباد، پنجاب، کے پی میں فوج کو طلب کرنا۔ اور سندھ میں دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ ایسی صورتحال پر مزید کنٹرول کرنے کے لئے پاکستان تحریک انصاف کے قیادت کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا۔ عمران خان کو نیب عدالت میں پیش کر دیا گیا جسے 8 روز کے لئے جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

جس کے بعد سابق وزیر خارجہ شاہ محمود، سابق وزیر خزانہ اسد عمر، سمیت دیگر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ کراچی میں شیر زمان اور حلیم عادل شیخ کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے گئے۔ علی زیدی کی گرفتاری کی اطلاع ہے۔ اس وقت تک ملک میں انٹرنیٹ سروس معطل ہے اور زندگی مشکل ہو کر رہ گئی ہے۔ راولپنڈی میں جی ایچ کیو پر حملے کے بعد بھارت میں خوشی منائی گئی اور جشن جیسا سماں تھا۔

کیا اب بھی کوئی چیف جسٹس آف پاکستان، صحافی، دانشور، سیاستدان، وکیل، شہری، عام پاکستانی اس عمرانی فتنے کو سپورٹ کر سکتا ہے؟ دو روز قبل وزیر خارجہ اجلاس میں پاکستان کی کامیابی، اسلام آباد میں عالمی سیاسی سرگرمیاں دشمنان پاکستان سے برداشت نہ ہو سکیں۔ کیا پی ٹی آئی اتنی ملک دشمنی، فوج دشمن، جماعت ہو سکتی ہے، جنہوں نے گزشتہ روز سے ملک میں اربوں کھربوں ڈالرز کا نقصان کیا ہے اور پاکستان کا امیج دنیا بھر میں داغدار کیا ہے! یہاں تک کہ کراچی میں میوزیم میں رکھے گئے جہاز بھی نذر آتش کر دیے گئے اور فوج کے خلاف بدتمیزی کا طوفان برپا کیا گیا ہے۔

موجودہ ملکی صورتحال پر ڈی جی آئی ایس آئی آر کی جانب سے اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔ فوج نے کہا ہے کہ 9 مئی کا دن ایک سیاہ باب کی طرح یاد رکھا جائے گا۔ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو قانون کے مطابق حراست میں لیا گیا۔ اس گرفتاری کے فوراً بعد ایک منظم طریقے سے آرمی کی املاک اور تنصیبات پر حملے کرائے گئے اور فوج مخالف نعرے بازی کروائی گئی۔ جو کام ملک کے ابدی دشمن 75 سالوں میں نہ کر سکے وہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا ایک سیاسی لبادہ اوڑھے ہوئے اس گروہ نے کر دکھایا ہے۔

فوج نے انتہائی تحمل، بردباری اور restraint کا مظاہرہ کیا اور اپنی ساکھ کی بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے ملک کے وسیع تر مفاد میں انتہائی صبر اور برداشت سے کام لیا۔ مذموم منصوبہ بندی کے تحت پیدا کی گئی اس صورتحال سے یہ گھناونی کوشش کی گئی کہ آرمی اپنا فوری رد عمل دے، جس کو اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ آرمی کے میچور رسپانس نے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ ہمیں اچھی طرح علم ہے کہ اس کے پیچھے پارٹی کی کچھ شرپسند لیڈرشپ کے احکامات، ہدایات اور مکمل پیشگی منصوبہ بندی تھی اور ہے۔

جو سہولت کار، منصوبہ ساز اور سیاسی بلوائی ان کارروائیوں میں ملوث ہیں ان کی شناخت کر لی گئی ہے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی اور یہ تمام شر پسند عناصر اب نتائج کے خود ذمہ دار ہوں گے ۔ فوج بشمول تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے، فوجی و ریاستی تنصیبات اور املاک پر کسی بھی مزید حملے کی صورت میں شدید ردعمل دیا جائے گا جس کی مکمل ذمہ داری اسی ٹولے پر ہوگی جو پاکستان کو خانہ جنگی میں دھکیلنا چاہتا ہے اور برملا و متعدد بار اس کا اظہار بھی کرچکا ہے۔

اس وقت اقتدار کی جنگ کے نام سامراجی قوتوں کے ایجنڈے پر عملدرآمد ہو رہی ہے۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ عدلیہ اور عالمی اسٹیبلشمنٹ بھی اس سیاسی کھیل کا حصہ ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت اقتدار میں آتے ہی، سکھر حیدرآباد ایم سکس موٹر وے سمیت دیگر سی پیک منصوبہ شروع ہونے کے اعلانات کی دیر تھی تو دوبارہ سازشیں شروع ہو گئیں۔ 2014 کی طرح پرانے کھلاڑیوں نے نئے کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر کام شروع کر دیا۔

اب پاک چائنہ، پاک ایران، پاک افغان سمیت دیگر ممالک سے تعلقات بہتر ہونا شروع ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے ایف اے ٹی ایف سے نکلنے کے بعد امریکا بہادر نے 2014 کی طرح دوبارہ وہی سازش شروع کردی ہے۔ پہلے کچھ اور مہرے تھے اب مزید اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ پاکستان کو نہ ترقی کرتے دیکھنا چاہتا ہے نہ معاشی طور پر مضبوط دیکھنا چاہتا ہے۔ ملک اقتصادی بحران، مسائل، بدامنی، مہنگائی بیروزگاری سے نکل سکتا ہے اگر اندرونی سازشیں ختم ہو جائیں تو۔

یہ بھی ایک خبر ہے کہ سی پیک پر دوبارہ سے تیزی سے کام شروع کرنے اور روس کے خلاف امریکی بلاک کا حصہ نہ بننے پر امریکہ کی چشم التفات اچانک عمران پر بڑھ گئی ہے تاکہ حکومت پاکستان کو بلیک میل کر کے مرضی کی خارجہ پالیسی پر عمل کروایا جا سکے۔

حقیقت یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان اس وقت ملک میں سب سے زیادہ سیاسی کھلاڑی، بصیرت رکھنے والے مدبر گہری نظر رکھنے والا سیاستدان ہے۔ وہ چاہیں تو ایک ساتھ بکری اور شیر کو پانی پلا سکتے ہیں، مولانا میں وہ خوبی ہے اگر چاہیں تو آگ اور پانی کو ایک ساتھ چلا سکتے ہیں۔ جب پیچھے پڑے اور چاہا تو عمران خان کو گھر بھیج دیا۔ عمران خان کی حکومت گرانے کے لئے کسی نے کہا امریکا کی سازش، کسی نے کہا زرداری کی چال، تو کسی نے کہا بلاوجہ کا کھیل ہے۔

میں نے پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ سابقہ حکومت کے خاتمے کے پیچھے مولانا کی چال اور سازش تھی۔ میں اس کا حامی، پیڈ ورکر یا ہمدرد نہیں ہوں لیکن جو حقیقت ہے وہ حقیقت ہی رہ جاتی ہے۔ عمران خان جیسے اناڑی نے بلاوجہ مولانا سے پنگا لے کر اپنی حکومت گنوائی اب سیاست داؤ پر لگا دی ہے، شاہ محمود قریشی نے بھی مان لیا ہے کہ پوری پی ڈی ایم جماعتیں ایک طرف، مولانا دوسری طرف ہے، وہ مذاکرات کرنا نہیں چاہتے، بلاول بھٹو زرداری بھی اسے منانے میں ناکام ہو گئے ہیں۔

مولانا وہ سیاستدان ہیں جس کے لئے مشہور ہے کہ ہمارے بغیر حکومت بن نہیں سکتی۔ بن گئی تو چل نہیں سکتی، وہ بات عمران خان کے حکومت میں ثابت ہو گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ 22 ملین مارچ اور دو اسلام آباد تک لانگ مارچ کرنے عالمی سطح پر اپنا لوہا منوا لیا۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ کو بھی پریشان کر رکھا ہے۔ عمران خان کی انتقام سے بھری حکومت، نیب، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ 2018 کے عام انتخابات کے بعد میں نے جتنے تجزیہ، مضامین، کالم تحریر لکھیں جو آج بھی رکارڈ کا حصہ ہیں سچ ثابت ہوئی ہیں۔ انتخابات بھی اسی تاریخ پر ہوں گے جو تاریخ سپریم کورٹ یا زرداری شہباز نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمن دیں گے، اگلا وزیراعظم جو بھی بنا، وہ مولانا فضل الرحمن کی رضامندی کے بغیر بن نہیں سکے گا اور اگر بن گیا تو عمران خان کی طرح چل نہیں سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments