مملکت کے لئے نازک مرحلہ ہے؟


گزشتہ ہفتے پھوٹ پڑنے والے تشدد کے واقعات نے دنیا کی پانچویں بڑی آبادی اور ساتویں ایٹمی قوت کے حامل ملک کو ایسے دو راہے پہ لا کھڑا کیا جہاں وہ کبھی نہ تھمنے والی انارکی سے ہم آغوش ہو کر پورے جنوبی ایشیا کے مقدر پہ سایہ فگن ہو جائے یا پھر مملکت کو آئینی حکمرانی کے تابع کرنے کے لئے پارلیمنٹ کی بالادستی یقینی بنا لے۔ ظاہری وجوہات سے قطع نظر، نیو نو آبادیاتی نظام کے تقاضوں کے مطابق پچھلے 75 سالوں میں ملک کو آئینی نظام کے تحت منظم کرنے کی بجائے سیکیورٹی سٹیٹ کے طور پہ چلانے کے مضمرات نے آکٹوپس کی طرح ریاست کو لپیٹ لیا۔

اس ملک کی تاریخ میں سیکیورٹی کی ہیئت مقتدرہ پہ حملوں کا واقعہ پہلی بار رونما ہوا جس کے محرکات کو سمجھنے کے لئے پچھلے دو سال کے واقعات پہ نظر ڈالیں تو حیرت انگیز عوامل سامنے آتے ہیں، سیکیورٹی اسٹبلشمنٹ پہ منظم جتھوں کے غیر متوقع حملوں سے قبل پاکستان میں تعینات طاقتور ملک کے سفیر کی پی ٹی آئی قیادت سے متواتر ملاقاتوں، امریکی کانگریس کے رکن بریڈ شرمین کی طرف سے وزیرخارجہ کو خط اور جنوبی ایشیا کے لئے امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کے ہمارے حساس اداروں پہ خان کو ہراساں کرنے کے الزامات غیرمعمولی پیش دستی ہیں۔

عالمی میڈیا کے مطابق واشنگٹن کے پالیسی ساز پاکستان میں پنپنے والے تازہ بحران کی نگرانی کر رہے ہیں، امریکی اشرفیہ پہلے قدم کے طور پر پی ٹی آئی رہنماؤں کو قانونی تادیب اور فوجی قواعد کے مطابق سزاؤں سے بچانے کے لئے احتیاط سے دباؤ ڈال رہی ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی طرف سے دفاعی تنصیبات پہ حملوں کے مرتکب افراد کے خلاف سمری کورٹس میں مقدمات چلانے پہ تحفظات کے اظہار کے ساتھ ایک بار پھر کانگریس کے 60 اراکین کی طرف سے وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کو خط لکھ کر پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی درخواست بھی غور طلب ہے۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کی مہم کا رخ فوج کی طرف تھا اس لئے ان کی گرفتاری کے بعد بھڑکنے والے پرتشدد مظاہروں کا ہدف دفاعی تنصیبات بنیں۔ 9 مئی کو انسداد بدعنوانی کے ادارے کی طرف سے جاری کردہ الزامات کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ سے جس مقدمہ میں انہیں گرفتار کیا گیا، اس میں عمران اور ان کی اہلیہ پر نجی یونیورسٹی کے لئے لاکھوں ڈالر کی زمین رئیل اسٹیٹ ٹائیکون سے رشوت کے طور پر وصول کر کے برطانوی میں اسی بزنس ٹائیکون کی پکڑی گئی 190 ملین پونڈ بلیک منی سپریم کورٹ کی طرف سے بزنس ٹائیکون پہ عائد 460 ارب روپے جرمانہ میں ایڈجسٹ کر دی گئی۔

خان کی گرفتاری کے بعد پنجاب میں بڑے پیمانے پہ عوام تو باہر نہ نکلے البتہ پی ٹی آئی لیڈر شپ چند سو کارکنوں کے غصہ کا رخ فوجی عمارتوں، شہداء کی علامات اور دفاعی تنصیبات کی طرف موڑ کر قومی سیاست میں نئے رجحان کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو گئی، جسے اگر بروقت سنبھالا نہ گیا تو مملکت کا وجود خطرات سے دوچار رہے گا۔ خان کے حامیوں نے راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے باہر آویزاں قوی ہیکل مونومنٹ کو نقصان پہنچایا، لاہور میں کورکمانڈر ہاؤس میں گھس کر توڑ پھوڑ کرنے کے علاوہ دیگر فوجی عمارات کو نذر آتش کیا، میانوالی میں چوراہوں پہ نصب جنگی جہاز کا ماڈل جلانے اور ائرفورس عمارت کو گزند پہنچائی، پشاور میں مشتعل کارکنوں نے قلعہ بالاحصار میں داخل ہو جانے کے علاوہ سرکاری ریڈیو اسٹیشن کو آگ لگا دی، پرتشدد مظاہروں میں 7 ہلاک اور 106 افراد زخمی ہوئے، سوات میں کارکنوں نے موٹر وے ٹول پلازہ جلانے کے علاوہ چکدرہ ایف سی ہیڈکوارٹر سے اسلحہ لوٹا، سکولوں کو نذر آتش کیا۔

کراچی میں مشتعل کارکنوں نے ایف سی ہیڈ کوارٹر کو جلا ڈالہ، اسلام آباد میں بھی خیبرپختون خوا سے آئے مظاہرین نے دو تھانوں کو آگ لگائی۔ تاہم انتہائی ڈرامائی انداز میں جمعرات کی شام، سپریم کورٹ نے احاطہ عدالتی سے گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے کر خان کی رہائی کا حکم جاری کر کے گزشتہ سال 25 مئی کو اسلام آباد کے ریڈ زون میں خان کے حامیوں کی طرف سے جلاؤ گھیراؤ کی طرح تازہ فسادات پہ بھی مٹی ڈالنے کی کوشش کر ڈالی۔

موجودہ بحران، خاص طور پر خان کی گرفتاری کا ردعمل، پاک امریکہ پیچیدہ ملٹری تعلقات کا نتیجہ ہیں، جس میں پاکستانی سیاست میں مسلسل مارشلاؤں اور وسیع فوجی اثر و رسوخ کا عنصر شامل ہے۔ عمران حکومت کے پراسرار خاتمہ کے بعد ملک کے آئینی نظام اور انتظامی ڈھانچہ میں گہری تبدیلیوں کے علاوہ فوج میں اہم تعیناتیاں بھی امریکہ مقتدرہ کے مفادات کے برعکس ہوئیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار نئے تعینات ہونے والے آرمی چیف عاصم منیر نے امریکہ کا دورہ کرنے کی بجائے سعودیہ اور چین جانے کی روایت ڈالی، جسے اس نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ کا اعلان سمجھا گیا، جس کے تحت استعماری قوتوں نے حکمرانوں پہ حکمرانی کا سسٹم تخلیق کیا تھا۔

اسی بندوبست کے تحت امریکہ نے پاکستان میں آئینی نظام کو پنپنے دیا نہ عوام کی منتخب پارلیمنٹ اور مقبول سیاسی قیادت کو ابھرنے کی مہلت دی۔ اس حقیقت سے اب پردہ اٹھ جانا چاہیے کہ 14 اگست 1947 کو ہمیں الگ مملکت تو مل گئی لیکن وہ آزادی نہ ملی، جس کا خواب دکھایا گیا۔ روس میں 1917 کے کمیونسٹ انقلاب کے بعد برطانیہ کے عالمی مقاصد تبدیل ہو گئے، ہندوستان جو، ذات پات کی تقسیم پہ مبنی فرسودہ سماجی نظام اور وسیع پیمانے کی غربت کی وجہ سے سوشلزم کے لئے نہایت زرخیز خطہ تھا، اسے کیمنزم کی نظریاتی اثر سے بچانے کی خاطر مسلم قوم پرستی کی حامل ایسی مذہبی بفر سٹیٹ کی ضرورت تھی جو سویت یونین کی نظریاتی توسیع پسندی کے سامنے دیوار بن سکے، یہی سیاسی تقاضا دراصل اس عظیم ہندوستان کی تقسیم کا محرک بنا جسے منقسم ہونے سے بچانے کی خاطر کانگریسی قیادت تادم مرگ بھوک ہڑتال پہ تیار تھی۔

چنانچہ پچھلے 75 سالوں میں عالمی طاقتوں نے ایک طرف تو ہمدردانہ شعور کے ساتھ انڈیا کی انگلی پکڑ کر کے اسے شاہراہ جمہوریت پہ چلنا سکھایا اور دوسری جانب پراسرار طور پہ پاکستان میں پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو گولی مار کے شہید کرنے کے علاوہ تحریک آزادی کی قیادت کرنے والی جماعت مسلم لیگ اور اس کی لیڈرشپ کو چن چن کے ٹھکانے لگا کر مملکت کا اقتدار اعلی فوجی جرنیلوں کے حوالے کر کے نوزائیدہ مملکت کو جنوبی ایشیا میں مغربی استعمار کا فوجی اڈا بنا دیا۔

فروری 2022 میں برطانیہ میں تعینات امریکی سفیر نہ انکشاف کیا کہ 1947 میں اس وقت کے برطانوی وزیراعظم اٹیلی نے امریکہ کو یقین دہانی کرائی کہ اگلے 25 سالوں میں بنگال الگ مملکت بنا دیا جائے گا، اسی سکیم کے تحت آمروں نے بنگلہ دیش کو الگ کرنے کے اسباب مہیا کیے اور 1971 میں جنرل یحییٰ اور مجیب الرحمن سمیت اس وقت کی سیاست کے سارے کردار امریکی ایما پر بنگال کی علیحدگی کی سکیم کو عملی جامہ پہنانے میں شامل تھے، پاکستان دو لخت ہو جانے کے نفسیاتی جھٹک کو جھیلنے کی خاطر ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت کو بروئے کار لانے کے علاوہ مملکت کو 1973 کا آئین دینے کا موقعہ ملا، لیکن زخموں کے مندمل ہوتے ہی 1977 میں امریکی مفادات کے تحفظ کی خاطر ملک کو ایک اور مارشل لاء کے سپرد کر دیا گیا، جسے 1979 میں افغانستان میں روسی فوج کے خلاف پراکسی جنگ میں استعمال کرنے کی خاطر یہاں آئینی و قانونی نظام کی بیخ کنی کے علاوہ گورننس کی بنیادیں کمزور کی گئیں۔

1988 میں سوویت یونین کے انخلاء کے بعد ضیاءالحق کو راستے سے ہٹانے کے ساتھ ہی افغانستان کو عمیق خانہ جنگی کے دلدل میں دھکیل کر اس وقت کی جہادی قیادت کو فتح کے ثمرات سمٹنے سے روکا گیا، اسی دوران طالبان کی شکل میں نئے مذہبی گروہ کے ذریعے افغانستان کی شورش پہ قابو پا کر جنوبی ایشیا بالخصوص چین کے گھیراؤ کے لئے کابل میں مستقل امریکی اڈے بنانے کی سکیم کی طالبان نے مزاحمت کی تو پہلے اسامہ بن لادن کو سوڈان سے ہانک کر افغانستان پہنچایا، پھر امریکہ اور اتحادیوں نے نائین الیون میں بن لادن کی تلویث کا جواز گھڑ کر کابل پہ یلغار سے قبل پاکستان میں جنرل مشرف کے نئے مارشل لاء کی راہ ہموار بنائی، جس نے عنان اقتدار سنبھالتے ہی روایتی انتظامی ڈھانچہ کو توڑ کر نچلی سطح کے نظام کو پولیس کے سپرد کر کے ملک کو جنگ دہشتگردی کی آگ میں جھونک دیا۔

قصہ کوتاہ، بیس سالوں پہ محیط طویل جنگ سے تھک ہار کر بالآخر امریکہ جب واپس پلٹ رہا تھا تو جنوبی ایشیا سمیت پاکستان بھی امریکی پنجہ استبداد سے نکل چکا تھا۔ اسی خدشہ کے پیش نظر صدر ٹرمپ نے انخلاء سے قبل سی پیک کے خالق نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار عمران خان کے حوالے کرنے کی شرط لگائی لیکن صدر ٹرمپ کی غیر متوقع انتخابی شکست اور عمران پراجیکٹ کی ناکامی کے باعث پاکستانی مقتدرہ اپنی راہ عمل متعین کرنے میں آزاد ہوتی گئی۔

بلا شبہ افغانستان، عراق اور شام کی جنگوں نے امریکی معیشت کو کمزور کر کے جنوبی ایشیا اور مڈل ایسٹ پر واشنگٹن کی گرفت ڈھیلی کر دی جس کے نتیجہ میں سعودی عرب اور ایران کے مابین تاریخی تضادات ختم اور یمن کی جنگ معدوم ہو گئی، پاکستان کے علاوہ مڈل ایسٹ بھی چین کے روڈ اینڈ بیلٹ انیشیئٹیو کا حصہ بنکر فرسودہ سرمایہ درانہ نظام کی گرفت سے باہر نکل کر تازہ دم چینیوں کی جدید معاشی سکیم سے منسلک ہو گیا۔ کیا امریکہ سیاسی مہرے پہ تکیہ کر کے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ڈھب پہ لا سکتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments