عرفان جاوید کا انٹرویو


ناپید ہوتی کتابوں کے ساتھ ہم بھی آہستہ آہستہ تحلیل ہو رہے ہیں
پاکستانی ادیب کو ہمارے معاشرے میں کم ہی مرکزیت حاصل رہی
اردو ناول کا مستقبل مضبوط ہے، البتہ افسانے اور خاکے کم زور نظر آتے ہیں
باکمال خاکہ نویس اور فکشن نگار، عرفان جاوید سے چند دل چسپ سوالات
انٹرویو نگار: اقبال خورشید

کتابیں ان کا عشق۔ اسی عشق نے لکھنے کی جوت جگائی۔ تخلیق کی خواہش کو مطالعے کی کمک ملی، تو عرفان جاوید کا قلم میدان ادب میں سرپٹ دوڑنے لگا۔ یوں بیش قیمت کتب کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جس نے اردو ادب کا دامن کچھ اور وسیع کر دیا۔

خاکے میری پڑھت کا موضوع نہیں، لیکن اگر یہ عرفان جاوید کے قلم سے نکلے ہوں، تو نامعلوم کی سمت کھلتے دروازے بن جاتے ہیں، سرخاب بن جاتے ہیں۔ عرفان جاوید کا پرقوت انداز بیاں، روانی اور جس کا خاکہ ہے، اس کی زندگی میں اترنے کی جستجو ان کے الفاظ کو پر عطا کرتی ہے، اور وہ آسمانوں کی سمت پرواز کرتے ہیں۔ جزئیات نگاری ان کی خاصیت۔ طوالت، جس سے سب بھاگتے ہیں، ان کے ہاں آرٹ کا درجہ حاصل کر جاتی ہے۔

عرفان جاوید کے خاکوں کی تینوں کتب میرے دل میں کھب گئی ہیں۔ مضامین کی کتاب ”عجائب خانہ“ ایک اور طلسم کدہ کے در وا کرتی ہے۔ خوب سے خوب تر جستجو نے انھیں اپنے افسانوی مجموعے کو ایک بار پھر ایڈٹ کرنے، موثر اور چست بنانے کی راہ سجھائی، تو کتاب ”کافی ہاؤس“ دس برس بعد پھر قارئین تک پہنچی۔ گزشتہ دونوں عرفان جاوید کے سامنے ہم نے کچھ سوالات رکھے، جن کے جوابات آپ سے بھی بانٹ لیتے ہیں۔

اقبال: آپ وقفے وقفے سے سوشل میڈیا سے دور ہو جاتے ہیں، اس کا کیا سبب ہے؟

عرفان جاوید: تخلیقی ادبی کام اور مطالعے میں یک سوئی کے لیے۔ اس کے پس منظر میں میری ایک کم زوری ہے کہ میں سوشل میڈیا پر اپنے آپ کو وقت کے غیر ضروری تصرف سے روک نہیں پاتا، سو مکمل طور پر اس سے کنارہ کر جاتا ہوں۔ علاوہ ازیں میں گزشتہ چھے سات برس سے ٹی وی سے بھی دور ہوں۔ کتابیں میری زندگی ہیں۔

اقبال: کتنی ہی شخصیات کو موضوع بنایا، جم کر خاکے لکھے، خود آپ کو انتخاب کرنا ہو، تو کن خاکوں کا کریں گے۔

عرفان جاوید: احمد ندیم قاسمی، اے حمید، تصدق سہیل، محمد عاصم بٹ، اسحاق نور اور بانسری بابا۔

اقبال: اپنی تازہ کتاب آدمی سے متعلق کچھ بتائیں، یہ بھی خاکوں کا مجموعہ ہے۔

عرفان جاوید: اس میں سوائے آصف فرخی صاحب کے، دیگر غیرمعروف یا کم معروف مگر غیر معمولی، انوکھے کردار ہیں۔ وہ لوگ جنھوں نے مجھے متوجہ کیا اور ان کی شخصیت کے انوٹھے رخوں کے باعث میں نے ان کے ساتھ وقت گزارا، ان کی صحبت میں رہا اور ان کے ان مٹ نشان میری یادداشت پر مرتب ہوئے۔

اقبال: عبداللہ حسین سے آپ کی دوستی رہی، ان سے متعلق کوئی یاد، جو آپ شیئر کرنا چاہیں؟

عرفان جاوید: میری عبداللہ حسین سے دوستی ہرگز نہ رہی، میں فقط ان کا پرستار ہوں۔ ان سے تعلق کے دوران ان کے دو قریبی دوست دیکھے، ایک ان کی بیٹی، دوسرے مستنصر حسین تارڑ صاحب۔ مذہب کی جانب ان کا رجحان قابل رشک نہ تھا اور خواب و اسرار کو وہ انسانی تحت الشعور کی خامہ فرسائی اور وہم سمجھتے تھے۔ وفات سے چند روز پہلے انھوں نے اپنا ایک خواب سنایا، وہ متذبذب، حیران اور بھیگے لہجے میں بولے : ”کل رات میں نے ایک خواب دیکھا۔ خواب میں میں نے سمندری چٹان پر تین سی گل (سمندری بگلے ) دیکھے۔ ان پاکیزہ پرندوں کے سفید بدن اور پروں سے نور پھوٹ رہا تھا۔ ان میں ایک جانب کے پرندے نے درمیان کے پرندے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’یہ تمھاری ماں ہے‘ میں نے درمیانی پرندے کو بغور دیکھا۔ اس نے مجھے پیار سے اپنے پروں میں لے لیا، جہاں مجھے بے پناہ شفقت اور محبت محسوس ہوئی۔“ اگلے روز میں نے یہ خواب آصف فرخی کو سنایا اور ہم دونوں اداس اور افسردہ ہو گئے۔

ہوتے بھی کیوں نہ۔ عبداللہ حسین صرف چھ ماہ کے تھے، جب ان کی ماں فوت ہو گئی تھیں۔ ماں کی کمی کا احساس اور مامتا کے لیے تڑپ ننھے محمد خان (عبداللہ حسین) کی عمر بھر کی ساتھی رہی۔ انھوں نے یہ کمی اپنے باپ میں پوری کی۔ دونوں گجرات کے قریب کھیتوں، جنگلوں، دریا کنارے بیلے میں نکل جاتے، لمبی سیریں کرتے، پرندے تکتے اور شکار کرتے۔ جب عبداللہ حسین کی عمر بائیس چوبیس برس کی تھی، تو والد کا بھی انتقال ہو گیا۔ حساس اور تنہا عبداللہ حسین کو باپ کی موت گویا کھا ہی گئی۔ پس وہ گوشہ نشین ہو کر نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہو گئے۔ وہ نروس بریک ڈاؤن سے تو نکل آئے لیکن گوشہ نشینی اور تنہائی ان کے عمر بھر کے رفیق رہے۔ اس تنہائی میں ان کی رغبت ادب کی جانب بڑھی، مطالعہ ادراک کا دروازہ بھی تھا اور فرار کا رستہ بھی۔

اقبال: اردو ادب کا کیا مستقبل دکھائی دے رہا ہے، بالخصوص اردو فکشن کا ؟

عرفان جاوید: اردو ناول کا مستقبل مضبوط ہے۔ اس صدی میں اچھے ناول سامنے آئے ہیں۔ البتہ افسانے اور خاکے کم زور نظر آتے ہیں۔ نئے تجربے اور مختلف ذائقے کے نام پر کسی بھی تحریر کو ناول نہیں کہا جاسکتا۔ علاوہ ازیں ماضی قریب میں جو فکشن مجھے پڑھنے کا موقع ملا اس نے اس احساس کو دو چند کیا کہ ہمارے پبلشرز کو قابل ایڈیٹرز کی معاونت کی ازحد ضرورت ہے، جو کسی بھی مسودے کو حتمی شکل دیتے وقت مصنف کے ساتھ مل کر کام کریں۔ اعلیٰ بین الاقوامی ادب کے مقابل اور اس کے موازنے میں، چند استثنیات کو چھوڑ کر ہمارے ادب کو بہتر ہونے کی ضرورت ہے۔

اقبال: کہتے ہیں، ادیب پاکستانی معاشرے میں اپنی مرکزیت کھو چکے ہیں، کیا یہ درست ہے؟

عرفان جاوید: پاکستانی ادیب کو ہمارے معاشرے میں کم ہی مرکزیت حاصل رہی، فیض احمد فیض، حبیب جالب، نسیم حجازی، اشفاق احمد اور اس قبیل کے چند ادیبوں نے ذاتی حیثیت میں سماج کے چند مخصوص حلقوں پر اثر چھوڑا البتہ اگر یہ کہا جائے کہ ادیبوں نے اجتماعی طور پر کوئی اثر مرتب کیا، فعال کردار ادا کیا، عوامی مفاد میں یا فکری طور پر کوئی قابل ذکر اور موثر تحریک چلائی، ایسا سمجھنا درست نہیں۔

اقبال: آپ مسند اقتدار پر آپ برا جمان ہوں، تو فروغ ادب کے لیے کیا اولین اقدام کریں گے؟

عرفان جاوید: ابتدائی جماعتوں سے ادب کی کتابوں کو نصاب کا لازمی حصہ بنا دوں۔ میں نے احمد ندیم قاسمی، انتظار حسین، غلام عباس، علی عباس حسینی، پطرس بخاری وغیرہ کو ابتدائی طور پر اپنے نصاب کی کتابوں ہی سے جانا۔ علاوہ ازیں زبان و ادب سے منسلک بے شمار غیر فعال اداروں کے بجائے چند اداروں کو مضبوط کروں اور ان کی حقیقی کارکردگی جانچنے کے لیے بین الاقوامی آڈیٹرز سے روابط قائم کروں۔ مثال کے طور پر لاہور کو ایک ادبی شہر قرار دیا گیا ہے، اسے یہ خطاب قائم رکھنے کے لیے بہت سے اقدامات اٹھانا پڑیں گے اور متعلقہ بین الاقوامی اداروں کو اپنے ٹھوس اقدامات سے مطمئن کرنا پڑے گا، وگرنہ یہ خطاب اس سے لے لیا جائے گا جو باعث شرمندگی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ادب کی ترقی و ترویج کے اداروں کی حقیقی بامعنی کارکردگی کو تیسرا غیر جانب دار فریق ہی جانچ سکتا ہے۔

اقبال خورشید: غالب، اقبال، فیض، جون؛ اکیسویں صدی میں کس شاعر کو ، اس کے موضوعات متعلقہ پاتے ہیں؟

عرفان جاوید: غالب، اقبال، ن م راشد، مجید امجد اور منیر نیازی، میرے لیے شاعری میں یہ پانچ نام سب سے اہم ہیں۔ جدید زمانے سے متعلقہ کی بات کی جائے، تو غالب اور منیر نیازی۔ جو آفاقی یا بنیادی انسانی سرشت سے سروکار رکھنے والے موضوعات پر خامہ فرسائی کرتا ہے وہ گویا ہر زمانے کا ادیب ٹھہرتا ہے، بھلے وہ شیکسپیئر، امیر خسرو یا غالب ؔ ہو۔

اقبال: کوئی فکشن نگار، جسے پڑھ کر تقلید کی خواہش پیدا ہوئی ہو؟

عمران جاوید:اردو میں قرۃ العین حیدر، غلام عباس، منٹو، اے حمید اور مستنصر حسین تارڑ صاحب کے چند ادب پارے، بین الاقوامی سطح پر سمر سیٹ ماہم، ہرمن ہیسے، گیبرئیل گارشیا مارکیز، میلان کنڈیرا، ماریو برگیس یوسا، ریمنڈ کا روور، جو لیان بازنر، جھمپالاہری، خالدحسینی اور ایلس منرو۔

اقبال: کیا ایسی صبح کا تصور کر سکتے ہیں، جب بیدار ہوں، اور خبر ملے کہ کتابیں ناپید ہو چکی ہیں؟

عرفان جاوید: جی، میں ہر صبح اٹھتا ہوں اور خبر سنتا ہوں کہ پاکستان میں ادب کی کتابیں قریباً ناپید ہو گئی ہیں، کروڑوں آبادی میں بیسٹ سیلر کا چند ہزار کی تعداد میں بکنا ناپید ہونے کے مترادف ہی تو ٹھہرا۔ سو جب ہمارے ہاں کتابیں ناپید ہو رہی ہیں، تو ان ناپید ہوتی کتابوں کے ساتھ ساتھ ہم بھی تو آہستہ آہستہ تحلیل ہو رہے ہیں، ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔

اقبال: لکھنے کا ڈھب کیا ہے؟ صبح لکھتے ہیں یا شام، قلم کاغذ برتتے ہیں یا کمپیوٹر کی اسکرین؟

عرفان جاوید: رات کا وقت موزوں ترین ہے، کاغذ قلم کو برتتا ہوں، زیادہ خیال چہل قدمی یا سفر کے دوران آتے ہیں، سو انھیں نوٹ کر لیتا ہوں۔ اہم ملاقاتوں، مشاہدات، تجربات یا خیالات کو ڈائری پر باقاعدگی سے نوٹ کرتا رہتا ہوں۔

اقبال: آپ خاکہ تحریر کرتے ہیں، خود خاکہ نگاروں نے متاثر کیا؟

عرفان جاوید: سعادت حسین منٹو، اے حمید، احمد ندیم قاسمی، احمد بشیر، نیلم احمد بشیر، جاوید صدیقی اور حال ہی میں اصغر ندیم سید کے بھی چند عمدہ خاکے سامنے آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).