’کنڈوم‘ کی رنگ ٹون اور لطیفے، جو انڈیا کی گلی گلی میں پھیل گئے


انڈیا خاندانی منصوبہ بندی

آپ لاکھوں لوگوں کو بچوں کی پیدائش میں وقفے یعنی فیملی پلاننگ کے بارے میں کیسے سکھا سکتے ہیں۔ آپ انھیں معاشرتی ججھک سے آزاد کروا کر اس وقت تک کنڈوم کا لفظ بار بار کہنے پر مجبور کریں جب تک کہ اس کے استعمال میں کسی بھی قسم کی شرمندگی یا بدنامی کا احساس ختم نہ ہو جائے۔

شاید یہ سننے میں کچھ نامناسب لگے لیکن کچھ ایسا ہی 18 برس قبل اشتہارات لکھنے والے انند سسپی اور ان کی ٹیم نے کیا تھا جب انھوں نے ایک ’کنڈوم بنداس بول‘ یعنی کنڈوم کھل کر بول نامی اشتہاری مہم کو انڈیا میں متعارف کروایا تھا۔

سنہ 2006 میں عوامی آگاہی کی یہ مہم انڈین حکومت کے تعاون سے شروع کی گئی تھی تاکہ شمالی انڈیا کی آٹھ ریاستوں میں کنڈوم کی فروخت اور استعمال کو بڑھایا جا سکے۔

اس آگاہی مہم میں مزاحیہ منظرنامے پیش کیے گئے جہاں ایک شرمیلا آدمی، ایک گندے پولیس سٹیشن میں ساتھی اہلکاروں کے درمیان پھنسے پولیس اہلکار سے لے کر، عدالت کے باہر مردوں میں گھرے ہوئے ایک بدمزاج وکیل تک کو دیگر ساتھیوں کی جانب سے عوامی سطح پر بلند آواز اور واضح طور پر کنڈوم کہنے کی ترغیب دی جاتی۔

اس اشتہاری مہم میں ’بول بنداس بول‘ یعنی کھل کر بولنے کا کہا جاتا جب تک وہ آزادانہ طور پر کنڈوم کا لفظ نہ کہہ دیتا۔

یہ اشتہار جو نہ صرف وائرل ہوا بلکہ اس نے اقوام متحدہ کا ایوارڈ بھی جیتا، انڈیا میں فیملی پلاننگ یعنی خاندانی منصوبہ بندی کی مہم کے حصے کے طور پر تھا جس میں مزاحیہ جملے استعمال کرتے ہوئے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے پر زور دیا گیا تھا اور صحت مند جسمانی تعلقات قائم کرنے کی ترغیب دی گئی تھی۔

انڈیا

انڈیا میں 1950 کی دہائی میں یہ نعرے پہلی بار اس وقت گونجے جب ملک میں خاندانی منصوبہ بندی کے لیے ایک نیا محکمہ متعارف کروایا گیا جو کہ دنیا میں پہلا خاندانی منصوبہ بندی کا محکمہ تھا اور اس نے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو کم کرنے کے لیے نس بندی سمیت مانع حمل کے طریقوں کے استعمال کو فروغ دینا شروع کیا۔

فیملی پلاننگ کو فروغ دینے کے لیے ’ہم دو ہمارے دو‘ اور ’چھوٹا پریوار سکھی پریوار‘ جیسے توجہ مبذول کروانے والے جملوں پر مبنی اشتہارات ٹی وی اور ریڈیو پروگراموں پر نہ صرف نشر کیے گئے بلکہ اس حوالے سے اشتہاری پوسٹرز سمیت ہر ممکنہ ذریعے سے اس پیغام کو پھیلایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان پیغامات کو ملک کے دور دراز علاقوں میں پہنچانے کے لیے ہاتھیوں تک کو استعمال کیا گیا۔

اس وقت سے لے کر اب تک یہی مہم انڈیا میں خاندانی منصوبہ بندی کی تعریف کے مترادف بن چکی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ فیملی پلاننگ کے موضوعات پر بات کرنا اب بھی ملک کے دور دراز حصوں میں ممنوع سمجھا جاتا ہے اس لیے انھوں نے مانع حمل اور پیدائش میں وقفے جیسے حساس موضوع کے لیے ایک نئی لغت تیار کرنے میں بھی مدد کی ہے تاکہ اس پر کھل کر بات کی جا سکے۔

اس حوالے سے سسپی کہتے ہیں کہ ’مرد ہر جگہ گندے لطیفے سناتے ہیں اور ان پر ہنستے ہیں لیکن جب کنڈوم کا لفظ بولا جائے تو وہ شرمندہ ہو جاتے ہیں۔‘

انڈیا

تحقیق سے یہ بھی بات سامنے آئی ہے کہ انڈیا میں مرد جھجھک اور شرم کے باعث اپنے سیکس پارٹنر کے ساتھ محفوظ جنسی طریقوں کے بارے میں بات کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔

صحت عامہ کے شعبے میں ماہر سشواتی بنرجی نے خاندانی منصوبہ بندی کی مہم میں کافی کام کیا ہے۔ سشواتی بنرجی کہتی ہیں ’بنداس بول کے پیچھے موجود خیال بہت آسان تھا کہ مرد بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کنڈوم مانگ سکیں کیونکہ کنڈوم ایک بُرا لفظ سمجھا جاتا ہے جسے اشاروں میں اور سات پردوں میں کہا جاتا ہے لیکن کنڈوم استعمال کیا جاتا ہے اور سب کو اسے استعمال کرنا چاہیے۔‘

اس کام کو انجام دینے کے لیے ان کی ٹیم نے ادویات فروخت کرنے والوں اور مارکیٹرز کے ساتھ 40 ہزار سے ذیادہ کنڈومز مارکیٹ میں لانے کی شراکت داری کی تاکہ مانع حمل طریقوں کو بڑھایا جا سکے تاکہ کنڈوم کو بآسانی استعمال کرنے کی جانب مردوں کا رجحان بڑھ سکے۔

سسپی کہتے ہیں کہ ’لیکن یہ آگاہی دینے میں جو سب سے زیادہ طریقہ کارگر ثابت ہو وہ پرانی مزاح کا طریقہ تھا جس پر پہلے آپ انھیں اچھی طرح ہنساتے ہیں اور پھر اس میں پیغام دیتے ہیں۔‘

اگرچہ سرکاری اور نجی تنظیموں نے اس بارے میں اشتہاری مہم پر بہت زیادہ وقت اور پیسہ لگایا کیا لیکن وہ سب کامیاب نہیں ہوئیں بلکہ کچھ کا تو ردعمل بھی آیا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق بہت سارے پروگرام اس لیے بھی غیر مؤثر تھے کیونکہ وہ تقریباً مکمل طور پر خواتین پر مرکوز تھے اور مردوں کو اس سے باہر رکھتے تھے۔

انڈیا

بی بی سی میڈیا ایکشن کی نیشنل کریٹیو ڈائریکٹر اور ایگزیکٹیو پروڈیوسر رادھرانی مترا کہتی ہیں کہ ’اس زمانے میں جب مانع حمل ادویات کے انتخاب کی بات آتی تھی تو خواتین کے پاس اس کے استعمال سے متعلق بتانے کے لیے کوئی ادارہ موجود نہیں تھا۔‘

یوں خواتین نے مانع حمل کا سارا بوجھ برداشت کرنا شروع کر دیا لیکن مرد، جو حقیقت میں زیادہ تر گھروں میں فیصلہ سازی کرتے ہیں، خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں سے بے خبر اور ان کے خلاف رہے۔

یہ رجحان آج بھی جاری ہے۔ سنہ 2019 اور 2021 کے درمیان، پانچویں نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 38 فیصد خواتین نس بندی سے گزر چکی تھیں جبکہ اس کے مقابلے میں صرف 0.3 فیصد مردوں نے نس بندی کرائی تھی۔

صحت عامہ کے ماہر آنند سنہا کا کہنا ہے کہ ’نعرے روایتی مشاورت اور مجموعی سماجی ترقی کی ضرورت کی جگہ نہیں لے سکتے‘ لیکن ان نعروں اور اشتہارات نے سماجی اصولوں کو تبدیل کرنے اور ایک مثبت رحجان پیدا کرنے میں مدد ضرور کی۔

سنہ 1975 کی ایمرجنسی کے دوران، جب شہری آزادیوں کو معطل کر دیا گیا تھا انڈیا کی خاندانی منصوبہ بندی کی مہم کو دھچکہ لگا تھا۔

اس دوران حکومت نے لاکھوں خواتین، مردوں اور یہاں تک کہ بچوں کو نس بندی کروانے پر مجبور کیا۔ سنہا کہتے ہیں کہ ’ان اقدامات نے مہم کو ایک برا نام دیا اور اچانک لوگ مانع حمل کے تصور سے خوفزدہ ہو گئے۔‘

اس کے بعد کئی سال تک سب سے بڑا چیلنج خاندانی منصوبہ بندی کا دوبارہ تصور کرنا اور اسے ایک ’زیادہ قابل قبول بنانا اور دوستانہ چہرہ‘ دینا تھا۔

اس وقت کے آس پاس کنڈوم فروخت کرنے والی نجی شعبے کی کمپنوں نے نوجوان جوڑوں کو مانع حمل ادویات فروخت کرنے کے لیے مزید تخلیقی طریقے تلاش کرنا شروع کر دیے۔ جس کے نتیجے میں آگاہی مہم اور اشتہارات جنسی طور پر زیادہ پرکشش اور عوامی بن گئے۔

انڈیا

مترا کہتی ہیں کہ مانع حمل طریقوں کی ایک نئی اور بڑی مارکیٹنگ 1980 کی دہائی کے آخر سے شروع ہوئی جب مغرب میں ایچ آئی وی یا ایڈز ایک بہت بڑا خطرہ بن کر سامنے آیا۔ جس سے انڈیا جیسے گنجان آباد ملک میں اس کے پھیلنے کا خدشہ پیدا ہوا۔

’سیکس سے متعلق عوامی سطح پر زیادہ بات کی جانے لگی اور کنڈوم سے متعلق سماجی آگاہی کی مہم زیادہ عام ہو گئیں‘

ان میں سب سے یادگار 2008 میں کنڈوم سے متعلق رنگ ٹون تھی، جو ’کنڈوم کو عام کرنے کی‘ مہم کا حصہ تھا۔

بی بی سی میڈیا ایکشن کی قیادت میں اور بل گیٹس اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی مالی اعانت کے ذریعے چلنے والی یہ مہم انڈیا میں ایچ آئی وی کی روک تھام کے لیے محفوظ جنسی تعلقات کے بڑے پروگرام کا حصہ تھی۔

اس مہم کے لیے ایک موبائل رنگ ٹون کا استعمال کیا گیا تھا جس میں لفظ ’کنڈوم‘ کو ایک اچھی دھن کے انداز میں بار بار دہرایا گیا تھا۔ اس مہم میں ایک مضحکہ خیز ویڈیو بھی پیش کی گئی جس میں ایک انڈین شخص کو دکھایا گیا جو شادی کی تقریب میں کنڈوم کی رنگ ٹون کے ساتھ فون بجنے پر شرمندہ ہو جاتا ہے۔

مترا کہتی ہیں کہ یہ رنگ ٹون وائرل ہوئی اور اسے تقریباً چار لاکھ 80 ہزار افراد نے ڈاؤن لوڈ کیا۔ بیرون ملک مقیم انڈینز کے ذریعے اسے امریکہ سے لے کر جاپان اور انڈونیشیا، جنوبی امریکہ اور یہاں تک کہ یورپ میں بھی موبائل فونز پر چلایا گیا۔

’اس مہم کا پوری دنیا میں چرچا ہوا اور شہ سرخیاں بنیں، ہر جگہ اس مہم نے ایوارڈز جیتے مگر اس کا انڈین معاشرے پر حقیقی اثر ہوا، جو سب سے اہم ہے۔‘

بنرجی کہتی ہیں کہ رویے میں تبدیلی ایک بڑی پہیلی کی طرح ہے، ’آپ پزل کے تمام ٹکڑوں کو ایک ساتھ رکھتے ہیں، اور پھر ایک تصویر بنتی ہے اور کبھی کبھی صرف بات چیت شروع کرنے سے رویوں کو تبدیل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32509 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments