سنانے لگی ہوں چائے ڈے کی یہ داستان عشق


لو بھئی اب یہ دن منانے کی روایات تو خوب ہی پیر پسارتی جا رہی ہے۔ لیبر ڈے، ماں، باپ، عورت اور اب خیر سے چائے ڈے کا نیا اور جی جان جیسا پیارا شوشہ شروع ہو گیا ہے۔ ”ہائے چائے“ ۔ سچی بڑی ہی دلچسپ اور حسین یادیں اس سانولی سانولی محبوبہ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اب پڑھیے۔

بچپن چائے کے حوالے سے ہرگز ہرگز خوشگوار نہ تھا۔ بلکہ اگر سچ کہوں تو کئی حوالوں سے بڑا باغیانہ سا تھا۔ وہ تفصیل پھر کبھی سہی۔ ہاں جالندھر کے مضافاتی قصبے سے اٹھ کر آنے والیاں ماں، پھوپھیاں، چچیاں، ماسیاں تقسیم کے بعد جب لاہور آ کر ایک بڑے سے حویلی نما گھر میں مشترکہ طور پر رہنے لگیں تو طرز زندگی کا جو تضاد میرے سامنے آیا تھا ان میں پہلی بسم اللہ تو چائے کی ہی تھی۔ ننہال تعلیمی اعتبار سے زیادہ امیر جب کہ ددھیال پیسے کے اعتبار سے بہتر تھا۔ درمیان میں چوں کہ قریبی رشتہ داریاں تھیں اسی لیے شادی بیاہ کرتے ہوئے میرے بگڑے ہوئے لاڈلے والد کے ان پڑھ رہ جانے کا بھی خیال نہ کیا گیا۔ نئے دیس میں ماموں لوگ اونچی کرسیوں پر جا بیٹھے جب کہ والد کے مقدر میں مزدوریاں رہ گئیں۔

تو ذکر ہے دسمبر 1949 یا غالباً 1950 کا ۔ عمر یہی کوئی پانچ چھ سال ہوگی۔ یخ بستہ سی اس صبح میں نے دیکھا ایک خوبصورت گورا چٹا لڑکا ایک بڑی سی ٹرے میں کچھ برتن رکھے کچن سے نکل کر بڑے ماموں کے کمرے میں داخل ہوا۔ مجھے اپنی والدہ کے ساتھ اس بڑے گھر میں آئے ہوئے ابھی چھ ماہ ہوئے تھے۔ دراصل ہمارے والد بٹوارے کے وقت ہندوستان کے شہر کانپور میں ہی رہ گئے تھے۔ ہمیں ابھی تک پتہ نہ چلا تھا کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ درمیانی وقت دادی کے پاس سمندری گزرا تھا۔ پھر ماموؤں کے کہنے پر ہمیں لاہور بلایا گیا کہ کچھ ہماری پڑھائی لکھائی کا بندوبست ہو۔ بڑے ماموں گلگت ایجنسی میں تھے اور ابھی دو دن پہلے چھٹیوں پر لاہور آئے تھے۔

تو دوسری منزل کی انگنائی میں لوہے کی سلاخوں والے جنگلے پر بیٹھی میں نے لڑکے کو کچن سے نکلتے اور پھر واپس ٹرے لاتے دیکھا تھا۔ میں اپنی جگہ سے اٹھ کر کچن میں گئی اور ٹرے میں رکھی چیزوں کو حیرت سے دیکھنے لگی۔ لڑکا کچھ گلابی اردو بولتا تھا۔ اور میری تو ایسی بھی نہ تھی۔ ٹی کوزی کا پتہ چلا۔ چائے دانی کو دیکھا۔ ڈھکن اٹھایا۔ ایک عجیب سی مسحور کن خوشبو نتھنوں سے لپٹی۔ کپ دیکھے۔ دودھ دان اور چینی دان سبھوں سے تھوڑی بہت شناسائی اگر ہوئی تو حیرتوں میں بھی گھری کہ میری دادی اور ماں نے اگر کبھی ہم بہن بھائی کے نزلے، زکام یا بخار ہونے پر ہمیں چائے دی بھی تو وہ سستی چینی کی پیالی میں ہوتی اور سلور کی دیگچی میں جوش پر جوش دے کر پکائی جاتی جسے ہم سڑک سڑک کر پیتے۔

چائے کی اس انداز میں روزانہ پیشکش میرے قلب و جگر میں حشر سا برپا کرتی سوال پر سوال ذہن میں اٹھتے کیونکہ بڑے ماموں جاتے تو چھوٹے ماموں آ جاتے۔ وہ ایر فورس میں تھے۔ ان کے ساتھ نوکر نہ ہوتا پر ان کی بیگم اسی طرح انہیں بیڈ ٹی دیتی۔

ذرا بڑا ہونے پر اماں نے بھینس رکھ کر دودھ دہی لسی مکھن پر ایسا لگایا کہ چائے سے کچھ خاص رغبت ہی نہ رہی۔

یہ 1969 ء کا زمانہ تھا اور میں ڈھاکہ یونیورسٹی کی طالبہ۔ رقیہ ہال میں رہتی تھی اور ناشتے میں کبھی کبھار ہی چائے لیتی۔ ناشتہ ہمیں ہال سے نہیں ملتا تھا ہمارا ذاتی انتظام ہوتا۔ جس دن موڈ ہو تا کینٹین پر جا کر پی لیتی۔ ابھی قہوے کی پاگل کر دینے والی خوشبو نے فریفتہ نہیں کیا تھا۔ ہاں پر وقت تو آ گیا۔

فسٹ سمیسٹر سے فارغ ہوتے ہی ہم چند لڑکیوں نے چٹاگانگ، رانگامتی اور کاکس بازار کا پروگرام بنایا۔ جن کی گاڑی میں جانے کا پروگرام بنا وہ اداکار ندیم کے خالو سسر تھے۔ فلم ساز و ہدایت کار احتشام اور مستفیض کی بیویوں کی تیسری بہن کے شوہر جو ہماری ایک دوست کے گہرے فیملی فرینڈ تھے۔ وہ اپنے کسی کام کے سلسلے میں چٹاگانگ جا رہے تھے۔ ہما رے دوست کی درخواست پر ہمیں اپنے ساتھ لے جانے پر تیار ہو گئے۔ جانے سے پہلے انہوں نے ایک چینی ریستوران میں ملنے کا پروگرام بنایا۔ آج کل کی طرح ان دنوں ہوٹلوں اور ریستورانوں میں جانے کا کہاں رواج تھا۔ بلکہ ہم نچلے متوسط طبقے کی لڑکیوں کے حسابوں تو بڑی معیوب بات سمجھی جاتی تھی۔

اب چینی ریستوران کا خواب ناک سا ماحول، اوپر سے باوردی بیرے نے نیپکن اور بہترین کٹلری سے سجی ٹرے لا کر میز پر رکھ دی۔ میرا بچپن جیسے چھلانگیں مارتا میرے سامنے آ گیا تھا ٹرے میں اگر کسی چیز کی کمی نظر آئی تو وہ ٹی کوزی تھی۔ ٹی پوٹ کا ڈھکن ہمارے میزبان نے اٹھایا اور ایک مدہوش کن خوشبو فضا میں بکھر گئی۔ ایک چمچ چینی کا انہوں نے ڈال کر ڈھکن دوبارہ چائے دانی پر رکھ دیا اور میری طرف دیکھتے ہوئے بولے۔

” چائے تو یہ لڑکی بنائے گی۔“

میرے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ مجھ جیسی غریب کی بچی اپنی محنت کے بل بوتے پر اگر یہاں آ بیٹھی ہے تو وہ یہ کب جانتی ہے کہ کپوں میں کون سی چیز پہلے ڈالنی ہے۔ اور کون سی چیز اس کے بعد ۔ نہیں بھئی نہیں۔ مجھے اس اتنے ارسٹوکریٹک سے ماحول میں خود کو ہر گز ہرگز نیکو نہیں بنانا۔ سو میں نے اطمینان سے سب کو دیکھا اور کہا۔

”مجھے نہیں بنانی“ ۔
”کیوں“ ایک حیرت بھرا استفسار ہوا۔
”بھئی مجھے تو بنانی ہی نہیں آتی۔“
”لو اس میں کون سے منتر پڑھنے ہیں۔ ہماری دوست صبیحہ نے کہتے ہوئے ٹرے کو اپنی طرف کیا۔

مگر میزبان نے خود چائے بنائی۔ سچی بات ہے یہ پہلا دن تھا جب مجھے چائے سے محبت محسوس ہوئی۔ میں کچھ کچھ شرمسار بھی تھی مگر کیا ہی سرور تھا جو میرے رگ و ریشے میں حلول ہو رہا تھا۔

لیجیے اب چلتے ہیں ایک اور یاد کو تازہ کرنے۔

یہ سرماٹی گارڈنز ہیں ہم چند ویسٹ پاکستانی طلبہ سلہٹ میں چائے کے باغات دیکھنے آئے ہیں۔ یہاں کا جنرل مینجر نواب سر سلیم اللہ کا حقیقی بھانجا اور ہماری کلاس فیلو الماس کا شوہر ہے۔ زندگی کا یہ حسین سفر کس قدر من موہ لینے والی یادوں سے بھرا ہوا ہے۔ برہمن باڑیہ تک کے سفر میں میری آنکھیں جیسے پلکیں جھپکنا بھول گئی تھیں۔ انناس اور کیلوں کے جھنڈ، تاڑ، ناریل اور سپاری کے قد آور درختوں میں گھری باشاہیں جو بیلوں سے ڈھنپی نظر آتی تھیں۔ شہر میں سے گزرتے ہوئے نظریں میجر طفیل شہید (نشان حیدر) کی یاد گار پر پر پڑیں۔ رکے اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ دل کی گہرائیوں سے صدا نکلی ”تیری عظمت کو سلام جس مقصد کے لیے تو نے اپنی جان قربان کی خدایا اس پر کبھی نہ آنچ آئے۔“

سرماٹی گارڈن کا وہ بنگلہ جو حد نظر پھیلے چائے کے پودوں میں گھرا ہوا کس قدر رومانوی سے تاثر کا حامل تھا۔ شام کی چائے کے لیے جب برآمدے میں آئے تو قرۃ العین حیدر کے افسانے سامنے تھے۔ اف وہی ماحول، سرخ روغنی گملوں میں پام کے بوٹے، چمکتے فرش، ان پر بیٹھے کتے اور سامنے پستہ قامت پہاڑیوں پر سبز پودوں کا سمندر۔

خادم چائے لے کر آئے۔ ٹی کوزیوں سے ڈھنپی چائے دانیاں اور بہترین کٹلری۔ خدا گواہ تھا چائے تھی یا آب حیات تھا وضاحت کرنی ممکن نہیں۔

ایسے خوبصورت اور پرتعیش لمحات جب بندے کو بے اختیار ہی زندگی سے بے حد پیار محسوس ہوتا ہے۔

چائے سے محبت، اسے اس انداز میں بنانا، اس کا اہتمام کرنا اور پھر اسے سکون سے چاہتوں کے ساتھ پینا سب میں نے مشرقی پاکستان قیام کے دوران سیکھا۔ مغربی پاکستان واپس آتے ہوئے بہت سارے المیوں اور دکھوں کے ساتھ اس محبت کو بھی اپنے ہمراہ لے آئی۔

مگر اس محبت کے ذائقے کے منہ میں روڑ آ گئے تھے کہ جب اپنے گھر میں اسے بنانے کی کوشش کی کہ قہوے میں لکڑیوں کا دھواں گھل کر اسے بد ذائقہ کر گیا۔ دراصل اس وقت لاہور کے صدر بازار کے ہمارے گھر میں ابھی گیس نہیں آئی تھی۔

یہاں پھر ایک یاد گھیرے ہوئے ہے۔ یہ صاحب طرز ادیبہ اور گنگا جمنی تہذیب کی نمائندہ ہماری پیاری الطاف فاطمہ سے ملنے ان کے گھر جانے کی ہے۔ وہ ان دنوں لارنس روڈ پر واقع ایک ایسے گھر میں رہ رہی تھیں جو بذات خود کلاسیک طرز تعمیر کے زمرے میں آتا ہے۔ بڑے بڑے لانوں، اونچی چھتوں اور گول برآمدوں والا یہ گھر جہاں ہمارے گھر کی طرح بہت سارے رشتہ دار رہتے تھے۔ وہ عقبی گول برآمدے کے فرش پر قالین ڈالے اطراف میں گول تکیے رکھے اپنا رائٹنگ روم بنائے ہوئے تھیں۔

میں نے ”دستک نہ دو “ پر باتیں کیں۔ ان کی بہن نشاط فاطمہ کی مشرقی پاکستان کے پس منظر میں لکھے جانے والے ناول ”آنسو جو بہہ نہ سکے“ کو سراہا۔ ان کے نئے ناول بارے جانا جس پر وہ کام کر رہی تھیں۔ اسی دوران ملازمہ چائے کی ٹرے لے کر آئی۔ دستی کڑھائی سے مزین ٹی کوزی سے ڈھنپی چھوٹی سی چینک، دودھ دان، چینی دان، دو کپ، چھوٹے چمچ اور پلیٹ میں دھرے چند بسکٹ۔ چیزیں کس طریقے سلیقے سے سجی تھیں۔ انہوں نے چائے بنائی۔ لطف آ گیا۔ سلہٹ اور ڈھاکہ کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ سچی بات ہے ان گھروں میں چائے پینے کے بھی آداب تھے۔

اور یہاں اس آخری ملاقات کا ذکر بھی کرنا ضروری سمجھتی ہوں جب ان کی ایک آنکھ کی بینائی جاتی رہی تھی اور دوسری آنکھ سے بھی کم دکھتا تھا۔ بڑھاپا انہیں گھیرے بیٹھا تھا۔ لارنس روڈ والے گھر سے وہ حبیب اللہ روڈ کی کنج گلی میں اپنے ذاتی گھر میں منتقل ہو گئی تھی۔ وہ کتابوں کی باتیں کرتی تھیں۔ سابق مشرقی پاکستان، فلسطین اور کشمیر کے المیوں کے ذکر سے ان کے اندر کا دکھ باہر آتا تھا۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے جب وہ چائے لے کر آئی۔

ٹرے اسی انداز میں سجی تھی۔ یہ اور بات تھی کہ انہیں برتنوں پر پڑی ہلکی سی گرد کا پتہ نہیں چلا تھا۔ ٹپ ٹپ میرے آنسو بہہ نکلے تھے۔ اسی اصرار اور چاہت سے انہوں نے چائے پلائی۔ میں نے خود کو قہوے کی اسی مسحورکن خوشبو کے ہالے میں گھرا پایا۔ چائے کے ساتھ میرا اصلی عشق شادی کے بعد شروع ہوا۔ کتابوں سے عشق تو خیر بچپن سے ہی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔ سیر سپاٹے کی بھی رسیا تھی۔ مگر ابھی حالات اس شوق کی راہ میں حائل تھے۔

ازدواجی زندگی کی عمارت کی بنیادیں ابھی بھر رہی تھی۔ ہاں البتہ اب اس نئے عشق کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا تھا۔ اس میں نئے نئے تجربات کرنا بھی دلچسپ لگتا۔ مختلف برانڈ کی چائے اکٹھی کرتی، ان کی کاک ٹیل بناتی۔ گیارہ بجے میرا ٹی ٹائم۔ ٹرالی بہت اہتمام سے سجاتی۔ بڑی خوبصورت ٹی کو زیاں اکٹھی کرلی تھیں۔ باقاعدہ چائے دانی کو ٹی کوزی سے ڈھانپتی۔ کپ، چمچ، پونی طریقے سلیقے سے سجاتی اور پھر صوفے یا پلنگ پر بیٹھ کر سامنے کھڑکی سے گھر کے لان کو دیکھتے ہوئے اسے پیتی۔ ہر ہر لمحہ میرے لیے جیسے مجھے ایک نئے جہان کی سیر کرواتا۔

اسفار کا آغاز گھر یعنی اپنے ملک سے شروع کیا۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات جس کے پھلوں اور سوغاتوں کی میں نمک خوار تھی۔ جولائی 1985 کی ایک صبح میں ”ڈیلی مسلم“ اسلام آباد کے نمائندے اکبر حسین اکبر کے گھر وادی نلت میں موجود تھی جو وادی ہنزہ کے بالمقابل نگر کی ہی ایک خوبصورت وادی ہے۔ یہ نکہت و نور میں ڈوبی ہوئی ایک دل آویز سی سحر تھی۔ صبح صادق کا اجالا ابھی پھیلا ہی تھا جب میں چھت پر چڑھ گئی تھی اور اس وقت کائناتی حسن کے عشق میں پورم پور غرق تھی۔

ہمارے نصیب میں شیشے جیسی چمکتی ایسی صبحیں بھلا کہاں تھیں؟ ہواؤں میں پھلوں اور پھولوں کی رسیلی باس گھلی ہوئی تھی۔ درختوں کی ہریالی اور طراوت دل کو سکون اور طمانیت بخشتی تھی۔ میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس ہریالی کو جذب کرنا چاہتی تھی کہ شاید آنکھوں کا گدلا پن دور ہو جائے۔ ناک اور منہ کھول کر ہواؤں کو اپنے اندر گھسیڑ رہی تھی کہ پھیپھڑوں میں جمی غلاظتیں خارج ہو جائیں۔

جب قہوے کی مسحور کن خوشبو میرے نتھنوں میں گھسی۔
”اے کاش اس وقت مجھے چائے کا ایک کپ مل سکتا“ ۔ میں نے طلب کے ہاتھوں مغلوب ہو کر آنکھیں بند کر لیں۔

اکبر کی ایرانی النسل بیوی غنچہ خانم شاید چائے بنا رہی تھی۔ چائے کی اس ذلیل لت نے مجھے اب بہت ندیدہ بنا دیا ہے۔ میری آنکھیں بلا وجہ ہی پرائے گھروں کے چولہوں کی تاکا جھانکی میں خوار ہوتی رہتی ہیں کہ کب ان پر دیگچی چڑھے؟ کب قہوہ بنے؟ کب پیالہ میرے ہاتھ میں آئے؟

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرے اوپر ابھی باہر کی دنیا کے دروازے نہیں کھلے تھے۔ تب میں عالم تصور میں رک سیک اپنی پشت پر لٹکائے ترکی کے محلوں ’غرناطہ کی گلیوں اور قرطبہ کے بازاروں میں گھومتی پھرتی رہتی۔ پو پھٹتی کسی خوبصورت سی صبح یا کسی ملگجی سی شام میں گلیوں میں چکر کاٹتے ہوئے میرے قدم رک جاتے کہ کسی گھر کے باورچی خانے کی جالی سے قہوے کی خوشبو نے مجھے بے بس کر دیا ہے اور میں بے اختیار تھڑی پر بیٹھ کر اپنا کشکول نیم کھلے دروازے سے اندر بڑھا دیتی ہوں کہ میں چائے یا کافی کے چند گھونٹ لئے بغیر آگے جا ہی نہیں سکتی ہوں۔

تو جب جادوئی اسرار میں لپٹی کبھی کی سراندیب اور آج کی سری لنکا کے خوبصورت ساحلی شہر نگمبو میں پہنچی۔ آنکھیں دیکھتی تھیں کس قدر نکھری ہوئی صبح تھی۔ پام، ناریل کے قد آور جھومتے درختوں پر سورج کی روشنی کسی دل پھینک عاشق کی طرح واری صدقے ہوہو جاتی تھی۔ اجنبی دیس کی ہواؤں کے روم روم میں پھولوں کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔ فضا ہریالی اور سبزے کے گہرے رنگوں سے جیسے دلہن کی طرح سجی تھی۔ نغمگی سے بھرپور کسی پرندے کی دل کو موہ لینے والی چہکار آپ کو کہیں اپنے بچپن میں لے جاتی ہے۔ لان میں بانسوں سے بنے شیڈ کے نیچے غیر ملکی جوڑے ناشتہ کرتے تھے۔

چپ چاپ چلتی دائیں بائیں کے منظروں سے آنکھ مٹکا کرتی بانسوں کے شیڈ کے نیچے جا کر بیٹھ گئی ہوں۔ بیرا رشتے دار نکلا ہے یوں کہ باپ پاکستانی اور ماں سری لنکن تھی۔ ناشتے میں انناس کے دو قتلے، سلائس، جیم اور مکھن ملا۔ قہوہ کپ میں انڈیلا تو لگا جیسے پتی کا تو ٹچ ہی دیا گیا ہو۔

”ارے یہ کیا۔“
مضطرب ہو کر کہا۔

”میاں ہم تو چائے کے گھر میں بیٹھے ہیں۔ بھاپ اڑاتی خوشبوئیں بکھیرتی وہ چائے کدھر ہے جس کا ’اے حمید‘ دیوانہ ہے اور جس کے تذکرے پڑھ پڑھ کر ہم بھی سری لنکا دوڑے چلے آئے ہیں۔“

بیرا بھاگا بھاگا آیا نئے ٹی بیگز لایا۔ دو ڈالے رنگ نکلا۔ جس نے مسرور کیا۔ ایک نہیں دو کپ پیئے۔

سری پاڈا جسے آدم پیک بھی کہتے ہیں جاتے ہوئے نویرا علیہ رکنا تھا۔ ایک رات کا قیام تھا یہاں پسل والا سے ٹی گارڈنز شروع ہوئے۔ سڑک عمدہ، ماحول رعنائیوں سے لبریز اور موسم رومان پرور۔ سبھی کچھ دل اور نظروں کو بھانے لگا۔ سری لنکا کے یہ پہاڑی علاقے جزیرے کے تقریباً وسطی حصے میں تین ہزار سے 8000 ہزار فٹ کی بلندی کے گھیرے میں ہیں۔

چائے یہاں کب تھی پہلے۔ خیر سے بہت سے اور تحفوں کے ساتھ یہ بھی گوروں یعنی صرف انگریزوں کا تحفہ ہے۔ ان کی کاوشوں نے گول دائروں میں گھومتی ان پہاڑیوں کو کچھ ایسی مخملیں پوشاک پہنا دیں کہ جس کی ڈیزائن داری میں شفاف آبشاریں اور ہرے بھرے بلندوبالا درختوں کی ایک دنیا شامل ہوئی۔ ان سب نے خود کو نمایاں کرتے ہوئے اپنے ماحول کو وہ رعنائی دی کہ دیکھنے والوں کے قلب و نظر کے لئے جان فزا بن گئے۔

ان ڈھلانوں پر چائے کے پتے چننے والیاں دور سے ہمیں خوش رنگ تتلیوں کی طرح ہی نظر آئی تھیں۔ سیڑھیوں کے راستوں سے کہیں کہیں اترتے ہوئے آگے پیچھے یہ گل رنگ سے متحرک وجود کچھ ایسے ہی نظر آتے کہ جیسے کوئی پینٹ کیا ہوا منظر سامنے ہو۔

موسم اتنا خوبصورت ہو رہا تھا۔ ملگجے سے آسمان سے پھوار کسی مہارانی کی طرح دھیرے دھیرے اترتی تھی۔

نویراعلیہ قدرت کا ایک شاہکار، ایک حسین، ایک انمول تحفہ جو سری لنکا کو دیا گیا۔ مگر کیسی عجیب بات ہے کہ انگریزوں کو یہاں سے رخصت ہوئے بھی زمانہ گزرا۔ مگر وادی میں داخل ہوتے ہی احساس ہوتا ہے جیسے کہیں غلطی تو نہیں ہوئی۔ یہ تو لیک ڈسٹرکٹ کا علاقہ ہے۔ وہی ٹوڈر  اور وہی گھروں کا وکٹورین سٹائل۔ یہاں وہاں بکھرے ہوئے تہذیبی نشان کچھ یاد دلاتے، کچھ سمجھاتے۔

وادی الوہی سکون میں ڈوبی ایک مسحور کن خوشبو سے مہک رہی تھی۔ گاڑی مرکزی شاہراہ سے اولڈ بازار سٹریٹ میں داخل ہوئی۔ سبزیوں کی دکانیں ہی حسن و آرٹ کے شاہکاروں جیسی لگیں۔ پیشکش میں ایک طریقہ، سلیقہ، ترتیب اور حسن تھا۔

ہوٹل میں داخل ہوتے ہی احساس ہوا جیسے یہ عظیم الشان سی بھاری بھرکم عمارت کچھ خاصے کی چیز ہے۔ لکڑی کی چھت چاروں اطراف سے ڈھلان دیتی ہوئی۔ درمیانی حصے میں گنبد تھا۔ آتش دان ایسے منفرد سے، دیواریں کھانے کا کمرہ، رہائشی کمرے، ٹی وی لاؤنج۔ پتہ چلا تھا کہ برٹش دور میں گورنر کا گھر تھا۔

اب اس ماحول میں بھاپ اڑتے قہوے کا کپوں میں گرنا خود کو اس اروما میں محصور پانا، کپ اٹھانا اور نزاکت سے چھوٹے چھوٹے گھونٹ لینا اور خود کو رائل فیملی کاہی کوئی فرد سمجھنا اور اس نشے سے مخمور ہونا بے شک تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی لطف تو دیتا ہے نا۔ اور سچی بات ہے وہ لطف میں نے اٹھایا۔

آدم پیک راستہ کیا تھا۔ اب جنت تو دیکھی نہیں کہ اسی سے تشبیہ دے سکتی۔ میں نے لفظوں میں اپنے احساسات کو ڈھالنا چاہا تو وہ بھی دم توڑتے نظر آئے۔ میں بلوچستان اور شمالی علاقہ جات کے پہاڑوں اور ان کی رعنائیوں، ان کے دبدبے اور ہیبت کے طلسم سے آشنا سیاح ہوں۔ مگر ان پستہ قامت بلندیوں کا حسن بھی بڑا لرزہ خیز قسم کا تھا۔ بہتوں کی صورت اٹھان اور پھیلاؤ لیے ہوئے۔ پہلی اٹھان گویا کوئی تین ہزار کے ہیر پھیر میں چائے کے سرسبز رنگوں کی ہی ورائٹی میں دوسری ڈھلان دھیرے دھیرے کسی مست خرام نازنین کی طرح اپنے سینے پر چیڑ اور صنوبر کے پیڑوں کو سجائے بانکپن سے اوپر چڑھتی تھی۔

ان منظروں میں چمکتے گھروں کی سرخ چھتیں گویا سرخ نگینوں کی طرح دکھتی تھیں۔ بادلوں کے لہراتے پرے ایک دوسرے کو پچھاڑتے آگے پیچھے بھاگتے تھے کبھی کبھی ننھی منی سی پھوار نزاکتوں سے دھرتی اور اس کی چیزوں پر قدم دھرتی جیسے ڈرتی ہو کہ کوئی اسے مغروری کا طعنہ نہ دے دے۔ چھوٹے چھوٹے موڑ۔ ہر موڑ نئے منظروں کا پیامبر۔

کہیں پہاڑوں کی صورت گری کچھ ایسی کہ جیسے سبز چادریں اوڑھے حالت آرام میں ہوں، جیسے خوابیدہ سے ہوں، جیسے گیان دھیان میں ڈوبے ہوئے اللہ سے لو لگائے راز و نیاز کرتے ہوں۔ ان کی ہر صورت ذہن میں نئی تشبیہیں ابھارتی اور نئے خیالوں کو جنم دیتی تھی۔

چائے کے باغات کا سلسلہ فطرت کے کسی دلآویز شاہکار کی طرح آپ کا دل مٹھی میں بند کر لیتا ہے۔ راستہ سانپ کی طرح بل کھاتا تھا اور پہاڑی علاقے کے سب لوازمات سے بھی لیس تھا۔ داہنے ہاتھ گھاٹیاں تھیں پر انہیں دیکھ کر رگوں میں خوف سے سنسنی کی لہریں نہیں دوڑتی تھیں۔ بائیں طرف پہاڑوں کی دیوار تھی پر ان میں جلال سے زیادہ جمال کی جھلک تھی۔

چائے بننے کے مرحلے میں سب سے اہم اور دلچسپ بات پتے کی سنہری مائل رنگت، نوخیزی اور تازگی سے ہے۔ بعینہٰ جیسے ایک اوباش نواب گل چینی کے لئے نوخیز کلی کا مطالبہ کرتا ہے۔ ہر پودے کی زندگی صرف چار سال تک ہوتی ہے۔ لمبے چوڑے مرحلے جن میں پتوں کا توڑنا، وزن ہونا، مشینوں میں رولنگ، عمل تکسید سے گزارنا، خشک کرنا اور پھر ان کی گریڈنگ کا مرحلہ۔

مزے کی بات نمبر ون چائے نمبر ون ملکوں کو جاتی ہے۔ نمبر 2 ایشیائی ملکوں کے لئے۔ ان میں بھی درجہ بندیاں۔

اب چائے کی اس دل رباعی کا ایک اور قصہ سنیے۔ پیٹرز برگ (روس) جا رہے تھے۔ سٹیشن پر میری ساتھی کے بونگے پن کی وجہ سے گاڑی چھٹ گئی۔ اگلی گاڑی لی جس نے کوئی گیارہ بجے دن کو پیٹرزبرگ پہنچایا۔

جائے مقصود پر پہنچتے پہنچتے ایک بج گیا۔ سب سے پہلے ظہر کی نماز پڑھی۔ کاروباری اصول کے مطابق ناشتہ دینے کا کوئی جواز تو نہیں تھا۔ پر ہمارے کہنے پر دے دیا گیا۔ باورچی خانے میں بالکل گھریلو اور ممتا بھرے ماحول میں۔

کونے میں دھری دیودار کی لکڑی کی کی چھوٹی میز اور اردگرد رکھی چار کرسیاں اتنی نئی نکور تھیں کہ جیسے ابھی ابھی ترکھان کے رندے تلے چھل چھلا کر کوری صورت کے ساتھ آئی ہوں۔

لڑکی نے پلیٹ میں کرکرے سے ٹوسٹ رکھے۔ ابلے انڈے، مکھن، جیم، پنیر کی ایک لیئر، چھوٹا سا دہی کا ڈبہ اور سیلون کی بہترین چائے کے ٹی بیگز۔ ہم نے بے حد ندیدے پن سے ڈبے میں سے ٹی بیگز نکالے۔ سری لنکا کی بہترین چائے، خوشی کی ایک کلکاری ماری۔ کپ میں پانی ڈالا اور مدہوش کن خوشبو نے جکڑا۔ گاڑھا دودھ۔ ایک گھونٹ نے جیسے سرور کی کسی اور ہی دنیا میں پہنچا دیا۔

”ارے بھئی سب کچھ بہترین ہے اگر چائے اچھی ہے۔ معاف کردو سب کچھ۔ برداشت کرو۔ جیسا بھی ہے۔ چائے اچھی ہے تو ہر چیز گوارا ہے۔ ایک نہیں دو کپ پیے۔ جی خوش ہو گیا اور سچی بات ہے انہوں نے بھی ہمارے کئی بار چائے پینے پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ جب بھی باہر سے تھکے ٹوٹے آتے۔ اپنا کچن سمجھ کر اس میں گھس جاتے۔ مزے دار چائے کے دو کپ تھکن کو بلاٹنک پیپر کی طرح چوس لیتے۔

چوتھے دن جب ہم دوستو وسکی سے ملنے اس کے گھر جا رہے تھے جو اب میوزیم ہے۔ کزنچنی لین میں اس کے گھر کے سامنے کھڑی میں بہت جذباتی ہو رہی تھی۔ میرا بہت وقت اس کے سٹڈی روم میں گزرا۔ میں نے اس کے سب ناولوں کو باری باری یاد کیا تو وہیں مجھے اس بات کی بھی خوشی تھی کہ اچھی چائے اس کی کمزوری تھی۔

ڈائننگ روم کی سجاوٹ پیٹرز برگ کے روایتی گھروں جیسی تھی۔ دوستو وسکی کے خاندان کا انداز زندگی سادگی سے بھرپور تھا۔ میز پر کپ سجے تھے۔ کونے میں دھری چھوٹی میز پر پیتل کا وہ سماوار او ر چائے دانیاں تھیں جس کا ذکر اینا کی یادداشتوں میں ملتا ہے۔ الماری چینی کے نفیس برتنوں سے سجی تھی۔

چائے اور اس کا اہتمام دوستو وسکی کی زندگی میں بہت اہم تھا۔ چمکتے پیتل کے سماوار کو دلچسپی سے دیکھتے ہوئے میرے سامنے اینا کی تحریر تھی۔ جسے میں نے مسرور کن انداز

میں یاد کیا۔

سونے سے قبل میں سماوار کو ڈائننگ روم میں ضرور چیک کرتی۔ چائے بنانے کا اہتمام خصوصی ہوتا۔ سب سے پہلے وہ ابلتے پانی سے کیتلی کو کھنگالتا، اس کا چمچ مخصوص تھا جسے بچے پاپا کا چمچ کہتے تھے۔

میری نظروں کے عین سامنے وہ چمچ اور چائے دانی تھی۔ میں اسے ہاتھ لگا کر چھو نہیں سکتی تھی کہ آگے حد بندی تھی۔ وہ تین چمچ چائے ڈالتا اور چائے دانی کا 1 / 3 حصہ پانی سے بھر کر اسے نیپکن سے ڈھانپ دیتا۔ پورے تین منٹ بعد وہ چائے دانی کے بقیہ کو کھولتے پانی سے بھرتا اور پھر اسے کپڑے سے ڈھانپتا۔

اس کی بیٹی  لیوبو کا کہنا تھا کہ پاپا ہمیشہ چائے کے رنگ کو دیکھتے اور خوش ہوتے۔
”ہائے۔“ میں نے سرشاری کے سرور آگیں احساس کے زیر خود سے کہا۔

چلو اور کچھ نہ سہی پر یہ قدر تو مشترک ٹھہری کہ زندگی میں اچھی چائے کے سوا کوئی دوسرا شوق نہیں رہا۔ چائے کا رنگ کمزوری اور چائے بنانے اور پینے کا اہتمام خوشی۔

گلاس ہاتھ میں تھامے وہ سٹڈی روم میں آتا اور لکھنے میں محو ہو جاتا۔ چائے میں چینی کی ہمیشہ دو کیوبز ہی استعمال ہوتیں۔ چائے سے اس کی یہ محبت اس کے ناولوں کے اکثر کرداروں میں جھلکتی۔ ”The Devils“ کے کردار اسے زیادہ نمایاں کرتے ہیں۔

اب اس ہیجان خیز عشق کی طولانی کو جتنا مرضی طول دے لوں۔ ببل گم کی طرح کھینچتی چلی جاؤں اس کا کوئی انت نہیں۔ ہاں مگر ختم کرنے سے پہلے غرناتا، قرطبہ، وینس، روم، بغداد، دمشق، قاہرہ، استنبول اور دیگر بہت سارے ملکوں کے شہروں کی کافی باروں اور ریستورانوں میں بیٹھ کر اپنے سامنے اپنی اس محبوبہ کی صورت و سیرت کو دیکھتے اور اسے جسم و

جان میں اتارتے ہوئے میری نظروں نے کہیں کسی کھڑکی، کسی درز سے جھانکتے ہوئے آسمان کے ٹکڑے کو مرکز نگاہ کرتے ہوئے اوپر والے کا شکریہ ادا کرنے کی کوشش میں آنکھوں کو ضرور گیلا کیا اور یہ بھی کہا۔

”پروردگار میں اس قابل نہیں تھی کہ اجنبی دیسوں کی ان جگہوں پر قدم دھرتی اور اپنی اس محبوبہ سے ملتی۔
شکریہ اے پیار تیرا شکریہ۔ ”
٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments