ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے


علامہ خادم حسین رضوی کسی کو یاد ہیں؟ کہیں سے ایک جھکڑ آیا اور ہوا ہو گیا۔

علامہ طاہر القادری کسی کی یادداشت میں ہیں؟ انھوں نے دو بار آرڈر پر مال تیار کیا، جہاں ہے اور جیسا ہے، کی بنیاد پر بیچا اور نکل لیے، مگر مولانا فضل الرحمان نہ تو کوئی جھکڑ ہیں، نہ ہی آرڈر پر مال تیار کرنے والے بلکہ وہ پہلے ضرورت پیدا کرتے ہیں اور پھر اس ضرورت کے اعتبار سے مال تیار کرتے ہیں اور سارا کا سارا بیچ بھی لیتے ہیں۔ تعجب ہے ہارورڈ بزنس سکول نے اب تک مولانا کو لیکچر سیریز کے لیے کیوں مدعو نہیں کیا۔

مولانا ایک کل وقتی سیاستدان اور ایک سو برس پرانی مذہبی سیاسی جماعت کے قائد ہیں۔ کچھ لوگ تو یہ تک کہتے ہیں کہ اس ملک میں فوج کے بعد اگر کسی کے پاس منظم طاقت ہے تو وہ مولانا ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کیا ہے اور کمزوری کیا، کس موقع پر سیاست کی کون سی کل سیدھی کی جانی چاہیے اور کسے مروڑنا چاہیے اور کتنا، غالباً موجودہ سیاسی قبیلے میں مولانا سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔

بخدا نہ تو یہ قصیدہ ہے نہ تعلی نہ خوشامدانہ طنز۔ میں دل سے یقین رکھتا ہوں کہ مولانا اگر مذہبی سیاسی رہنما کے بجائے ماہر طبیعیات ہوتے تو بھی صف اول میں ہوتے۔ جرنیل ہوتے تو بنا جنگ کیے دشمن کو نہتا کر کے باندھ دیتے۔ پروفیشنل شطرنجی ہوتے تو بورس کیسپروف آپ پر خوشی خوشی مورچھل جھلتا۔ موسیقار ہوتے تو اے آر رحمان فضل الرحمان کی پنڈلیاں دبا رہا ہوتا۔ معروف کالم نگار وسعت اللہ خان نے مولانا فضل الرحمٰن کے بارے میں جو کہا اس کا خلاصہ اس شعر میں بیان کیا جاسکتا ہے۔

ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ

مولانا فضل الرحمان ہماری قومی سیاست کا ایک معتبر نام ہے انہوں نے ہمیشہ ایک فعال اور جاندار کردار ادا کیا۔ پی ڈی ایم میں نظری، فکری اور عملی سیاست میں متحارب نقطہ نظر رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو متحد کرنا مولانا کی کرشماتی شخصیت کا کمال ہے۔ عمران خان کی منفی اور ملک دشمن سیاست کے مقابلے کے لئے جس فکری و عملی قوت کی ضرورت تھی وہ مولانا کی شخصیت کے ذریعے میسر ہے۔ مولانا فضل الرحمان اپنے والد مولانا مفتی محمود کی طرح فسطائیت کے خلاف ہیں۔

وہ عمران خان کی فتنہ پروری کے روز اول سے ہی ناقد ہیں۔ انہوں نے جم کر عمران خان کی شر انگیزیوں کو قوم کے سامنے پیش کیا۔ خان کی فکری لغزشوں پر محاکمہ کیا۔ جب ہماری اسٹیبلشمنٹ اور ادارے خان کو میں اقتدار لانے کے بعد اس کی رہنمائی کر رہے تھے اور عمران خان کا قہر و جبر سیاستدانوں پر نازل ہو رہا تھا کسی کو آنکھ اٹھانے کی جراءت نہیں تھی۔ ایسے میں مولانا نے ایک عظیم الشان لانگ مارچ اور دھرنے کے ذریعے واضح کیا کہ عمران خان ناقابل تسخیر نہیں، ان کا مقابلہ ہر سطح پر کیا جا سکتا ہے۔

تحریک عدم اعتماد کے بعد عمران خان اور اس کے سہولت کاروں نے ایک دن بھی اتحادی حکومت کو آرام و سکون سے چلنے نہیں دیا۔ سپریم کورٹ چیف اور ہم خیال ججوں نے انتہا کردی۔ ایک ملزم جو ریمانڈ پر ہو اسے ضمانت دی گئی۔ یہاں تک کہ آئندہ قائم ہونے والے مقدمات میں بھی ضمانت دے دی گئی۔ 14 مئی تک پنجاب میں انتخابات کرانے کے نادر شاہی حکم پر ماہرین و ناقدین کے بقول 15 مئی کو توہین عدالت کی کارروائی اور شہباز حکومت کا دھڑن تختہ ہونا تھا۔

ایسے میں مولانا چیف کی نا انصافیوں کے خلاف ایک عظیم الشان مظاہرہ کیا۔ مولانا کی سیاسی بصیرت اور جرات رندانہ نے عمران خان کے سہولت کار ججوں کو ایک قدم پیچھے ہٹنے، چیف کو زمینی حقائق سمجھنے مجبور کر دیا اور سماعت ایک ہفتے تک ملتوی ہو گئی۔ یہ اندرونی صورت حال ہے۔ بیرون ملک دشمن قوتیں بھی تحریک انصاف کی پشت پناہی کر رہی ہیں، ان کا اور تحریک انصاف کا ایجنڈا ایک ہے۔ یقیناً حکومت یا ریاست کو جب اتنے وسیع پیمانہ پر لڑنا پڑے گا کہ جس میں وقت کی سپر پاور تک شامل ہے تو اگر کہیں کمزوری نظر آئے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔

کالی بھیڑوں کی بڑی تعداد جو ریاست کے اندر ریاست بنا کر اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لئے ملک کو انارکی کی دلدل میں دھکیل رہی ہیں۔ اگر کسی کو اس پر شک ہے تو آئی ایم ایف کی پاکستان کے متعلق انتہائی جارحانہ پالیسی جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی، زلمے خلیل زاد، امریکن، یورپین سفارتی اور حکومتی شخصیات کے عمران خان کے حق میں بیانات اور سب سے بڑھ کر ہندوستانی میڈیا جو دفاعی تنصیبات کو نقصان پہنچانے پر عمران خان کے صدقے واری ہونا سب کے سامنے ہے۔

مولانا فضل الرحمن نے درست کہہ رہے ہیں کہ ہم نے احتجاج کیا اور اگر سہولت کاری برقرار رہی تو اس کا مطلب ہو گا کہ عدالتیں قوم اور عوام کے ساتھ اعلان جنگ کر رہی ہیں۔ 60 امریکی اراکین پارلیمنٹ نے امریکا کے وزیرخارجہ کو خط لکھا ہے کہ عمران خان کو تحفظ فراہم کیا جائے، کل تک خط لہرا کر امریکا کو اقتدار سے نکالنے کا ذمہ دار قرار دینے والے کے حق میں خط لکھا جانا واضح کرتا ہے کہ یہ کس کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے ’۔

ریاست کو تباہ کرنے کے بین الاقوامی ایجنڈے کے مظاہر 9 اور 10 مئی 2023 کو ملک کے طول و عرض میں دیکھے گئے ’اداروں پر حملے، بلوائیوں نے جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاؤس، قلعہ بالا حصار، چکدرہ فوجی قلعہ، اس کی مسجد اور بے دردی سے قرآن کے نسخے جلانا اس کی مثالیں ہیں۔ جس عمران خان کو امریکی لابی تحفظ دینے کے لیے پگھل رہی ہے، اسی مجرم کو ہماری عدالتیں تحفظ اور اس کے دہشت گردوں کو سہولت کاری مہیا کر رہی ہیں۔ بیک وقت تمام مقدمات میں ضمانت، نیا مقدمہ درج ہوا تب بھی گرفتاری نہیں ہو سکے گی گویا عدالت سے سرٹیفیکیٹ مل گیا کہ اگر اس دوران عمران کسی کو قتل کرے گا تو 302 کا مقدمہ ہو یا دیگر‘ فوجداری کیسز اسے گرفتار نہیں کیا جا سکے گا۔ ایک لاڈلے کے لیے عدالتیں آئین اور قانون سے کھلواڑ کر رہی ہیں۔

سپریم کورٹ، لاہور اور اسلام آباد کی ہائی کورٹس ضمانتوں کے ذریعے مجرموں کو رہا کر کے حوصلے بڑھا رہی ہیں، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ’کیا آج تک ریمانڈ کے دوران کسی کو ضمانت ملی یا کسی مجرم کو باقاعدہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یا کسی جج کی مرسڈیز گاڑی اور وی وی آئی پی گیٹ سے لایا گیا؟

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ یہ ساری چیزیں ’ہماری عدالت کے معزز چہرے کو داغدار‘ کر رہی ہیں۔ ایک خاص ایجنڈے کے تحت پاکستانی سیاست میں ایک غیر ضروری عنصر کو تحفظ دیا جا رہا ہے، جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ ہمارا ایک ادارہ کے کچھ ججز ریاست کو کمزور کر رہے ہیں، جب ریاست کو کمزور ہوتا دیکھیں گے تو پھر پاکستان کا بچہ بچہ ریاست کے تحفظ کے لیے میدان میں آئے گا۔ ’پھر کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے کہ عدالت کی توہین ہو رہی ہے، آپ ایک مجرم کے لیے ریاست، عوام، پارلیمنٹ اور حکومت کی توہین کریں تو اس گھناونے جرم پر ہم کیسے خاموش رہیں۔ ‘ یہ باتیں سامنے آ رہی ہیں کہ کون سا جج کس لابی اور کون سے مجرم کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہے، ابھی ہم ان کے نام نہیں لے رہے لیکن تنگ آمد بجنگ آمد، پھر ہمیں ساری چیزیں عوام کے سامنے لانا پڑیں گی ’۔

اگر خواجہ طارق رحیم کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا عمران کو ضمانت دینے والا جج معلوم تھا تو کیا دوسرے لوگوں کو معلوم نہیں ہو گا، آنے والے فیصلے کے بارے میں جج کا نام بھی لیا جاتا ہے تو دنیا اتنی غافل نہیں ہے۔ جو بلوے اور نقصانات ہوئے ہیں اس کے بارے میں کہتے ہیں وہ ہمارے لوگ نہیں ہیں، اگر یہ آپ کے لوگ نہیں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے لیے لوگ نکلے نہیں ہیں۔ ہمارے اور عوام کے صبر و تحمل کا امتحان نہ لیا جائے، عدالتیں عمران خان کی محبت میں پگھل رہی ہیں، اپنے ملک کے مستقبل کی فکر بھی کریں، عوام کے جذبات کا خیال رکھیں، ہم اس صورت حال کو نظر انداز نہیں کر سکتے اس کا مقابلہ کریں گے۔ وسعت اللہ خان نے مولانا کے بارے میں جو کچھ کہا کیا ان کا طرز عمل اس کی سچائی کا آئینہ دار نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments