9 مئی: یوم سیاہ


پاکستان کی 75 سالہ تاریخ سیاسی رہنماؤں کی قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو پھانسی پر جھول گئے، بینظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید کیا گیا اور الزام آمر پرویز مشرف پر آیا۔ اسی آمر کی بدولت میاں نواز شریف کو اپنے خاندان سمیت جلاوطنی کا دکھ جھیلنا پڑا۔ میاں صاحب کو اپنے عزیز از جان باپ کی رحلت پر بھی پاکستان آنے کی اجازت نہ دی گئی۔ 2013 ء کے انتخابات کے بعد میاں صاحب تیسری بار وزیراعظم بنے تو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی ملی بھگت سے انہیں تاحیات نا اہل کر دیا گیا۔

عدلیہ کا یہ فیصلہ پاکستان کی تاریخ عدل کے ماتھے پر ایک سیاہ داغ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت پر آگ لگی نہ گھر جلے۔ بینظیر بھٹو کی شہادت پر آصف زرداری ”پاکستان کھپے“ کا نعرہ لگا کر جیالوں کے ابلتے جذبات کو ٹھنڈا کرتے رہے۔ 2017 ء میں جب 3 بار کے منتخب وزیراعظم میاں نواز شریف کو تاحیات نا اہل کیا گیا تو وہ وزیراعظم ہاؤس چھوڑ کر اپنے گھر جاتی امرا چلے آئے۔ پاکستان کی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ سیاسی لیڈر حوصلے سے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے اور وطن عزیز کی خاطر کسی بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا۔

پھر ایک انقلابی اٹھا جو کبھی سونامی، کبھی نیا پاکستان، کبھی ریاست مدینہ اور کبھی حقیقی آزادی جیسے بیانیے گھڑ کر ناپختہ ذہنوں کو مسموم کرتا رہا۔ جب 2013 ء میں تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا کی حکومت سنبھالی تو صوبہ 95 ارب روپے کا مقروض تھا لیکن جب 2023 ء میں حکومت چھوڑی تو یہ قرض بڑھ کر 950 ارب تک جا پہنچا۔ 2018 ء کے عام انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے دھاندلی اور اپنی اندھی طاقت کے زور پر اس کے سر پر وزارت عظمیٰ کا تاج سجایا تو اپنے ساڑھے 3 سالہ دور حکومت میں اس نے پاکستان کے کل قرضے کے 75 فیصد کے برابر قرضہ لیا اور لگائی ایک اینٹ بھی نہیں۔

”بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے“ کے مصداق جب اسٹیبلشمنٹ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اس وقت تک پاکستان نہ صرف ڈیفالٹ کے کنارے تک پہنچ چکا تھا بلکہ اقوام عالم میں تنہائی کا شکار بھی ہو گیا۔ لاڈلے کی مگر پھر بھی یہ ضد تھی کہ اسے اگلے 10 سالوں تک اسٹیبلشمنٹ گود میں بٹھائے رکھے۔ اسٹیبلشمنٹ کو مگر یہ منظور نہ تھا کیونکہ لاڈلے کا ہر قدم نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کی بدنامی کا باعث بن رہا تھا بلکہ پاک فوج کے بارے میں عوام کی زبانیں بھی دراز ہو رہی تھیں۔

بقول سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ فوج نے فروری 2021 ء میں ہی نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ 8 مارچ 2022 ء کو جب لاڈلے کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو اس نے کہا ”اگر مجھے نکالا گیا تو میں اور زیادہ خطرے ناک ہو جاؤں گا“ ۔ آنے والے دنوں میں اس نے ”خطرے ناک“ بن کے بھی دکھایا۔ لاڈلا دراصل اس احمقانہ زعم میں مبتلاء تھا کہ اگر 2014 ء کے دھرنے میں سول نافرمانی کا اعلان کرنے، وزیراعظم ہاؤس پر حملہ کرنے، پی ٹی وی پر قبضہ کرنے، پارلیمنٹ ہاؤس کے گیٹ توڑنے، یوٹیلٹی بلز جلانے، پولیس سٹیشن پر حملہ کر کے اپنے کارکن چھڑوانے اور غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ہنڈی کے ذریعے رقوم بھیجنے کے باوجود کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا تو اب بھی وہ سرخ رو ہو گا۔

نرگسیت کا شکار لاڈلا شاید یہ بھول چکا تھا کہ 2014 ء کے دھرنے میں پاک فوج اور عدلیہ اس کی پشت پر تھی لیکن اب فوج اسے دھتکار چکی۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ فوج واقعی نیوٹرل ہو چکی تو اس نے کہنا شروع کر دیا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔ ایک سالہ جدوجہد کے دوران اس نے کئی بیانیے بدلے اور قدم قدم پر جھوٹ کی آڑھت سجاتے ہوئے کبھی امریکہ تو کبھی اسٹیبلشمنٹ کو مورد الزام ٹھہراتا رہا۔ اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر اسے دوبارہ حکومت نہ ملی تو (خدانخواستہ) پاکستان کے 3 ٹکڑے ہو جائیں گے اور ایٹمی پروگرام بھی ختم ہو جائے گا۔ اس کے اس بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسے ملک و قوم سے مطلق کوئی ہمدردی نہیں تھی۔

اسٹیبلشمنٹ نے تو اسے دھتکار دیا لیکن بدقسمتی سے عدلیہ نے اسے گود لے لیا۔ باوجود اس کے کہ عدلیہ پر طنز و تعریض کے تیروں کی بوچھاڑ ہو رہی ہے لیکن وہ لاڈلے کے ناز اٹھانے میں مگن۔ لاڈلے کی خاطر ہی عدلیہ نے صدارتی ریفرنس میں آئین کے آرٹیکل 63۔ A کو RE۔ WRITE کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ 25 مئی 2022 ء کو وہ جلوس لے کر ڈی چوک اسلام آباد کی طرف عازم سفر ہوا تو سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ احتجاجی جلوس ڈی چوک کی بجائے H۔

9 پارک اسلام آباد جائے گا۔ لیکن جلوس کی قیادت کرتے ہوئے لاڈلے نے کارکنوں کو ڈی چوک ہی پہنچنے کی ہدایت کی۔ کارکن ڈی چوک پہنچے اور درختوں کو آگ بھی لگائی لیکن جب لاڈلا ڈی چوک سے ایک کلومیٹر دور پہنچا تو اسے بتایا گیا کہ ڈی چوک میں پہنچنے والے کارکن منتشر ہو چکے ہیں۔ اس لیے وہ 6 دنوں کا الٹی میٹم دے کر لوٹ گیا۔ 26 مئی کو چیف جسٹس سپریم کورٹ محترم عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جب توہین عدالت کی کارروائی شروع ہوئی تو چیف صاحب نے فرمایا کہ ہو سکتا ہے عمران خاں تک سپریم کورٹ کا درست پیغام نہ پہنچا ہو۔ پھر انہوں نے 2 تحقیقاتی ایجنسیوں کو ایک ہفتے کے اندر تحقیقاتی رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے بنچ کی کارروائی مؤخر کر دی۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کی رپورٹ تو مقررہ وقت پر جمع ہو گئی لیکن چیف صاحب شاید توہین عدالت کی کارروائی بھول چکے کیونکہ ایک سال ہونے کو آیا وہ کارروائی کہیں فائلوں میں گم ہے۔

9 مئی کو جب عمران خاں توشہ خانہ کیس میں 2 ہفتوں کی ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچے تو انہیں رینجرز نے احاطۂ عدالت سے گرفتار کر کے نیب راولپنڈی کے سپرد کر دیا جہاں اس کے خلاف القادر یونیورسٹی کا کیس درج تھا لیکن وہ نیب عدالت پہنچنے سے انکاری تھا۔ اس کے خلاف القادر ٹرسٹ، توشہ خانہ اور ممنوعہ فنڈنگ جیسے کیس درج تھے جن میں وہ تاحیات نا اہلی کے ساتھ ہی ساتھ جیل بھی جا سکتا تھا لیکن عدلیہ نے تفتیشی اداروں کو کارروائی سے روکا ہوا تھا۔

9 مئی وہی دن ہے جسے پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ ”یوم سیاہ“ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس دن عمران خاں کے دہشت گردوں نے پورے پاکستان میں ٹولیوں کی صورت میں وحشت و بربریت کا ایسا گھناؤنا کھیل کھیلا جس کی نظیر تاریخ پاکستان میں نہیں ملتی۔ اس دن پاکستان کا جھنڈا جلایا گیا، پاک فوج کی وردی جلائی گئی، جنگی اعزازی توپ اور ایم ایم عالم کا وہ جہاز جلایا گیا جس نے 65 ء کی جنگ میں بھارتی ائر بیس ہلواڑہ کو تباہ کیا، لاہور میں قائداعظم محمدعلی جناح کی وہ رہائش گاہ جلائی گئی جو اب کورکمانڈر لاہور کا گھر ہے۔

لاہور کینٹ میں سی ایس ڈی شاپ میں توڑ پھوڑ کی گئی اور پوری فارمیسی لوٹ لی گئی۔ راولپنڈی میں جی ایچ کیو پر حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی گئی۔ گوجرانوالہ کینٹ پر حملہ کیا گیا۔ ملتان اور کراچی کے کورکمانڈر ہاؤسز پر حملہ کیا گیا۔ فیصل آباد میں آئی ایس آئی کا دفتر جلایا گیا اور جہاں کہیں فوجی تنصیبات نظر آئیں، وہیں پٹرول بموں سے آگ لگائی گئی۔ کیپٹن کرنل شیر خاں شہید نشان حیدر کے مجسمے کی تباہی پر بھارتی میجر گورو آریا نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ”کرنل شیر خاں تمہارے لیے مرا، کیا اسے بھول گئے؟

“ ۔ کارگل کی جنگ میں کیپٹن کرنل شیر خاں اس بہادری سے لڑے کہ بھارتی فوج نے ان کی بہادری کا اعتراف کرتے ہوئے پورے فوجی اعزاز کے ساتھ شہید کی لاش پاکستان کے حوالے کی۔ اندازہ کریں کہ وہ ملک دشمن شر پسند کتنے بے غیرت تھے جنہوں نے قائداعظم کے گھر کو بخشا نہ شہداء کی یادگاروں کو اور نہ ہی کرنل شیر خاں شہید کے مجسمے کو ۔ علاوہ ازیں دہشت گردوں نے حکومتی اور نجی گاڑیوں، بسوں، ایمبولینسز اور حکومتی و نجی املاک کو بھی نظر آتش کیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے عدالت میں اسے ویلکم کرتے ہوئے درخواست کی کہ کہ وہ 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرے لیکن لاڈلے نے جواب دیا کہ یہ اس کی گرفتاری کا ردعمل تھا۔ یہی نہیں بلکہ اس نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی بیان دیا ”اگر مجھے دوبارہ گرفتار کیا گیا تو ویسا ہی ردعمل آئے گا“ ۔ اب چاروں طرف سے گھرے ”بزدل خاں“ نے 18 مئی کو ایک صحافی کے سوال کے جواب پر کہا ”کون کہتا ہے میں نے مذمت نہیں کی“ ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خوف کے عالم میں دیے گئے اس بیان کی کوئی قدروقیمت نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments