پاکستان کو بزرگ سیاست دانوں سے بچاؤ


پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بظاہر جمہوری نظام کام کر رہا ہے لیکن اس کے تمام اہم سیاسی قائدین 70 برس سے تجاوز کرچکے ہیں۔ دنیا کے جن ممالک میں شرح پیدائش کی شدید کمی کے سبب ریٹائرمنٹ کی عمر زیادہ مقرر کی جاتی ہے، وہاں بھی اس عمر تک کام کرنے کا مطالبہ نہیں کیا جاتا۔ پھر نہ جانے کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے سیاست دان ریٹائر ہونے اور مزید کام آگے بڑھانے کے لئے اگلی نسل پر اعتبار کرنے پر کیوں راضی نہیں ہوتے۔

پاکستان میں یورپیئن طرز کا پارلیمانی جمہوری ماڈل کام کر رہا ہے۔ لیکن ملک میں یورپی جمہوریت کی مثالیں دینے کے باوجود کبھی اس بات پر غور کرنے کی نوبت نہیں آتی کہ وہاں سیاسی جماعتیں کیسے کام کرتی ہیں اور جمہوری نظام کو فعال اور موثر بنانے کے لئے کیسے نوجوانوں کو متحرک کیا جاتا ہے اور پھر ان کی سیاسی تربیت کے ذریعے مرحلہ وار قائدانہ ذمہ داریوں تک پہنچنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ یورپ کے جن ملکوں میں آئینی بادشاہت موجود ہے وہاں تو یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی ولی عہد اپنی ماں یا باپ کی وفات کے ’انتظار‘ میں بادشاہ بننے تک بوڑھا ہوجاتا ہے لیکن سیاسی پارٹیوں میں ایسی صورت دیکھنے میں نہیں آتی۔ کوئی ایک شخص کسی سیاسی پارٹی کو اپنی جاگیر سمجھ کر اس پر قابض نہیں ہوتا۔ سیاسی پارٹیاں اصولوں اور منشور کے لئے کام کرتی ہیں۔ اسی لئے ایک کے بعد دوسرا لیڈر کسی پارٹی کی قیادت سنبھال کر اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

امریکہ میں ضرور یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ وہاں بعض اوقات ستر برس سے زائد عمر کے امیدوار صدارتی انتخاب میں حصہ لیتے ہیں اور اس میں کامیابی بھی حاصل کرلیتے ہیں۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ 76 سال کے ہوچکے ہیں لیکن ایک بار پھر صدارتی امیدوار بننے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ موجودہ صدر جو بائیڈن 80 سال کے ہیں۔ انہوں نے 78 سال کی عمر میں صدارتی انتخاب جیتا تھا۔ بعض امریکی سینیٹر بھی عمر رسیدہ ہیں۔ لیکن اگر امریکی کانگرس کی اوسط عمر نکالی جائے یا صدر کے ساتھ کام کرنے والے عملہ پر نظر دوڑائی جائے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ فیصلہ سازی کے اہم مراحل میں نسبتاً نوجوان نسل کا کردار اہم ہوتا ہے۔

امریکی نظام کی مجبوریوں کے باعث بعض عمر رسیدہ افراد سینیٹر یا صدارت کے عہدوں تک ضرور پہنچتے ہیں کیوں کہ وہاں انتخاب میں حصہ لینے کے لئے کثیر مالی فنڈ جمع کرنا پڑتا ہے جو بسا اوقات کم عمر سیاسی لیڈروں کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود امریکی سیاست میں نوجوان نسل کو نمائندگی دینے اور دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں میں انہیں متحرک کرنے کا عمل متاثر نہیں ہونے دیا جاتا۔

اس کے برعکس پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں پر بزرگ سیاست دانوں کا قبضہ ہے اور وہ کسی صورت اس سے دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس کی کلاسیکل مثال تو مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کی ہے۔ انہیں سپریم کورٹ نے پہلے وزارت عظمی سے نا اہل کیا پھر ایک حکم میں ان پر پارٹی کی صدارت سنبھالنے یا کوئی بھی سیاسی یا پبلک عہدہ لینے پر پابندی عائد کردی۔ ان کی جگہ پارٹی کو متحرک کر کے انتخابات کروانے اور کم از کم اپنی سیاسی پارٹی کی حد تک جمہوری عمل جاری رکھنے کے لئے کوئی نیا چہرہ سامنے لانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی بلکہ شہباز شریف کو پارٹی کی صدارت دے دی گئی۔

پارٹی نے نواز شریف کو تاحیات قائد قرار دے کر انہیں مسلسل تمام معاملات میں با اختیار قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اگرچہ سنگین بیماریوں میں مبتلا ہیں، ان کی عمر 73 برس ہو چکی ہے لیکن لندن میں بیٹھ کر بھی وہ اپنی پارٹی ہی کے نہیں بلکہ حکومت کے تمام اہم فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا کہ حکومت نواز شریف کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ شہباز شریف وزیر اعظم ضرور ہیں لیکن نواز شریف ڈی فیکٹو وزیر اعظم ہیں۔ کوئی سیاسی یا انتظامی فیصلہ ان کی صلاح اور ہدایت کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔

اسی پر اکتفا نہیں مریم نواز کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) مسلسل یہ کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح عدالتوں پر دباؤ ڈال کر یا سیاسی حالات کو استعمال کرتے ہوئے کوئی ایسا راستہ نکالا جائے کہ نواز شریف پر عائد پابندیاں ختم ہوجائیں اور انہیں پارٹی کی طرف سے چوتھی بار وزیر اعظم کا امید وار بنایا جائے۔ اصولی اور قانونی طور سے یہ طرز عمل تو قبول کیا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص کو کسی نا انصافی کی وجہ سے ناجائز طور سے پابندیوں کا سامنا ہے تو وہ ان کے خلاف جد و جہد کرے اور اس کی پارٹی بھی اس کوشش میں اس سے تعاون کرے۔

2017 میں نواز شریف کو وزارت عظمی سے ہٹانے اور پھر ان کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کے عوامل قانونی نہیں بلکہ سیاسی تھے۔ اب یہ واضح بھی ہو چکا ہے کہ اس وقت کی فوجی قیادت نے عمران خان کا راستہ ہموار کروانے کے لئے نواز شریف کو منظر نامہ سے غائب کرنے اور مسلم لیگ (ن) کو کمزور کرنے کا اہتمام کیا تھا۔ عدالتیں اس عمل میں ایک بار پھر عسکری اسٹبلشمنٹ کا آلہ کار بنی تھیں۔ یہ سراسر ظلم تھا۔ لیکن اس وقت موضوع گفتگو نواز شریف کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں نہیں ہے بلکہ یہ نمایاں کرنا مقصود ہے کہ وہ سنگین بیماریوں اور 73 سال کی عمر کو پہنچنے کے باوجود ایک بار پھر پارٹی کی قیادت کرنے اور چوتھی بار وزیر اعظم بننے کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں تو اس سے پاکستانی سیاست یا جمہوری عمل کو کیا فائدہ پہنچے گا؟

پیپلز پارٹی میں آصف زرداری کی بھی یہی پوزیشن ہے۔ انہوں نے دسمبر 2007 میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اگرچہ ان کی وصیت کی بنیاد پر بلاول بھٹو زرداری کو پارٹی چیئرمین بنانے کا اعلان کیا تھا تاہم بلاول کی کم عمری کی وجہ سے خود معاون چیئرمین کا عہدہ سنبھالا اور اب تک اس پر قابض ہیں۔ پیپلز پارٹی نے 2008 کا انتخاب جیتنے کے بعد اقتدار سنبھالا تو آصف زرداری کو ملک کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ اس دوران بلاول سیاسی طور سے متحرک اور باشعور ہوچکے تھے لیکن پارٹی کے اصل اختیارات آصف زرداری ہی کے ہاتھ میں رہے۔ یہ صورت حال اب تک موجود ہے۔ زرداری اگرچہ ابھی 70 برس کے نہیں ہوئے لیکن اخبارات میں شائع خبروں کے مطابق وہ بھی سنگین بیماریوں کا شکار ہیں۔ اس کے باوجود وہ سیاسی عزائم کم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

ملکی صدارت کے منصب جلیلہ پر فائز رہنے کے باوجود 2018 کے انتخابات میں انہوں نے قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونا ضروری سمجھا۔ تاکہ اگر سیاسی جوڑ توڑ کے دوران موقع ملے تو شاید وزارت عظمی ہاتھ آ جائے۔ انہیں یہ موقع تو نہیں مل سکا لیکن گزشتہ سال عمران خان کی حکومت گرانے میں انہوں نے بادشاہ گر کا کردار ضرور ادا کیا۔ اس سوال کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا کہ اس سیاسی جوڑ توڑ سے ملک کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے، ان میں جمہوریت کس حد تک مضبوط ہوئی یا تحریک عدم اعتماد کے نام سے کی جانے والی ’آئینی کاوش‘ کے نتیجہ میں سب سے زیادہ نقصان جمہوریت ہی کو پہنچا ہے۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اکہتر برس کے ہونے کو ہیں۔ گو کہ اپنی جسمانی ساخت اور ماضی میں کرکٹ کے کھلاڑی رہنے کی وجہ سے وہ چاق و چوبند ہیں اور اپنے ہم عمر لوگوں کے مقابلے میں زیادہ تندرست و توانا ہیں لیکن یہاں یہ پہلو بھی موضوع بحث نہیں ہے۔ بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ انہوں نے بھی سیاست سے ریٹائرمنٹ لینے اور اپنے مشن کی مشعل نئی نسل کے ہاتھ میں تھمانے کا اہتمام نہیں کیا۔ حالانکہ ان کی باتیں سنی جائیں تو وہ ملک کی نوجوان نسل کے لیڈر ہیں لیکن نوجوانوں کو کبھی پارٹی یا اپنی حکومت میں کسی قابل ذکر پوزیشن پر فائز کرنے کا اہتمام نہیں کرسکے۔ اب جو اہم لوگ حالات کے جبر کے باعث تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کر رہے ہیں، وہ سب کسی حد تک ان کے ہم عمر ہی ہیں۔

عمران خان نے اقتدار میں رہتے ہوئے 35۔ 2030 تک حکمران رہنے کی منصوبہ بندی کی تھی جس پر بدحواس ہو کر متحدہ اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کا سہارا لینا پڑا۔ اسی طرز عمل سے نوٹ کیا جاسکتا ہے کہ بزرگ ہو جانے کے باوجود عمران خان نے بھی دیگر ہم عصر پاکستانی سیاست دانوں کی طرح سیاست یا اقتدار کو خیر آباد کہنے اور دیگر ایسے کام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جو عام طور سے اس عمر کے لوگ کرتے ہیں اور خوش رہتے ہیں۔ یعنی اہل خاندان کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا یا کتابیں لکھ کر اپنی زندگی کے تجربات سے نئی نسلوں کو آگاہ کرنا۔ جمہوری دنیا کے بیشتر لیڈر ساٹھ سال کے بعد یہ منصوبہ بندی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور عمر کے آخری سال زیادہ وقت ایک پرائیویٹ شہری کے طور پر گزارنا مناسب خیال کرتے ہیں۔ اور اس دوران یادداشتیں مرتب کر کے سیاسی اور تاریخی حقائق کو ریکارڈ پر لانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔

یہاں جن تین اہم پاکستانی لیڈروں کا حوالہ دیا گیا ہے، وہ قومی سیاسی تاریخ کے اہم حقائق عینی شاہد ہیں۔ انہوں نے اندرون خانہ جوڑ توڑ میں متعدد ایسے واقعات کا مشاہدہ کیا ہے جن کے بارے میں معلومات کو ریکارڈ پر لانا بھی قومی ذمہ داری ہے تاکہ آنے والی نسلیں مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنے میں آسانی محسوس کرسکیں۔ لیکن ہمارے لیڈر حصول اقتدار کی ہوس میں اس حد تک مغلوب ہیں کہ وہ اس اہم سیاسی، تاریخی اور قومی ضرورت کو تسلیم کرنے اور اس حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اسی لئے یہ گزارش کرنا پڑی ہے کہ ہمیں ہمارے بزرگ سیاست دانوں سے بچانے کا کوئی طریقہ تلاش کیا جائے۔ راجہ پرویز اشرف کی قیادت میں قومی اسمبلی نت نئے قانون بنانے میں بہت متحرک ہے جنہیں صدر کے بعد سپریم کورٹ بھی مسترد کرنے میں مستعد ہے۔ شاید وہی سیاست دانوں کی ریٹائرمنٹ کا کوئی قانون منظور کروا سکیں۔

یہاں صرف تین بڑی پارٹیوں کے لیڈروں کا ذکر کیا گیا ہے لیکن ملک کی بیشتر دیگر چھوٹی سیاسی پارٹیوں کی صورت حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سیاسی پارٹیوں میں انفرادی تسلط کی صورت حال اور سیاسی پلیٹ فارم کو صرف حصول اقتدار کا ذریعہ سمجھنے کا مزاج ہے۔ تصور کیجئے کہ اگر پاکستان اس وقت اپنے بزرگ سیاست دانوں سے ’نجات‘ حاصل کر لے تو سیاسی حالات کیوں کر مختلف صورت اختیار کر سکتے ہیں۔ اور اس سے ملک کے لئے کتنے نئے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments