دل سے ہوتا ہوا آنکھوں میں اترا موتیا


مجھے ہمیشہ سے ہی موتیا اور موگرا کے پھول بہت پسند ہیں۔ ان کی بھینی مہکتی خوشبو سے من اندر تک مہکنے لگتا ہے۔ ماں کو بھی موتیا بہت پسند تھے۔ ماں موتیا کے پودوں میں خود گڑائی کر کے کھاد ڈالتیں۔ صبح صبح موتیے کی کلیوں کو توڑ کر چھوٹی چنگیروں میں ڈال کر کمروں کی میزوں پر سجاتیں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ موتیے سے اتنی محبت میرے دل سے ہوتی ہوئی آنکھوں میں اتر جائے گی۔ چونکہ میں عرصۂ دراز سے ایک autoimmune disease کا شکار ہوں۔

جس کی وجہ سے میں پچھلے 25 سال سے سٹیرائیڈ کھا رہی ہوں۔ تفصیل بتا کر اپنے قارئین کو بور کرنا مقصد نہیں بلکہ بتانا تھا کہ میں اپنی آنکھوں میں ہونے والی جلن اور چبھن کو جان نہیں پائی کہ اس کا سائیڈ ایفیکٹ ہو گا۔ میں بچوں کی کتابوں کی السٹریشنزز، سرورق اور بیشتر کتابیں مرتب کرتی ہوں۔ ضرورت سے زیادہ اپنی نظر کو استعمال کرتی رہی۔ متواتر آٹھ آٹھ گھنٹے کمپیوٹر پر کام کرنا، کتابوں کی پروف ریڈنگ کرنا، سیٹنگ کرنا خاصا دشوار کام ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ میری تفریح بھی آنکھوں کو ٹکا کر پھر سے نظر لگانے کی ہے یہ وہ بری نظر ہر گز نہیں جو دوسروں کو لگ جاتی ہے۔ میری پینٹنگز جو میں خود کو تازہ دم کرنے کے لیے کرتی ہوں۔ کبھی کبھار کوئی دل والا غلطی سے خرید بھی لیتا ہے ورنہ آرٹسٹ سے سب مفت ہی تصویریں مانگا کرتے ہیں۔ خیر میں بتا رہی تھی کہ مجھے روشنیوں کے اردگرد دھند کے ہالے سے نظر آیا کرتے تھے۔ گاڑی چلاتے ہوئے ان جانی سی دشواری ہوتی تھی۔

اپنے آنکھوں کے ڈاکٹر کو دکھایا تو پتہ چلا جو موتیا دل میں بستا تھا وہ دل کے رستے آنکھوں میں اتر آیا۔ ہم ہنسے کہ چیزیں تو آنکھوں میں بس کر دل میں سماتی ہیں ہمارے ساتھ الٹا ہی ہوتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ ہماری آنکھ کے شیشے پر ایک دھندلی سی جھلی آ جاتی ہے اور لگتا ہے آپ ایک میلی سی کھڑکی سے دنیا کو دیکھ رہے ہیں۔ لکھنے پڑھنے کے کاموں میں بہت مشکل پیش آتی ہے۔ مگر ہماری سادہ لوحی دیکھیے کہ ہم عرصہ تک اسے کام کی زیادتی ہی سمجھتے رہے۔

ہماری آنکھوں کے لینز یعنی شیشے چند تہوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ لینز کا مرکز نیوکلیس ہوتا ہے اور یہ سیب کے گودے کے جیسا ہوتا ہے۔ کورٹیکس وہ تہہ ہے جو نیوکلیس کے گرد ہوتی ہے۔ یہ سیب کے اس پھل کی طرح ہے جسے ہم کھاتے ہیں اور یہ مرکز کے گرد ہوتا ہے۔ کورٹیکس کے گرد باریک سی جھلی کو لینز کیپسول کہتے ہیں۔ یہ جھلی لینز کا حصہ تو نہیں ہوتی لیکن لینز کو ڈھانپنے اور تحفظ دینے کے کام آتی ہے اور سیب کے چھلکے جیسی ہوتی ہے۔ آنکھ کے شیشے میں موجود پر وٹینز چالیس سال کی عمر کے بعد ٹوٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اب تھوڑا موتیے کی علامات پر بات کر لیں :

• بصارت ابر آلود، دھندلی اور جھلی دار سی ہو جاتی ہے۔
• رنگوں کے شیڈ بھی مرجھائے سے نظر آتے ہیں۔
• تیز سورج کی روشنی چبھنے لگتی ہے۔
• بلبوں کے گرد روشنی کے ہالے نظر آتے ہیں۔
• پڑھنے کے لیے تیز روشنی چاہیے ہوتی ہے۔

ماہرین موتیا کی وجوہات میں سگریٹ نوشی، ذیابیطس، دھوپ میں زیادہ ٹائم گزارنا سٹیرائیڈ کا استعمال وغیرہ بتاتے ہیں۔ ہمارے کیس میں تو سٹیرائیڈ ہیں۔ اس سے بہتر تھا سگریٹ نوشی کی ہوتی۔ اس وقت ہماری دونوں آنکھوں کے موتیا کا آپریشن ہو چکا ہے۔ رمضان سے پہلے دائیں آنکھ اور اب پندرہ روز پہلے بائیں آنکھ۔ آپریشن تو صرف آدھ گھنٹے میں ہو جاتا ہے مگر آنکھ کو سن کرنے میں مختلف قسم کے قطرے وقفے وقفے سے ڈالے جاتے ہیں۔

اس دوران نیند کی گولی بھی کھلائی جاتی ہے تو ڈھائی گھنٹے تیاری میں لگتے ہیں۔ آپریشن کے دوران آپ کے منہ پر ایک سوراخ والا کپڑا ڈال دیا جاتا ہے جو آپریشن والی آنکھ کو کھلا رکھتا ہے۔ ہمیں روشنی کے رنگ برنگے ہالوں میں سب پتہ چلتا رہا مگر دھندلا دھندلا۔ آپریشن کے بعد کالا چشمہ لگا کر آپ ڈولتے ہوئے قدموں سے باہر نکلتے ہیں کیونکہ نیند کی گولی کا نشہ ہوتا ہے، نشہ بھی عجیب سہانی چیز ہے۔ یوں تو اس کی مکمل صحت یابی میں چار ہفتے لگ جاتے ہیں۔

مکمل احتیاط کرنی چاہیے، مگر مجھے رب نے کسی بے چین مٹی سے گوندھا ہے۔ لہذا میں نے قبل از وقت پڑھنا لکھنا شروع کر دیا میرے کتابوں، قلم اور برش سے خالی ہاتھ بے چین کرتے۔ بائیں آنکھ دائیں آنکھ سے مشکل ہوتی ہے سو اس نے لاڈلے معشوق کی طرح خوب ستایا۔ وقت گزاری کے لیے میں آئی۔ پیڈ پر مختلف پوڈ کاسٹ اور اپنے استاد محترم پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب کے لیکچرز سنتی رہی۔ قارئین! اپنی آنکھوں کی حفاظت کیجیے۔ گرد، تیز روشنی اور اڑتی ہوئی مٹی سے بچنے کے لیے کالا چشمہ استعمال کیجیے۔

ویسے بھی سوہنے مکھڑے پر خوب جچے گا اور آپ خواہ مخواہ فیشن ایبل بھی لگیں گے۔ آپریشن کے فوراً بعد سب سے مشکل کام ایک کروٹ یا سیدھا لیٹنا تھا اور ایک ہفتہ نہانے منہ دھونے سے گریز تھا۔ تیمم کر کے نماز پڑھنا ہوتی ہے۔ آنکھوں کو ملنا بھی نہیں ہوتا۔ بازاری کھانے بھی عشق ممنوع کی طرح ہوتے ہیں۔ کمر کے بل پر جھکنا بھی نہیں۔ بہتر ہے اپنی آنکھوں میں دوا کے قطرے خود ہی ڈالیں۔ ہم نے تو اپنی آؤ بھگت خود ہی کی۔ آنکھوں کو زیادہ تھکایے مت۔

تھک جائیں تو وہیں لاؤنج کے صوفے پر ڈھیر ہو جائیں اور آنکھیں بند کر کے سہانے خواب دیکھیں۔ ہرے پتوں والی سبزیاں مچھلی اور وٹامن سی اور ای خوب کھائیے۔ تناؤ سے دور رہیے خصوصاً سیاست سے۔ مطالعے کے دوران وقفے لیجیے کیونکہ وقفہ بہت ضروری ہے۔ آخر میں مجھ ناچیز کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے کیونکہ ابھی ہم ریکوری کے مرحلے میں ہیں۔ میرے ہوم آفس کا کمپوزر اور ڈیزائنر بھی بہت مزے کی باتیں کرتا ہے پرانا ساتھ جو ہے۔ مجھ سے کہنے لگا باجی شکر کریں موتیا اترا ہے گلاب نہیں ورنہ کانٹے بھی چبھتے۔ اس معصوم کو کیا پتہ ہم جیسوں کو موتیے کے کانٹے بھی چبھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments