جب اترتی ہیں میرے دل میں پرانی یادیں


جب اترتی ہیں میرے دل میں پرانی یادیں
کتنی بچھڑی ہوئی کونجوں کی صدا آتی ہے

دو دن پیشتر چائے کا عالمی دن دوستوں نے بڑی چاہ سے منایا اور طرح طرح کے بڑے بڑے باتصویر کپ اور چینکوں کی تصویریں لگائیں۔ ہم دیکھتے رہے لطف اندوز ہوتے رہے۔ کچھ لکھنے کا ارادہ ہرگز نہ تھا مگر آج دوپہر بیٹھے بٹھائے کتنی یادوں نے در دل پر دستک دی۔ چائے کے ساتھ چاہت اور محبت والے کتنے رشتے، کتنے مہربان چہرے یاد آئے اور یادوں کے کتنے چراغ روشن ہوتے چلے گئے۔

ہمارے جنت مکانی ڈیڈی کے لئے چائے بہت اہتمام، چاہ اور چینی کے خاص ٹی سیٹ میں پیش کی جاتی تھی۔ وہ ہمیشہ خاص قسم کی چائے پسند کرتے تھے۔ یعنی قہوہ، دودھ، چینی الگ الگ پیش کی جاتی۔ فجر کی نماز کے فوراً بعد ایک چھوٹی طشتری میں منے سے ٹی سیٹ میں چائے ان کی میز پر رکھ دی جاتی۔ انگلینڈ کا بنا چینی کا یہ منا سا سیٹ مجھے خاص طور پر پسند تھا۔ ڈیڈی نماز پڑھتے تو پھپھو اماں چائے کے قہوے کو دم لگا کر چینک پر ٹی کوزی دھر دیتیں۔

چینک کے منہ پر ڈھکن یا کاغذ سے ڈاٹ بنا کر منہ بند کر دیتیں تاکہ چائے ٹھنڈی نہ ہو اور اچھے سے دم لگ جائے۔ دودھ گرم کر کے دودھ دانی اور چینی، چینی دان میں ڈال کر ٹرے میں رکھ کر جائے نماز کے قریب رکھ آتیں۔ اشراق کے کافی دیر بعد ناشتہ آتا۔ اب چونکہ اکثر میں بھی ناشتے میں شریک ہوتی تو اب ناشتے کے ساتھ بڑے اور ایک اور نفیس چینی کے سیٹ میں چائے لائی جاتی۔ میری خالاؤں نے طرح طرح کی اونی ٹی کوزیاں بنا رکھی تھیں جو ان کی ہنر مندی اور سلیقے کی مظہر تھیں۔

ایک دو ٹی کوزیاں تو ابھی بھی مجھے یاد ہیں۔ ایک تو شوخ دھنک رنگوں سے بنی ایسی اونی ٹی کوزی تھی کہ دل چاہے کہ دیکھتے رہیں۔ دوسری کالے ساٹن سے بنی بلی تھی جس کی گردن میں سرخ ربن، چہرے پر دھاگے اور کڑھائی سے مونچھیں اور نقش و نگار کاڑھے گئے تھے۔ آنکھوں کی جگہ بٹن، اور جسم میں روئی بھری ہوئی تھی (اون اور اس طرح روئی کی بنی ٹی کوزیاں گھنٹوں چائے کو گرم رکھتی تھیں )

یہ ٹی کوزی میری پسندیدہ تھی۔ ٹی کوزی اس دور میں چائے کے ساتھ لازم و ملزوم تھی۔

یہ تو ڈیڈی کی چائے کا حال تھا۔ جو بہت چاؤ سے بنائی جاتی۔ باقی تمام گھر والوں کے لئے دیگچی میں چائے بنتی۔ کبھی کوئلے کی انگیٹھی، کبھی ہیٹر پر کافی دیر اور اطمینان سے بنائی جاتی۔ بار بار چائے کا مخصوص چمچ ایسے چلایا جاتا جیسے چائے کو پھینٹا جا رہا ہو۔ چائے بن جاتی تو دیگچی سے براہ راست مٹی کے گول پیالوں میں سب کے لئے ڈال دی جاتی۔ عمومی طور پر مٹی کے نقش و نگار بنے ہوئے پیالے مستعمل تھے۔ چینی کے پیالے بھی استعمال ہوتے۔

خاص مواقع پر کالی چائے کی بجائے شیر چائے بنتی (جسے آج کل کشمیری چائے کہتے ہیں ) خاص طور پر تقریبات میں الائچی کی خوشبو سے مہکتی گلابی رنگ کی شیر چائے پیش کی جاتی۔ دودھ کی دیگچی میں دودھ پر موٹی موٹی بالائی جسے ہم ملائی کہتے تھے، چائے کے پیالے پر تیرتی ہوئی اس کے لطف کو دوبالا کر دیتی۔

مجھے یاد ہے۔ صدر ایوب کے دور میں الیکشن ہوئے۔ بی ڈی سسٹم کے تحت بی ڈی ممبران کا چناؤ تھا تو آئے دن جلسے اور تقریبات ہوتیں اور ان میں شرکا ء کی تواضع کے لئے شیر چائے، نمک پارے اور دیسی سرخ مٹھائی سے کی جاتی۔

کوہاٹ میں بھی شیر چائے بنائی اور پسند کی جاتی تھی جب کہ پشاور میں ہمارے جتنے رشتے دار تھے، ان سب کے ہاں شیر چائے بنتی۔ پشاوری خواتین کے ہاتھ کی بنی چائے کا ذائقہ اور رنگ بہت گہرا گلابی ہوتا اور شیر چائے کے پیالے میں باقر خانیاں اور پھینڑیاں بھی ڈال کر کھائی جاتیں۔ چائے کی طرح کوہاٹ کی ملائی اور پشاور کی ملائی میں بھی زمین آسمان کا فرق تھا۔ ہمارے ہاں ملائی نرم اور پتلی سی ہوتی۔ پشاور کی ملائی بہت گاڑھی اور الگ ذائقے کی ہوتی۔ سنا ہے دکاندار اسے پھلیوں کے ساتھ خاص ترکیب سے تیار کرتے۔ صبح سویرے ناشتہ لانے کے لیے جاتے تو گرم گرم روغنی نان کے ساتھ پیالہ بھر ملائی بھی لے کر آتے۔ اکثر ملائی کے لئے رات سے برتن رکھوائے جاتے تھے۔ پشاور کی یہ ملائی اپنا الگ ذائقہ اور سواد رکھتی ہے۔

اب امتداد زمانہ کے ساتھ نہ وہ ذائقے رہے، نہ وہ ہاتھ جو محنت، لگن اور چاہ سے چائے تیار کر کے اپنے پیاروں اور دوست و احباب کو پیش کرتے تھے۔ اب تازہ دودھ اور ملائی کی جگہ اولپرز یا نیسلے کے دودھ ہیں، تاہم پشاور کے لوگ اب بھی شیر چائے اہتمام سے بناتے اور پیتے ہیں۔ ان کے گھروں میں کالی چائے کے ساتھ ساتھ شیر چائے بھی بنتی ہے۔ مزے کی بات یہ کہ رنگ کی بنیاد پر کہا جاتا تھا کہ کالی چائے اور گلابی چائے یا شیر چائے گویا رنگ کا امتیاز چائے میں بھی برقرار تھا۔ اور شیر چائے کو اپنے رنگ، ذائقے اور الائچی کی مسحور کن مہک کی بنا پر برتری حاصل ہے جو اب تک برقرار ہے کہ شادی بیاہ کی تقریب میں شیر چائے ہی شوق سے پی جاتی ہے۔

بچپن کی چائے، اہتمام اور سلیقے سے چائے کا ٹرے سجانا، نفیس برتن، رنگین ٹی کوزی اور چاہت کے ساتھ چائے پینا بھلا کیسے بھول سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈیڈی چائے پینے کے تمام آداب کو ملحوظ رکھتے تھے۔ چائے پیتے ہوئے منہ سے سڑ سڑ کی آواز نہیں آنی چاہیے۔ خالہ سمجھاتے ہوئے قصہ سناتیں کہ ایک دفعہ ڈیڈی اپنے انگریز اور سکھ دوستوں کے ساتھ مری میں چائے پی رہے تھے کہ اکلوتے بیٹے نے چائے پیتے ہوئے آواز نکالی، گھور کر دیکھا گھبراہٹ میں دوبارہ سڑ کی آواز آئی تو اسے ایک زور دار چانٹا رسید کیا۔

چائے کے ساتھ کتنے مہربان چہرے اور کچھ خاص مقامات کی یاد بھی جڑی ہوئی ہے۔

بی اے میں پشاور ہاسٹل آئے تو شروع شروع میں کالی بھجنگ پتلی چائے ذرا اچھی نہ لگی۔ پھر رفتہ رفتہ اسی چائے کے عادی ہو گئے۔ صبح صبح شہاب الدین بلاک کے سامنے خالائیں بڑے بڑے دیگچے سامنے رکھے ہوتیں۔ ہم کپ آگے کرتے وہ چائے ڈالتیں، آدھا نان ایک چھوٹی سی مکھن کی ٹکیا پکڑاتیں۔ کمرے تک آتے آتے اسے دباتے تو پانی نچڑ کر بہت منی سی ٹکیا رہ جاتی۔ اسی طرح شام کی چائے سے پہلے تیار ہونا اور لان میں بیٹھ کر دوستوں کے سنگ چائے پینا۔ عمر کا وہ الہڑ پن، دوستوں کا ساتھ، باتوں اور محبت کی شیرینی سے یہ چائے کیسی شیریں اور مسحور کن لگتی۔

ارے کوئی ایسا چائے کا کپ مل سکتا ہے!

ہماری شادی 25 اپریل 1976 میں ہوئی۔ مئی کے آغاز میں ڈرتے جھجکتے میرے شوہر نسیم نے اپنے ابا جی سے ہنی مون پر جانے کی اجازت چاہی۔ جو خلاف توقع بہت آسانی سے مل گئی۔ ہم نے فٹافٹ نوٹوں والے کنٹھوں سے نوٹ اتارے۔ منہ دکھائی کی رقم بھی ملا کر مری نتھیا گلی روانہ ہوئے۔ تب مئی میں بھی شدید سردی تھی۔ نتھیا گلی میں اکثر مقامات پر برف پڑی ہوئی تھی۔ سردی اور کہر آلود سرد موسم میں انڈے پراٹھے کے ساتھ چائے پینا کیسا پر لطف اور سرور انگیز تھا۔ اس چائے میں چاؤ، چاہ، چاہت کے سارے نیارے رنگوں کا رچاؤ تھا۔

چائے کے ذکر پر تو یادیں ہیں کہ امڈی چلی آ رہی ہیں۔ چلیں جی کشمیر چلتے ہیں۔ میرا بھائی تمثیل حبیب بنک مظفر آباد میں تھا۔ بچوں کی چھٹیاں دسمبر میں ہوئیں تو ہم سب بھائی بھابھی کے پاس مظفر آباد گئے۔ دسمبر کا مہینہ اور کشمیر کی سردی میں چائے کا وہ لطف و سرور بھلائے نہیں بھولتا۔ میری خالہ کے ہاتھ کی چائے بہت منفرد اور خاص ہوتی تھی۔ میری بھابھی نورین میری خالہ زاد ہے اور اس کے ہاتھ میں بھی ماں والا ذائقہ ہے۔

رات کو بستر پر لیٹتے تو لگتا تھا کہ گیلے بستر پر دراز ہیں۔ بجلی کا ہیٹر بھی سردی کی شدت کم کرنے میں ناکام دکھائی دیتا۔ ایسے میں نورین گرم گرم دودھ پتی کے مگ پکڑاتی تو اس چائے کی لذت، سرور رگ و پے میں سرایت کر کے سردی کی شدت زائل کر دیتا۔

لیجیے ایک اور یاد نے دامن پکڑ لیا۔ یہ یاد چکوٹھی کی ہے۔ جس دن چکوٹھی کے لئے نکلے۔ موسم ابر آلود اور شدید سردی تھی۔ جو چکوٹھی پہنچتے پہنچتے مزید شدت اختیار کر گئی۔ چکوٹھی پاکستان، ہندوستان کا وہ بارڈر ہے جہاں آمنے سامنے دونوں افواج کے مورچے ہیں۔ یہیں ہمیں اس علاقے کی حساسیت اور اہمیت کے بارے میں بتایا گیا۔ مورچے میں جاکر دوربین سے نظارے کیے اور نشان حیدر پانے والے سرور شہید کا مورچہ دیکھا۔ ان کے کارنامے سنے۔ یہ دیکھ کر واپس گیسٹ روم کی طرف آئے تو ہلکی ہلکی بوندا باندی تیز ہو گئی۔

سردی کی شدت سے دانت بج رہے تھے۔ ایسے میں جب بھاپ اڑاتی چائے اور گرما گرم پکوڑے سامنے آئے تو جس ندیدے پن سے ہم سب نے پکوڑے کھائے اور چائے پی، اس سواد اور سکون کی کیفیت بیان کرنے کے لئے الفاظ نہیں۔ آپ تصور کیجئے۔ پکوڑوں اور چائے کا لطف اٹھائیے۔

اللہ اللہ یاد کا ایک اور جگنو چمکا جو میرے پیارے بھائی جمیل عرف جگنو کی یاد ہے۔

وہ چھٹی والے دن ہاسٹل سے میرے پاس نوشہرہ آتا۔ رات کو وہ اور نسیم شطرنج کی بازی لگاتے۔ شطرنج کی بساط بچھانے سے پہلے وہ کہتا آپی دودھ کافی سارا ہونا چاہیے۔ دودھ پتی میں خود بناوں گا۔ میں کہتی۔ دیگچی بھری رکھی ہے۔ خود لے لو۔ وہ ہلکی آنچ پر رکھ آتا۔ اس کے ہاتھ کی بنی دودھ پتی کا ذائقہ کیسے بھول سکتی ہوں کہ اب وہ ہاتھ ہی نہیں رہے۔ جگنو کی طرح چمکتا دمکتا میرا بھائی جوانی میں ہی چل بسا۔

وہ چاند کھو گیا ہے اندھیروں کی گود میں

اس یاد کی رنجیدگی میں سوچا کہ بس اس قصے کو ختم کروں جو طول پکڑتا جا رہا ہے مگر کچھ اور خوبصورت مقام یاد آئے۔ جنہیں نظر انداز نہیں کر سکتی۔

یہ یاد ہے بہت خوبصورت مقام اور بہت مقدس ایام کی ہے جب 1998ء میں ہم حج پر گئے۔ پشاور کے تین بہت اچھے لوگ کمرے میں ہمارے ساتھ تھے۔ رات دو بجے بزرگ خاتون جگاتیں چلو تیار ہو جاؤ تہجد نکل نہ جائے۔ جلدی جلدی تیار ہو کر 80 سیڑھیاں اتر کر، کافی سارا پیدل چل کر حرم پہنچتے۔ تہجد کی اذان ہوتی نفل پڑھ کر فجر، اشراق پڑھ کر گھر آتے تو تھکن سے چور ہوتے۔ راستے سے لائے ہوئے پراٹھوں کے ساتھ ابئی کا بیٹا جمشید سنہری بڑی کیتلی چائے کی لے کر آتا تو دیکھ کر آنکھوں کی چمک اور بھوک چمک اٹھتی۔

چائے کا ایک ایک گھونٹ سرور بن کر اترتا۔ کپ آدھا رہ جاتا تو ابئی چینک اٹھا کر سب کے کپ بھر کر کہتی کہ چائے تازہ کرلیتے ہیں۔ ایسا کئی بار ہوتا۔ اس وقت چائے کی طلب ایسی شدید ہوتی کہ چائے تازہ کرنے کی پیشکش پر کوئی بھی انکار نہ کرتا۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ چینک خالی ملتی تو ابئی جھٹ اپنی جھوٹی چائے نسیم کے کپ میں انڈیل کر تازہ کر دیتی اور وہ ابئی کی مادرانہ محبت کے سامنے انکار نہ کر سکتے اور غٹاغٹ پی جاتے۔

پھر حالیہ برسوں میں رمضان کے عمرے، عربوں کی مہمان نوازی، چائے کے بڑے بڑے تھرماس، شائے، مخصوص عربی قہوہ، خوشبو کی لپٹیں اٹھتی ہوئی چھوٹے چھوٹے فنجانوں میں کھجور کے ساتھ اس قہوے کی تلخی ساری تھکن اتار دیتی۔ تراویح تک شائے اور قہوے کے کئی کپ پی لیتے اور دل ہی دل میں شکر ادا کرتے کہ یا اللہ تو کتنا مہربان اور فیاض ہے۔ کہ اپنے گھر کا یہ رزق نصیب کیا۔ بہترین میزبانی کی۔

فبائی آلاء ربکما تکزبان

اے میرے رب ہم تیری کسی نعمت کا انکار نہیں کرتے۔ ہمیشہ مہربان رہنا میرے مہربان رب اور بار بار اپنے گھر اور مدینہ منورہ کا رزق اور میزبانی نصیب کرنا کہ تجھ سے بڑھ کر کون سخی اور کون اچھا میزبان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments