پی ٹی آئی۔ ریت کی دیوار کیوں؟


کیا کسی کے وہم و گماں میں بھی تھا کہ عمران خان کی چھبیس سالہ جدوجہد اور اسٹیبلشمنٹ کی پانچ سالہ کوششوں سے وجود میں آنے والی پاکستان تحریک انصاف اس طرح پانی کا بلبلہ ثابت ہوگی۔ ہم تو روز اول سے ان کے جذباتی کارکنوں کو یہ سمجھانے کی سعی لاحاصل کرتے رہے کہ پی ٹی آئی کوئی سیاسی جمہوری یا نظریاتی پارٹی نہیں ہے یہ اسٹیبلشمنٹ کے خواص کا ایک گٹھ جوڑ ہے اور عمران خان کا فین کلب ہے مگر خان کی محبت اور اقتدار کے نشے سے سرشار عوام و خواص ہمیں کب درخور اعتنا سمجھتے۔

دراصل نوجوان نسل کا المیہ یہ ہے کہ ان کی تاریخ دو ہزار سے شروع ہوتی ہے جو حجرہ اور مسجد سے بعد کا دور ہے اور سوشل میڈیا تک محدود ہے جو کتاب سے بعد سرسری معلومات اور پروپیگنڈے پر محیط ہے۔ سنہ دو ہزار سے پہلے علم سمجھ بوجھ اور معلومات کے ذرائع محدود تھے مگر سقہ ذرائع تھے۔ یعنی کتاب، جہاندیدہ اور تجربہ کار بزرگوں کی زبانی تاریخی قصے یا پھر اخبار میں چھپنے والے عالم فاضل اور تجربہ کار لوگوں کے تجزیے۔ اور ریڈیو کی خبریں۔

بد قسمتی سے آج کل کے دور میں سوشل میڈیا کے ذریعے ان پڑھ ٹین ایج اور اسی سالہ دانشور کو ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جھوٹ فریب پروپیگنڈے اور سازشوں کا ایک طوفان بد تمیزی برپا ہے۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ہے۔ دائیں طرف سے ایک جہاندیدہ عالم فاضل بزرگ دانشور آواز لگاتا ہے بچوں میری طرف دیکھ، میں اپنے تجربے علم اور تاریخ کی روشنی میں کچھ سمجھانا چاہتا ہوں، مگر بائیں طرف سے مغرب سے آئی ہوئی ایک خوبرو دوشیزہ یا پچیس سالہ نوجوان صدا لگاتا ہے۔ بابا کو رہنے دے میں جدید دنیا سے واقف ہوں۔ جدید دور کے تقاضوں کو سمجھتا ہوں مجھے سنیں۔ آئیں انقلاب برپا کرتے ہیں دنیا بدلتے ہیں تبدیلی لاتے ہیں نیا پاکستان بناتے ہیں علی ہذالقیاس۔

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ نو مئی کے بعد عمران خان کی پارٹی پر مشکل وقت ہے۔ درجنوں رہنماؤں سمیت ہزاروں کارکن گرفتار ہیں مگر کیا یہ پاکستان کی تاریخ میں کوئی پہلی پارٹی ہے جو ان حالات کا سامنا کر رہی ہے۔ بالکل نہیں۔ بلکہ اس سے پہلے نیشنل عوامی پارٹی جو بعد میں عوامی نیشنل پارٹی بنی، پاکستان پیپلز پارٹی اور حال ہی میں مشرف اور عمران خان دور میں مسلم لیگ نون اسی قسم کے حالات سے نبردآزما رہی ہے۔ خان عبد الغفار خان عرف باچا خان نوابزادہ نصر اللہ خان، خان عبدالولی خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری، نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال، رانا ثنا ء اللہ، حمزہ شہباز سمیت سینکڑوں رہنماء نے مختلف دورانئے کے جیلیں کاٹی ہے۔

کیا آپ لوگوں میں سے کسی نے سنا ہے کہ ان میں سے کسی نے جیل سے بچنے یا خاندان کو بچانے کے لئے پارٹی بدلی ہے نظریہ بدلا ہے یا سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ نوجوان نسل کو یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں اقتدار کا حصول پھولوں کی سیج نہیں ہوتی ہے بلکہ کانٹوں کی بستر ہوا کرتی ہے۔ یہاں تخت اور تختہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ دودھ کے مجنون عوام کی خدمت کے جھوٹے دعویدار اور مفادات کے غلام تو ہوسکتے ہیں، عوام کے خادم نہیں ہوسکتے۔

اس لیے جو رہنماء رو رو کر پارٹی چھوڑنے کے اعلانات کرتے ہیں یہ دراصل دودھ کے مجنون تھے، اشارہ ملا تھا تو اقتدار کی خاطر پارٹی میں شامل ہوئے تھے اب جب انہیں معلوم ہو گیا کہ مصنوعی طور پر بنائی گئی پارٹی اپنے فطری اختتام کو پہنچ گئی تو یہ لوگ موسمی پرندوں کی طرح پرواز کر گئے۔ اور آج فواد چوہدری، اسد عمر، عمران اسماعیل، شیریں مزاری، فیاض چوہان، عامر کیانی اور علی زیدی جیسے کچن کیبنٹ کے لوگ بھی الزام لگا رہے ہیں کہ عمران خان کو مشیروں نے غلط مشورے دیے۔

بھئی پھر یہ تو بتایا جائے کہ اگر آپ سب لوگ مشوروں میں شامل نہیں تھے تو پھر ان کے مشیر تھے کون؟ یا تو اگر جرات ہے تو سیدھا سیدھا بتادے کہ عمران خان ڈکٹیٹر کی طرح کسی کا مشورہ نہیں مان رہا تھا من مانی کر رہا تھا، یا یہ بتادے کہ وہ صرف اپنی بیگم بشری بی بی کی بات کو فوقیت دیتا تھا اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آپ سب لوگ ان کے تمام گناہوں اور غلطیوں میں برابر کے شریک ہیں۔ صرف ایک پریس کانفرنس کر کے تم وقتی طور پر تو قید و بند کی صعوبتوں سے نجات حاصل کرو گے مگر قوم آپ لوگوں کا اصل چہرہ پہچان گئی ہے۔ آپ جب عمران خان کے نہ ہو گئے تو کسی کے بھی نہیں ہو سکتے۔

دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ دو ہزار سترہ اٹھارہ میں یہی موسمی پرندے پکے ہوئے پھل کی طرح بن مانگے عمران خان کی جھولی میں گرتے رہے۔ اور آج یہ سب لوگ بقول میر درد۔

تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے۔ جس لئے آئے تھے سو ہم کر چلے
درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب۔ کس طرف سے آئے تھے کدھر چلے

جو کچھ ہو رہا ہے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے لئے تو مکافات عمل ہے مگر پاکستانی عوام اور سادہ لوح جوانوں کے لئے بد قسمتی اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں۔ پہلے بھی یہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پر ہوا تھا آج بھی ہوا کا رخ اور آبرو کا اشارہ دیکھ کر ہو رہا ہے۔ عمران خان کے غیر لچکدار اور غیر جمہوری رویے کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئی۔ اور نوجوان نسل کا جمہوریت اور سیاست پر ایمان پہلے سے زیادہ کمزور ہو گیا۔

نوجوانوں میں تبدیلی کا کیڑا دم توڑنے لگا ہے۔ البتہ قانون کی پاسداری اور حکومتی رٹ واپس بحال ہونے لگا ہے۔ عوام کو پولیس قانون اور فوج کی طاقت کا اندازہ ہونے لگا ہے۔ جن لوگوں نے طاقت کے نشے میں چادر سے پاؤں باہر نکالے تھے وہ زور لگا کر اپنے پاؤں سمیٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ علاقائی تجارت اور تعلقات کو فروغ ملنا مستقبل کے لئے خوش خبری کی نوید ہے۔ جب ہم کہتے تھے کہ مستقبل کی سیاست میں عمران خان کا کوئی کردار نہیں تو یار لوگ ہمارا مذاق اڑاتے تھے امید ہے ان کی تسلی بھی ہو چکی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments