ونسنٹ وین گو: فنکار بھی، ذہنی بیمار بھی (7)


ونسنٹ وین گو ایک ایسے عظیم فنکار تھے، جنہوں نے فن کو ایک نیا اعتبار بخشا۔ وہ بجا طور پر فنکاروں کے لیے سرمایہ افتخار تھے۔ انہوں نے سینتیس برس کی عمر میں خودکشی کر کے فن اور پاگل پن کے رشتے کے بارے میں ایسے سوال اٹھائے تھے کہ آج تک ماہرین فن اور ماہرین نفسیات انگشت بدنداں ہیں۔ ونسنٹ وین گو کی خودکشی ہم سب کو ان کی زندگی، تخلیقی صلاحیتوں اور ذہنی مسائل کے رشتوں کو سنجیدگی سے مطالعہ کرنے پر اکساتی ہے۔ وین گو ایسے فنکاروں میں سے ایک تھے جو اپنے دل میں رنگوں، جذبوں، رشتوں اور خوابوں کے بہت سے راز چھپائے ہوتے ہیں۔

جب ہم ونسنٹ گو کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارا ان کی پیدائش سے موت تک بہت غیر معمولی حالات، واقعات اور کیفیات سے واسطہ پڑتا ہے۔

ونسنٹ تیس مارچ 1853ء کو ہالینڈ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد تھیوڈورس ایک پادری تھے اور مذہب سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے۔ ان کی والدہ اینا ایک گھریلو خاتون تھیں، لیکن فنکارانہ صلاحیتوں کی مالک تھیں۔ ونسنٹ کی پیدائش سے ایک سال پیشتر ان کا ایک بھائی فوت ہو چکا تھا۔ ونسنٹ کو یہ جان کر حیرانی ہوئی تھی کہ ان کے بھائی کا نام بھی ونسنٹ ہی تھا۔ چنانچہ جب وہ اپنے بھائی کی قبر پر جاتے تو انہیں اپنے ہی نام کا کتبہ نظر آتا۔

ونسنٹ وین گو شروع سے ہی روایتی انداز فکر اور طرز زندگی سے بیزار تھے۔ انہیں جب گیارہ سال کی عمر میں ایک بورڈنگ اسکول میں داخل کروایا گیا تو انہوں نے چار سال کے بعد روایتی نظام تعلیم سے اکتا کر اسکول کو خیر باد کہہ دیا۔ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو روایت کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہتے تھے۔ انہیں نوجوانی سے ہی آرٹ سے لگاؤ تھا چنانچہ انہوں نے سولہ برس کی عمر میں ایک ایسے آرٹ ڈیلر کے ہاں نوکری کی جو یورپ کے مختلف ممالک کو آرٹ فراہم کیا کرتا تھا۔ ونسنٹ نے اس آرٹ ڈیلر کے ہاں پانچ سال ملازمت کی۔ ونسنٹ کی اپنے بھائی تھیو سے دوستی میں ایسی گہرائی پیدا ہوئی جو مرتے دم تک قائم رہی۔ ونسنٹ نے اگلے چند سالوں میں اپنے بھائی کو سینکڑوں خطوط لکھے تھے۔

اٹھارہ سو چوہتر کو جب ونسنٹ کو ملازمت کے سلسلے میں لندن میں منتقل کر دیا گیا تو ان کی زندگی میں کئی بحران آئے۔ ان کا پہلا بحران ان کا پہلا ناکام عشق تھا۔ ونسنٹ لندن میں اپنی لینڈ لیڈی کی بیٹی ارسلا کی زلف کے اسیر ہو گئے تھے لیکن اپنی شرمیلی طبعیت کی وجہ سے اپنے پیار کا اظہار نہ کرپائے۔ آخر جون اٹھارہ سو چوہتر میں جب انہوں نے ہمت کر کے دل کا مدعا بیان کیا تو انہیں یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ ارسلا کی منگنی ہو چکی تھی۔ ونسنٹ نے ارسلا کو اپنی منگنی کو توڑنے کا بھی مشورہ دیا تھا لیکن اس نے انکار کر دیا۔ ونسنٹ کا دل ٹوٹ گیا۔ عشق کی ناکامی کے بعد ونسنٹ نے کچھ عرصہ مذہب میں پناہ ڈھونڈی تھی۔ عشق کی ناکامی کے ساتھ ساتھ ونسنٹ کا دل آرٹ کے کاروبار سے بھی اکتا گیا اور وہ اس ملازمت سے بھی دستبردار ہو گئے۔

کاروبار اور عشق سے کنارہ کشی کے بعد ونسنٹ نے کچھ عرصہ اسکول میں پڑھانا شروع کیا۔ اسی دوران انہوں نے اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مذہب کا بھی کافی مطالعہ کیا اور کچھ عرصہ گرجے میں تبلیغ بھی کی لیکن یہ کام بھی انہیں راس نہ آیا۔ ان دنوں ونسنٹ ذہنی طور پر بہت پریشان رہا کرتے تھے۔ آخر ایک ناخوشگوار واقعہ نے اس کی زندگی کا رخ بدل دیا۔ 1878 میں ایک دن وہ اسکول میں بچوں کو پڑھا رہے تھے کہ ایک بچے نے ان کا مذاق اڑایا اور ان کا کوٹ پیچھے سے کھینچا۔ ونسنٹ کو اتنا غصہ آیا کہ انہوں نے اس طالب علم کو زور سے مکا مارا، یہ ونسنٹ کا بے قابو ہونے کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ اس واقعہ کے بعد ونسنٹ کو مدرسے کی ملازمت سے دستبردار ہونا پڑا۔

جہاں ونسنٹ اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے تھے وہیں وہ اس راستے کے خلاف بغاوت کے جذبات بھی رکھتے تھے۔ ونسنٹ اپنے والد سے محبت بھی کرتے تھے اور نفرت بھی اور یہ جذبات مختلف طریقوں سے اپنا اظہار کرتے تھے۔ ونسنٹ کے بارے میں ان کے والد کا خیال تھا کہ وہ عجیب و غریب خیالات کے مالک ہیں اور والدہ کی رائے تھی کہ وہ زندگی میں سب سے مشکل راستہ اختیار کرتے ہیں۔

ونسنٹ جب اس جذباتی بحران سے نکلے تو اٹھارہ سو اسی میں انہوں نے باقی تمام کاموں کو چھوڑ کر فن کو گلے سے لگا لیا۔ انہیں اس حقیقت کا عرفان حاصل ہو گیا تھا کہ ان کی بقیہ زندگی کا مقصد فن کو جلا بخشنا ہے۔ اٹھارہ سو اسی کے بعد انہوں نے اپنی زندگی فن کے لیے وقف کردی تھی۔ ونسنٹ نے اس سال برسلز کا رخ کیا جہاں انہوں نے پینٹنگ اور سکیچ کے فن کی تعلیم حاصل کی اور دیگر فنکاروں کی صحبت میں وقت گزارا۔

اٹھارہ سو اکیاسی میں ونسنٹ کو ایک اور ذہنی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بحران کا تعلق بھی عشق کی ناکامی سے تھا۔ ونسنٹ اپنی کزن ”کی“ کو دل و جان سے چاہنے لگے تھے۔ ”کی“ بیوہ ہو چکی تھیں اور ایک بچے کی ماں بھی تھیں۔ ونسنٹ پہلے تو اس بچے سے شفقت و محبت سے پیش آتے رہے اور آخر انہوں نے ہمت کر کے ”کی“ سے اپنے رومانوی جذبات کا اظہار کر دیا۔ ”کی“ ونسنٹ کے محبت کے تحفے کو قبول نہ کر سکی، کیونکہ وہ ابھی اپنے خاوند کا سوگ منا رہی تھیں۔ ونسنٹ کا دل ایک بار پھر ٹوٹ گیا۔ وہ اس واقعہ سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ ایک دفعہ انہوں نے ”کی“ کا ان کے والدین کے سامنے ہاتھ تھامنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے موم بتی کے اوپر ہاتھ رکھ دیا۔ اور اس وقت تک رکھے رکھا جب تک کہ ان کے ہاتھ کے جلنے کی بو کمرے میں نہ پھیل گئی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ونسنٹ نے اپنے جسم کے کسی حصے کو اذیت پہنچائی تھی۔

اٹھارہ سو اکیاسی کی کرسمس کے موقع پر ونسنٹ کا اپنے والد سے بھی نہایت تلخ مکالمہ ہوا، ونسنٹ اتنا دلبرداشتہ ہوئے کہ مقررہ وقت سے پہلے ہی واپس چلے گئے۔ ونسنٹ کی اپنے والد سے ان کی موت تک، جو مارچ اٹھارہ سو پچاسی میں ہوئی تھی، بغاوت اور جنگ جاری رہی۔

ونسنٹ کا جب برسلز سے دل بھر گیا تو وہ ہیگ کے شہر میں چلے گئے، جہاں ان کی ملاقات ایک حاملہ طوائف سے ہوئی۔ ونسنٹ کو وہ اتنی پسند آئیں کہ وہ اس کے ساتھ ڈیڑھ سال تک رہے، اور اس کے بیٹے کے ساتھ بھی شفقت سے پیش آتے رہے۔ جب ونسنٹ ہیگ سے اکتا گئے تو انہوں نے جنوبی فرانس کے شہر آرلیز کا رخ کیا، جہاں مشہور فن کار ایڈولف مونٹی سیلیرہا کرتے تھے۔ ونسنٹ اس فنکار کے بڑا مداح تھے۔

جہاں تک ونسنٹ کی فنی زندگی کا تعلق تھا انہوں نے اس کا باقاعدہ آغاز اٹھارہ سو اکیاسی میں اسکیچز سے کیا تھا اور اٹھارہ سو تراسی میں ہی انہوں نے آئل پینٹنگز بنانی شروع کردی تھیں۔ اگلے سات سالوں میں انہوں نے آٹھ سو پینٹنگز بنائی تھیں۔ جن میں سے چار سو پچاس ان اٹھارہ مہینوں میں بنائی تھیں جب وہ ذہنی بیماریوں کے اسپتال میں داخل تھے اور ان پر پاگل پن کے دورے پڑتے تھے۔

ونسنٹ وین گو چوبیس دسمبر اٹھارہ سو اٹھاسی کو اپنا کان کاٹنے کے بعد ذہنی بیماریوں کے ہسپتال میں داخل ہوئے تھے۔ ماہرین کا خیال تھا کہ چونکہ ایک زمانے میں ونسنٹ بہت مذہبی ہو گئے تھے اور انہوں نے انجیل میں یہ پڑھ رکھا تھا

IF THINE EAR OFFEND THEE CAST IT FORTH
چنانچہ انہوں نے اپنا کان کاٹ دیا۔

ونسنٹ پر اگلے اٹھارہ مہینوں میں شائزوفرینیا کے آٹھ دورے پڑے، جن میں سے ہر ایک چند دنوں سے چند ہفتوں تک انہیں متاثر کرتا رہا لیکن اس کے باوجود ونسنٹ نے اپنے تخلیقی کام سے ہاتھ نہ روکا، وہ مسلسل پینٹنگز بناتے رہے، انہوں نے ان اٹھارہ ماہ میں چار سو پچاس پینٹنگز بنائیں۔ ان اٹھارہ مہینوں میں ونسنٹ نے اپنے بھائی کو تقریباً ہر روز ایک خط لکھا۔ ان خطوط میں وہ اپنے ذہنی بیماری کے درد کو SPELLS-FITS-INNERSEIZURES OF DESPAIR کے الفاظ سے بیان کرتے تھے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ونسنٹ اتنے عظیم تھے کہ انہوں نے ذہنی بیماری کو بھی تخلیقی سفر کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا، بلکہ شائزوفرینیا بیماری کو تخلیقی سطح پر استعمال کیا۔

جب ہم ونسنٹ کی سوانح عمری پڑھتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ذہنی بیماری کے ساتھ وہ ’اس دور کے فنکاروں کی طرح‘ چند غیر معمولی نشہ آور ادویہ بھی استعمال کرتے تھے۔ ان ادویہ نے ان کی بیماری کو مزید پیچیدہ بنا دیا تھا۔

ونسنٹ کے بھائی تھیو کا خیال تھا کہ ونسنٹ اپنے سب سے بڑے دشمن ہیں۔

اٹھارہ مہینوں کی ذہنی بیماری اور تخلیقی کرب کے بعد ستائیس جولائی اٹھارہ سو نوے کو ونسنٹ وین گو نے اپنے پیٹ میں خود ہی گولی مار دی۔ وہ اپنے کمرے کے باہر درد سے کراہتے ہوئے پائے گئے۔ ڈاکٹروں نے معائنے کے بعد کہہ دیا کہ پیٹ سے گولی نکالنا ناممکن ہے۔ ونسنٹ کے بھائی تھیو کو اطلاع دی گئی جن کے بازوؤں میں ونسنٹ نے انتیس جولائی اٹھارہ سو نوے کو موت کو گلے سے لگا لیا۔

بعض محققین کا خیال ہے کہ ونسنٹ کو یہ معلوم ہوا کہ ان کا بھائی تھیو اتنا بیمار ہے کہ وہ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہے گا، تو وہ بہت پریشان ہوئے، انہوں نے خود کشی کے چند مہینے پہلے بھائی کو لکھا بھی تھا،

”تمہاری دوستی کے بغیر اتنا غمزدہ ہو جاؤں گا کہ خود کشی کرلوں گا“ ۔

ونسنٹ کے بارے میں محققین کا یہ بھی خیال ہے کہ جب ونسنٹ کو پتہ چلا کہ برسوں کے ریاض کے بعد ان کی پینٹنگز ناصرف مقبول ہونے لگی تھیں، بلکہ بکنے بھی لگی تھیں اور وہ کامیابی کے دروازے پر کھڑے تھے تو انہوں نے خود کشی کا فیصلہ کر لیا تھا، کیونکہ وہ کامیابی سے ڈرتے تھے۔ انہوں نے اپنی والدہ کو ایک خط میں لکھا تھا

”ایک پینٹر اور فنکار کے لیے سب سے خطرناک چیز اس کی کامیابی ہے“ ۔

ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ ونسنٹ وین گو بالغ ہو کر بھی دل سے بچے ہی تھے۔ یہی ان کی کامیابی کا راز اور یہی ان کی ناکامی کی وجہ تھی۔ ونسنٹ وین گو نے ماہرین نفسیات کو اتنا متاثر کیا تھا کہ آج بھی شائزوفرینیا کا کوئی مریض جب ذہنی توازن کھو کر اپنے جسم کے کسی حصے کو کاٹتا ہے تو اس کی تشخیص Van Gogh Syndrome کی جاتی ہے۔

جب ہم ونسنٹ وین گو جیسے عظیم فن کاروں، شاعروں، ادیبوں، ایکٹروں، نابغہ موسیقاروں، اور دیگر فنون لطیفہ کے ماہرین کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں جو نابغہ روزگار بھی تھے اور ذہنی طور پر بیمار بھی اور فن اور پاگل پن کے باہمی رشتے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم اپنے آپ کو ایک ایسے دوراہے پر کھڑا پاتے ہیں جہاں سے دونوں راستے تاریکیوں میں کھو جاتے ہیں۔

ماہرین فن اور ماہرین نفسیات آج بھی تخلیقی صلاحیتوں اور ذہنی بیماریوں کے رشتے کے راز جاننے سے قاصر ہیں۔ لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ان میں ایک رشتہ ضرور ہے۔ میں نے جون 1993 میں برازیل میں ماہرین نفسیات کی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی تو مجھے آئس لینڈ کے ایک محقق جون کارلسن کا پیپر سننے کا موقع ملا، ان کے پیپر کا عنوان تھا

Inheritance of Creative Intelligence in Iceland

اس مقالے میں کارلسن نے آئس لینڈ کے فنکاروں، ادیبوں، اور ذہنی توازن کھونے والوں کے بارے میں اپنی تحقیق کے نتائج پیش کیے تھے۔ کارلسن کا مشاہدہ ہے کہ اٹھارہ سو اکیاون سے انیس سو چالیس کے دور کے ادیبوں، اور اسپتال میں داخل ہونے والے ذہنی مریضوں کے رشتہ داروں (والدین، بہن، بھائی، چچا، ماموں، خالہ، پھوپھی، اور کزن) میں ادیبوں اور یونیورسٹی میں غیر معمولی طور پر کامیاب ہونے والوں کی تعداد عام لوگوں کی نسبت کافی زیادہ تھی۔ یہ فرق 15فیصد سے 39 فیصد کا تھا۔

کارلسن کا نظریہ ہے کہ ذہنی بیماریاں اور تخلیقی صلاحیتیں creativity and insanity دونوں ایک ہی طرح کی جینز سے نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں، اگر بچوں میں ان رجحانات کی شدت اور ماحول کی موافقت میں ایک مفاہمت پیدا ہو جائے تو وہ بچے فنکار بن جاتے ہیں۔ لیکن اگر وہ رجحانات بے قابو ہوجائیں اور شخصیت اور ذہن انہیں برداشت نہ کرسکیں تو وہ بچے جوان ہو کر ذہنی توازن کھو دیتے ہیں۔ اس لیے ایک ہی خاندان کے بعض افراد کا فن کار اور بعض کا ذہنی بیمار ہوجانا بعید از قیاس نہیں۔

اگرچہ ماہرین اور محققین کے یہ مشاہدات اور تجزیے ابتدائی نوعیت کے ہیں لیکن وہ ہمیں زندگی، فن اور ذہنی بیماریوں کے نئے انداز سے سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔

مجھے ایک سائنس، نفسیات، ادب اور زندگی کے طالب علم ہونے کے ناتے پورا یقین ہے کہ آئندہ چند دہائیوں میں ہم ان رازوں سے مزید پردہ اٹھائیں گے، انفرادی اور اجتماعی طور پر اس چیلنج کو قبول کریں گے۔ اور انسانی زندگی کے فنکارانہ خوابوں کو نئی تعبیروں سے نوازیں گے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments