ترکی کے صدارتی انتخابات معرکۂ حق و باطل نہیں


ترکی کے حالیہ صدارتی انتخابات میں دو انتخابی اتحاد ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ ایک طرف مرد آہن طیب اردوان جمہوری اتحاد کی طرف سے میدان میں اترے جبکہ دوسری طرف ملی اتحاد تھا جس کے امیدوار کمال کلیش کاردو (المعروف کے کے ) سیکولر جماعت ریپبلیکن پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں۔

ایک رومانوی تصور عام ہے کہ عثمانی سلطنت میں سب رعایا بالخصوص مسلمان چین کی بانسری بجایا کرتے تھے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں مسلسل نسلی، لسانی اور مذہبی بنیاد پر بیرونی توسیع اور اندرونی بغاوتوں کے استیصال کا سلسلہ جاری رہتا اسی لئے فوج مضبوط تھی۔ زرعی اور جاگیردار سماج میں یوں بھی انسانوں کا ایک گروہ دوسرے گروہ کے متعلق طے شدہ اور حتمی آراء رکھتے ہیں۔ مثلاً فلاں قبیلہ سازشی ہے۔ فلاں، فلاں سے ملا ہوا ہے۔ فلاں علاقے کی خواتین بے حیاء ہیں، فلاں نسل کے بچے چور ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ چنانچہ بلوے اور قتل عام ہو جایا کرتے۔

29 اکتوبر 1923 ء میں جدید ترکی کے قیام سے لے کر 1945 ء تک ترکی میں اتاترک کی بنائی ہوئی ریپبلیکن پیپلز پارٹی کا ایک جماعتی اقتدار قائم رہا۔ اتاترک جو نو زائدہ ملک کے پہلے وزیر اعظم رہنے کے بعد 15 سال تک صدارت پر فائز رہے مسلسل حزب اختلاف کی جماعتوں کے قیام کی خواہش کا اظہار کرتے رہے لیکن ساتھ ہی ہر نئی جماعت کو کالعدم بھی کیا جاتا رہا۔

1938 ء میں اتاترک کی موت کے بعد اقتدار ان کے ایک دست راست عصمت انونو نے سنبھال لیا۔ یہ صاحب ترکی کے پہلے چیف آف جنرل سٹاف رہنے کے بعد 12 سال تک صدر اور متعدد بار وزیراعظم رہے۔ ریپبلیکن پیپلز پارٹی کے اقتدار کو پہلی مرتبہ ڈیموکریٹ پارٹی نے چیلنج کیا۔ جس کے بانی جلال بائر خود اتاترک دور میں وزیر اعظم رہ چکے تھے۔ ان دونوں جماعتوں میں بنیادی اختلاف صرف یہ تھا کہ پیپلز ریپبلیکن پارٹی ریاستی سرمایہ داری کی حامی تھی جبکہ ڈیموکریٹ پارٹی پرائیویٹائزیش کرنا چاہتی تھی۔ 1950 ء میں ترکی کے پہلے آزاد انتخابات میں قائم ہونے والی حکومت کے صدر بائر جبکہ وزیراعظم عدنان میندریس بن گئے۔

مارشل پلان اور ٹرومین ڈاکٹرائن

یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کا زمانہ تھا۔ پورا یورپ تباہ ہو چکا تھا۔ اکثر ممالک کی باگ ڈور کمیونسٹ پارٹیوں نے سنبھال لی تھی۔ بقیہ میں سوشلزم کی ہوا چل رہی تھی۔ ان حالات میں امریکہ نے یورپ کی تعمیر نو کے لئے مارشل پلان کا اعلان کیا۔ امریکی پالیسی سازوں نے اندازہ لگایا کہ اگر ترکی (اور یونان) میں کمیونسٹ کامیاب ہو جاتے ہیں تو پورے مشرق وسطی اور ممکنہ طور پر انڈیا کو بھی اس خطرے سے بچانا ناممکن ہو گا۔ اسی کو ٹرومین ڈاکٹرائن کہتے ہیں۔

اس کے تحت ترکی کو مالی امداد دی گئی اور پھر 1952 ء میں اسے فوجی اتحاد نیٹو کی رکنیت دے دی گئی۔ یہ دونوں واقعات عدنان میندریس کے عہد میں پیش آئے۔ اسی دور میں اتاترک کی سخت گیر پالیسیوں میں نرمی لاتے ہوئے مساجد میں اذان کی اجازت دی گئی، عربی رسم الخط پر پابندی ہٹا دی گئی اور امہ کے تصور کو دوبارہ زندہ کیا گیا۔ یہ تمام اقدامات امریکی منشاء سے ہوئے لیکن آزاد اقتصادی پالیسی کے باوجود ترکی کی معیشت کا حال دگرگوں ہوتا گیا۔ میندریس نے سوویت یونین سے امداد کی اپیل کر ڈالی۔ سرد جنگ کا زمانہ تھا یہ جسارت انہیں بہت مہنگی پڑ گئی۔ فوج نے تختہ الٹ کر پہلا مارشل لاء نافذ کر دیا۔ میندریس کو پھانسی دے دی گئی۔ ترکی کے پہلے منتخب وزیر اعظم کا انجام پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو سے مختلف نہیں۔

قومی سلامتی کونسل کا آغاز

مارشل لاء دور میں عصمت انونو کو ایک دفعہ پھر وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ آئینی ترمیم کے ذریعے ایک سپریم ادارے قومی سلامتی کونسل قائم کردی گئی جس میں حکومت وقت کے ساتھ فوجی سربراہان شریک ہوتے ہیں۔ فیصلہ سازی میں عسکری حکام کا یہ فیصلہ کن کردار آج تک قائم و دائم ہے۔

1965 ء میں جب انتخابات کرائے گئے تو ڈیموکریٹ پارٹی ہی سے نکلی جسٹس پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی اور سلیمان دیمرل وزیراعظم بنے۔ یہ صاحب ایک دفعہ صدر اور سات مرتبہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے۔ اس دوران 1971 ء کا مارشل لاء لگا اور پھر 1980 ء میں فوج نے اقتدار چھین لیا دیمرل پر دس سال سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی گئی۔

ترکی میں تین دفعہ مارشل لاء لگا ہر دفعہ جواز یہ بتایا جاتا تھا کہ فارغ کیا جانے والا رہنما یا جماعت اتاترک کے بنائے ہوئے سیکولرازم کے اصول سے انحراف کر رہے ہیں۔ گویا ترکی میں بھی فوج نظریاتی سرحدوں کی سب سے بڑی نگہبان ہے۔ موجودہ ترکی کی پوری تاریخ سیاسی جماعتوں کے بننے اور جبری تحلیل سے آراستہ ہے جس کے نتیجے میں میدان میں صرف وہی قوتیں رہ گئی جنہیں پابندی کے قابل نہیں سمجھا گیا۔

کردوں کا مسئلہ

عثمانی دور سے مذہبی اور نسلی منافرت کا تسلسل رہا۔ اس کا سب پہلا اور بڑا شکار آرمینیائی بنے جن کا اتاترکی دور میں بدترین قتل عام کیا گیا۔ دنیا کے کئی فورمز تاریخ کا یہ سیاہ باب لکھنے پر حکومت ترکی کی طرف سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے رہے۔ صدر اوبامہ کے وقت سے امریکہ بھی یہ تقاضا کرنے والوں میں شامل ہو چکا ہے۔ سیاسی قوس و قزح پر طاری جماعتیں جن کی غالب اکثریت دائیں بازو کی ہے آرمینیائی قتل عام پر معافی کو قومی تذلیل بنا کر پیش کرتی ہیں۔

دوسرا اور اہم ترین معاملہ کردوں کا ہے جو ترکی کے قیام سے مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ کرد موجودہ ترکی کی سب سے بڑی نسلی ’اقلیت‘ ہیں جن کا کل آبادی میں تناسب 18 سے 20 فیصد بتایا جاتا ہے۔ اتاترک کے قائم کردہ جدید ترکی میں کردوں کا پہلا قتل عام 1925 ء (شیخ سعید بغاوت) میں ہوا۔ اس واقعے کے بعد کمیونسٹ پارٹی سمیت تمام ترقی پسند جماعتوں کو کرد علیحدگی پسند اور پرتشدد قرار دے کر ان پر پابندی لگانا رواج بن گیا جو اب تک جاری ہے۔ کمیونزم اس خطے میں کتنا مقبول رہا اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ناظم حکمت کے پائے کا شاعر کمیونسٹ تھا۔ آپ انہیں ترکی کا فیض احمد فیض کہہ سکتے ہیں۔

کنعان ایورن، آپریشن گلاڈیو اور سرمئی بھیڑیے

1980 ء میں لگنے والے مارشل لاء کی قیادت جنرل کنعان ایورن نے کی۔ یہ وہاں کے جنرل ضیاء تھے جیسے ضیاء کے ہاتھوں پر فلسطینیوں کا خون لگا تھا اسی طرح جنرل بننے سے پہلے کنعان نیٹو کے ساتھ مل کر مغربی یورپ میں کمیونسٹ دشمن خفیہ کارروائیوں میں مصروف رہے۔ صرف ترکی میں ان سرگرمیوں میں 68 ء کے بعد سے ہزاروں سیاسی کارکنان کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ سی آئی اے کی معاونت سے ہونے والے اس قتل عام پر کئی تحقیقی کتب موجود ہیں۔

گرے وولف نامی دائیں بازو کی ایک طلباء تنظیم بھی ایسی ہی چھاپہ مار سرگرمیوں میں ملوث تھی۔ اسے کردوں کے خلاف البدر اور الشمس کی طرح استعمال کیا گیا۔ اس نے صوفی ازم کے ماننے والے فرقے علوی کے بہت سے ارکان کو بھی مارا۔ دلچسپ لیکن خوفناک حقیقت یہ ہے کہ اس کی سرپرست جماعت ملی حرکت پارٹی کے ساتھ اردوان نے سیاسی اتحاد قائم کر رکھا ہے۔

نوعثمانیت

ایک عام پاکستانی اس حقیقت سے ناآشنا ہوتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم سے آج تک ترکی خطے میں امریکہ کا سب سے قریبی حلیف رہا ہے۔ یورپ میں امریکی سرکردگی میں موجود فوجی اتحاد نیٹو میں امریکہ کے بعد سب سے بڑی فوجی طاقت ترکی ہے جس کی فوج مختلف آپریشنوں میں شریک رہی ہے۔ سرد جنگ کے دنوں سے چلے آنے والے کمیونسٹ مخالف بیانئے میں اس وقت ترمیم کرلی گئی جب 1991 ء میں سویت یونین منتشر ہوا اور کمیونزم کا ہوا تحلیل ہو گیا۔

چنانچہ ترک عوام کو مجتمع رکھنے اور توسیع پسندی کو جواز دینے کا نیا نظریہ نوعثمانیت ایجاد کیا گیا جس کے تحت عثمانی دور کی شان و شوکت، نظم و نسق اور اخلاقیات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا۔ مقبول ڈرامہ سیریز ارطغرل اسی تحریک کا حصہ تھی۔ نوعثمانیت کا آغاز ترگت اوزال کے دور حاکمیت میں ہوا جن کی جماعت مادر وطن یا مدر لینڈ پارٹی کے اکثر رہنما ڈیموکریٹ پارٹی میں ضم ہو گئے جو اب اردوان مخالف اتحاد کا حصہ ہے۔

ایک ایسی جماعت بھی اس اتحاد میں ہے جس کا پرچم ہی الطغرل کے کائی قبیلہ کا نشان ہے۔ سیکولر کے کے کو صدر بنانے کے خواہاں جماعتوں میں سعادت پارٹی بھی شامل ہے جو اردوان سے زیادہ شدت پسند اور نظریاتی طور پر پاکستانی جماعت اسلامی کے زیادہ قریب ہے گو جماعت اردوان کی فتح کا جشن منا رہی ہے اردوان کی جسٹس اور ڈویلپمنٹ پارٹی اور سعادت پارٹی دونوں فضیلت (ورچو) پارٹی کے ہی دھڑے ہیں۔ اردوان عملیت پسند ہیں جبکہ سعادت پارٹی ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کے خلاف ہے اور اسرائیل اور امریکہ سے قریبی تعلقات کی سخت ناقد بھی۔

خود فضیلت پارٹی دراصل اس وقت بنی جب رفاہ پارٹی پر پابندی لگ گئی جس کے نجم الدین اربکان نے مذہب کے نام پر ووٹ حاصل کر کے پہلی غیر سیکولر حکومت بنائی۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اول مرتبہ وہ ایک مخلوط حکومت کے نائب وزیر اعظم بنے جس میں ان کا اتحاد سیکولر ازم کی سب سے بڑی ہم نوا ریپبلیکن پیپلز پارٹی کے ساتھ تھا۔

نوعثمانی پالیسی کے بہانے اردوان نے امریکی ایماء پر لیبیا پر فضائی حملے کیے اور 2019 ء میں شام میں کرد ٹھکانوں پر فوج چڑھا دی ان حملوں کی حوصلہ افزائی سابق امریکی صدر ٹرمپ نے یہ کہہ کر کی کہ ترک اور کرد سینکڑوں سال سے لڑ رہے ہیں۔

ترکی کے مسائل اور موجودہ سیاسی جماعتیں

ترکی کو درپیش مسائل میں نمبر ایک اس کا اپنی سب سے بڑی اقلیت یعنی کردوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ ہے۔ ترکی میں ہر وہ سیاسی جماعت اور رہنماء دائیں بازو کا ہے جو کرد مخالف ہے۔ کردوں کا مسئلہ ترکی کا مسئلہ نمبر ایک ہے۔

ترکی کا دوسرا مسئلہ اس کی پسماندہ اور انحصار پذیر معیشت ہے۔ یہ یورپ کی بڑی معیشتوں میں سے واحد ہے جس کی کثیر برسر روزگار آبادی اب تک زراعت سے وابستہ ہے۔ انحصار پذیر معیشت کا نتیجہ ہے کہ جب ٹرمپ نے ترک سریے کی درآمد پر پابندی عائد کی تو ترکی لیرا کی بے قدری شروع ہو گئی۔ حالیہ زلزلے سے معاشی بدحالی اور مایوسی میں اضافہ ہوا ہے۔

ترکی کا تیسرا اہم مسئلہ شدید افراط زر ہے جس کے آگے بند باندھنے کے لئے سینٹرل بینک کو سود کی شرح بڑھانی چاہیے تھی لیکن اردوان نے مسلسل اس میں کمی کی جس سے بحران بڑھتا گیا۔ اردوان مخالف اتحاد میں موجود ایک سیاسی جماعت کے سربراہ علی باباجان خود کئی سال اردوان کی کابینہ میں کلیدی عہدوں پر رہے لیکن مالیاتی اور اقتصادی امور پر اختلاف کے سبب الگ ہو گئے۔

ترکی کا چوتھا بڑا مسئلہ اس کی سرزمین پر شام کی خانہ جنگی سے جان بچا کر آنے والے لاکھوں پناہ گزین ہیں۔

ترکی کا پانچواں بڑا مسئلہ یورپی یونین میں اس کی رکنیت کا معاملہ ہے جو کئی عشروں سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور فوج کی جمہوری معاملات میں دخل اندازی کے باعث لٹکا ہوا ہے۔ آرمینیا سے معافی، کردوں کے ساتھ بہتر سلوک اور آئین میں فوج کے کردار کو ختم کیے بغیر یہ مقصد حامل نہیں ہو سکے گا۔

ان تمام مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے دونوں سیاسی اتحادوں کے پاس دعووں اور نعروں کے سوا کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ انتخاب صرف اردوان سے محبت اور نفرت کی بنیاد پر لڑا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments