محرومی اور ایک کہانی


محرومی کی اقسام کا موازنہ نعمتوں کی تعداد سے کیا جا سکتا ہے کیونکہ کسی نعمت کا نہ ہونا محرومی ہے اور اگر کوئی محرومی نہیں ہے تو اس کی جگہ کوئی نعمت ہے۔ محرومی بظاہر تو دکھ اور تکلیف کا سبب ہے لیکن حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو یہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے، صبر، دعا اور شکر کے ذریعے جو بلا شبہ ایک عظیم نعمت ہے۔

کہتے ہیں کہ ماں اولاد کے لئے ہر حد سے گزر جاتی ہے، پومی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا، اس کی ماں اس کی معصومیت کے دور میں ہی ہر حد سے گزر کر ایسی منزل کی طرف چلی گئی جہاں سے واپسی ممکن نہیں تھی۔ پومی میرا قریبی دوست تھا، وہ ایک ایسا بچہ تھا جس کی زندگی ابتداء سے محرومیوں میں گھری ہوئی تھی۔ نام اس کا تحسین تھا لیکن پیار سے پومی کہلاتا تھا، وہ معصوم بھی تھا اور ذہین بھی۔ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننے کی خواہش ہر بچے کی طرح اس کے اندر بھی موجود تھی اور وہ بہت بڑا آدمی بنا بھی لیکن زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنی بچھڑی ہوئی ماں کی یاد میں گزارتا رہا۔ جب اسے نوکری کا آفر لیٹر ملا، جب جب تنخواہ میں اضافہ کا سالانہ لیٹر ملا یا پھر پروموشن لیٹر، میں نے اس کی موٹی موٹی آنکھوں میں سمندر دیکھا، ایک عجیب سی اداسی دیکھی جیسے وہ کسی خاص ہستی کو ڈھونڈتا پھر رہا ہو کہ سب کچھ بتا سکے۔

پومی کی ماں اسے اس وقت ہمیشہ کے لئے چھوڑ گئی تھی جب اسے موٹر سائیکل کہنا بھی نہیں آتا تھا، وہ صرف چار سال کا تھا، بڑے ہو کر جب اس نے عالی شان کار میں بیٹھنا شروع کیا تو سوچتا تھا کہ ماں زندہ ہوتی تو مزے کراتا۔ سکول میں ایک بچہ چوری لاتا تھا اور اس سے پوچھتا تھا پومی تمہاری ماں تمہیں چوری بنا کر نہیں دیتی ہے؟ ساری نعمتیں اور بہترین کھانے کھانے کے باوجود اس کا دھیان لفظ ماں پر رک جاتا تھا، وہ ایسا محسوس کرتا تھا جیسے صدیوں سے بھوکا اور پیاسا ہو، پومی خاموش ہو جاتا تھا، مجھ سے میرے دوست کی اداسی دیکھی نہیں جاتی تھی۔

وہ اکیلا بھائی تھا، بہنیں کافی ساری تھیں، سب بچے اپنی اپنی جگہ محرومیوں میں گم سم سے رہتے تھے، گھر کے بڑوں میں ماں کا چہرہ ڈھونڈتے تھے۔

پومی اپنے دادا کا بہت لاڈلا تھا اور دادا کو دل و جان سے چاہتا تھا، ہر وقت ایک خوف میں مبتلا رہتا تھا کہ دادا بھی ماں کی طرح نہ چھوڑ جائیں، رات کو سونے کے لئے جانے لگتا تو ہر رات اس ساتھ کی آخری رات لگتی تھی، دروازے سے پلٹ پلٹ کر دو درجن دفعہ دادا کی زیارت کرتا تو ضدی گھوڑے کی طرح زمین سے نہ ہلنے والی ٹانگیں زبردستی اٹھا کر آگے بڑھتا اور سونے جاتا۔

دادا بزرگ تھے اور پومی اپنی جان ان کے اندر محسوس کرتا تھا جو نہ رہیں تو اپنی زندگی بھی ختم لگتی تھی۔

ایک زمانہ تھا جب سکول سے واپسی پر خوف زدہ گھر کی طرف بھاگتا تھا کہ دادا کو اللہ نے نہ بلا لیا ہو، راستے میں کسی گھر کے آگے ٹینٹ لگا دیکھتا تو خوف مزید بڑھ جاتا تھا۔ پومی کی ایک بات جو باقی بچوں سے الگ تھی وہ یہ کہ اکثر مغرب کے بعد بھی بلا خوف و خطر اکیلے اپنی ماں کی قبر پر جا کر باتیں کیا کرتا تھا، سب حسرتیں بیان کرتا تھا، خواہشات بتاتا تھا، وہ سب باتیں بھی کرتا جو چاہتا تھا کہ اس کے باپ تک پہنچ جائیں، کیونکہ فرمائشیں اور شکایتیں کرنا اس کے وجود میں تھا ہی نہیں۔

ایک دفعہ میں نے پومی سے کہا، دوست رات کی تاریکی میں قبرستان نہ جایا کرو، کہنے لگا جب اندر اندھیرا ہو تو باہر کا اندھیرا کیا کہتا ہے، میں خاموش ہو گیا۔

محرومی جھیلتے جھیلتے پومی کی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ کبھی کلاس میں ٹیچر کسی اور طالب علم کو ڈانٹے تو اس آواز کے خوف سے ہی پومی اپنی سیٹ سے کم و بیش ایک فٹ کی بلندی پر اچھل کر واپس آتا تھا۔ ایک دفعہ تو اتنا خوف زدہ ہوا کہ گھر آ کر اپنے دادا کو بتا دیا، اس کے دادا نے سکول میں ہیڈ ماسٹر سے ملاقات کر کے کہا کہ اس کی ماں نہیں ہے، ٹیچر کو کہیں کسی اور کو بھی کلاس میں ڈانٹا نہیں کرے، میرا پوتا گھبرا جاتا ہے۔

سوتیلی ماں گھر میں آئی تو بڑی بہن کے مزاج کو سب سے زیادہ بگڑتا دیکھا جو خود چھے سال کی تھی۔ پومی اظہار کم کرتا تھا، برداشت انتہا کا تھا، بس اندر ہی اندر گھٹن بڑھتی جا رہی تھی۔ ابھی وہ صرف پانچ سال کا بچہ تھا، بے حد سنجیدہ، جس کا دل بچہ اور دماغ کسی بڑے سے کم نہیں تھا، اس نے کم عمری میں ہی وہ سب محسوس کر لیا تھا جو ہم عمر بچے تصور بھی نہیں کر پاتے تھے۔ دن بھر سوتیلی ماں کو بہت قریب سے دیکھتا تھا، حقیقی ماں سے خیالوں میں ہی موازنہ کرتا تھا لیکن کبھی باپ کے سامنے شکایت والی زبان نہیں کھولتا تھا۔

مجھے بتایا کرتا تھا کہ جب رات کو نیند نہیں آتی تھی اور ماں کی یاد ستاتی تھی تو گرمی ہو یا سردی ایک کپڑے سے اپنے کندھوں کو مضبوطی سے لپیٹ کر ماں کی غائبانہ بانہوں کو محسوس کرتا تھا۔ یہ سب جان کر میری آنکھوں میں جب کبھی نمی آجاتی تو مجھے سمجھایا کرتا تھا کہ مرد کو آنسو دکھانے کی اجازت نہیں۔ حالات کی وجہ سے میرا دوست بہت حساس تھا۔ پومی اللہ سے اکثر پوچھا کرتا تھا کہ مائیں کیوں چلی جاتی ہیں۔

ماں کے لمس کو ترستا تھا اور چلتے پھرتے دھندلی یادوں میں اس کا چہرہ ڈھونڈتا تھا۔

مجھے آج بھی یاد ہے پومی اپنی ماں کی ہر برسی پر حساب لگاتا تھا کہ مرنے کے کتنے عرصے بعد مردے کے جسم سے گوشت ختم ہوتا ہے اور ہڈیاں کب تک قبر میں رہتی ہیں۔

جب دادا چلے گئے تو پومی اٹھارہ سال کا تھا اور اسے یوں لگا جیسے اس نے دوسری دفعہ ماں کو کھو دیا ہو، وہ تو ابھی بھی معصوم بچے جیسا تھا کیونکہ ماں تو اس کی عمر کو بریک لگا گئی تھی۔

پومی کی ایک پھپھو بھی ساتھ رہتی تھیں جنہوں نے پومی اور اس کی بہنوں کی پرورش کے لئے اپنی زندگی، ارمان اور خوشیاں سب قربان کر دیے تھے۔

زندگی نے مجھے مصروف کر دیا اور پومی سے ملاقاتوں میں کچھ مہینوں کا وقفہ آ گیا، ابھی کچھ دن پہلے ملا تو پتا چلا کہ اس کی جان سے پیاری ان پھپھو کی بھی موت ہو گئی جنہوں نے اپنی خوشیوں کو قربان کر کے پومی اور اس کی بہنوں کی پرورش کی تھی، اور یوں مامتا بچھڑنے کی ہیٹرک بھی ہو گئی، وہ ریزہ ریزہ ہو چکا تھا اور خود کو سمیٹ نہیں پا رہا تھا۔ دنیا کے سامنے اور باہر سے مضبوط نظر آنے والا خوشحال اور بہترین ادارے میں ایک اعلی عہدے پر ہونے کے باوجود میرا دوست اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا، لیکن قدرت نے اسے ایسے سنبھالا تھا کہ دیکھنے والا اس کے اندر کی کیفیت کو نہیں پہچان سکتا تھا۔

اب آپ آنسو صاف کریں تو ہم اس کہانی کے سبق پر گفتگو کرتے ہیں۔

دنیا میں بہت سارے پومی موجود ہیں جن کے لئے زندگی کا ہر گزرتا لمحہ بے حد کٹھن ہوتا ہے۔ کچھ محرومیاں مستقل ہوتی ہیں اور ان کا ازالہ بھی ممکن نہیں ہوتا، ضرورت ہوتی ہے صبر اور برداشت کی، محرومی کے بارے میں کسی شاعر نے خوب کہا ہے۔

یہ بھی اک رنگ ہے شاید مری محرومی کا
کوئی ہنس دے تو محبت کا گماں ہوتا ہے

اس کہانی کا مقصد رشتوں اور نعمتوں کی قدر کرنا سکھانا ہے۔ غم میں شکرگزاری کے عنوان سے میرا ایک مضمون پہلے ہی شائع ہو چکا ہے، اس کو ضرور پڑھیں۔

اکثر لوگ اپنی زندگی میں موجود نعمتوں پر شکر گزاری نہیں کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی آزمائشوں پر اللہ سے شکوہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ ہمیشہ نیچے کی طرف دیکھیں، شکر کرنے کا حوصلہ ملے گا اور یہ بھی احساس ہو گا کہ اللہ کی ذات احسان کرنے والی ہے، جب کسی نعمت سے رب محروم کرتا ہے تو کسی اور جگہ اضافی بھی دے دیتا ہے۔ کچھ افراد خود سے اتنا ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں کہ

اپنے رشتوں کی حق تلفی کر جاتے ہیں۔ وقت اور نعمتوں کی قدر کریں، اس سے پہلے کہ وہ چھن جائیں اور پچھتاوے کے علاوہ کچھ پاس نہ رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments