کیا جمہوریت ہے اور کیا فسطائیت (مکمل کالم)


گلالئی اسماعیل ایک پاکستانی خاتون ہیں، پشتون ہیں، انسانی حقوق کے لیے کام کرتی ہیں، میں ان سے کبھی نہیں ملا اور نہ ہی مجھے ان کے نظریات اور افکار کے بارے میں زیادہ جانکاری ہے، البتہ سوشل میڈیا کے ذریعے اتنا ضرور علم ہے کہ چند سال پہلے جب وہ اپنے ’باغیانہ‘ خیالات کی وجہ سے زیر عتاب تھیں تو ان کے لیے پاکستان کی زمین اس قدر تنگ کردی گئی کہ مجبوراً انہیں ملک چھوڑ کر باہر جانا پڑا۔ آج کل غالباً وہ امریکہ میں کہیں ہوتی ہیں تاہم ان کے ماں باپ پاکستان میں ہی ہیں اور گزشتہ چار برس سے مختلف مقدمات میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ گلالئی کے ٹویٹر اکاؤنٹ کے مطابق، بوڑھے والدین کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ گلالئی کے ماں باپ ہیں۔ گزشتہ دنوں گلالئی نے ایک ٹویٹ کی جس میں انہوں نے لکھا کہ جب وہ اپنے والدین کو پاکستان کی عدالتوں میں چکر لگاتے ہوئے دیکھتیں تو کبھی کبھار رنجیدہ ہو کر لکھتیں کہ مائیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ اس کے جواب میں اس وقت کے ’ہتھ چھٹ نوجوان‘ اور آج کے ’انقلابی‘ جس کی قسم کی مغلظات بکتے ان کی تصویری جھلک، بولے تو سکرین شاٹ، گلالئی نے اپنے ٹویٹر کھاتے پر دکھائے، آپ بھی پڑھیں اور سر دھنیں :

” ( 1 ) تیری ماں بھی تو کسی وقت۔ کی۔ رہی اگر تم۔ کردار نہ ہوتی غدار و ملک فروش نہ ہوتی تو آج تیری۔ ماں بھی تکلیف سے دوچار نہ ہوتی۔ ( 2 ) بڑے افسوس کی بات ہے کہ آپ کے والد محترم کو اس طرح ہتھکڑیاں پہنا کر عدالت لگایا گیا۔ میرے خیال ان کو اتنی ہی عزت دینی چاہیے تھی جس کے وہ حقدار ہے مطلب اس کے گلے میں کتے کی طرح پٹہ ڈال کر عدالت گھسیٹتے ہوئے لانا چاہیے تھا۔ ( 3 ) بھائی تمام وطن دشمنوں کا طریقہ واردات یہی ہوتا ہے، اس گھٹیا۔ عورت کا اصل مقصد سیاسی پناہ حاصل کرنا تھا۔ اب باہر بیٹھ ریاست کے خلاف بھونک رہی ہے اور بھونکتی رہے گی ورنہ دہلی اور کابل سے پیسے ملنا بند ہوجائیں گے۔ ( 4 ) ۔ کا باپ بھی۔ ہی ہوتا ہے لہذا تم ادھر بیٹھ کے اپنی۔ ( 5 ) غدار اور وفادار سانجھے نہیں ہوتے۔“

یہ چاول کی دیگ کے صرف چند دانے ہیں جن سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پوری دیگ کیسی ہوگی۔ جو خالی جگہیں میں نے چھوڑی ہیں انہیں پر کر کے اگر فقرے مکمل کیے جائیں تو یقین کریں کہ وہ بدقماش لوگوں کی محفل میں بھی نہیں سنائے جا سکیں گے۔ اور کچھ جملے تو ایسے ہیں کہ انہیں خالی جگہوں کے ساتھ سنسر کر کے بھی نہیں لکھا جا سکتا۔ اور یہ صرف ایک مثال نہیں، ایسی ہزاروں مثالیں دی جا سکتی ہیں، عاصمہ شیرازی سے لے کر غریدہ فاروقی تک اور ابصار عالم سے لے کر عمر چیمہ تک، بے شمار عورتوں اور مردوں کے ساتھ اس ملک میں یہی ہوا، ہر اس شخص کی کردار کشی کی گئی جو ان لوگوں کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتا تھا/تھی جن کے تبصروں کا نمونہ اوپر پیش کیا گیا ہے۔ آج وقت کچھ بدل گیا ہے، اب یہ لوگ receiving end پر ہیں اور اپنے اوپر بنائے جانے والے مقدمات پر احتجاج کر رہے ہیں اور دہائی دے رہے ہیں کہ ان پر ظلم ہو رہا ہے، ایسا ظلم جو پاکستان کی پچھتر سال کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا، یہ مارشل لا سے بھی زیادہ بد ترین دور ہے، یہ فسطائیت کا عروج ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ لوگ اپنے لیے انصاف مانگ رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ نرمی کی جائے، حسن سلوک کیا جائے اور انہیں معاف کر دیا جائے کہ بہرحال یہ دہشت گرد نہیں۔

ہماری قوم کی یادداشت چونکہ کمزور ہے اس لیے بار بار بتانا پڑتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ اپریل 2022 سے نہیں بلکہ 14 اگست 1947 سے شروع ہوتی ہے اور پھر اس میں 1958، 1970، 1999 اور 2018 کے سنگ میل آتے ہیں، ان ادوار میں کیا کچھ ہوتا رہا اس کا احاطہ یہاں نہیں کیا جا سکتا، صرف اتنا ہی لکھا جا سکتا ہے کہ جو کچھ آج کی تاریخ میں ہو رہا ہے وہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں جو ان ادوار میں ہوا لیکن یہ دلیل دینے کا مقصد کسی ظلم و زیادتی کا دفاع کا کرنا ہرگز نہیں بلکہ فقط ریکارڈ درست کرنا مقصود ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے لیے رحم اور معافی کی درخواست اس بنیاد پر کر رہے ہیں کہ وہ پڑھے لکھے ہیں سو ان سے رعایت برتی جائے۔ جو بات یہ لوگ اپنے منہ سے نہیں بول رہے وہ اصل میں یہ ہے کہ ہم شہری علاقوں میں رہتے ہیں، نیٹ فلکس دیکھتے ہیں اور پاپ کارن کھاتے ہیں، بھلا ہمیں آپ ان دہشت گردوں سے کیسے جوڑ سکتے ہیں جو علاقہ غیر سے آتے تھے اور خود کش حملے کرتے تھے! اس دلیل میں وزن اس لیے نہیں کہ دہشت گردی ایک فعل ہے جس کی تعریف قانون میں درج ہے، یہ فعل جو بھی کرے گا وہ دہشت گرد کہلائے گا، کسی کو محض اس بنیاد پر رعایت نہیں دی جا سکتی کہ وہ پڑھا لکھا ہے، ڈینئیل پرل کا قاتل ایچی سن کالج اور لندن سکول آف اکنامکس سے پڑھا ہوا تھا۔ تیسری بات یہ ہے کہ کیا انہیں اپنے کیے پر کوئی پچھتاوا ہے، کیا واقعی یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ غلطی پر تھے، کیا انہیں اس بات کا افسوس ہے کہ انہوں نے ماضی میں اپنے مخالفین کے ساتھ جو سلوک کیا وہ خلاف آئین اور قانون تھا، کیا انہیں لگتا ہے کہ جس قسم کی غلیظ گالیاں وہ نہ صرف عورتوں بلکہ ان سب لوگوں کو دیتے تھے جو ان کے نکتہ نظر سے اتفاق نہیں کرتے تھے، وہ عمل کسی صورت بھی مہذب معاشرے میں قابل قبول نہیں، کیا ان کے حالیہ کسی رویے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ ماضی میں کی گئی ان حرکتوں پر شرمسار ہیں یا کم ازکم انہیں دہرانے کا ارادہ نہیں رکھتے؟ شاید ایک دودھ پیتا بچہ بھی ان سوالات کے جوابات جانتا ہے۔ اگر ان لوگوں کو معافی دے دی جائے اور کچھ عرصے بعد حالات ان کے حق میں سازگار ہوجائیں اور پھر چند ماہ یا سال بعد انہیں کسی نہ کسی طریقے سے اختیار مل جائے تو یہ لوگ کیا کریں گے، یہ لوگ وہی کریں گے جو مندرجہ بالا ٹویٹ کے جواب میں انہوں نے کیا اور اس بات کا لحاظ بھی نہیں کریں گے کہ کون پڑھا لکھا ہے اور کون ان پڑھ، ہر وہ شخص جو ان کے خلاف زبان کھولے گا اس کی زندگی مقدمہ چلائے بغیر ہی اجیرن کر دی جائے گی۔

یہ تمام باتیں چاہے درست ہی کیوں نہ ہوں پھر بھی ان کی آڑ میں نا انصافی اور خلاف آئین و قانون اقدامات کو جواز فراہم نہیں جا سکتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر خلاف آئین اقدام کو جواز فراہم کرنے کی روایت ڈال دی جائے تو پھر اس پر بند نہیں باندھا جا سکتا، ایسی صورت میں کل کو کوئی دوسرا طالع آزما اٹھے گا اور کسی بھی بات کو جواز بنا کر آئین سے ماورا بندو بست نافذ کردے گا، اس صورت میں کیا ہم اس بندو بست کا بھی دفاع کریں گے! مصیبت مگر وہی ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے انہیں آئین اور قانون کی یہی باتیں سمجھائی جاتیں تھی مگر اس وقت انہیں ان باتوں سے بغاوت کو بو آتی تھی اور وہ ایسی باتیں کرنے والوں کے خلاف غداری کے مقدمے بنایا کرتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود آج ہمیں ان لوگوں کے خلاف غداری کے مقدمات بنانے کی حمایت نہیں کرنی چاہیے کہ جمہوریت اور فسطائیت میں یہی تو فرق ہے۔ اس تصویر کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ ان میں سے بہت سے لوگ حقیقتاً حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر پرامن احتجاج اور جدوجہد میں یقین رکھتے ہیں، ایسے لوگ کسی بھی ملک اور جماعت کا سرمایہ ہوتے ہیں، اگر یہ لوگ جیل کی سختیاں جھیل گئے تو آنے والے وقت میں یہ ملکی معاملات میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس سارے معاملے میں یہ واحد خوش گمانی ہے جو رکھی جا سکتی ہے ’ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے۔ ‘

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments