آصف فرخی پر مضمون جو مل ہی نہیں رہا


میرا یقین مانیے، مضمون تو میں نے قلم برداشتہ یکم جون 2020 ہی کو لکھ لیا تھا اور تین جون کو اسے حتمی شکل میں کمپیوٹر میں محفوظ کر دیا تھا یہی سوچتے سوچتے کہ اسے کس دوست کو سناؤں؟ کہاں اشاعت کے لیے بھیجوں؟ بس سوچتا ہی رہ گیا۔

آج کوئی تین برس بعد پرانا لیپ ٹاپ کھولنے کا موقع ملا تو ڈیسک ٹاپ پر یہ ان پیج فائل دکھائی دی ہے۔ فائل پر کلک کرتا ہوں تو پیج پر اوپر کی طرف دائیں کونے میں عنوان درج ہے :

”یادیں آصف فرخی کی“
یہ ہے اور بس یہی ہے۔

وہ جو مضمون لکھا تھا۔ وہ کیا ہوا! وہ سب تفصیلات، وہ سب یادیں! سب صاف کیسے ہو گئیں۔ کیسی عجیب بات ہے! ٹیکنالوجی او ٹیکنالوجی! یہ عجب حادثہ ہوا مرے ساتھ۔ ایک دھچکا سا لگا ہے دل کو مگر یہ ویسا دھچکا نہیں جیسا آصف بھائی کے اچانک انتقال کی خبر پڑھ کر لگا تھا جس کے پیچھے صدمے کی ایک طویل لہر چلی آئی تھی اور میں لکھنے کے میز کے پاس ہی بیٹھ رہا تھا۔ زندگی کسی ریل کی طرح پاس سے سنسناتی گزرتی جا رہی تھی۔ وہیں بیٹھے بیٹھے میں نے بہت کچھ لکھا تھا۔

مگر کیا لکھا تھا؟ یاد نہیں۔ بس اتنا یاد ہے کہ آصف بھائی کے انتقال کی خبر پہنچی تو کیسے دل دھک سے رہ گیا تھا۔ اور پھر نیٹ پر لگاتار، سلسلہ در سلسلہ ایک تانتا سا بندھ گیا تھا، ریزہ ریزہ اطلاعات کا ، جزوی خبروں کا ، جلدی میں لکھے گئے اخباری اور آن لائن کالموں کا ، کچھ یوٹیوب چینلز پر تاثرات اور ٹکڑا ٹکڑا یادیں بانٹنے کا ۔ مگر ایک زندگی کا سفر مکمل ہو چکا تھا، موت کی آمد کے ساتھ۔ چپکے سے، سکون کے ساتھ، بے آواز، دبے پاؤں آتے سرد سے احساس کے ساتھ۔ ایک طویل خاموش اور تنہا سفر۔

تنہائی کہاں صاحب! اس دن تو لندن کی انڈر گراؤنڈ ٹرین ”ٹیوب“ میں بہت ہجوم تھا،
مجھے یاد آ ر ہا ہے، کچھ کچھ یاد آ رہا ہے۔

میں نے لکھا تھا کہ لندن کے مشرقی گوشے سے دریائے ٹیمز کے کنا رے بگ بین کی طرف بھاگتی انڈر گراؤنڈ میں داخل ہوتے ہی مجھے احساس ہو گیا تھا کہ غلطی ہوئی ہمیں ٹیکسی کر لینی چاہیے تھی۔ زرناب سٹرولر میں تھا جسے طاہرہ نے سنبھالنا تھا اور میں نے اپنی ضروریات کا اور بچے کے لوازم کا تھیلا اٹھایا ہوا تھا اور پھر کندھے سے لٹکتا وڈیو کیمرہ جو جھول جھول کر اپنے وجود کی اہمیت جتا رہا تھا۔ ٹرین کا یہ ڈبہ اس وقت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔

شاید ہمیشہ ایسا ہی بھرا رہتا ہو۔ مجھے کیا پتہ۔ میں تو کچھ روز کے لیے کولون جرمنی سے یہاں لندن آیا تھا اپنی بیگم اور ننھے بیٹے کے ساتھ کہ دفتر سے ملنے والی چھٹیاں بھی بسر ہوجائیں گی، حلقہ ارباب ذوق کے مشاعرہ میں بھی شرکت ہو جائے گی اور بی بی سی میں اپنے گورنمنٹ کالج لاہور کے استاد جناب شاہد ملک سے بھی برسوں بعد تجدید ملاقات کی صورت نکل آئے گی۔ ہمارے میزبان شاعر دوست ارشد لطیف کو اس روز عبداللہ حسین صاحب سے ملنے جانا تھا اور مجھے اپنی مختصر سی فیملی کے ساتھ لندن گردی کرنا تھی۔ سو، نکل پڑے۔

یہاں بیٹھ جائیے آپ میری نشست پر۔ میں کھڑا ہوجاتا ہوں۔ ”ایک شائستہ اور شستہ“ جملے نے میرے سلسلۂ خیال کو یک دم منقطع کر دیا تھا۔ دائیں طرف بیٹھے ایک پاکستانی صاحب اٹھتے ہوئے طاہرہ کو بیٹھنے کا اشارہ کر رہے تھے۔ طاہرہ نے شکریہ ادا کرتے ہوئے نشست لی اور زرناب کی اسٹرالر کو سیدھا کر کے اپنے بالکل قریب کر لیا۔ وہ خوش اخلاق صاحب اپنا تھیلہ اٹھائے میرے ساتھ آ کھڑے ہوئے۔

آپ بھی، لگتا ہے، پاکستان سے ہیں۔ ”انہوں نے مسکراتے ہوئے گفتگو کو آغاز کیا“
جی، ہیں تو پاکستان ہی سے تاہم آئے جرمنی سے ہیں۔ ”میں نے مسکرانے کا دکھاوا کرتے ہوئے جواب دیا تھا۔“

کیا یہاں لندن میں سیروتفریح کی غرض سے آئے ہیں؟ ”انہوں نے پھر سوال کیا تھا۔ شاید وہ وہ کسی ہم وطن سے بات کرنا چاہتے تھے۔“

جی، ایسا ہی ہے۔ ”میں نے مختصر سا جواب دیا تھا“

میں کراچی سے ہوں۔ یہاں ایک مختصر دورانیے کا شعبہ جاتی کورس کرنے آیا ہوں۔ آغا خان یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں۔ ”انھوں نے بات جاری رکھنے کی کوشش میں مزید کہا تھا۔“

اوہو، تو آپ ڈاکٹر ہیں! ”دراصل آغا خان یونیورسٹی کا نام سن کر مجھے دل چسپی ہوئی تھی۔“ تو پھر شاید آپ ہمارے ایک ڈاکٹر دوست کو جانتے ہوں۔ ان کا نام آصف فرخی ہے۔ ”

جی، بالکل جانتا ہوں۔ وہ میرے کولیگ ہیں اور ایک جانے پہچانے رائٹر ہیں۔ تو وہ آپ کے دوست ہیں۔ بھئی واہ۔ ”انھوں نے قدرے جوش میں کہا تھا۔“

آصف میرے دوست ہیں اور ان کے والد ڈاکٹر اسلم فرخی میرے والد یزدانی جالندھری صاحب کے دوست تھے۔ ”میں نے کہا تھا۔“

پھر تو ان سے کافی ملاقاتیں رہی ہوں گی آپ کی؟ کیا آپ بھی کچھ لکھتے ہیں؟ ”ان صاحب نے انڈر گراؤنڈ سے زیادہ رفتار سے بات آگے بڑھائی تھی۔“

جی، میں بھی نظم، نثر میں کچھ لکھتا ہوں مگر اپنے دوست کی طرح جانا پہچانا ہرگز نہیں۔ ”میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا۔“ ان سے تازہ ترین ملاقات کراچی میں ان کے گھر ہوئی تھی چند ماہ پہلے جب میں جرمنی سے لاہور جا رہا تھا براستہ کراچی۔ ان کا اصرار تھا کہ ان سے مل کر جاؤں کیونکہ ڈاکٹر اسلم فرخی بھی ملنے کے خواہاں تھے۔ چناں چہ میں ان کے ہاں رکا اور والد صاحب کی یادیں ان سے تازہ کیں۔

“یہ حرف کا رشتہ بھی عجیب ہوتا ہے۔ مختلف خطوں میں جنم لینے والے لوگوں کو ملا دیتا ہے۔ ایسا میں نے سنا ہےؔ۔ انھوں نے معصومیت سے کہا تھا۔

جی، یہ بات درست ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک میری ڈاکٹر آصف فرخی سے کوئی ملاقات نہ تھی۔ میں انھیں ان کے افسانوں اور مترجمہ تحریروں ہی سے جانتا تھا۔ وہ کچھ برس پہلے جرمنی گئے تو اتفاق سے برلن میں میرے لڑکپن کے دوست امجد علی سے ملاقات ہو گئی۔ اس نے میرا ذکر کیا تو نام سے وہ فوراً ہی یزدانی جالندھری صاحب تک پہنچ گئے اور امجد سے کہا کہ وہ پاکستان جاتے ہی لاہور مجھ سے ملنے آئیں گے۔ ”میں نے یادوں میں ہچکولے کھاتے ہوئے کہا

تو پھر آئے وہ ملنے آپ سے؟ ”ان صاحب نے استفسار کیا تھا“

بالکل آئے تھے۔ پاک ٹی ہاؤس میں ملاقات ہوئی۔ وہ مال روڈ ہی پر ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ پاک ٹی ہاؤس میں انتظار حسین صاحب اور مظفر علی سید صاحب سے ملنے کے بعد وہ میرے اور میرے دوستوں ضیا الحسن، امجد طفیل اور مختار حسین کھرل کے ساتھ مال گردی کرتے رہے۔ رات گئے ہم نے انھیں ان کے ہوٹل چھوڑا۔ اس دوران میں کلاسیکی افسانے اور ناول پر بات ہوئی۔ مشرقی اور مغربی افسانے کے خد و خال میں بعد و قرب پر اظہار خیال ہوا۔

اردو ناول اور عالمی ناول کا موازنہ ہوا۔ دنیا بھر میں ان معاصر لکھاریوں کی زندگی اور سوچ کے بارے میں گفتگو ہوئی جنھیں آصف باقاعدگی سے ملا کرتے تھے۔ ہوٹل پہنچنے پر انھوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ سراج منیر صاحب سے بھی ملنا چاہتے ہیں۔ چناں چہ طے ہوا کہ اگلے روز ہم انھیں سراج بھائی سے ملانے ادارۂ ثقافت اسلامیہ کے دفتر لے چلیں گے۔ اگلے روز ہم انھیں لے کر ادارۂ ثقافت اسلامیہ پہنچے مگر سراج بھائی اسلام آباد گئے ہوئے تھے اس وقت کے صدر پاکستان سے ملنے کے لیے۔ سراج بھائی ضیا الحق صاحب کے بہت قریب تھے اور افغان پالیسی سے لے کر سرکاری ادبی اعزازات کی تقسیم تک مختلف امور میں ان کی مشاورت بھی کرتے تھے۔

خیر، آصف نے کہا کہ وہ ان سے پھر کبھی مل لیں گے۔ وہاں سے ہم پنجاب یونیورسٹی کے نیو کیمپس گئے جہاں انھوں نے میرے شعبہ یعنی سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی بھی سیر کی۔ باہر لان پر نصب ڈیپارٹمنٹ کے آہنی بورڈ کے پاس رک گئے۔ بورڈ پر درج سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے اردو ترجمہ کو سراہنے لگے۔ اردو ترجمہ تھا: شعبہ سماجیات۔ میں نے کہا کہ اہل زباں نہیں مانیں گے سماج کے ساتھ یات جوڑ کر اردو فارسی کے الفاظ بنائے جاتے ہیں ہندی کے نہیں۔ کہنے لگے :

مجھے تو یہ نام بہت خوب صورت لگا۔ اردو کا رشتہ ہندی سے بھی تو ہے۔ اس سے سوتیلے پن کا سلوک مجھے گوارا نہیں۔ ”

یہی باتیں کرتے ہوئے ہم پاک ٹی ہاؤس آ گئے جہاں مل کر لنچ کیا۔ شام کو وہ واپس کراچی چلے گئے۔ ”میں اپنی ہی رو میں بہتے ہوئے کہتا چلا گیا

تو آپ لوگوں کی تعارفی ملاقات خاصی بھرپور رہی۔ ”ہمارے ہم۔ سفر نے بڑے صبر سے میری داستان سنتے ہوئے کہا تھا:

جی، یادگار ملاقات تھی وہ بھی۔ اور کچھ روز بعد کراچی سے ڈاک میں گریش کر ناڈ کے ڈرامہ ”تغلق“ کا اردو ترجمہ کتابی صورت میں موصول ہوا۔ یہ اردو ترجمہ آصف ہی نے کیا تھا۔ ان کا کیا ہرمن ہیسے کے ناول ”سدھارتھ“ کا ترجمہ میں پہلے ہی پڑھ چکا تھا۔ پھر ان کے افسانوں کا مجموعہ ملا۔ بہت عمدہ اور تروتازہ افسانے تھے جن کے مطالعہ نے اردو افسانے کے بارے میں میرے نظریے کو بدل دیا۔ اور مجھے جدید افسانے سے صحیح طور پر آشنائی حاصل ہوئی۔ ”میں نے ان کے مختصر سوال کا طویل جواب دیا تھا۔

طاہرہ ننھے زرناب سے بچوں کی زبان میں گفتگو کرنے میں کوشاں تھی۔ اچھا، جناب میرا تو سٹاپ آ رہا ہے۔ میں اب اجازت چاہوں گا۔ اگلے ہفتے واپس کراچی جا رہا ہوں۔ وہاں ڈاکٹر آصف فرخی سے ہماری اس اتفاقی اور دل چسپ ملاقات کا ذکر ضرور کروں گا۔ خدا حافظ ”

یہ کہتے ہوئے وہ انڈر گراؤنڈ کے دروازے سے باہر نکل گئے تھے۔

ہمارا سٹاپ ابھی دور تھا۔ ہمیں بگ بین دیکھنا تھا، دریائے ٹیمز کے کنارے ٹہلنا تھا، پکڑ لی سرکس کا علاقہ دیکھنا تھا، سیاحوں کی ڈبل ڈیکر کی سواری کرتے ہوئے پرانے لندن کی تصویریں لینا تھیں، بکنگھم پیلس اور میوزیم دیکھنا تھا۔ لائبریری کا چکر لگانا تھا، بی بی سی کے دفتر یعنی بش ہاؤس میں سر شاہد ملک صاحب سے ملنا تھا، حلقہ ارباب ذوق کے مشاعرہ میں شرکت کرنا تھا اور ساتھ ساتھ ریڈیو ڈوئچے ویلے، دی وائس آف جرمنی کی اردو نشریات کے لیے کچھ انٹرویوز بھی ریکارڈ کرنا تھا۔ ایک ہفتہ کب گزرا کچھ پتہ ہی نہ چلا۔

واپس جرمنی پہنچا تو کچھ روز بعد ہی کراچی سے آصف فرخی کا خط موصول ہوا جس میں انھوں نے اپنے ہم۔ کار ڈاکٹر سے لندن میں میری ملاقات پر خوش گوار حیرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ دنیا واقعی بہت چھوٹی ہے۔

ان کی بات درست تھی کہ دنیا واقعی بہت چھوٹی ہے۔

نئی صدی کی آمد آمد تھی جب میں مستقل سکونت اختیار کر کے کینیڈا چلا آیا اور پھر یہاں زندگی کے سرد و گرم کا سامنا کرنے لگا۔ اس دوران میں رسمی ڈاک کی جگہ رفتہ رفتہ ای میل نے لینا شروع کردی تھی۔ ایک روز اچانک ہی آصف فرخی کی طرف سے ای میل پر ایک پیغام موصول ہوا جس میں میری خیریت اور حال احوال جاننے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا اور میری تازہ ترین مصروفیات کا پوچھا گیا تھا۔ میں نے جو اباً اپنی خوش گوار حیرت کا ذکر بھی کیا اور رابطے پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا اور یہ سوچتے ہوئے کہ اب ان سے کیا ”شہر ماجرا“ کہوں اور بتاؤں کہ ایک نئے دیس میں کیونکر ”میرے دن گزر رہے ہیں“ ۔

انسان کچھ بھی کر لے ”قید مقام“ کی بیڑی تو پاؤں رہتی ہی ہے اور یہاں تو ”چیزیں اور لوگ“ سبھی اجنبی تھے۔ ”دنیا زاد“ ایسا ہوں کہ ”اسم اعظم کی تلاش“ سوجھتی نہیں۔ احساس اجنبیت و تنہائی اب ”ایک آدمی کی کمی“ سے بڑھ کر ایک عہد کی کمی میں ڈھلتا جا رہا ہے۔ مگر اتنا دور بیٹھے دوست کو کیا لکھتا۔ سوچا، کبھی آمنے سامنے ہوئے تو بات ہوگی۔ آمنے سامنے ملاقات تو نہ ہو سکی مگر ہمارا رابطہ بہرصورت رہا۔

پھر ہم فیس بک پر بھی دوست بن گئے اور ایک دوسرے کی ادبی اور سماجی مصروفیات سے آگاہ ہونے لگے۔

آصف ہمہ جہت ادبی شخصیت کے مالک تھے اور کوئی تخلیقی بے چینی ایک لہر کی طرح ان کے دروں میں دوڑا کرتی۔ انہوں نے اشاعتی سلسلہ بھی شروع کر رکھا تھا۔ شہرزاد کے نام سے اور پھر ادبی جریدہ ”دنیا زاد“ بھی نکالتے تھے جو حقیقی معنوں میں عالمی ادب کا اشاریہ ہوتا تھا۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اردو ادب کے فروغ کے لیے کانفرنسوں کا انعقاد اس سب پر مستزاد۔ ایسے اجتماعات کا اہتمام آسان کام نہیں مگر آصف کے اندر رواں دواں توانائی کی کوئی حد نہ تھی۔ انہوں نے ایک دو نہیں متعدد اعلیٰ درجے کی کانفرنسیں منعقد کیں جو سب کی سب کام یاب اور یادگار قرار پائیں۔ تخلیق اور ترجمہ کا کام بھی ان سب مصروفیات کے شانہ بشانہ چلتا رہا۔

میں دور دور ہی سے ان کی ہمہ جہت کامیابیوں پر خوش ہوتا رہا اور ان کی قابل رشک شخصیت پر نازاں رہا۔

کووڈ 19 کی وبا کے پھیلاؤ کے باعث ”قید مقام“ جاری تھی اور گھر سے ہی دفتری مصروفیات نمٹا کر پڑھنے کو کافی وقت مل جاتا تھا۔ میں نے بہت نئی کتابیں بھی پڑھیں اور چیدہ چیدہ تخلیقات کا پھر سے مطالعہ کیا۔ ان تخلیقات میں آصف کی تحریریں بھی شامل تھیں۔ مجھے یاد ہے وہ دن جب میں پھر سے ان کا افسانہ ”سمندر کی چوری“ پڑھ رہا تھا اچانک یہ خبر نظر سے گزری کہ ڈاکٹر آصف فرخی دنیا میں نہیں رہے۔ کافی دیر تو یقین ہی نہیں آیا۔

ساری بیتی باتیں ایک ایک کر کے ذہن میں گردش کرنے لگیں۔ اور پھر نیٹ پر لگاتار، سلسلہ در سلسلہ ایک تانتا سا بندھ گیا تھا، ریزہ ریزہ اطلاعات کا ، جزوی خبروں کا ، جلدی میں لکھے گئے اخباری اور آن لائن کالموں کا ، کچھ یوٹیوب چینلز پر تاثرات اور ٹکڑا ٹکڑا یادیں بانٹنے کا ۔ مگر ایک زندگی کا سفر مکمل ہو چکا تھا، موت کی آمد کے ساتھ۔ چپکے سے، سکون کے ساتھ، بے آواز، دبے پاؤں آتے سرد سے احساس کے ساتھ۔ ایک طویل خاموش اور تنہا سفر۔

میرا یقین مانیے، مضمون تو میں نے قلم برداشتہ یکم جون 2020 ہی کو لکھ لیا تھا اور تین جون کو اسے حتمی شکل میں کمپیوٹر میں محفوظ کر دیا تھا یہی سوچتے سوچتے کہ اسے کس دوست کو سناؤں؟ کہاں اشاعت کے لیے بھیجوں؟ بس سوچتا ہی رہ گیا۔

آج کوئی تین برس بعد پرانا لیپ ٹاپ کھولنے کا موقع ملا تو ڈیسک ٹاپ پر یہ ان پیج فائل دکھائی دی ہے۔ فائل پر کلک کرتا ہوں تو پیج پر اوپر کی طرف دائیں کونے میں لکھا ہے، ”یادیں آصف فرخی کی“۔ یہ ہے اور بس یہی ہے۔

وہ جو مضمون لکھا تھا۔ وہ کیا ہوا! میں اب اپنا وہ مضمون تلاش کر رہا ہوں جو آصف فرخی کی طرح کہیں مل ہی نہیں رہا مجھے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments