اردو میں کتاب لکھ کر صرف عزت ملتی ہے، پیسہ نہیں ملتا: عدنان خان کاکڑ



سرخیاں :
پاکستان کا مستقبل تاریک ہے، ہم طویل المدتی پلاننگ میں دل چسپی نہیں رکھتے
کاغذی میڈیا یوٹیوب کا رخ کر رہا ہے، ظفر عمران کے املا کو زمانے نے مسترد کر دیا
معروف صحافی، بلاگر اور ایڈیٹر ہم سب، عدنان خان کاکڑ سے ایک گپ شپ
انٹرویو: اقبال خؤرشید

ڈیجیٹل صحافت کے شہ سوار ہیں۔ کئی جہتیں ہیں۔ کبھی بلاگ کے سانچے میں ان کا مزاح جنم لیتا ہے، کبھی ولاگ کے فریم میں اپنے درشن کراتے ہیں۔ پھر سوشل میڈیا پر میلا سجاتے ہیں۔ سنجیدہ مسائل پر شگوفے پھوٹنے لگتے ہیں۔ یاروں سے ان کی نوک جھونک چلتی رہتی ہے۔ جتنی طویل ہو، اتنا مزہ دیتی ہے۔

عدنان خان کاکڑ کے تمام حوالے قابل ذکر، مگر مرکز میں موجود ہے سب سے اہم حوالہ۔ یعنی ”ہم سب۔“

ایک نیوز ویب سائٹ، جس کے پیچھے کوئی مین اسٹریم میڈیا ہاؤس نہیں، پھر بھی اپنی اثر پذیری اور رسائی میں اس کا موازنہ مشکل۔ مدیر اعلی اس کے ممتاز صحافی جناب وجاہت مسعود ہیں۔ ہمارے ممدوح، عدنان خان کاکڑ اس کے ایڈیٹر کی مسند پر برا جمان ہیں۔ اور اکثر اپنی فیس بک پوسٹس (جسے ظفر عمران پوسٹیں لکھنے پر مصر) یہ اطلاع دیتے رہتے ہیں کہ سارا کام دراصل وہ ہی کرتے ہیں۔ ویب سائٹ انھوں نے ہی سنبھال رکھی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

اب جناب ایڈیٹر کے سامنے ہم چند سوالات رکھتے ہیں۔ دیکھیں کیا جواب آتا ہے۔

اقبال: کیا یہ تاثر درست ہے کہ ڈیجیٹل جرنلزم نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو نگل لیا ہے؟

عدنان: درست ہے۔ جرنلزم کی شکل تبدیل ہو رہی ہے۔ جیسے ریڈیو کی جگہ ٹی وی نے اور ٹی وی کی جگہ کیبل چینلز اور پھر یوٹیوب نے لی ہے، ویسے ہی کاغذی میڈیا پہلے انٹرنیٹ پر آیا ہے اور اس کے بعد اب یوٹیوب کا رخ کر رہا ہے۔

اقبال :کیا ویب سائٹ کے لکھاریوں کو اخباری کالم نگاروں جیسی شہرت نصیب ہوئی، وہ رائے عامہ کے نمایندے بنے، یا اس میں ابھی کچھ وقت لگے گا؟

عدنان: بالکل نمائندے بنے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ صرف وہی صحافی زیادہ مقبول ہوئے، جو الیکٹرانک میڈیا پر بہ طور اینکر آنے میں کامیاب رہے۔

اقبال: مضمون لکھنے والے کی تین غلطیاں، جو ایڈیٹنگ کے دوران سب سے زیادہ اذیت دیتی ہیں؟
عدنان: رموز اوقاف۔ مضمون کو نظرثانی کیے بغیر بھیج دینا۔ بلاوجہ طوالت۔

اقبال: ظفر عمران نامی صاحب جو املا رائج کرنا چاہ رہے ہیں، اس کے اردو مضمون نگاری پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

عدنان: وہ املا پرانی ہے۔ ظفر عمران کے استاد شکیل عادل زادہ صاحب کے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ اسے زمانے نے مسترد کر دیا ہے۔

اقبال: کوئی ایسا کالم، جس کی اشاعت نے ”ہم سب“ کو مشکل میں ڈال دیا ہو؟

عدنان: مشال خان کے قاتلوں کو چھوڑ دینے کا معاملہ اٹھانے پر ”ایک مذہبی سیاسی جماعت“ نے ہم سب کے چند لکھاریوں کے خلاف بلاسفیمی کی مہم چلائی تھی۔

اقبال: اپنے مضامین کو کتابی شکل دینے کا ارادہ ہے؟

عدنان: پبلشرز کے اصرار کے باوجود فی الحال انکاری ہوں۔ شاید کر لوں۔ اردو میں کتاب لکھ کر صرف عزت ہی ملتی ہے، پیسہ نہیں ملتا۔

اقبال: وجاہت مسعود صاحب کی کوئی ایک خوبی، جس سے اکثر قارئین لاعلم ہوں؟
عدنان: فوٹوگرافک یادداشت۔ نہایت وسیع مطالعے کے ساتھ مل کر یہ قیامت ڈھاتی ہے۔

اقبال: آپ کی کالم نگاری میں وقفہ در آیا ہے، اس کا سبب؟ مضامین کو کتابی شکل دینے کا ارادہ ہے؟

عدنان: ایڈیٹنگ نے کھپایا ہوا ہے۔ ایک جان لیوا قسم کی بیماری کے سبب وقفہ آیا تھا، جو بس چلتا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود کہ میں بہت کم لکھتا ہوں، میں سنہ 2022 میں بھی ہم سب کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا مصنف رہا۔

اقبال: آخری کتاب کون سے پڑھی تھی، کوئی ایسی کتاب، جو اوروں کو پڑھنے کی نصیحت کرتے ہوں؟

عدنان: خامہ بگوش کے قلم سے۔ ہر وہ کتاب جو پڑھ سکتے ہیں، پڑھ لیں۔ کسی خاص کی نصیحت نہیں۔ لائٹ لکھنے والے مظہر کلیم کی آنگلو بانگلو سیریز ضرور پڑھیں۔

اقبال: بہ طور صحافی پاکستان کا مستقبل کیا دکھائی دے رہا ہے؟
عدنان: تاریک۔ ہم طویل مدتی پلاننگ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس لیے مستقبل تاریک دکھائی دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).