تھیلیسیمیا کے شکار بچے، حکومت نکاح سے پہلے لازمی ٹیسٹ کا قانون بنائے
ہم ادھر کوٹ ادو میں الشفا فری تھیلیسیمیا سینٹر چلاتے ہیں۔ بڑے بھائی ڈاکٹر عمر فاروق بلوچ صاحب کے پاس وسیب بھر سے پانچ سو سے زائد بچے رجسٹر ہیں تونسہ کے پہاڑوں سے لے کر تھل کے ریگستان تک سے بچے ہر پندرہ دن اک ماہ بعد خون لگوانے آتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کلینک پہ اک الگ وارڈ بنا رکھا ہے ان کے لیے مفت خون مفت چیک اپ سمیت جتنا ہو سکتا ہے مدد کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اخباروں میں کالم لکھنے سے لے کر میڈیا چینلز تک مہم چلا کر دیکھی ہے لیکن مجال ہے کہ شادی سے پہلے ٹیسٹ کرا لے کوئی۔
یقین کریں یہ بچے جیتے جی تکلیف ہی بھگتتے رہتے ہیں یہ نہیں کہ اس کا علاج نہیں علاج ہے اس وقت 42 سالہ مریض بھی موجود ہے مگر علاج مہنگا ہے اور ادویات مسلسل استعمال کرنا ہوتی ہے۔ ہر ماہ خون لگنے سے جسم میں فولاد کی مقدار بڑھ جاتی ہے پانچ سے دس ہزار ماہانہ کی ادویات سے اس کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے مگر یہاں نہ سرکاری سطح کا کوئی تھیلیسیمیا سینٹر ہے نہ ہی سرکاری ادویات۔ ڈاکٹر عمر بلوچ کے الشفا کلینک کے علاوہ ان کے پاس کوئی آپشن نہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی کہا صاحب استطاعت لوگ اک مریض کو اون کر لیں اور ہر ماہ ان کو ادویات دیتے رہیں تو مریض لمبا عرصہ جی سکتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ بچے مر جاتے ہیں۔ بالکل دیگر بچوں کی طرح ان کی گروتھ ہوتی ہے ان کے احساسات معصومانہ انداز ان کی شرارتیں ان کے جینے کی خواہش ماں باپ سے پیار سب کچھ دل پہ لگتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ رہتے میری اکثر بچوں سے دوستیاں ہوئیں اور پھر میں نے اکثر بچوں کو بے جان ہوتے دیکھا۔
ان کا دکھ باقی ہوتا ہے کہ ان کی جگہ تین اور مریض آ جاتے ہیں۔ میرا آریز سات سال کا تھا جب ہم نے دوسرا بچہ یعنی ایمل کا پلان کیا۔ میں اتنا ڈرا ہوا تھا کہ الحمدللہ آریز بالکل ٹھیک تھا پھر بھی ٹیسٹ کرانے پہنچ گیا کیونکہ ایسا ممکن ہوتا ہے کہ تھیلیسیمیا مائنر والدین کے تین بچے صحتمند ہوں اور اک میجر نکل آئے۔ باقی بہن بھائیوں میں وہ بچہ سوچتا ہے کہ میں ہی کیوں۔ میں نے بن ماں باپ کے گورمانی شہر کے دو بہن بھائی مریض بھی دیکھے ہیں جن کا واحد سہارا ان کی دادی ہے ۔ جو ہر ماہ بچوں کو لاتی ہے۔ اس کی بوڑھی ہڈیوں میں جان نہیں لیکن اپنی موت سے زیادہ صابر دادی کو صابر اور اس کی بہن کی فکر رہتی ہے۔ اگر مریض بچی ہو تو اور دل دکھتا ہے۔ بیٹیاں باپ کی لاڈلی ہوتی ہیں۔ میں نے کڑیل مردوں کو بیٹی کی تکلیف میں روتے دیکھا ہے۔ ان بچوں کو خون لگتا ہے وہ بذات خود اک تکلیف ہے پورا دن بیڈ پہ لیٹے اک اک قطرہ جسم میں سرایت کرتا ہے ری ایکشن کے ڈر کے علاوہ بھی خون لگنے سے تکلیف ہوتی ہے یہ عام گلوکوز کی بوتل کی طرح نہیں جس سے صرف دل کی دھڑکن تیز ہو یا چکر آئیں۔
خون لگنے کے بعد اگلے دن بچے کو پتا چلتا ہے کہ اگلے پندرہ دن تکلیف میں گزریں گے یا اگلے تین دن مزے میں۔ جی ہاں اگر خون صحیح سے نہ لگے تو اگلے خون لگوانے تک وہ مسلسل تکلیف میں رہتے ہیں۔ اگر جسم خون قبول کر لے تو اگلے تین دن بچہ ہشاش بشاش ہو کر بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلتا ہے اور چوتھے دن سے طبیعت پھر واپسی کی طرف گامزن ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ کمزوری بخار چکر نقاہت مسلسل بے چینی یہ بچے ٹھیک سے کھانا تک نہیں کھا پاتے۔
پھر خون لگنے سے فولاد کی زیادتی سے ان کی تلی بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ چہرہ سوج جاتا ہے۔ اور اک اک کر کے جسم کے آرگن خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ آرگن خراب ہونے سے بچے کی تکلیف ڈبل ہو جاتی ہے۔ اور پھر وہ ہوتے ہیں اور ماں باپ کی طرف ان کی التجائی اور پرامید نگاہیں اور دوسری طرف بے بسی ہی بے بسی ہوتی ہے۔ اپنے سامنے پھول جیسے بچوں کو دن بدن موت کی طرف بڑھتا دیکھ کر کڑھتے اور روتے رہتے ہیں والدین۔ ماں کے دکھ کی مثال ممکن نہیں لیکن اس سب میں باپ کا جو حال ہوتا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔
ہر بچہ اپنے بابا کو ہیرو سمجھتا ہے بچے کا تکلیف میں باپ کو امید بھری نظروں سے دیکھنا پھر بیوی کا شوہر پہ انحصار کہ کچھ کرو اور میرے بچے کو بچاؤ۔ باپ کو بچے کی تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے بیوی کو جھوٹے دلاسے دینے ہوتے ہیں مضبوط دکھنا ہوتا ہے یہ غم ان کو اندر سے کھائے جاتا ہے۔ تھیلیسیمیا کا شکار بچہ اور والدین دن کے چوبیس گھنٹے ہفتے کے سات مہینے کے تیس اور سال کے تین سو پینسٹھ دن دکھ اور تکلیف میں گزارتے ہیں۔
اک مسلسل بوجھ ان کے ذہن پہ سوار ہوتا ہے۔ الشفا تھیلیسیمیا سینٹر سے پہلے یہ بے چارے خون کی بوتل لگواتے ہی اگلے خون کے لیے بھاگ دوڑ شروع کر دیتے تھے کہ وقت سے پہلے کسی طرح بچے کے بلڈ گروپ سے مطابقت رکھتا خون مل سکے۔ ماں باپ دیگر بچوں اپنے کام کاج چھوڑ کر دن بھر ہسپتال ہسپتال گھومتے رہتے کہ کوئی ان کے بچے کو خون لگا دے۔ لیکن اکثر ڈاکٹرز ایسے بچوں کے کیسز میں ہاتھ نہیں ڈالتے جیسا کہ بتایا ہے کہ خون لگانا بذات خود اک بہت بڑا رسک ہے۔
مجبوری میں ان کو ایگزیکٹ گروپ کی بجائے یونیورسل گروپ کا خون بھی لگوایا جاتا تھا جس کے فائدہ کم اور نقصان اور تکلیف کا معاملہ زیادہ ہوتا تھا لیکن بچے کی زندگی میں مزید پندرہ دن ایڈ کرنے کے لیے ماں باپ یہ رسک لیتے تھے۔ اگر فولاد کو کنٹرول کرنے آرگنز کی خرابی کی ادویات نہ بھی لیں تب بھی ڈونر ڈھونڈنا ان کو ہسپتال تک لانا ان کا خون نکلوانا کراس میچ کرانا بلڈ بیگ ارینج کرنا ان سب میں بھی پیسہ خرچ ہوتا ہے اور ان پانچ سو بچوں میں سے چار سو اٹھانوے بچے غریب دیہاڑی دار والدین کے بچے ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ماں اکیلے بچے کو ساتھ لیے ڈونر کے لیے بیس تیس روپے والا جوس کا ڈبا پکڑ کر خون ڈھونڈ رہی ہوتی تھیں باپ اگر یہاں ان کے ساتھ ہوتا تو دیہاڑی خراب ہوتی اور دیگر صحتمند بچے بھوکے رہتے۔
ڈاکٹر صاحب نے ان پانچ سو بچوں کو اک پلیٹ فارم مہیا کیا ہے خدا کے بندے ہیں جو بلڈ ڈونیٹ کر جاتے ہیں اور یقین جانیں یہ کام صرف نیت کی وجہ سے کامیابی سے چل رہا ہے الشفا تھیلیسیمیا سینٹر ان بچوں کو کم از کم خون کے انتظام ڈاکٹر کے چیک اپ فیس وارڈ چارجز کی فکر سے آزاد کر چکا ہے۔
یہ پانچ سو بچے روزانہ کی بنیاد پہ دو تین پانچ دس کی تعداد میں خون لگوانے آتے ہیں۔ اکثر ان بچوں کی آپس میں معصومانہ دوستیاں لگ جاتی ہیں اور پھر اگلے وزٹ پہ ان کو پتا چلتا ہے کہ پچھلے ہفتے اس کے بیڈ کے ساتھ لیٹا اپنے سکول اور گاؤں کی باتیں بتانے والا بچہ اب دنیا میں نہیں رہا۔
ہم چونکہ خود یہ دیکھتے ہیں حساس ہونے کی وجہ سے سب بھگتتے ہیں یقین کریں ہماری ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے کہ خدارا رشتے طے کرنے سے پہلے میاں بیوی تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ ضرور کرائیں۔ کزن میرج میں اس کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں مگر خاندان سے باہر بھی ہونے والے رشتے میں تھیلیسیمیا مائنر ہونے کا چانس موجود ہوتا ہے۔ اگر شادی سے پہلے ٹیسٹ نہیں کرا سکے تو پریگنینسی میں اک ٹیسٹ سے بچے کے تھیلیسیمیا کے ہونے نہ ہونے کا پتا لگ جاتا ہے اور مفتیان کے فتوے کے مطابق بچے میں سانس آنے سے پہلے اسقاط کی اجازت ہے۔ ٹیسٹ کرائیں اپنے اردگرد ایسے بچوں کے والدین کی مدد کریں تا کہ وہ فولاد کی مقدار میں کنٹرول میں رکھ کر بچے کے دیگر آرگنز کو بچا سکیں۔ اور اگر آپ صاحب استطاعت ہیں تو اک بچہ ایڈاپٹ کر لیں اور ہر ماہ اس کو ادویات لیں دیں۔
الشفا فری تھیلیسیمیا سینٹر مکمل کوائف اور رابطہ نمبرز دینے کے لیے ہر وقت میسر ہے
- کیا وطن سے محبت ثابت کرنے کے لیے جنگ ضروری ہوتی ہے - 20/08/2023
- ڈی جی خان کی زینب کا دکھ - 31/07/2023
- تھیلیسیمیا کے شکار بچے، حکومت نکاح سے پہلے لازمی ٹیسٹ کا قانون بنائے - 12/07/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).