برلن کے تین پاکستانی قلمی شہسوار


برلن شہر میں 180 سے زائد اقوام سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں اس طرح یہ شہر ملٹی نیشنز افراد کا مرکز بھی ہے ان میں پاکستانی بھی شامل ہیں جن کا تعلق پاکستان کے تمام صوبوں کے مختلف شہروں سے ہے۔ یہاں مقیم پاکستانیوں میں ایک تعداد وہ ہے جو 1980 کی دہائی میں تعلیم کے لئے جرمنی آئی تھی اور تعلیم مکمل کر کے پھر یہیں مستقل قیام کر لیا تھا۔ انہی طالب علموں میں ایک سرور غزالی اور انور ظہیر رہبر بھی شامل ہیں جن کا تعلق کراچی سے ہے۔

سب سے پہلے سرور غزالی صاحب دسمبر 1980 میں کراچی پہنچے تھے۔ اس کے بعد ان کے چھوٹے بھائی انور ظہیر رہبر نے 1985 میں برلن کی سرزمین پر قدم رکھا۔ بعد ازاں ان بھائیوں نے اردو زبان و ادب کے فروغ و تدریج کے فروغ کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا جو آج تک جاری و ساری ہے۔ اسی ادبی سفر میں پھر ایک اور فرد کا اضافہ ہوا اور انور ظہیر صاحب کی اہلیہ عشرت معین سیما نے اس ادبی قافلے کو اپنی قلم سے مزید جلا بخشی۔ گزری دہائیوں میں ان پاکستانی قلمی شہسواروں نے مل کر اردو زبان کے فروغ اور اس کو سجانے اور سنوارنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ انہوں نے مغرب میں پاکستانی نسلوں کو اردو ادب سے روشناس کرانے کا جو بیڑہ اٹھا یا تھا اس میں کامیابی حاصل کی ہے اور ادب کی دنیا میں اپنے کام سے پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ اردو ادب سے انتہا کا لگاؤ رکھنے والے اس خاندان نے برلن میں ادب کی جو شمع روشن کی تھی اس کی روشنی سے آج برلن ہی نہیں بلکہ جرمنی اور یورپ کے کونے کونے منور ہو رہے ہیں۔ یہ ادبی خاندان جس ذوق و شوق اور عزم کے ساتھ برلن و یورپ میں پاکستانی کمیونٹی کے اندر اردو زبان اور ادب کے فروغ اور اس کی ترویج کے لئے ادبی خدمات سر انجام دے رہا ہے، وہ ہر لحاظ سے قابل ستائش ہے۔ ان کی یہ بھاگ دوڑ دیکھ کر اگر ان کو ”ادبی جنونی“ کہا جائے تو بالکل غلط نہ ہو گا۔ اس کا اندازہ ہر ایک کی شاعری، اشاعت کتب اور مضامین و کالموں اور افسانوں کی بھرمار سے لگایا جاسکتا ہے۔

انور ظہیر رہبر کراچی سے بی ایس سی مکمل کر کے مزید تعلیم کے لئے 1985 میں جرمنی پہنچے تھے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ان کا ادبی پروفائل متاثر کن ہی نہیں بلکہ بہت شاندار ہے۔ انور ظہیر رہبر صاحب ایک شاعر، افسانہ نگار، کالم نگار ہیں۔ تدریس کے شعبہ سے بھی وابستہ رہے اور وزارت خارجہ جرمنی میں اردو زبان کے لیکچرار بھی رہے اور ساتھ ساتھ اردو، پنجابی انگریزی اور جرمن زبان کے ترجمان کے فرائض بھی سرانجام دیے، اسی طرح کی ذمہ داری وزارت داخلہ جرمنی میں بھی نبھائی۔

برلن کی فعال ادبی تنظیم ”بزم ادب برلن“ کی بنیاد رکھی اور اس کے بانی ٹھہرے۔ 1987 میں پہلا مشاعرہ منعقد کرایا۔ گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے اردو انجمن تنظیم برلن کے نائب صدر ہیں۔ برلن سے ایک ریڈیو ”آواز ادب برلن“ چلاتے ہیں اس کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں اس کی بنیاد انہوں نے 2020 میں رکھی تھی۔ اگر ادبی جرائد کی دنیا میں نظر ڈالی جائے تو یہاں بھی ان کی خدمات و کاوشیں پڑھنے والوں کی توجہ کھینچ لیتی ہیں۔

ایک ادبی رسالہ ”کاوش“ کے مدیر اعلیٰ ہیں، اسی کے ساتھ ساتھ جریدہ ”نئی ادبی کاوش“ کے مدیر ہیں۔ سائنس ڈائجسٹ کراچی کے جرمنی میں نمائندہ ہیں۔ لندن سے نکلنے والے ادبی رسالہ ’پرواز ”، ممبئی کے ادبی سالہ“ آنگن ممبئی ”کے وہ جرمنی میں نمائندے ہیں۔ ان کی متعدد کتب منظر عام پر آ کر ادب کی دنیا میں شہرت حاصل کر چکی ہیں اور دنیا کے اخبارات و جرائد میں ان پر سیر حاصل تبصرے ہوئے۔ ان کتب میں ایک شعری مجموعہ“ تجھے دیکھتا رہوں ”، افسانوں کا مجموعہ“ عکس آواز ”، اردو کے افسانوں پر مبنی کتاب“ رنگ برگ شامل ہیں۔

ان کی حال میں ایک نئی کتاب ”کالم پردیسی کے قلم سے“ شائع ہو کر ادبی حلقوں میں شہرت اور داد سمیٹ رہی ہے۔ انور ظہیر راہبر سے سوشل میڈیا کے ذرائع سے رابطہ ہوتا رہتا ہے جن سے ان کی سرگرمیوں کی آگاہی ملتی رہتی ہے۔ ان کو ادبی سرگرمیوں کا ثمر ساتھ ساتھ ملتا رہتا ہے جو ان کو مزید سرگرم رکھنے مین ایندھن کا کام کرتا ہے اور یہ ثمر اعزازات اور تعریفی اسناد کی شکل میں ہوتا ہے۔ انور ظہیر راہبر کی شاعری کا مجموعہ ”تجھے دیکھتا رہوں“ 2000 ء میں اردو اکیڈیمی کلکتہ کی بہترین کتب فہرست میں شامل ہوا۔

اسی سال ان کو سائنس ڈائجسٹ کراچی کی جانب سے ”بہترین سائنسی مضمون نگار ایوارڈ“ دیا گیا۔ عالمی ادبی کانفرسوں میں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں سرٹیفکیٹس دیے گئے ان میں اردو عالمی کانفرنس لکھنو 2016، اردو عالمی کانفرنس دوحہ قطر 2016 شامل ہیں۔ جرمنی میں اردو ادب کے فروغ پر 2018 میں انور ظہیر رہبر صاحب کو ”پاکبان انٹرنیشنل برلن 2018 سے نوازا گیا۔ یہ 2023 تک کی ان کی ادبی کوششوں اور کاوشوں کا خلاصہ ہے جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

برلن میں ادبی و سماجی پروگراموں کے انعقاد کے حوالے سے بہت زیادہ متحرک ادبی شخصیات میں سرور غزالی صاحب سر فہرست ہیں جو فکشن نگار اور ایک معروف شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین لکھاری بھی ہیں اور ”بزم ادب برلن“ کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ 2018 فروری میں جب محترمہ عاصمہ جہانگیر کی اچانک وفات ہوئی تو سرور غزالی صاحب نے میری استدعا پر عاصمہ جہانگیر کی یاد میں ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ وہاں شاملین نے جس طرح عاصمہ جہانگیر کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی شخصیت پر روشنی ڈالی تھی اس سے برلن میں اردو ادب سے لگاؤ رکھنے والے ٹیلنٹ کی موجودگی کا علم ہوا تھا۔

یہ تقریب بھی ”بزم ادب برلن“ کے زیر اہتمام منعقد ہوئی تھی۔ سرور غزالی اس تنظیم کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ اس ادارے کی نگرانی میں ادبی تقریبات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ تازہ ترین نشست جو بزم ادب برلن کے تحت آن لائن منعقد ہوئی وہ ”کتنی برساتوں کے بعد“ نامی ناول پر ایک مذاکرہ نشست تھی سرور غزالی کی تصنیفات میں افسانوں کا مجموعہ ”بکھرے پتے“ ، ناول بعنوان ”دوسری ہجرت“ ، ”میرے مضامین“ ، افسانوں کا مجموعہ ”سورج کا اغواء“ ، جرمن ناول ”خون کی بھیک“ ، ناول ”شب ہجراں“ افسانچے ”ہارا ہوا ملاح“ اور ایک سندھی ترجمہ ”خوف میں گھرا انسان“ شامل ہیں۔ یہ تمام کتب 2008 اور 2022 کے درمیانی عرصے میں منظر عام پر آئیں۔

محترمہ عشرت معین سیما صاحبہ کی ادبی و قلمی خدمات کی کاوشوں کا ذکر کیے بغیر مضمون نامکمل رہے گا۔ میرا ان سے تعلق پاکستان جرمن پریس کلب کے ممبر کولیگ کی حیثیت سے بھی ہے۔ ان کے لکھے صحافتی اداریے نظروں سے گزرتے رہتے ہیں۔ محترمہ عشرت معین سیما کی کئی دہائیوں پر محیط قلمی ادبی خدمات 9 کتب کی شکل میں منظر عام پر آ چکی ہیں جبکہ دسویں زیر طبع ہے۔ ان نو کتب میں تین شعری مجموعے ”جنگل میں قندیل“ ، ”آئینہ مشکل میں ہے“ اور ”با اہتمام جنوں“ شامل ہیں۔

دو افسانوں کے مجموعے بعنوان ”گرداب اور کنارے“ اور ”دیوار ہجر کے سائے“ شامل ہیں۔ تحقیقی مضامین پر مشتمل ”جرمنی میں اردو“ بھی شامل ہے۔ ”گامزن“ کے نام سے ایک سفر نامہ بھی شائع ہو چکا ہے۔ پاکبان کے اداریوں پر مشتمل کتاب اور دیس دیس کے ملا جی (ملا نصیر الدین کی کہانیاں ) آپ کی علمی ادبی اور قلمی شاہکار ہیں۔ محترمہ کا ایک سفر نامہ ”اردو کی محبت میں“ پاکستان اور بھارت کے اخبارات میں قسط وار شائع ہو رہا ہے۔

برلن سے پہلا ادبی جریدہ ”نئی کاوش“ کے اجراء کا کریڈٹ بھی انہی کو جاتا ہے۔ عشرت معین سیما کی جاری و ساری انہی ادبی خدمات کے اعتراف میں بہت سی بین الاقوامی جامعات، عالمی ادبی تنظیمیں انہیں مختلف اعزازات و اسناد سے نواز چکی ہیں ان میں بزم صدف، نئی نسل ادبی ایوارڈ، ماڈرن اورینٹ لینگوئج کی مد میں اردو کی ترویج و تدریس ایوارڈ، اردو انجمن برلن ایوارڈ، جامعہ استنبول عاکف ارسوئے علامہ اقبال ایوارڈ، فیض احمد فیض ایوارڈ فرینکفرٹ شامل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments