حیراں سرِ بازار


میں حارث خلیق کے شعری مجموعے ” حیراں سر ِ بازار” کو پڑھ کر ، یہاں کچھ کہنے کو اپنے خیالات مجتمع کر رہا تھا کہ دھیان میر صاحب کے دیوان دوم کے ایک شعر کی طرف چلا گیا۔ لیجئے وہ شعر عرض کیے دیتا ہوں۔ دھیان اس شعر کی طرف کیوں گیا یہ آگے چل کر بتاؤں گا ۔ ہاں تو خدائے سخن کا کہنا تھا:
ڈوبا لوہو میں پڑا تھا ہمگی پیکر میر
یہ نہ جانا کہ لگی ظلم کی تلوار کہاں
جب میں میر صاحب کو پڑھ رہا تھا تو کئی الفاظ پر اٹک جایا کرتا ۔ اس شعر کے مصرع اولیٰ میں فارسی الاصل لفظ “ہمگی” نے بھی مجھے الجھایا۔ بے ہمگی کہیں پڑھ رکھا تھا، کسی کے ساتھ نہ ہونے اور اکیلے ہونے کے معنی اس میں تھے۔ یہیں سے معنی کا جو تخمینہ لگایا لغت اٹھانے پر معنی کی کئی اور پرتیں اس پر ایزاد ہو گئیں ۔ اب میں میر صاحب کا شعر پڑھ رہا تھا اور ایک کٹا پھٹا وجود سامنے پڑا تھا؛ لہو میں پورا ڈوبا ہوا۔ یہ وجود محض میر صاحب یا کسی ایک فرد کا نہیں تھا اس قومی وجود کا تھا جو ظلم کی تلوار کی زد پررہا ۔ میر صاحب کا یہ شعر مجھے یوں یاد آیا کہ حارث خلیق کو پڑھتے ہوئے میری نظر کے سامنے اپنا قومی وجود تھا؛ لہو میں ڈوبا ہوا، تڑپتے تڑپتے لگ بھگ سرد ہو جانے والا:
مجنوں کی لاش سرد تھی، چہرہ تھا برف برف
لب پھر بھی مرتعش تھے، زباں پر تھا نام ایک
یہ حارث کی ایک غزل کا شعر ہے۔ اگرچہ اس مجموعے میں زیادہ نظمیں ہی ہیں مگر خلاف معمول معقول تعداد میں غزلیں بھی ہیں۔ لگ بھگ بیس غزلیں اور فردیات۔ پہلے مجموعوں میں ایسا نہیں تھا۔ ایک مجموعے “میلے میں” میں تین غزلیں تھیں اور بس۔ “میلے میں” کی طرح ، حارث کی غزلیں اس مجموعے میں بھی بالکل آخر میں ہیں؛ جی پنجابی نظموں کے بھی بعد۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ان کی ترجیحات میں نظم اوپر ہے۔ اس سب کے باوجود میرا دھیان اُن کی غزل کی جانب یوں گیا ہےکہ اس کتاب کی اشاعت سے کچھ عرصہ پہلے شعری مجالس میں وہ اہتمام سے نظموں کے ساتھ غزلیں بھی سنانے لگے تھے۔ یہ غزلیں میری توجہ یوں کھینچتی رہی ہیں کہ ان کی فضا اور لسانی آہنگ اُن کے نظم سے بہت مختلف ہے ۔ یہی سبب رہا ہوگا کہ حارث خلیق کی کتاب اُٹھاتے ہی وہاں سے کھول لیا جہاں ان کی غزلیں میری منتظر تھیں۔ ان غزلوں میں ہماری ملاقات ایسے شخص سے ہوتی ہے جو اپنے تہذیبی مظاہر سے تخلیقی سطح پر نہ صرف اپنے رشتے کو استوار رکھنا چاہتا ہے ، وہ خود اندر سے اس تہذیب میں ڈھلا ہوا بھی ہے ۔ پہلی ہی غزل امیرخسرو سے کلام کرتی ہے ۔ امیر خسرو نے کہا تھا:
خسرو ردیف ایں غزل از بہر امتحاں
آوردہ در قطار سفید و سیاہ و سرخ

اور حارث کہہ رہے ہیں:

اتری ہے آسماں سے خسرو کی یہ زمیں
مانندِ حسن ِیار سفید و سیاہ و سرخ

یہیں کہیں میر صاحب یاد آئے اور میں ایک کلاسیکی آہنگ سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ میرے دھیان میں غزل کا خالص مزاج تھا اور وہ سنہری عہد بھی جس میں اس جادوئی صنف کا مزاج ڈھل رہا تھا اور آج کا زمانہ بھی جو حارث کے ہاں غزل کے خالص مصرع کے اندر سے چھلک چھلک پڑتا ہے ۔
اس پر بضد ہے پھر غنیم، کارِ جنوں ہو جس کی خُو
اُس کے گلے میں طوق ہو اُس کی زباں پہ مہر ہو
خامہ، دوات، موقلم مدح ِسناں کو وقف ہوں
رنگ پہ اور ردیف پر، طرز ِبیاں پہ مہر ہو
چوک میں سیخ تھام کے بیٹھا ہوا ہے کوتوال
ایک اِک جبیں کو داغدے ، پیرو جواں پہ مہر ہو
یہ مجموعہ اٹھا کر کوئی بھی غزل پڑھ لیں ، آپ محسوس کریں گے کہ حارث خلیق جہاں غزل کہتے ہوئے اس کی کلاسیکی روایت کو محترم جان کر سر جھکا لیتے ہیں وہیں اس مودب آدمی کے وجود کے اندر سے ایک سرکش تخلیق کار نکلتا ہے اور حرف حرف میں آج کے معنی، مفاہیم اور احساس کو گوندھ دیتا ہے۔ حارث یہ کام بہت قرینے سے کرتے ہیں؛ جی یہ وہی کام ہے جس کا تصور نئی غزل میں لسانی اکھاڑ پچھاڑ کے بغیر نہیں باندھا جا سکتا تھا۔ حارث کی غزل میں زبان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہے نہ اس کے مزاج کو بگاڑکر نیا کرنے کا التباس۔ اور لطف یہ ہے کہ اس کے باوجود وہ ظلم کی اُس تلوار اور تلوار کے ہدف کواپنی غزل میں نشان زد کر رہے ہیں جس کی بابت میر صاحب یہ کہہ کر گزر گئے تھے: ” یہ نہ جانا کہ لگی ظلم کی تلوار کہاں”۔ حارث خلیق کی غزل بتاتی ہے کہ ظلم کی تلوار بدن پر کہاں پڑ رہی ہے اور ہم کس مقام پر ہیں جہاں یہ مسلسل گھاؤ لگائے جارہے ہیں ۔ اس رُخ سے دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے ہمارا زمانہ میر صاحب کے زمانے سے متصل ہو گیا ہے۔
وہ درد ہے کہ سانس بھی گُھٹنے لگی ہے اب
وقفہ کہاں ہے سلسلہ ابتلا کے بیچ


اسی سلسلہ ابتلا نے حارث خلیق کو نظم کہنے کا ایسا سلیقہ سکھا دیا ہے جس میں اس سماج کے پچھڑے ہوئے کردار بولنے لگے ہیں۔ فیض صاحب نے سماج کے جن کرداروں کو، جسم و زباں کی موت سے پہلے بولنے کو یوں کہا تھا: “بول کہ لب آزاد ہیں تیرے” حارث خلیق نے سماج کے ان کرداروں پر اپنی پوری توجہ مرتکز کر دی ہے۔ انہیں اپنے لفظوں میں قامت عطا کی ہے اور ان کے وجود کو ایک کہانی کے تانے بانے میں گوندھ کر کچھ اس طرح اپنی بات کہی ہے کہ ہم ان کرداروں کے ساتھ رہنے اور جینے مرنے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔ یہ کردار اپنے زمانے اور اپنے وسیب سے پچھڑے ہوئے ہیں نہ ان عذابوں کی نوعیت سے جنہیں وہ بھوگ رہے ہوتے ہیں ۔یہی سبب ہے کہ حارث خلیق کی “رشیدہ ڈومنی”، “سلامت ماشکی”،”نیامت اللہ سعید بنگش”،”ندیم احسن”،”جعفر زٹلی” وغیرہ جیسی کرداری نظموں میں فکشن کے بھید بھنور بھی رچ بس گئے ہیں۔ انہی خوبیوں کے سبب یہ کردار ایسے ہیں کہ مر بھی جائیں توان کی قبر پرایسا پھول کھلتا ہے جس کی ایک پنکھڑی چبانے سے ہمارے ان نظم نگاروں کا بھی بھلا ہوا سکتا ہے جن کے ہاں نظم محض اپنی ذات کے کعبے کا طواف ہو گئی ہے یا زباں کی سطح پر ایسی ترتیب جس میں معنی اور احساس کی کل توڑ کر کچھ الجھنیں اور ابہام رکھ دیے جاتے ہیں۔ حارث خلیق کی نظم خیال، معنی اور احساس کی تنظیم اور کامل ترسیل پر ایقان رکھتی ہے۔ میں نے کامل ترسیل شاید نادرست کہہ دیا ہے کہ وہ ان ساری نظموں میں ایک حیرت کا عنصر کچھ یوں شامل کرتے رہے ہیں کہ اسی سے نظموں کی جمالیات مرتب ہوتی ہیں۔
اگرچہ حارث خلیق نے اپنی اس کتاب کا نام ایک غزل کے مطلع سے اخذ کیا ہے:

حیراں سرِ بازار پریشاں سرِبازار
بیٹھا ہوں کیے چاک گریباں سرِ بازار

مگر واقعہ یہ ہے کہ یہ حیرت غزل سے کہیں زیادہ اُن کی نظم کی جمالیات مرتب کر رہی ہوتی ہے ۔ یہی وہ عنصر ہے جومعنی اور مفہوم کی کلی ترسیل کے بعد بھی بچ رہتا ہے اور نظم کو بھی بچا کر رکھتا ہے ۔ چھ حصوں پر مشتمل نظم “رات ” ہو یا “شاعر”اور “سادہ سا سوال” جیسی نظمیں یا پھر چھ ہی حصوں پر مشتمل وہ نظم”سلاطین” جس کو لکھنے کا خیال حارث کو رِلکے کی نظم “دی زارز” پڑھنے کے بعد آیا تھا، ایسی تمام نظموں میں کردار ثانوی ہو گئے ہیں اور وہ صورت حال اہم ہو گئی ہے جس کے اندر انسانی زندگی، اس کی آزادی اور انسانی وجود سے جڑے ہوئے سوالات اہم ہو جاتے ہیں۔ چند نظمیں انہوں نے کچھ شخصیات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے لکھی ہیں یا عزیز افراد سے اپنے تعلق اور محبت کو یاد کیا ہے؛ ایسی سب نظموں میں کہانی کا بہاؤ نہیں ہے۔ یہاں خیال کا ایسا بہاؤ ہے کہ ہر لائن کے بعد نئی لائن اس بہاؤ میں کوئی رخنہ پیدا کیے بغیر آتی ہے اور خیال کے پہلے حصے کو مابعد خیال کے ساتھ نتھی کر دیتی ہے۔ زبان کا اس سطح پر خیال سے ہم آہنگ ہو کرآنا ہی دراصل ایسی نظموں کا وصف ِخاص ہو جاتا ہے ۔
میری بات ادھوری رہ جائے گی اگر میں دو باتوں کا ذکر نہیں کروں گا۔پہلی بات زبان کو برتنے کے حوالے سے شاعر کا رویہ ہے۔ میں اوپر کہہ آیا ہوں کہ غزل لکھتے ہوئے ان کی نظر میں کلاسیک اور روایت کی پاسداری لازم ہو جاتی ہے ۔ یہاں یہ اضافہ کرنا ہے کہ نظم لکھتے ہوئے وہ آزادی برتتے ہیں۔ اتنی زیادہ آزادی کہ غزل کی مرتبہ جمالیات سے یہاں بالکل الگ جمالیات مرتب ہو رہی ہوتی ہے۔ پھر یوں بھی ہے کہ پابند نظمیں ہوں یا آزاد ،وہ اس دھرتی کے باسیوں سے قریب تر رہتے ہیں اور اُن سے اُن کی محبوب لفظیات کے باب میں اکتساب بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ یہاں مجھے یوں لگتا ہے کہ ان کا رویہ اپنی ایک نظم کے کردار جیسا ہوجاتا ہے جو بھوپال میں پیدا ہوئی، ادائیں،ناز نخرے، گائیکی کے گُر لاہور سے سیکھے، جگر اور داغ کی غزلیں اور اختر پیا کے گیت گائےاور اپنے فن سے یوں وابستہ ہوگئی کہ مرنے کے بعد بھی اس کی قبر پر کھلنے والے پھول کے طفیل اپنے فن کا فیض جاری رکھا۔ مختلف علاقوں کے گنی اورعام آدمیوں سے جڑت۔ ماشکی ، مصلی ، میراثی اور کنجر لوگوں کی انسانیت سے تعلق کے سبب ان کی زبان غزل سے نظم کی طرف جست لگاتے ہوئے متنوع ذائقوں کو بہم کرکے الگ سا ذائقہ دینے لگی ہے۔یہ کتابی زبان نہیں ہے اور بہ قول اس کتاب کے دیباچہ نگار وجاہت مسعود، “راشد صاحب کی الوہی لغت کے بجائے حارث نے زمینی محاورے کو انتخاب کیا ہےاور اس میں حارث کسی علاقائی تحدید کے قائل نہیں۔” اس وتیرے نے حارث کی نظم میں ایک الگ سی خوبی ایزاد کر دی ہے۔


اس مقام کی دوسری بات اِس شاعر کے ہاں موجود اس تشویش کی بابت ہے جو کسی نہ کسی سطح پر انسانی بحران کے سبب ہے؛ یہ بحران سماجی سطح پر بھی ہے اور قومی اور عالمی سطح پر بھی؛ یہیں سے حارث خلیق کے ہاں وابستگی اور کمٹمنٹ کی جہت پیدا ہوتی ہے اور وہ ان شاعروں سے مختلف ہو جاتے ہیں جن کے لیے شاعری میں کمٹمنٹ کا علاقہ ممنوع ٹھہرتا ہے۔ تاہم لطف یہ ہے کہ حارث خلیق سیاسی سماجی صورت حال کے مقابل ایک سچےحقیقت نگار کی طرح ہوتے ہیں ایک سیاسی کارکن کی طرح نہیں۔ حقیقت نگاری کی اصطلاح فکشن نگاروں کے لیے برتی جاتی ہے مگر میں نے یہاں یوں برت لی ہے کہ حارث کی بیشتر نظمیں فکشن کی فضا کے اندر رہ کر تخلیقی دائرہ مکمل کرتی اور اپنی جمالیات بھی بناتی ہے ۔ شعر و ادب کی تخلیق دراصل تہذیبی عمل ہے جبکہ عالمگیریت اور صارفیت کے سفاک پھیلاؤ نے اس تہذیبی مزاج کو تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ تہذیب سے وابستگی ، عمومی مزاج ، لین دین، میل ملاقات،لباس ،رہن سہن اور زبان وغیرہ جیسے ثقافتی عناصر کو محفوظ رکھتی ہے اور فرد کے فرد سے بے ریا رشتوں کو استحکام عطا کرنے کے علاوہ سماجی اکائیوں کو تخلیقی سطح پر متحرک کرتی ہے۔ موجودہ صورت حال میں اس تخلیقی عمل میں رخنے پڑنے لگے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے ہاں شاعروں اور تخلیق کاروں کا ایک گروہ عصری بحران اور اس کے جبر سے لاتعلق ہو کر لکھتے رہنے کے عمل سے جڑا رہنا چاہتا ہے۔ ایسے افراد مسلسل اپنی ذات کے ناغول میں رہتے ہیں۔ اچھے بھلے شاعروں کے ہاں یہ رویہ نرگسیت ہو کر بیماری کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ ان کا ہر تخلیق پارہ اس خواہش پر تمام ہوتا ہے کہ میری طرف دیکھو اور بس مجھے دیکھتے رہو۔ ایک دوسرا گروہ تبدیلی کے عمل کو حق دق دیکھتا ہے۔اسے ماننا چاہتا ہے مگر دل نہیں مانتا۔ رد کرنا چاہتا ہے تو کوئی دلیل ہاتھ نہیں آتی۔ اس گروہ کے نظم نگاروں نے اپنے مخمصوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ابہام کو ایک قرینے کے طور پر برتا ہے؛ جہاں جہاں یہ قرینہ تخلیقی سطح پر برتا جاتا ہے وہاں وہاں نظم بن جاتی ہے اور جہاں ایسا نہیں ہوتا وہاں پہیلی اور چیستان ہو کر رہ جاتی ہے۔ تیسرا گروہ ذرا سامنے کی چیزوں پر زیادہ فوکس کرتا اور قدرے اونچا نعرہ لگاتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے ان تخلیقی امکانات پر چھچھلتی نظر ڈالتا گزر جاتا ہے جنہیں فن پارے کی جمالیات مرتب کرنا تھیں اور اس کے اندر معنیاتی اور حسیاتی سطح پر ایک ڈیپ اسٹریکچر تعمیر کرنا تھا۔ حارث خلیق کا شمار ان تینوں گروہوں میں نہیں ہوتا۔ اس شاعر کے مزاج کو سمجھنے کے لیے میں نے فکشن کی حقیقت نگاری والی اصطلاح برتی تو یوں کہ وہ اپنی شناخت پر قائم رہ کر اس عصری بحران کے مقابل ہوتے ہیں۔ موجود حقیقت کے صرف خارجی مظاہر، اس کی چقاچوند ، تباہ کاریوں اور فیوض و برکات ہی کو نہیں دیکھتے ، اس حقیقت کے باطن میں وہاں سے اترتے ہیں، جہاں سے خالص تخلیقیت پھوٹتی ہے یا پھوٹ سکتی ہے۔ اور یہاں وہ اپنے ہرے بھرے تخیل سے بہت کام لیتے ہیں ۔ فیض صاحب نے اپنے ایک مضمون “فنی تخلیق اور تخیل”میں کہہ رکھا ہے کہ “تخیل بجائے خود ایک تخلیقی عمل ہے”۔ حارث یہ جانتے ہیں کہ تخیل کے ہالے میں روشن حقیقت محض وہ نہیں ہے جو حسیات کے کلاوے میں آنے کے بعد بیان میں آجاتی ہے، یا کسی مخصوص بیانیے کی قائم کردہ فضا کے زیر اثرہمیں بہکا رہی ہوتی ہے؛ حقیقت وہ بھی ہے بلکہ بڑی حد تک وہی ہے جو بیان اور برتنے سے باہر رہ کر حیرت، بھید، تجسس اور تاہنگ کے اندر وجود کا ہیولا بناتی ہے ۔ اسی بھید کے ساتھ ہمارے شاعر نے اپنی پہچان کو شناخت کیا اور اپنی نظموں کی تاثیر بڑھالی ہے۔ شاہ حسین نے کہا تھا”اسیں موریوں لنگھ پیاسے ” اور حارث خلیق کا اصرار ہے:
“کبھی خواہش رہی ہو گی
کہ میں بھی مرکزی دھارے میں بہہ پاؤں
مگر یہ ہو نہیں سکتا
کہ مجھ پر میر کی اور میرزا کی
شاہ حسین اور امرتا کی
بورخیز اور لورکا کی
مضطرب روحوں کا سایہ ہے۔”
حارث خلیق، خدا کرے آپ کے تخلیقی وجود پر ان مضطرب روحوں کا سایہ قائم رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments