حارث خلیق کی کتاب “حیران سر بازار”
ادب کی دیگر اصناف کی نسبت شاعری کی طرف میرا رجحان کم کم رہا ہے۔ پھر شاعری میں بھی زیادہ تر مجھے غزل کی نسبت نظم سے رغبت ہے۔ بالخصوص علامہ اقبال اور ن م راشد کی نظمیں۔ موجودہ دور کے شاعروں کو کم ہی پڑھا ہے۔ پچھلے دنوں محمد اظہار الحق صاحب کے ایک کالم جو حارث خلیق صاحب کی کتاب ”حیران سر بازار“ پر تھا، زیر مطالعہ ہوا۔ اظہار صاحب نے بہت احسن انداز سے اس کتاب اور صاحب کتاب کا تعارف کروایا۔ میں نے وہیں سے یہ کتاب خریدنے کا ارادہ بنا لیا اور چند روز بعد مکتبہ دانیال سے یہ کتاب بھی منگوا لی۔
اس کتاب کا پیش لفظ وجاہت مسعود صاحب نے لکھا اور کیا خوب لکھا۔ وجاہت صاحب نے اپنے پیش لفظ میں حارث خلیق کی شاعری کے حوالے سے یہ بات واضح کر دی تھی کہ حارث صاحب بنیادی طور پر نظم کے آدمی ہیں۔ جس کے بنیادی عناصر چار ہیں۔ انسان دوستی، مٹی کی محبت، افتادگان خاک سے الفت اور روایت کا رچا ہوا احترام۔ یہ چاروں چیزیں آپ کو حارث صاحب کی شاعری میں بیک وقت ملیں گی۔ دوسرا حارث کی نظموں کا زیادہ تر حصہ کرداری نظم پر مشتمل ہے۔
اقبال کرداری نظم کے بانی ہیں اور اس سلسلے کو راشد اور مجید امجد نے بہت احسن انداز سے آگے بڑھایا۔ میں نے ن م راشد کو زیادہ پڑھا ہے۔ لیکن ن م راشد کی شاعری کا خبط یا خاصہ یہ ہے کہ ان کی نظم کا ایک ایک جملہ آپ کو اپنے پیچھے بھگاتا ہے۔ راشد صاحب کی زبان قدرے مشکل ہے۔ جیسا کہ وجاہت صاحب ذکر کرتے ہیں ”راشد صاحب کی الوہی لغت کی نسبت حارث خلیق کی نظموں میں آپ کو زمینی محاورے اور اپنے اردگرد رچا بسا ماحول اور کردار ملیں گے“ ۔
اب کچھ نظموں کی بات کرتے ہیں۔ یقین کیجیے ایک سے بڑھ کر ایک نظم! شروع میں رشیدہ ڈومنی، نیامت اللہ سعید بنگش اور سلامت ماشکی نے تو دل موہ لیا۔ ”صابرہ بونو“ کے نام سے ایک نظم جس میں وہ ایک ایسی لڑکی کا دکھ بیان کرتے ہیں کہ جس پر کام کاج کا بہت بھار ہے۔ جس نے کم عمری سے ہی پکانا، ریندھنا شروع کر دیا۔ گویا سب کام ماں سے سیکھے اور دھمکیاں اس طرح سنیں :
”اے لڑکی بن سنور کر دوسروں کے سامنے آئی
تو دیدے پھوڑ دوں گی
اور جو چوکیدار سے مل مل کے ٹھٹھے مارتے دیکھا
تو مرے کتے چھوڑ دوں گی
اب یہ بیچاری صابرہ بانو جو سارا دن کام کر کر کے رات کو بھی سکون نہ پاتی تو اسے یقیناً اپنا ہونا کچھ ایسے ہی لگتا ہو گا:
جب آدھی رات تک لوہے کے کونے سے
پتیلیے مانجھتے رہنے سے پوریں سرخ ہو جاتیں
انگوٹھوں، انگلیوں پر ورم آ جاتا
اسے سب قہر لگتا تھا
مزید اس پر جو کچی نیند سے اٹھ کر
سویرے لان میں جھاڑو لگاتی
اپنا ہونا زہر لگتا تھا
شاعر کا کمال بیان دیکھنے لائق ہے۔ کیسے احساسات کو خوبصورتی سے الفاظ میں سمو دیا۔ ایک نظم جعفر زٹلی کے نام سے ہے۔ جعفر زٹلی اردو اور فارسی کے شاعر تھے۔ انہوں نے مغلیہ عہد میں مزاحمتی شاعری کی اور اس کی سزا انہیں موت ملی۔ حارث خلیق نے ان کی بہادری کو اور ہمارے حکمرانوں کی سفاکی کو اس نظم میں بہت منفرد انداز میں بیان کیا۔ جعفر زٹلی کا خیال کچھ یوں بیان ہوا ہے :
جو میرے پاجامے میں موری ہے بالکل کھلی ہے
مگر شاہزادوں اور شاہ کے سر میں جو موریاں
خود خدا نے بنائیں
وہ سب بند ہیں
یعنی میری تو پاجامے کی موری بھی سب پر عیاں ہے۔ لیکن ان حکمرانوں کے دماغوں میں جو اتنی بڑی بڑی بڑی موریاں ہیں، کیا یہ اقتدار ان کی یہ موریاں چھپا دے گا؟ یہ ان کے عقلوں میں ہوئی موریاں ان کو اتنا نیچا کر دیں گی کہ یہ پائی پائی کے لیے انگریز کے محتاج ہو جائیں گے۔ خود خدا نے بنائیں /وہ سب بند ہیں ”کہ تحت خدا نے ان کے ظلم کے سبب ان پر مہر لگا دی ہے! جب انگریز سامراج کا مہیب سایہ ہند پر قبضہ کرنے کو تھا۔ تب ہمارے حکمرانوں کا اپنے آپ میں مگن ہونا آگے یوں بیان ہوتا ہے :
کثافت کے ڈھیر اوڑ ابلتی ہوئی نعلیاں ہیں
کجی، مفلسی اور زبوں حالیاں ہیں
غلاظت سے یہ سلطنت اس طرح سے بھری ہے
نئی جان لیوا وبا
روز ازل رعایا کے سر کر کھڑی ہے
مگر شاہزادوں کی اور شاہ کی ناک میں
عود و عنبر بسے ہیں
کتنے کرب سے شاعر نے اس نظم میں ہماری ٹریجڈی کو بیان کیا ہے! آگے چل کر چھ ٹکڑوں میں مختصر پیرائے میں جس طرح رات کو بیان کیا وہ بھی بے مثال ہے۔ حارث خلیق نے ایک جگہ ہمارے جمود کو دھند سے تشبیہ دی۔ ایسی دھند جس میں ہمیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا اور نہ ہم اس کے لیے نادم ہیں :
ہمارے دلوں میں ہے جنبش
ستاروں کی موہوم سی سرسراہٹ
مگر راستہ
روح کی دھند میں گم ہوا
روح کی دھند جو چھانٹنے
روشنی ہم نے سینچی نہیں
سخت عجلت میں باہر سے
جب بھی اجالے لیے مستعار
ان سے سب بال وپر جل گئے
ہماری تاریخ کی بہت اہم شخصیات کو حارث خلیق نے اپنی نظموں کا حصہ بنایا اور انہیں کمال انداز میں خراج تحسین پیش کی، مثال کے طور پر مولانا حسرت موہانی پر نظم کے میں دو بند پیش کرتا ہوں :
زیر دستوں کی نگاہوں سے ٹپکنے لگے آگ
جب مری حریت فکر کا احوال ہو پیش
اندازہ لگائیے کہ کیسے حسرت کی حریت کو سراہا گیا ہے۔ اس کتاب میں جلیانوالہ باغ سمیت کئی فسادات اور کئی شہروں کی زبوں حالی کو شعر و سخن کا موضوع بنایا گیا ہے۔ ہمارے ہاں جو پاکستان سے علیحدگی کی تحریکیں اٹھیں، پاکستان بننے کے بعد بنگال علیحدہ ہو گیا اور ابھی یہ صورتحال ہے کہ ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے سندھی، بلوچی اور پختون ہم سے خفا خفا ہیں۔ نظم ”المیہ“ کے تحت ہمارے المیہ تقسیم کو یوں بیان کیا:
مجھے تقسیم سے، تقسیم در تقسیم سے
حد سے زیادہ خوف آتا ہے
کہ موناباؤ، واہگہ، والٹن، ڈھاکہ کی مائیں
مجھ میں زندہ ہیں
پاکستان کی تاریخ سے متعلق چھ حصوں پر مبنی نظم لکھی۔ یہ ٹکڑے معمولی سی طوالت پر مشتمل ہیں لیکن بے حد کمال۔ ایک ہی موضوع کو چھ حصوں میں مختلف زاویوں سے برتا۔ اس کتاب میں حارث خلیق کی چند پنجابی نظمیں بھی ہیں۔ پنجابی شاعری سے ایک نظم ”نانی اماں“ جو مجھے بے حد پسند آئی۔ دیکھیے زرا:
میں بچیاں نوں ویکھ کے ہسدا
اوہ نہیں ہسدے
امی مینوں ویکھ کے ہسدے
میں نہیں ہسدا
بچے امی کول بسیں تے ہسدے رہندے
میں نانی نوں یاد کراں تے روندا رہندا
نسلاں دی اے گھمن گیری سمجھ نہیں آندی
مینوں نانی اماں دی کوئی خبر نہیں آندی
اس کتاب کے آخر میں چند غزلیں بھی پیش ہیں، جو کہ بہت منفرد اور اعلیٰ ہیں۔ دوستو! کچھ موجودہ شاعروں کی غیر پیداواری شاعری کو دیکھ کر اگر آپ مایوس ہیں اور اپنی عظیم شعری روایات پر ماتم کناں ہیں، تو ذہن نشیں کیجیے الحمدللہ ہمارے پاس ابھی تک شاعری میں کئی نابغہ موجود ہیں۔ جن میں حارث خلیق کا نام سر فہرست ہے۔ یہ کتاب ضرور پڑھیے اور سر دھنیے!
- اصغر ندیم سید کی کتاب پھرتا ہے فلک برسوں - 18/04/2024
- بچوں کے ساتھ دل بہلانے والے اولڈ بوائز - 26/01/2024
- سیاستدانوں کی غیر سنجیدگی اور ٹکٹ تقسیم کا مرحلہ - 18/01/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).