ٹالسٹائی کا شاہکار افسانہ: پیالہ
ٹالسٹائی کا ایک شاہکار افسانہ پیالہ ہے۔ یہ افسانہ، فن افسانہ نگاری کی انتہا ہے۔ اس فن کی انتہا پر وہ کہانیاں جنم لیتی ہیں جو قاری کے شعور کا دائمی حصہ بن جاتی ہیں۔ ٹالسٹائی ایک روسی افسانہ نگار تھا جس نے دنیا کو ہر رنگ اور ہر طرح سے دیکھا اور ہر طرح سے برتا تھا۔ ٹالسٹائی بہت بڑا تخلیق کار تھا۔ اس نے ناول نگاری ، افسانہ نویسی کے علاؤہ معلمانہ اور مدرسانہ تحریروں کے بھی انبار لگائے تھے لیکن آپ کی شہرت فکشن کی وجہ سے ہوئی۔
الیوشا اس افسانے کا مرکزی کردار ہے جو زبان زد عام اس کہانی میں ” پیالہ ” کے نام سے مشہور ہے۔ اس کردار کے ذریعے کہانی میں زندگی کی مختلف حقیقتوں کو بیان کیا گیا ہے جو موجودہ دور میں بھی روزمرہ کے معاملات میں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ ضمنی کرداروں میں الیوشا کا باپ، تانیا نام کی یتیم لڑکی اور تاجر کا خاندان قابل ذکر ہیں جو کہانی کو آگے بڑھنے میں مدد دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں ایک روایتی سلسلہ چلتا آ رہا ہے کہ جب کسی جگہ کوئی گھٹنا یا سانحہ پیش آتا ہے تو وہ جگہ اسی واقعہ یا سانحہ کے عنوان سے مشہور ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جلیانوالہ باغ جہاں پر ایک درد ناک گھٹنا پیش آئی تھی تو وہ جگہ اسی سانحہ کے نام سے مشہور ہو گئ۔ اسی طرح مینار پاکستان کا نام سنتے ہی دماغ میں لاہور کا خیال گردش کرنے لگتا ہے۔ اس افسانے میں بھی اس نوعیت کا پہلو دیکھنے کو ملتا ہے جس میں الیوشا اپنے اصلی نام کی بجائے پیالہ سے مشہور ہو جاتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہوں:
"الیوشا چھوٹے بھائی کا نام تھا۔ سب اسے ” الیوشا ” ہی کہتے تھے لیکن ایک دن یوں ہوا کہ اس کی ماں نے اسے کسی محلےدار کے گھر دودھ پہنچانے بھیجا تو وہ راہ میں ٹھوکر کھا کر سنبھل نہیں سکا اور ٹوٹے ہوئے پیالے کے ساتھ واپس گھر آیا۔ اس دن الیوشا کو گھر میں مار پڑھی اور جب باہر نکلا تو اسے گلی کے بچوں نے چھیڑنا شروع کر دیا۔ ” پیالہ! پیالہ! الیوشا پیالہ” اس دن سے الیوشا کا نام پیالہ پڑ گیا۔”
اس افسانے میں معاشرتی حقیقتوں کو جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے۔ الیوشا ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور غریب انسان دو دو کام تو نہیں کرسکتا کہ، سکول بھی پڑھے اور گھر والوں کے پیٹ پوجا کا بھی خیال رکھے، تو ہر وہ شخص جو مڈل طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ پڑھائی ، سکول اور کتابی سلسلے کو مشکل کام جان کر بچپن میں ہی گھریلو ذمہ داریاں کو سنبھال لیتا ہے۔ یہی کیفیت افسانے میں الیوشا کی بھی ہے۔ اقتباسات!
"گاؤں میں سکول موجود تھا لیکن پڑھنا الیوشا کے لیے مشکل ثابت ہوا”
” جس دن سے الیوشا نے چلنا شروع کیا، اسی دن سے گھر کا کام بھی کرنا شروع کر دیا۔ چھ سال کی عمر میں وہ اپنے باپ کی تمام بکریوں کا رکھوالا بن گیا”
زندگی عنوان ہی مشکالات اور مصروفیات کا ہے اور اگر انسان مفلس گھرانے میں آنکھ کھولے تو یہ دل کھول کا وارد ہوتی ہیں اور انسان کا حال بے حال کر دیتی ہیں، بالکل اسی طرح زمانے کی ریت ہے جو انسان کچھ کرنے لگتا ہے یا جس کے اندر کچھ کرنے کی تڑپ اور جذبہ ہوتا ہے، تو معاشرہ باقی کام بھی اسی کے سر ڈال دیتا ہے کہ میاں سب تمہارے حوالے۔ اس افسانے میں الیوشا کا حال بھی کچھ یوں ہی ہے۔ اقتباس!
"الیوشا سب کی سنتا ، یاد رکھتا ، مسکراتا اور ایک کے بعد دوسرا کام کرتا چلا جاتا ”
معاشرتی حقیقت اور ذاتی تجربہ ہے کہ جب غریب بندے کو کوئی نئ چیز ملتی ہے تو وہ خوشی کے جھولے جھولتا ہے۔ یہ خوشی بھی بڑی انوکھی ہوتی ہے اور بعض اوقات اپنے ساتھ غم کو پلے باندھ کر لاتی ہے۔ اسی کشمکش کا شکار الیوشا بھی اس افسانے میں دیکھائی دیتا ہے جس کے پرانے جوتے اکھڑ چکے ہوتے ہیں۔ جب تاجر اسے نئے جوتوں کا جوڑا منگوا دیتا ہے تو وہ خوشی کے مارے خیالوں کی حسین وادی میں کھو جاتا ہے اور اچانک خیالوں کے طلاطم کو ایک وسوسہ توڑ ڈالتا ہے کہ کہی ” نئے جوتوں کے پیسے اس کی تنخواہ سے کاٹ نہ لیے جائے”۔
زندگی جہاں مشکالات اور الجھنوں سے بھری ہوتی ہے تو کہی نہ کہی پیار و محبت کا دروازہ بھی کھولا رکھتی ہے۔ انسان کی زندگی میں کوئی صورت حال ایسی بھی آتی ہے ، جب آدمی چاہتا ہے کہ کوئی دوسرا اس کے ساتھ رہے جب کہ اسے دوسرے سے کوئی کام بھی نہیں لینا ہوتا۔ انسانوں کے درمیان ایسا بھی تعلق ہو سکتا ہے! یہ الیوشا کے لیے انکشاف تھا اور یہ بات تانیا کے توسط سے اس پر منکشف ہوئی تھی۔ تانیا کو الیوشا کی یکسوئی پر پیار آتا تھا۔ دونوں ایک دوسرے سے خاموش محبت کرتے تھے مثال ملاحظہ ہوں۔
” اس کا الیوشا سے کوئی رشتہ نہیں تھا مگر پھر بھی وہ اس کے لیے مکھن لگی روٹی بچا کر رکھتی تھی۔ الیوشا چپڑی روٹی کھاتا تو وہ اس کے سامنے بیٹھ کر خاموشی سے اسے دیکھتی رہتی۔ اس دوران الیوشا کی نظریں اس سے ملتیں تو وہ بے ساختہ ہنس پڑتی۔ ایک لمحے کو الیوشا جھینپ جاتا اور پھر خود بھی ہنسنے لگتا”
الیوشا اور تانیا میں گہری دوستی ہو جاتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی مدد کرتے، ہنستے اور اپنے بچپن کے واقعات دہراتے اور یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے سے شادی کے خواب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں لیکن آپ نے سنا ہو گا جہاں محبت ہوتی ہے وہاں کسی نہ کسی روپ میں قیدو کا کردار بھی ہوتا ہے جو محبت کے رشتے کو پروان نہیں چڑھنے دیتا۔ اس کہانی میں قیدو کا کردار تاجر کی بیوی ادا کرتی ہے اور ان دونوں کی محبت کی کہانی کو اپنے خاوند سے شیئر کر دیتی ہے۔ اقتباس!
"تاجر کی بیوی تک خبر پہنچ چکی تھی کہ الیوشا پر تانیا سے شادی کرنے کی دھن سوار ہے اس نے اپنے خاوند کو پہلے ہی ہوشیار کر دیا تھا کہ شادی کے بعد لڑکی اتنی محنت نہیں کر سکتی۔ بچوں کے ساتھ تانیا ہمارے لیے بیکار ہو جائے گی”۔
آخر بات چلتی پھرتی الیوشا کے باپ تک جا پہنچتی ہے، جس کی ہاں میں بیٹا ہاں ملاتا ہے اور شادی کا خیال دل میں دبا کر کاموں میں مصروف ہو جاتا ہے۔ ایک دن سردیوں کی صبح کو چھت پر سے برف صاف کرتے کرتے الیوشا کا پاؤں پھسل جاتا ہے اور وہ نیچے جا گرتا ہے۔ سب آس پاس بیٹھے ہوتے ہیں کہ وہ آنکھوں میں پھیلتی حیرت کے ساتھ ایک گہری سانس لیتا ہے، بازو اور ٹانگیں سیدھی کرتا ہے اور مر جاتا ہے۔
یہ کہانی محبت اور معاشرتی حقیقتوں سے بھرپور ایک سبق آموز کہانی ہے۔ فن کے لحاظ سے اپنے نقطہ عروج پر دیکھائی دیتی ہے۔ فن افسانہ نگاری کے تمام اجزائے ترکیبی کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ کہانی میں برتا گیا ہے۔
- ”سرخ رنگ“ کا تجزیاتی مطالعہ - 04/01/2025
- موپاساں کے افسانہ ”بدنصیب روٹی“ کا کرداری مطالعہ - 22/03/2024
- رول نمبر چار سو بیس - 10/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).