کافکا کی گڑیا


گرمیوں کا موسم تھا اور پارک میں کافی گہما گہمی تھی۔ پارک کے ایک کونے میں بچے کھیل رہے تھے۔ اس کے دوسرے کونے میں نوجوان جوڑے سرگوشیاں کر رہے تھے۔ اس کے تیسرے کونے میں چند بزرگ خاموش بیٹھے تھے۔ فرانز کافکا بھی پارک میں خاموشی سے اکیلے کھڑے زندگی کے ان مناظر سے محظوظ و مسحور ہو رہے تھے جب اچانک انہیں ایک بچی کے رونے کی آواز آئی۔ پہلے وہ سمجھے انہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے لیکن جب بچی کے رونے کی آواز بڑھتی گئی اور رونے میں ہچکیاں بھی شامل ہو گئیں تو انہوں نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ انہیں اپنے قریب ہی ایک بچی نظر آئی جو اکیلی کھڑی زار و قطار رو رہی تھی۔

کافکا نے سوچا آخر یہ بچی کیوں رو رہی ہے؟

نہ تو اسے کسی بچے نے مارا ہے نہ ہی اس کی ماں نے اسے سرزنش کی ہے اور نہ ہی وہ زمین پر گر کر زخمی ہوئی ہےتو پھر آخر وہ بچی کیوں رو رہی ہے؟

کافکا نے چاروں طرف دیکھا۔ سب لوگ اس بچی کی حالت زار سے بے نیاز اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ کافکا نے سن رکھا تھا کہ بچے بہت حساس ہوتے ہیں۔ ان کا خیال رکھنا زندگی کی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہوتا ہے۔اسی لیے کافکا نے ساری عمر باپ بننے سے احتراز کیا تھا کیونکہ وہ یہ بھاری ذمہ داری اپنے کندھوں پر نہیں اٹھانا چاہتے تھے۔ کافکا نے جب اس بچی کو غور سے دیکھا تو انہیں وہ ایک سکرٹ اور جیکٹ پہنے دکھائی دی۔ اس نے اپنے بالوں کی دو چوٹیاں بھی بنا رکھی تھیں۔وہ ایک پیاری سی بچی تھی لیکن رونے سے اس کا چہرہ آنسوئوں سے تر ہو گیا تھا۔

کافکا نے سوچا آخر یہ بچی اس پارک میں اکیلی کیوں ہے؟

کیا وہ کھو گئی ہے؟

اگر ایسا ہے تو انہیں پولیس کو فون کرنا چاہیے تا کہ وہ اس کے والدین کو تلاش کریں اور اس بچی کو ان کے حوالے کریں اور نصیحت کریں کہ آئندہ بچی کو اکیلے پارک نہ بھیجا کریں۔

کافکا نے یہ بھی سوچا کہ وہ بچی سے کچھ سوال کریں لیکن پھر وہ یہ سوچ کر خود ہی گھبرا گئے کہ وہ تو ایک اجنبی ہیں اور بچی انہیں دیکھ کر کہیں اور بھی پریشان نہ ہو جائے۔ لیکن وہ بچی کو اکیلا روتا چھوڑ کر جانا بھی نہ چاہتے تھے۔ کافکا اس بچی کو تھوڑی دیر تک دیکھتے رہے جس کا رونا ختم ہی نہ ہو رہا تھا۔ کافکا دھیرے دھیرے آگے بڑھے اور بچی کے قریب جا کر کہا

‘۔ہیلو’

بچی رونے میں اتنی محو تھی کہ اس نے کافکا کو قریب آتے بھی نہ دیکھا۔اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کے دریا بہے جا رہے تھے۔اس نے دو چار ہچکیاں لیں اور پھر جواب دیا۔

‘ہیلو’

اس کے چہرے پر درد و کرب کے آثار ابھرے اور پھر وہ خاموش ہو گئی

‘کیا تم کھو گئی ہو؟’ کافکا نے بڑے احترام سے پوچھا۔

‘نہیں میں نہیں کھوئی۔’

‘تم کہاں رہتی ہو؟’

بچی نے پارک کے قریب ایک گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔

‘وہاں رہتی ہوں’

کافکا کو یہ جان کر تسلی ہوئی کہ وہ بچی اپنے گھر کو پہچانتی ہے۔

kafka

کافکا نے سوچا کہ کوئی بھی ذمہ دار ماں اپنی بچی کو کیسے اکیلے باغ میں جانے کی اجازت دے سکتی ہے جہاں کوئی بھی اسے اغوا کر سکتا ہے۔

‘اگر تم نہیں کھوئی تو کیا تمہاری کوئی چیز کھو گئی ہے؟’

‘میری گڑیا’ بچی نے بے ساختہ کہا۔

یہ کہنے کے بعد وہ پھر زور زور سے رونے لگی۔

‘تمہاری گڑیا کھو گئی ہے؟’

‘جی ہاں میری گڑیا۔۔۔’بچی نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا۔

کافکا نے سوچا اب میں کیا کروں۔ اس بچی کو روتا چھوڑ کر گھر جانا میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا۔

کافکا کو زندگی میں ایسی صورت حال کا پہلے کبھی سامنا نہ کرنا پڑا تھا۔ان کو کسی ایسی روتی ہوئی بچی سے پہلے واسطہ نہیں پڑا تھا جس کی گڑیا کھو گئی ہو اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی ہو۔

‘تم نے اپنی گڑیا کو آخری بار کہاں دیکھا تھا؟’

’وہ اس بنچ پر بیٹھی تھی‘ بچی نے ایک طرف رکھے بنچ کی طرف اشارہ کیا۔

‘اور تم کیا کر رہی تھی؟’

‘ میں دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔’

کافکا نے سوچا وہ بچی سے ہمدردی کا اظہار کرے اور اس سے کہے کہ اسے تمہاری گڑیا کے کھو جانے کا بہت دکھ ہے اب تم اپنے گھر چلی جائو۔

لیکن پھر کافکا کا دل بچی کے دکھ کو محسوس کر کے دکھی ہو گیا۔

انہوں نے سوچا کہ کسی بھی بچی کا اپنی گڑیا سے رشتہ بہت گہرا اورجذباتی ہوتا ہے۔یہ سوچ کر کافکا نے بچی سے پوچھا

‘تمہاری گڑیا کا نام کیا ہے؟’

‘بریگیٹ’

جب کافکا نے ’جو ایک لکھاری تھے’ اپنی چشم تصور سے بریگیٹ کو دیکھا تو وہ انہیں کسی دور دراز ملک میں سیر کرتی دکھائی دی۔

انہوں نے بڑے پیار سے بچی سے کہا

‘تمہاری گڑیا کھوئی نہیں ہے۔وہ سفر کرنے گئی ہوئی ہے’۔

بچی نے کافکا کو حیرت سے دیکھتے ہوئے ان کا جملہ دہرایا

‘میری گڑیا سفر کرنے گئی ہوئی ہے۔’

‘آئو اس بنچ پر بیٹھ جائو۔ میں تھک گیا ہوں’۔

کافکا اور بچی اسی بنچ پر بیٹھ گئے جہاں بچی نے آخری بار اپنی گڑیا دیکھی تھی۔

کافکا کی عمر چالیس برس تھی جب کہ بچی بہت چھوٹی تھی۔ وہ ایسی عمر میں تھی جہاں چالیس برس کا انسان بوڑھا انسان دکھائی دیتا ہے۔

جب بچی بنچ پر بیٹھی تو اس کے آنسو رک گئے تھے اور وہ تھوڑی پر سکون دکھائی دے رہی تھی۔

کافکا نے بچی سے پوچھا۔۔۔

‘تمہارا نام کیا ہے؟’

‘ایلسی’

‘ہاں اب مجھے یقین آ گیا ہے کہ وہ گڑیا تمہاری گڑیا ہے کیونکہ وہ خط تمہارے نام ہی لکھا ہوا ہے’۔

‘کون سا خط؟’ ایلسی نےحیرانی سے پوچھا

‘وہ خط جو بریگیٹ نے تمہارے لیے بھیجا ہے۔میں وہ خط گھر بھول گیا ہوں کیونکہ میں جلدی میں تھا۔ میں وہ خط کل اسی وقت یہاں لے آئوں گا تاکہ تمہیں دے سکوں۔’

Kafka with his friend

‘لیکن بریگیٹ میرے بغیر سفر پر کیوں چلی گئی ہے؟’

‘وہ کب سے تمہاری گڑیا ہے؟’

‘ہمیشہ سے۔’ایلسی نے جواب دیا۔

‘ایلسی جب بچے جوان ہو جاتے ہیں تو وہ گھر چھوڑ کر دنیا کی سیر کرنے نکل جاتے ہیں تا کہ نئی دنیا دریافت کر سکیں’۔

‘لیکن بریگیٹ نے مجھے کبھی نہیں بتایا کہ وہ کسی سفر پر جا رہی ہے۔ ’

یہ بات کہہ کر ایلسی پھر دکھی ہوگئی۔

‘شاید وہ تمہیں بتانا بھول گئی ہو۔اسی لیے اس نے تمہیں ایک خط بھیجا ہے۔

کل میں وہ خط لے آئوں گا تا کہ تم اسے پڑھ سکو۔’

‘لیکن بریگیٹ نے وہ خط آپ کو کیوں بھیجا ہے؟’

‘کیونکہ میں گڑیوں کا ڈاکیہ ہوں اور ان کے خط ان کے مالکوں تک پہنچاتا ہوں۔’

‘لیکن مجھے ابھی پڑھنا نہیں آتا’۔

‘کوئی بات نہیں میں تمہیں وہ خط پڑھ کر سنائوں گا۔ گڑیوں کے ڈاکیے وہ خط پڑھ کرسناتے ہیں۔یہ بہت اہم ذمہ داری ہے۔’

ایلسی نے اپنے آنسو پونچھے اور کہا

‘کیا آپ وہ خط ابھی جا کر نہیں لا سکتے؟’

‘نہیں مجھے بہت دیر ہو گئی ہے۔ اب میں کل اسی وقت خط لے کر آئوں گا۔’

کافکا جانے لگے تو ایلسی نے کہا

‘وعدہ کریں کہ آپ کل بریگیٹ کا خط لے کر آئیں گے اور مجھے سنائیں گے۔’

‘میں وعدہ کرتا ہوں اچھا اب کل ملاقات ہوگی۔گڈ بائے’

‘گڈ بائے’

franz-kafka-with-his-sister-ottla

کافکا اپنے گھر کی طرف چل پڑے۔ مڑ کردیکھا تو ایلسی اپنے گھر کی طرف جاتے دکھائی دی۔

کافکا نے گھر جاتے ہوئے سوچا کہ بچوں کے جذبات کتنے مقدس ہوتے ہیں ہمیں ان کا احترام کرنا چاہیے۔

کافکا جب اپنے گھر پہنچے تو گھر میں داخل ہونے سے پہلے انہوں نے اپنی ہمسائی کے دروازے پر دستک دی اور جب ان کی ہمسائی مسز ہرمن باہر آئیں تو کافکا نے درخواست کی کہ وہ ان کی بیٹی کی ایک گڑیا دیکھنا چاہتے ہیں۔

مسز ہرمن اپنی بیٹی کی گڑیا لائیں تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کو یہ گڑیا نہیں دے سکتی کیونکہ یہ گڑیا میری بچی کو بہت پسند ہے اور وہ جلد ہی گھر واپس آنے والی ہے۔ کافکا نے کہا میں بس اسے دیکھنا چاہتا ہوں اپنے ساتھ لے جانا نہیں چاہتا کیونکہ میں گڑیا کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔

کافکا نے جو گڑیا دیکھی اس کی شکل و صورت بچی کے بار بار کھیلنے سے مسخ ہو چکی تھی۔

مسز ہرمن نے کہا میری بیٹی نے اس کا نام کارلا رکھا ہوا ہے اور وہ اسے ساتھ لے کر سوتی ہے اور اس سے باتیں کرتی رہتی ہے کیونکہ وہ اسے اپنی چھوٹی بہن سمجھتی ہے۔

کافکا گڑیا دیکھنے کے بعد اپنے گھر میں داخل ہوئے تو ان کی شریک حیات ڈورا نے کہا

‘آج آپ نے بہت دیر کر دی ’۔

کافکا نے جواب دیا۔ ‘میں سیر کرتے دور نکل گیا تھا’۔

‘آپ کا لنچ تیار ہے’

‘میں ذرا دیر سے کھائوں گا۔ مجھے کچھ ضروری لکھنا ہے’۔

‘ جب لکھ لیں تو مجھے بتائیں میں لنچ پیش کر دوں گی’۔

کافکا اپنے کمرے میں گئے۔ کوٹ اتارا۔ چند کاغذ اور قلم اٹھائے اور اپنی لکھنے والی میز پر بیٹھ کر بریگیٹ کا سوچ کر بڑبڑائے

‘آئو بریگیٹ ہم مل کر ایلسی کو ایک اچھا سا خط لکھیں’۔

Kafka with his beloved Melina

کافکا اگلے دن مقررہ وقت پر پارک میں پہنچ گئے۔ وہ راستے میں یہ سوچتے رہے

ہو سکتا ہے بچی پارک میں آنا بھول جائے

یا اس کی ماں اسے جانے سے منع کر دے

اور اگر کہیں ایلسی نے اپنی ماں کو گڑیوں کے ڈاکیے کے بارے میں بتا دیا تو کہیں ماں کو یہ فکر لاحق نہ ہو جائے کہ کہیں وہ ڈاکیا اس کی بچی کو اغوا کر کے نہ لے جائے۔

کافکا پارک میں اسی بنچ پر بیٹھ گئے جہاں وہ کل بیٹھے تھے۔

انہوں نے ایلسی کو دور سے آتے دیکھا۔

اس دن وہ رونے کی بجائے مسکرا رہی تھی۔اس نے کپڑے بھی مختلف پہنے ہوئے تھے۔

ایلسی کو دیکھ کر کافکا کے دل میں شفقت بھرے پدرانہ جذبات ابھرے۔

ایلسی نے آتے ہی پوچھا۔۔۔

‘کیا آپ بریگیٹ کا خط لائے ہیں؟’

‘جی ہاں لایا ہوں’

کافکا نے جیب سے خط نکال کر ایلسی کو دیا۔

ایلسی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے خط کو پکڑا اور غور سے دیکھ کر کافکا سے پوچھا

‘یہ کہاں سے آیا ہے؟’

‘بریگیٹ نے یہ خط لندن سے بھیجا ہے’۔ کافکا نے جواب دیا۔

ایلسی یہ دیکھ کر حیران ہوئی کہ اس خط پر لندن کا ٹکٹ بھی لگا ہوا تھا۔

‘لندن کہاں ہے؟ ’ایلسی نے پوچھا۔

‘لندن انگلستان کا دارالخلافہ ہے۔ وہ ایک خوبصورت شہر ہے۔ وہاں ہر سال بہت سے سیاح سیر کے لیے جاتے ہیں۔’ کافکا نے جواب دیا۔

‘بریگیٹ وہاں کیا کر رہی ہے؟ ’ایلسی متجسس تھی۔

‘پتہ نہیں میں نے ابھی خط نہیں پڑھا’۔

ایلسی نے بڑے سلیقے سے لفافہ کھولا کہ کہیں وہ پھٹ نہ جائے۔ خط نکال کر کافکا کو دیا کہ وہ اسے پڑھ کر سنائیں۔

Kafka’s parents c. 1913

کافکا نے خط پکڑا اور پڑھنے لگے

‘پیاری ایلسی ! سب سے پہلے میں معذرت کرنا چاہتی ہوں کہ میں تمہیں خدا حافظ کہے بغیر سیر کے لیے چلی گئی۔مجھے امید ہے کہ تم مجھے معاف کر دو گی۔بعض دفعہ ہم زندگی میں کچھ چیزیں بغیر سوچے سمجھے کر دیتے ہیں اور بعد میں پچھتاتے ہیں۔ہم نہ چاہتے ہوئے بھی دوسروں کر دکھی کر دیتے ہیں۔

بعض دفعہ خدا حافظ کہنا ہمیں اداس کر دیتا ہے۔

اگر میں تم سے جانے کا کہتی تو ہو سکتا ہے کہ تم مجھے اجازت ہی نہ دیتی۔

ڈیر ایلسی ! میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں۔ میں تمہیں روتا نہ دیکھنا چاہتی تھی اور نہ ہی یہ چاہتی تھی کہ تم مجھے روتا دیکھو۔

اسی لیے اب میں تمہیں لندن سے خط لکھ رہی ہوں کہ تم جانو کہ میں خیریت سے ہوں۔’

کافکا نے ایلسی کی طرف دیکھا وہ غور سے خط سن رہی تھی۔

‘کیا خط ختم ہو گیا ہے؟’ ایلسی نے پوچھا۔

‘نہیں اور بھی ہے؟’

‘وہ بھی سنا دیں۔’ ایلسی ہمہ تن گوش تھی۔

کافکا نے بقیہ خط پڑھنا شروع کیا

‘میں نے ایک نئی زندگی شروع کر دی ہے۔اب میں آزاد ہوں اور جہاں چاہے سفر کر سکتی ہوں۔

لندن ایک خوبصورت شہر ہے۔ لندن شہر کے اندر ایک دریا بھی بہتا ہے اور ایک تھیٹر بھی ہے’

کافکا نے خط ختم کر کے ایلسی سے پوچھا۔۔۔

‘تمہارا کیا خیال ہے؟’

ایلسی نے خط اٹھاتے ہوئے کہا ‘بریگیٹ وہاں بہت خوش لگتی ہے’

‘ہاں بہت خوش ہے۔کیا اسے خوش نہیں ہونا چاہیے؟’

‘ وہ میرے بغیر کیسے خوش رہ سکتی ہے؟’ـ ایلسی نے جواب دیا۔

‘میں تو اس کے بغیر بہت اداس ہو گئی ہوں۔میں کل رات سونے لگی تو مجھے بریگیٹ بہت یاد آئی کیونکہ میں اسے گلے لگا کرسوتی تھی۔’

کافکا نے کہا ‘ہو سکتا ہے کل وہ ایک اور خط بھیجے۔ اگر مجھے بریگیٹ کا دوسرا خط ملا تو میں تمہارے لیے یہیں وہ خط لے کر آئوں گا۔’

‘میں کل یہیں آپ کا انتظار کروں گی’ ایلسی یہ کہہ کرچلی گئی اور کافکا کو یوں لگا جیسے اس کی ایلسی سے تھوڑی تھوڑی دوستی ہوگئی ہو۔

گھر آ کر کافکا نے اپنی شریک حیات ڈورا کو ساری تفصیل بتائی۔ ڈورا نے پوچھا

‘آپ کتنے فرضی خط لکھ سکتے ہیں؟’

‘یہ تو میں نے سوچا ہی نہ تھا’۔

‘ہر کہانی کا ایک آغاز بھی ہوتا ہے اور ایک انجام بھی۔ انجام کے بارے میں بھی سوچیں کیونکہ اس کے ساتھ ایک بچی کے جذبات جڑے ہوئے ہیں۔’

‘ضرور سوچوں گا’۔

‘میرا خیال تھا آپ اپنے نئے ناول پر کام کر رہے ہیں’۔

‘مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے ایلسی کے لیے اس کی گڑیا کی طرف سے خط لکھنا نئے ناول لکھنے سے زیادہ اہم ہے’۔

‘گڑیا کا نام کیا ہے؟’ ڈورا نے پوچھا

‘بریگیٹ’

‘اب وہ اگلا خط کہاں سے لکھے گی؟ ’ڈورا متجسس تھی۔

‘پیرس سے’

اگلے دن ایلسی وقت سے دو منٹ پہلے ہی آ گئی۔

کافکا اس کا انتظار کر رہے تھے۔

ایلسی نے پوچھا ‘اے ڈاکیا کیا میرے لیے کوئی خط ہے؟’

‘ہاں ہے۔’

‘کہاں سے آیا ہے؟’

‘پیرس سے۔کیا تم جانتی ہو پیرس کہاں ہے؟’

‘ہاں وہ فرانس میں ہے۔ میری امی اور ابو پچھلے سال وہاں گئے تھے’۔

کافکا نے ایلسی سے کہا

‘تم کتنی خوش قسمت ہو کہ تمہاری گڑیا نہ صرف تمہیں چاہتی ہے بلکہ تمہیں خط بھی لکھتی ہے۔’

‘ہاں بریگیٹ بہت محبت کرنے والی گڑیا ہے’۔

‘اس میں کوئی شک نہیں۔’

‘کیا آپ مجھے دوسرا خط بھی پڑھ کرسنائیں گے؟’

‘ضرور۔

ڈیر ایلسی ! پیرس بھی ایک خوبصورت شہر ہے۔ اس کا آسمان تمہاری آنکھوں کی طرح نیلا ہے۔ میں نے شہر کے درمیان بہتے دریا میں کشتی کی سیر بھی کی ہے اور پیرس کی مشہور شاہراہ شانزیلیزے پر چہل قدمی بھی۔ میں نے آئفل ٹاور بھی دیکھا ہے۔

بہت سی محبتوں کے ساتھ ۔۔۔ تمہاری دوست بریگیٹ’

ایلسی خط سن کر مسکرائی اور بہت خوش ہوئی۔ اس کی اداسی کم ہو گئی تھی ۔ خط سے اس کا دل بہل گیا تھا۔

اس رات جب کافکا سونے لگے تو انہیں خیال آیا کہ ایلسی ان سے اتنی مانوس ہو گئی تھی کہ جاتے وقت ان کے گال پر ایسے ہی بوسہ دیا تھا جیسے ایک بیٹی اپنے باپ کے گال پر بوسہ دیتی ہے۔ کافکا کی کوئی بیٹی نہ تھی لیکن پھر بھی ان کے دل میں پدرانہ جذبات پیدا ہورہے تھے۔ ایلسی کا ان کے گال پر بوسہ دینا ان کی کمائی تھی۔ ایک لکھاری کی کمائی۔ ایک فنکار کی کمائی۔ وہ ان کے لکھنے کے فن کی داد تھی۔

کافکا نے اگلے دو ہفتوں میں چودہ خط لکھے اور ایلسی کو سنائے جو وہ بڑے ذوق و شوق سے سنتی رہی۔ بریگیٹ نے ان چودہ دنوں میں نہ صرف یورپ کی بلکہ ہندوستان’ چین’ امریکہ اور میکسیکو کی بھی سیر کی اور وہاں کے حالات و واقعات خطوط میں لکھے۔ کافکا نے خطوط لکھتے وقت دنیا کے نقشے کا خوب فائدہ اٹھایا۔ خود بھی بہت کچھ سیکھا اور ایلسی کو بھی بہت کچھ سکھایا۔

ایک دن کافکا کی محبوبہ ڈورا نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ بھی کافکا کے ساتھ پارک جائیں گی اور ایلسی سے ملیں گی لیکن کافکا نے انہیں یہ کہتے ہوئے منع کر دیا کہ میں ایلسی کا ڈاکیا ہوں دوست نہیں۔

‘آپ کب تک ڈاکیا بنے رہیں گے۔ اسے سب سچ بتا دیں۔’

‘نہیں میں ایسا نہیں کر سکتا’۔

‘کیوں نہیں؟’

‘ایسا ہوا تو وہ جان جائے گی کہ میں اتنے دن اس سے جھوٹ بولتا رہا ہوں۔ اس سے اس کا دل ٹوٹ جائے گا’۔

‘لیکن آپ یہ کہانی کیسے ختم کریں گے؟’

‘میں اس پر کافی دنوں سے غور و خوض کر رہا ہوں۔’

اگلے دن کافکا ذرا دیر سے پارک میں پہنچے۔

ایلسی ان کا انتظار کر رہی تھی۔

ایلسی نے لفافہ کھولا اور خط ایک دفعہ پھر کافکا کو دیاکہ وہ اسے خط پڑھ کر سنائیں۔

‘پیاری ایلسی ! میں آج بہت خوش ہوں۔ میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ میں افریقہ کا سفر کرتے ہوئے کسی کی محبت میں گرفتار ہو گئی ہوں ۔ میں سوچ رہی ہوں کہ اس سے شادی کر لوں اور ایک نئی زندگی کا آغاز کروں۔

میں جب سے تمہارے بغیر سفر کر رہی تھی میں احساس تنہائی کا شکار تھی۔جب سے مجھے ایک محبوب مل گیاہے میرا احساس تنہائی کم ہو رہا ہے۔’

کافکا خط پڑھتے پڑھتے رکے اور ایلسی کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر مونا لیزا کی دلفریب مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔ وہ بریگیٹ کا خط سن کر خوش تھی۔

‘کیا تمہیں خوشی ہے کہ تمہاری گڑیا خوش ہے؟’ کافکا نے پوچھا

‘ہاں میں اس کے لیے بہت خوش ہوں’ ایلسی نے کہا

‘اس کے محبوب کا نام کیا ہے؟’ ایلسی متجسس تھی۔

‘ہو سکتا ہے بریگیٹ نے خط میں لکھا ہو۔ میں آگے پڑھتا ہوں۔

ڈیر ایلسی! میرا محبوب بھی میری طرح ایک سیاح ہے اس کا نام گاستیو ہے۔ وہ افریقی ہے۔ وہ بہت ہمدرد اور محبت کرنے والا انسان ہے۔’

اس دن ایلسی چلی گئی تو کافکا کافی دیر تک اس بنچ پر بیٹھے رہے۔

تھوڑی دیر کے بعد ایک اجنبی عورت ان کے پاس آئی اور پوچھنے لگی

‘کیا آپ گڑیوں کے ڈاکیا ہیں؟’

‘جی ہاں’

‘میں ایلسی کی ماں ہوں کیا ہم تھوڑی دیر بات کر سکتے ہیں؟’

‘کیوں نہیں آپ بھی بنچ پر بیٹھ جائیں۔ جب ایلسی کی گڑیا کھو گئی تھی تو وہ بہت دکھی ہو گئی تھی۔ میں نے اسے بتایا تھاکہ اس کی گڑیا سفر کر رہی ہے میں اس کی گڑیا کا خط روز لا کر اسے سناتا ہوں تا کہ اس کا دل بہل جائے۔’

‘مجھے سب پتہ ہے۔‘ ایلسی کی ماں نے کہا

‘میں نے بریگیٹ کے سب خط پڑھے ہیں جو آپ نے میری بیٹی ایلسی کے لیے لکھے ہیں۔ آپ بہت مہربان انسان ہیں۔ آپ نے میری بیٹی کو خوش کرنے کی بہت کوشش کی ہے۔ میں آپ کا شکریہ ادا کرنے آئی ہوں۔ میرا نام برتھا ہے۔ کیا آپ ایک لکھاری ہیں؟’

‘جی ہاں لکھنے کی کچھ کوشش کر لیتا ہوں’۔

‘آپ بہت اچھے لکھاری ہیں۔ اور اچھے لکھاریوں کی طرح آپ اپنے الفاظ سے لوگوں کے دکھوں کو سکھوں میں بدل سکتے ہیں۔

کیا آپ کے بچے ہیں؟’

‘نہیں میرا کوئی بچہ نہیں ہے’۔

‘آپ باپ نہیں ہیں لیکن پھر بھی آپکے خطوط سے ایک باپ کی شفقت جھلکتی ہے۔’

‘وہ میری نہیں ایلسی اور بریگیٹ کی محبت کی کرامت ہے۔ اب بریگیٹ کسی کی محبت میں گرفتار ہو گئی ہے۔ اس لیے اس کہانی کا انجام اچھا ہونے والا ہے۔ اب بریگیٹ نئی زندگی میں مصروف ہو جائے گی اور اسے ایلسی کو خط لکھنے کا وقت نہیں ملے گا’۔

اگلے دن بریگیٹ نے خط میں لکھا

‘ڈیر ایلسی ! میں نے شادی کے بعد اپنے محبوب گاستیو کو بتایا کہ جب ہماری پہلی بیٹی پیدا ہوگی تو ہم اس کا نام ایلسی رکھیں گے۔’

ایلسی خوش تھی کہ اس کی گڑیا ایک خوشحال زندگی گزار رہی ہے۔

اس دب جب کافکا گھر آئے تو ان کا من خالی تھا۔

انہیں ایک تشبگی کا احساس ہو رہا تھا جیسے ان کے گھر کی کوئی قیمتی چیز کھو گئی ہو۔

انہوں نے آخری خط تو لکھ دیا تھا لیکن انہیں یوں لگ رہا تھا جیسے ابھی کہانی نامکمل ہو۔

وہ خود سے پوچھنے لگے۔۔۔

‘آخر کہانی میں کیا باقی ہے؟’

ان کی محبوبہ ڈورا نے پوچھا

‘کیا آپ نے ایلسی کو آخری خط دے دیا ہے؟’

‘جی ہاں دے دیا ہے’

‘ایلسی کا کیا رد عمل تھا؟’

‘اس نے مجھے گلے لگایا الوداع کہا اور میرے گال پر بوسہ دیا۔’

Dora- Kafka’s Last Love

‘کاش میں ایلسی سے ملی ہوتی’

‘اگر آپ پارک میں جائیں گی تو اسے دور سے کھیلتا دیکھ سکیں گی۔’

ڈورا کچھ دیر سوچتی رہیں پھر بولیں

‘اب آپ کو کسی اور وقت سیر کے لیے جانا چاہیے’۔

‘وہ کیوں؟’

‘ایلسی آپ کو دیکھے گی تو اسے اپنی گڑیا بریگیٹ یاد آئے گی اور وہ اداس ہو جائے گی۔’

‘ڈورا ! آپ بہت ذہین اور دانا عورت ہیں۔ آپ بچوں کی نفسیات مجھ سے زیادہ جانتی ہیں۔ میں نے تو ایسا سوچا ہی نہ تھا۔’

‘وہ اس لیے کہ میں ایک استانی ہوں اور بچوں کی نفسیات سے بخوبی واقف ہوں۔’

‘لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ آخری باب باقی ہے۔’

‘آپ ایک لکھاری ہیں اور لکھاری تو دن کے وقت بھی خواب دیکھتے رہتے ہیں ۔ آپ فکر نہ کریں آپکو کہانی کا آخری باب بھی سوجھ جائے گا۔’

Early 20th century Prague

اگلے دن کافکا ذرا دیر سے پارک پہنچے کیونکہ جس دکان سے انہوں نے ایلسی کے لیے تحفہ خریدا تھا وہ پارک سے کافی دور تھا اور انہیں پیدل چل کر وہاں جانا تھا۔

کافکا جب بنچ پر آ کر بیٹھے تو انہیں وہ دن یاد آ رہا تھا جب انہوں نے پہلی دفعہ ایلسی کو دیکھا تھا۔ وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی کیونکہ اس کی گڑیا کھو گئی تھی۔

تھوڑی دیر کے بعد کافکا کو ایلسی نظر آئی جو اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ جونہی ایلسی نے کافکا کو دیکھا تو وہ بھاگی بھاگی آئی اور کہا

‘ڈاکیہ پھر آ گیا ہے۔ کیا کوئی اور خط آیا ہے؟’

‘ اس دفعہ ایک پارسل آیا ہے’۔

‘اس پارسل میں کیا ہے؟’ ایلسی نے جذباتی انداز سے پوچھا

‘میں نہیں جانتا میں نے پارسل کے اندر نہیں دیکھا’۔

ایلسی نے جلدی جلدی کاغذ پھاڑے اور تحفے کا ڈبہ کھولا

اس ڈبے میں ایک گڑیا تھی

ایلسی نے اسے دیکھ کر کہا ۔۔۔

‘یہ نہایت خوبصورت گڑیا ہے’

‘ہاں خوبصورت ہے۔’ کافکا نے ایلسی کی ہاں میں ہاں ملائی

گڑیا کے ساتھ ایک خط بھی تھا

‘اب آپ خط پڑھ کر سنائیں’۔ ایلسی نے درخواست کی

‘پیاری ایلسی !

میں تم سے محبت کرتی ہوں۔ میں تمہیں بہت چاہتی ہوں۔ تم نے مجھے جو زندگی دی میں اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔ میری دعا ہے ہمیشہ خوش رہنا۔ تمہاری دوست بریگیٹ

خط کے نیچے لکھا تھا

اس گڑیا کا نام ڈورا ہے۔’

ایلسی نے ڈورا کو گلے لگا کر چوما۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دن کے بعد جب بھی کافکا اس پارک سے گزرتے اور ایلسی کو دور سے دیکھتے تو اس کے پاس ڈورا ہوتی جسے وہ بار بار گلے لگاتی اور چومتی رہتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ:

کافکا کی محبوبہ ڈورا نے دوستوں کو بتایا کہ اس واقعہ کے ایک سال بعد تین جون انیس سو چوبیس کو کافکا فوت ہو گئے۔ کوئی بھی نہیں جانتا کہ جو خطوط کافکا نے ایلسی کے لیے لکھے تھے ان کا کیا ہوا۔ کافکا کی زندگی کا یہ واقعہ سن کر بہت سے کافکا کے پرستاروں نے یہ کہانی اپنے اپنے انداز مین رقم کی۔ میں نے جو کہانی اردو میں لکھی ہے یہ جورڈی فابرا کی کہانی KAFKA AND THE TRAVELING DOLL کی تلخیص اور ترجمہ ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 751 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments