خدا حافظ افغان


پاکستان کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پاکستان کی تاریخ متنازع معلومات، فریب، ڈھکوسلوں اور غیر مصدقہ اطلاعات کا پلندا ہے۔ پاکستان کا یوم پیدائش ہو یا کسی جنگ کا واقع، ایک ایک شے کے متنازعہ ہونے پہ سینکڑوں مستند کتابیں موجود ہیں جو سچ اور جھوٹ کی تقسیم سے پرے اس گلستان نا پائدار کی پائیداری کا واضح ثبوت ہیں۔ پاکستان کا نظریہ (دو قومی نظریہ) سراب کی کئی پرتوں میں اٹا ہوا ہے۔ پاکستان کا نصاب الف لیلہ سے زیادہ کچھ نہیں۔

پاکستان کے سرحدی معاملات، انتظامی امور، داخلی و خارجی پالیسیاں کسی گڈے گڈی کے کھیل سے زیادہ ناکارہ ہیں، گلستان ناپائیدار کا نظام عدل بھدے مذاق سے زیادہ بھدا اور چور سپاہی کے کھیل سے زیادہ عارضی کھیل ہے، پاکستان میں موجود لسانی، صوبائی اور جغرافیائی ہم آہنگی ایسے ہے کہ عوام سے لے کر اشرافیہ تک جس کو جب موقع ملے دوسرے کے بدن سے کھال کھینچ کر گوشت پوست تک علیحدہ علیحدہ کر دے۔ گلستان نا پائدار اپنے ہی وجود میں ایک ناسور ہے جس سے ابلتا ہوا پیپ یہاں بسنے والوں کو مذہبی، ثقافتی، جغرافیائی، اخلاقی اور انسانی اعتبار سے تل تل کر مار رہا ہے۔

پنجاب کے لوگ پنجابی نہیں، خیبر پختون خواہ کے پشتون ہیں اور افغانستان کے ساتھ اپنی جغرافیائی اور لسانی وابستگی بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ سندھی اپنے آپ میں سندھو دیش میں بستے ہیں اور باقی لسانی اور صوبائی گروہوں سے کوئی جذباتی وابستگی محسوس نہیں کرتے، بلوچ آزاد بلوچستان کے خواہاں اور ایران کے ساتھ اپنی تاریخی وابستگی کا دکھ لیے لیے پھرتے ہیں، کشمیر و بلتستان کی کہانی ویسے ہی خون سے لکھی گئی ہے اور اس سب پہ مشتمل اس گلستان نا پائدار نے فلسطینیوں کی آزادی کا بیڑہ یوں اٹھایا ہوا ہے کہ حال ہی میں اپنے ہمسایہ برادر ملک افغانستان کو آج کے ترقی یافتہ ملکوں کے امریکی سربراہی والے نیٹو اتحاد سے آزاد کروا کر داد سمیٹ چکا ہے۔

آج دنیا میں موجود ایسا کون سا بحران ہے جو محفل جاناں میں نہ ہو، ایسی کون سی غلام گردش ہے جو کوچہ محبت میں رواں نہیں اور ایسا کون سا قبیح فعل ہے جس سے اہل حرم مستفیض نہ ہو رہے ہوں۔ معیشت ہے ہی نہیں، تعلیم تھی ہی نہیں، صحت چاہیے ہی نہیں اور دفاع اس قدر مضبوط کہ اپنے ہی لوگ ہتھیار اٹھا کر روزانہ کی بنیاد پہ مسجدیں، مندر اور گرجے فتح کر رہے ہیں۔ اکیسویں صدی کے اوائل میں جب مشرف نے گلستان نا پائدار پہ قبضہ کیا تو صاحب بہادر کے کہنے پر ایک بار پھر سے برادر ملک افغانستان کی سر زمین پہ بگل جنگ بجایا گیا، یہ پاکستان اور افغانستان کے مابین پہلا واقعہ تھا جب پاک فوج کے نڈر جوان اور جذبۂ شہادت سے سرشار طالبان آمنے سامنے ہوئے۔

اس وقت کے جید اہل دانش نے سرد آہ بھر کر کہا تھا کہ آج پاکستان نے باقاعدہ اپنے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا ہے اور پھر پہلی مرتبہ پاکستان کے دفاتر، مساجد اور مقدس عمارتوں (جی ایچ کیو) پہ مسلح حملے شروع ہوئے جو آج ٹی ٹی پی کی صورت جاری و ساری ہیں۔ پاکستان نے پہلے طالبان کے ساتھ مل کر افغانستان کو جنگ کا میدان بنایا (ظاہر ہے اس میں افغانوں کا اپنا علاقائی کردار بھی ہے ) اور پھر امریکہ کے ساتھ مل کر طالبان کے خلاف اور سرد جنگ میں طالبان کے ساتھ مل کر امریکہ کے خلاف افغانستان کو میدان جنگ بنائے رکھا، جس کے نتائج میں داخلی اور خارجی طور پر گلستان ناپائیدار، غیر مستحکم ہوتا چلا گیا اور پاکستان کے مغربی سرحدوں کے محافظ برادر افغان دشمن بنتے چلے گئے۔

امریکہ چلا گیا، بدلا نہیں تو گلستان نا پائدار کا نصیب، بھارت پاکستان دشمنی سے نکل کر برکس، جی 20 جیسے معاشی گروہوں کا رکن بن گیا اور پاکستان آج اپنے برادر ملک افغانستان سے چاہت و الفت، وفا و محبت کے وعدوں میں ماتھا چوم کے لائے گئے افغان مہاجروں کو ذلت آمیز رویوں کے ساتھ جبراً رخصت کر رہا ہے۔ پشتونوں کے ساتھ ساتھ گلستان ناپائیدار میں موجود ہر احساس مند شخص کی آنکھ اشک بار نہ بھی ہو تو جھکی جھکی ضرور ہے کہ وہ جو کبھی ہماری مغربی سرحدوں کے محافظ تھے، وہ کہ جنھوں نے اپنے لہو سے میدان سجا کر (بقول سامراج) ہماری طرف آتے ہوئے روس کو روکا تھا، آج یوں خالی ہاتھ لٹے پٹے، بھاری بھرکم دل کے ساتھ، آنکھوں میں آنسو سجائے، سینوں میں نفرتوں کے انبار لیے رخصت ہو رہے ہیں۔ آج رخصت ہوئے افغانوں کو دیکھ کر دامن دل بہت بوجھل بوجھل ہے اور جی چاہتا ہے کہ آواز دے کے روک لوں مگر روک کے بھی اب انھیں دینے کو ہمارے پاس ہزیمت و جفا کے سوا ہے ہی کیا۔ رخصت ہوتے افغانوں کی شکستہ آنکھیں ثاقب لکھنوی کے شعر کی تصویر بنی ہوئی ہیں کہ

باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

حیف صد حیف کہ اس گلستان نا پائدار نے اپنی پیدائش سے لے کر آج تک ہجرتیں ہی دیکھی ہیں، لہو سے کھنچی ان لکیروں نے تاریخ کے مختلف دوراہوں پہ ہمیشہ تضحیک آمیز رویوں کے ساتھ اپنوں کو رخصت ہی کیا ہے اور جفاؤں کی پرورش کی ہے۔ یہ بحث پھر کبھی کے افغانوں کا پاکستان میں کردار سیاہ تھا یا سفید مگر آج کی تحریر گہرے رنج اور افسوس کا اظہار ہے کہ جانے کیوں اس مٹی نے ہمیشہ اپنے آنگن میں نفرتوں کو گلے لگایا ہے، ہزیمتوں کو پروان چڑھایا ہے، اپنوں کو پناہ دینے کا کہہ کر منہ پھیر لیا، اور ہمیشہ خونی ہجر کی تاریخ لکھی گئی۔ تاریخ کا یہ موڑ افغانوں اور گلستان ناپائیدار کے باسیوں کے لیے ایک سبق بھی ہے کہ

کھڑے بھی ہونا تو دلدلوں پہ
پھر اپنے پاؤں تلاش کرنا

معذرت خواہانہ ہاتھوں کے ساتھ میری دعا ہے خدا میرے ہمسایوں کو اپنے گھر افغانستان میں پھر سے آباد ہونے کی ہمت دے، اپنی جنگ اپنے پاؤں پہ کھڑے ہو کر لڑنے کی طاقت دے اور گلستان ناپائیدار جیسے جفاکش ہمسایوں کے ساتھ پھر سے دوستیاں استوار کرنے کا حوصلہ دے۔

خدا حافظ افغان۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments