نصف صدی کا قصہ
پچاس سال ہوتے ہیں، جہلم کے ایک شوریدہ سر نے ایک ادارے کی بنیاد رکھی ور پھر اپنے خون اور پسینے سے سینچ کر اس ادارے کو ایک تناور درخت بنا دیا۔ کتابوں سے عشق کرنے والے شاہد حمید کی شبانہ روز محنت اور مہارت نے 1973 میں قائم ہونے والے بک کارنر جہلم کو ملک کا ایک شاندار اور قابل ذکر اشاعتی ادارے بنا دیا، جہاں سے اپنی کتاب چھپوانا ادیب اپنے لئے فخر کا باعث سمجھتے ہیں۔ ابھی اس ادارے کے قیام کو آدھی صدی ہونے کو تھی کہ شاہد حمید کو اللہ تعالی نے اپنے پاس بلا لیا۔
لیکن اپنے دونوں بیٹوں امر شاہد اور گگن شاہد کو انھوں نے اس طرح اپنا جان نشین بنایا کہ ان کے بعد بھی ادارے کا ہر کام ان کے قائم کردہ معیار کے مطابق ہوتا ہے۔ ملک کے ممتاز ادیبوں، کالم نگاروں اور مصنفین کے بک کارنر کے بانی شاہد حمید کے بارے میں لکھے گئے تاثرات اور شاہد حمید کے بچوں کی اپنے والد کی یادوں پر مبنی کتاب ”شاہد حمید۔ اے عشق جنوں پیشہ“ کی تقریب رونمائی اور بک کارنر کے پچاس سال مکمل ہونے پر ادارے کی طرف سے 13 نومبر کو ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔
تقریب میں شرکت کے لئے امر شاہد اور گگن شاہد کی طرف سے الگ الگ دعوت ناموں کے ساتھ تاکید بھی تھی کہ کتابوں سے جنون کی حد تک عشق کرنے والے اپنے علاقہ کے رفیق العصری اور عزیرم قیصر ریاض کے برطانیہ سے تشریف لائے والد محترم کو بھی ساتھ لانا ہے۔ وہ دونوں اصحاب تو بوجوہ نہ آ سکے لیکن عزیزم محمد شکیل چودھری، برادرم آغا شبر حسین اور صاحب اسلوب شاعر دوست ڈاکٹر محبوب کشمیری پر مشتمل ہمارا وفد بر وقت تقریب میں پہنچ گیا۔ تقریب کا اہتمام جی ٹی روڈ پر واقع گولڈ مارکی کے سنہری رنگوں سے سجے خوبصورت ہال میں کیا گیا تھا جہاں دونوں بھائی گیٹ پر کھڑے ہر مہمان کا بذات خود استقبال کرنے میں مصروف تھے۔
ہال میں داخل ہوتے ہی دائیں طرف لگے کتابوں کے سٹال پر عامر خاکوانی سے ملاقات ہو گئی۔ بڑی محبت سے گلے ملے، میں نے اپنے مضمون شائع کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ ہال میں پہلے سے موجود مہمانان گرامی سے ملنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ عزیزی اقصی ارباب اور ماہ نور ناصر راٹھور نے پابند کر دیا کہ آپ پہلے اپنے تاثرات ریکارڈ پہلے کروائیں گے، پھر سب سے ملیں گے۔ تاثرات ریکارڈ کروانے اور دو چینل سے بات چیت کر کے ہم ہال میں آگے بڑھے۔
جناب انور مسعود اور افتخار عارف کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، اتنی بڑی شخصیات ہونے کے باوجود وہ بڑی شفقت اور محبت سے ملے۔ لینہ حاشر کو ان کی کتاب پر مبارک باد پیش کی ہی تھی کہ اتنے میں فرخ یار نے دیکھ لیا اور شاہ جی کہہ کر بڑی محبت سے ملے۔ جہلم کے شاعر، ناول نگار اور افسانہ نگار اعجاز روشن ساری تقریب میں ہمارے ساتھ ساتھ رہے۔
ہال میں سامنے سٹیج کے پیچھے گہرے رنگ کی زمین پر سنہری رنگ میں ادارے کے نئے مونو گرام کے ساتھ جشن بک کارنر کا بڑا سا خوبصورت بینر آویزاں تھا۔ ایک طرف ڈائس کے ساتھ ایک صوفہ رکھا تھا۔ یہ ایک غیر روایتی تقریب تھی جس میں شریک سبھی مہمان خصوصی تھے اس لئے سٹیج پرایک صوفہ ہی رکھا ہوا تھا۔ سٹیج کے سامنے کی پہلی قطار میں سینیئر براجمان تھے۔
بابا جی عرفان الحق، افتخار عارف، مسعود انور، راجہ انور، ہارون الرشید، محمد اظہار الحق، شاہد صدیقی، اسامہ صدیق، عرفان جاوید، فرخ یار، عامر خاکوانی، نصیر احمد ناصر اور گل شیر جیسے شہرہ آفاق ادیب، شاعر اور کالم نگار تقریب میں رونق افروز تھے۔ خواتین ادیب، ناول نگار، افسانہ نگار اور کالم نگار سلمی اعوان، لینہ حاشر، طاہرہ اقبال، جشن بک کارنر میں شامل ہوئیں۔ حنا جمشید ساہیوال سے تقریب میں شامل ہوئیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی خوبصورت اور دیدہ زیب رنگوں کی ساڑھیوں میں ملبوس ثمینہ نذیر اور صنوبر ناظر خصوصی طور پر اس تقریب میں شرکت کے لئے جہلم تشریف لائیں اور تقریب کو رونق بخشی۔
جہلم شہر اور گرد و نواح سے بھی خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی تقریب میں شریک ہوئیں۔ کتابوں سے دوستی رکھنے والی نایاب خالد اپنے میاں کامران یونس کے ساتھ بک کارنر کی ہر تقریب میں شرکت کرتی ہیں، اس تقریب میں بھی وہ موجود تھیں۔ تقریب کی ایک خاص بات یہ تھی کہ شاہد حمید کے خاندان کے سبھی افراد تقریب میں شامل تھے۔ میں نے محترمہ شاہین شاہد صاحبہ کو تقریب کے انعقاد پر مبارک باد دی۔ خوشی کے ساتھ ساتھ ان کے چہرے پر اداسی کے رنگ نمایاں تھے۔ ان کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی شاہد حمید صاحب کی کمی محسوس ہو رہی تھی۔
تقریب کی نظامت کے فرائض اخوت کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اظہار ہاشمی نے انجام دیے۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام مجید اور نعت رسول مقبول سے ہوا۔ تقریب کے آغاز میں بک کارنر جہلم کے بانی شاہد حمید پر لکھی جانے والی کتاب ”شاہد حمید۔ اے عشق جنوں پیشہ“ کی رونمائی ان کی اہلیہ محترمہ شاہین شاہد کے ہاتھوں ہوئی۔ ان کے دونوں بیٹے، دونوں بہویں، تینوں بیٹیاں سٹیج پر اپنی والدہ کے ساتھ کھڑی تھیں۔ محترمہ شاہین شاہد نے بڑے حوصلہ اور وقار سے بھیگی آنکھوں کے ساتھ کتاب کی رونمائی کی۔ گروپ فوٹو کے موقع پر شاہد حمید کی بڑی سی تصویر ان کی جگہ پر رکھی تھی۔ سب کچھ بہت اچھا ہو رہا تھا لیکن پھر بھی شاہد حمید کی کمی سب کو محسوس ہو رہی تھی۔
بابا جی عرفان الحق نے شاہد حمید کے ساتھ گزرے ہوئے اپنے وقت کی یادداشتوں سے حاضرین کو آ گاہ کیا۔ شاہد صدیقی نے شاہد حمید پر ایک خوبصورت مضمون پڑھا۔ عرفان جاوید، اسامہ صدیق، محمد اظہار الحق نے شاہد حمید کی شخصیت اور بک کارنر کی علمی و ادبی میدان میں خدمات اور کارکردگی پر بات کی۔ پیمرا (PEMRA) کے چیئرمین محمد اسلم بیگ اور ڈائریکٹر جنرل آپریشن محمد طاہر نے بک کارنر کی پچاسویں سالگرہ اور شاہد صاحب سے جڑی اپنی یادوں کا کا ذکر کیا۔
شاہد حمید کے دوست ریٹائرڈ چیف جسٹس ملک انوار الحق نے ان کی یادوں اور رفاقتوں کا ذکر بڑے خوبصورت انداز میں کیا۔ محترمہ سلمی اعوان، ڈاکٹر طاہرہ اقبال، لینہ حاشر اور ڈاکٹر حنا جمشید نے بک کارنر جہلم سے اپنی کتب کی اشاعت کے حوالہ سے اپنے تجربات سے حاضرین کو آگاہ کیا۔ جناب ہارون رشید نے اپنی طویل تقریر میں بہت سی تاریخی باتیں کیں لیکن وہ شاہد حمید اور بک کارنر سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔ تقریب میں خاصے کی چیز بزرگ ادیب و شاعر جناب انور مسعود صاحب کا شاہد حمید اور بک کارنر پر مضمون اور شاہد حمید پر ان کی خوبصورت نظم تھی۔ ڈاکٹر اظہار ہاشمی نے ان سے جہلم کے پل والی نظم سننے کی فرمائش کی۔ انور مسعود صاحب نے نظم لکھے جانے کا پس منظر بیان کر کے وہ نظم سنانی شروع کی۔ اس عمر میں ان کا دبنگ لب و لہجہ اور پڑھنے کا وہی منفرد و طاقتور انداز دیکھ کر حاضرین دنگ رہ گئے اور بار بار تالیاں بجا کر ان کو داد دی۔
تاریخی شہر جہلم میں منعقد ہونے والی یہ ایک خوبصورت تقریب تھی جس میں ادیبوں، شاعروں، دانشوروں اور معززین شہر کی موجودگی نے تقریب کو چار چاند لگا دیے۔ تقریب کے اختتام پر ایک پرتکلف عشائیہ کا انتظام تھا۔ کسی بھی اشاعتی ادارے کی اپنے لکھنے والوں کے لیے پہلی دفعہ اتنی منفرد، خوبصورت اور باوقار تقریب منعقد کر کے امر شاہد اور گگن شاہد نے ایک بڑی اچھی روایت کا آغاز کیا ہے، دیکھتے ہیں کون اس کی پیروی کرتا ہے۔
- ایک منفرد اور بے مثال لائبریری - 25/11/2023
- نصف صدی کا قصہ - 17/11/2023
- جموں و کشمیر میں آزادی کی تحریکیں - 31/10/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).