زندگی کا پہلا جبر
نشست کی پشت پہ سر ٹکا کر میں نے ایک لمحے کو آنکھیں بند کیں تو سامنے پھر مہر بانو کھڑی مجھے اضطرابی نظروں سے گھور رہی تھی جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو اور کہہ نہ پا رہی ہو۔ ذہن کے کباڑ خانے میں دھول مٹی سے اٹی پرانی فائلوں میں سے مطلوبہ فائل کی تلاش آسان کام نہیں۔ بہت سی گمشدہ فائلیں یک لخت مل جائیں تو انہیں پروسیس کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ میں نے جھنجھلا کر کہا، تم سمجھتی کیوں نہیں کہ زندگی کی کہانی سیدھی لکیر نہیں ہوتی کہ جس پہ چلتے ایک سرے سے باآسانی دوسرے سرے تک پہنچا جا سکے۔ بے شمار نشیب و فراز لیے یہ وہ ناہموار رستہ ہے جس میں کئی ان دیکھے، انجانے موڑ آتے ہیں۔ گرتے سنبھلتے بے شمار چھوٹی بڑی رکاوٹوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔
واقعات کو ترتیب دینے میں وقت لگتا ہے کیونکہ ایک کہانی کے اندر بہت سی کہانیاں ہوتی ہیں جنہیں بیان کیے بغیر کہانی ادھوری رہتی ہے۔ جکسا پزل کے ٹکڑے اگر مخصوص ترتیب سے نہ جوڑے جائیں تو وہ نامکمل رہتا ہے۔ ایک طویل عرصے بعد محض یادداشت کے سہارے اسے مکمل کرنا آسان نہیں ہوتا۔
انسان جو بظاہر نظر آتا ہے درحقیقت ہوتا نہیں۔ باہر تو نظر کا دھوکا ہے اصل تو بھیتر کی اندھیری گپھاؤں کو کھوجنے سے ہی ملتا ہے مگر اتنی فرصت کس کے پاس ہے؟ نوزائیدہ بچے کا ذہن ایک سادے ورق کی مانند ہوتا ہے جس پہ کوئی نقش و نگار یا تحریر ثبت نہیں ہوتی، وقت اپنے نوکیلے پنجوں سے ان پہ جو گلکاریاں کرتا ہے انہیں کھرچ کر صاف نہیں کیا جاسکتا۔ ان مٹ سیاہی سے لکھی تحریریں چاہ کر بھی مٹائی نہیں جا سکتیں۔ یہ تا عمر انسان کے ساتھ رہتی ہیں اور اسے ایک انجانے کرب میں مبتلا رکھتی ہیں۔ مایا اینجلو نے کہا تھا کہ ان کہی کہانی کا بوجھ لیے گھومنے سے بڑی کوئی اذیت نہیں۔ آج میں نا صرف تمہاری بلکہ ہر اس انسان کی اذیت بخوبی سمجھ سکتی ہوں جو اپنے اندرونی خلفشار کو بوجوہ بیان نہیں کر سکتا۔
جہاں خوف انسانوں کو جوڑنے کا سبب ہے وہیں نفاق و بدگمانی کا باعث بھی۔ درندوں سے محفوظ رہنے کے لیے انسان نے اپنے ہم جنسوں کے ساتھ مل جل کر معاشرت کی بنیاد رکھی۔ جنگل چھوڑ کر الگ بستیاں بسائیں بستیوں نے شہروں اور ملکوں کا روپ دھارا مگر جنگل سے وہ جس حیوانی خصلت کو ساتھ لے کر آیا تھا صدیاں گزرنے کے باوجود بھی اس سے چھٹکارا نہیں پا سکا۔ انسانی بستوں اور جنگلوں میں ایک بات مشترک ہے کہ یہاں کوئی شکار کرتا ہے اور کوئی شکار ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کل شکار ہونے والا بعد میں اپنے ہی ہم جنسوں کا شکار کرنے لگا۔ اسی خصلت کے زیر اثر کبھی بسی بسائی بستیاں اجاڑ دی گئیں اور کبھی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کیے گئے مگر افسوس کہ چاند اور مریخ پر کمند ڈالنے کا عزم رکھنے والا انسان اپنی حرص و ہوس پہ آج تک فتح نہ پا سکا۔
گئے وقتوں میں کہا جاتا تھا کہ جنگیں زن زر اور زمین کے لیے ہوتی ہیں مگر بادی النظر میں حقائق تو اس مفروضے کے بالکل برعکس ہیں۔ فساد کی اصل جڑ ہمیشہ سے زمین اور زر تھے جنہیں آج کے دور میں مفادات کہا جاتا ہے۔ دوسری بڑی وجہ مذہب ہے۔ انسانی فلاح کا دعویٰ رکھنے والے تمام مذاہب کی تاریخ انسانی خون کے دھبوں سے لال ہے۔ بوسنیا، عراق افغانستان فلسطین، ان سب علاقوں میں مذہب کے نام پہ کیا کچھ نہیں ہوا؟ فاتحین مفتوحین کی عورتوں پہ کل بھی اپنا حق سمجھتے تھے اور آج بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔ عثمانی خلفا کے محلات ہوں یا مغلوں کی محل سرائیں صورت حال ایک سی نظر آتی ہے۔ طاقتور نے عورت کو ہمیشہ مال غنیمت ہی جانا ہے۔
ہر جنگ میں متاثرین کی کثیر تعداد عورتوں اور بچوں پہ مشتمل ہوتی ہے۔ جنگ میں ہاتھ آئی بد قسمت عورت کو سانسوں کی قیمت چکانے کے لیے بار بار مرنا پڑتا ہے اور بچوں کو خوف کے سائے میں جینا پڑتا ہے۔ نئے بین الاقوامی قوانین کے تحت اب انسانوں کو غلام نہیں بنایا جاتا مگر در حقیقت انہیں غلام ہی سمجھا جاتا ہے۔ ایسے غلام جنہیں کسی قسم کے انسانی حقوق میسر نہیں ہوتے۔ زمانہ بدلا مگر جنگوں میں عورت جیسے پہلے پامال ہوتی تھی آج بھی ہوتی ہے۔ اتہاس کے پنوں پہ تو یہی لکھا ہے کہ ہر جنگ میں فریقین نے عورت کو مشق ستم بنایا خواہ وہ جنگ عظیم اول ہو، دوم یا ویتنام کی جنگ، بوسنیا ہو یا فلسطین کہانی وہی ہے۔ دنیا کی ہر کہانی بدلی پر عورت کی کہانی نہیں بدلتی۔
تقسیم ہند کے وقت دونوں جانب بے شمار عورتوں ریپ اور اغوا ہوئیں اس دکھ کو جیسے منٹو نے اپنی تحریروں سمویا ہے کم و بیش وہی بیانیہ سرحد پار کے بسنے والے نامور لکھاری کرشن چندر کا بھی ہے۔ کیا اسی نوعیت کے الزامات ریاست ٹوٹنے کے وقت نہیں لگے تھے؟ اقتدار کے ایوانوں پہ کس کی حکمرانی تھی؟ ابھی وہ اوراق دیمک زدہ نہیں ہوئے۔ بانی پاکستان کی بہن سے لے کر اب تک کیا سیاست میں فریقین ایک دوسرے کی عورتوں کی عزت نہیں اچھالتے رہے؟ مختاراں مائی کے کیس کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں جو جرگے کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہوئی۔ یہاں مرد کے جرم کی سزا بھی عورت کو بھگتنی پڑتی ہے اور اپنے ناکردہ گناہوں کی بھی۔ آج ہو یا گزرا کل جو بھی زیر عتاب ہو صورتحال وہی کی وہی بلکہ بدتر ہے۔ مطلوبہ فرد نہ ملے تو اس کی بیوی بیٹی یا بہن کو اٹھا لیا جاتا ہے۔
حقیقت ہمیشہ تلخ ہوتی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ ہر زورآور کمزور کے ساتھ یہی کچھ کرتا آیا ہے اور کرتا رہے گا کیوں کہ اس دنیا کا نظام کمزور کو سپورٹ نہیں کرتا۔ جس کے پاس طاقت ہے وہی فرعون ہے اسی کے پاؤں میں سب کا پاؤں ہے۔
موجودہ دور میں ایک انگلی کی جنبش ماضی اور حال کے اسراروں کے پردے چاک کر دیتی ہے۔ تیسری دنیا کے بظاہر مختلف خد و خال رکھنے والے عام انسانوں کی کہانیاں بہت زیادہ مختلف نہیں ہوتیں۔ کہیں کم یا کہیں زیادہ جبر کا ماحول تو ہر جگہ ہے۔
میں ان ہی خیالات میں غلطاں و پیچاں تھی کہ جہاز کو ایک زوردار جھٹکا لگا جو سوچ کے اڑتے پنچھی کو اپنے گرد و پیش کے منظر نامے میں واپس کھینچ لایا۔ تمام مسافروں کے چہروں پہ ہوائیاں اڑ رہیں تھیں۔ ساتھ بیٹھے لڑکے کا زرد پڑتا چہرہ دیکھ کر میں نے اس کا شانہ تھپتھپا کر کہا، برخوردار فکر نہ کرو موسم اچھا ہو یا برا گزر ہی جاتا ہے۔ ذرا سی دیر میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔
شاید یہ ہمدردانہ رویہ اس کی توقعات کے برعکس تھا۔ ممنونیت بھرے لہجے میں بولا، شکریہ میم، یہ میرا پہلا اتنا لمبا سفر ہے اب سے پہلے میں گھر سے دور کبھی نہیں رہا۔ میں نے دل میں سوچا کہ وہ یقیناً متوسط گھرانے کا فرد ہے ورنہ امرا کے بچے تو اکیلے سفر کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ سٹوڈنٹ ہو؟ جی ہاں۔ اس کے چہرے کا اطمینان بتا رہا ہے کہ میں اس کا دھیان بٹانے میں کامیاب ہو گئی ہوں۔ میں فطری طور پہ کم گو یعنی الفاظ کے استعمال میں بہت بخیل ہوں۔ اسی کارن قریبی افراد مجھ سے اکثر نالاں رہتے ہیں مگر اس لمحے کا سچ یہ ہے کہ اس گفتگو میں میرے اندر کا خوف بول رہا ہے۔
ابھرتا سورج ہو یا ڈھلتا ہوا دونوں ہی کنکٹنگ ڈوٹس ہیں جو ماضی سے حال میں منتقل ہوتے ہوئے مستقبل کی جانب بڑھتے ہیں۔ واقعات بھی تو کنکٹنگ ڈوٹس ہوتے ہیں جن کا تسلسل کہانی کو آگے بڑھانے میں مدد گار ہوتا ہے۔ تطہیر فاطمہ تم پھر موضوع سے ہٹ رہی ہو۔ دھیرج رکھو مہر بانو اس طرح بار بار ٹوکنے سے آئی مت چلی جاتی ہے سر دست میں ایک اندھے کنویں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے جگسا پزل کے وہ ٹکڑے کھوج رہی ہوں جو کھو گئے ہیں۔
ماضی سے یاد آیا کہ بخاری نے ٹھکانا ملتے ہی پر پرزے نکالنے شروع کر دیے۔ چار ماہ بعد محرم شروع ہوا تو نہایت چاپلوسی سے اس نے حسن چچا کو نچلی منزل کے بڑے ہال میں مجالیس کے انعقاد پہ راضی کر لیا کہ لوگ باگ آئیں گے تو آپ کے تعلقات بڑھیں گے اور گھر میں برکت ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ حسن چچا کا مذہب سے تعلق بس ایسا ہی تھا جیسا کہ ایک عام انسان کا ہوتا ہے۔ وہ مذہبی سرگرمیوں میں کبھی کبھار شرکت تو کر لیتے تھے مگر اس سے زیادہ کا کبھی نہ سوچا تھا۔ تذبذب کے باوجود اس نے ایسا شیشے میں اتارا کہ ہاں کہتے ہی بنی۔
یہ کسے خبر تھی کہ یہی ایک غلطی مستقبل میں کئی غلطیوں کی بنیاد بنے گی مگر تقدیر کے لکھے کو کون ٹال سکا ہے؟ ماں کے لعن طعن پہ حسن چچا نے بخاری سے جب بھی کرائے کی بابت بات کرنی چاہی تو وہ انتہائی چابکدستی سے غچہ دے گیا بلکہ وہاں تو ریڈی میڈ حیلے بہانوں کی فیکٹری موجود تھی ہر بار کوئی دکھ بھری داستان سنا کر ٹالتا رہا۔ یہاں تک کہ اگلا محرم آ گیا تو کہنے لگا حسن بھائی اس شہر میں یہ میرا آخری محرم ہے پھر کراچی جا کر قسمت آزمائی کا فیصلہ ہے بس اس بار اور بی بی کو پرسہ دینے کی اجازت دے دو شاید میری بگڑی بن جائے۔ اس تمہید کے آگے حسن چچا کیا بول سکتے تھے؟
اس بار ہال میں ایک بڑا علم نصب کر دیا گیا۔ حسن چچا کا ماتھا تب ٹھنکا جب ایک دن اس نے کچھ لوگوں کی موجودگی میں منصوبہ بندی کے تحت ایک کل وقتی امام بارگاہ بنانے کی بات چھیڑی۔ گھات لگائے شکاریوں کی کینہ توز نظریں گھیرے میں آئے شکار کی جانب تھیں۔ گھاگ شکاریوں کے نرغے میں پھنسے شکار کو کوئی راہ فرار نہ تھی وہ بے بسی سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے شکست خوردہ لہجے میں بولے یہ بہت بھاری ذمہ داری ہے اور میرے وسائل محدود ہیں۔ شکار کو ہتھے سے اکھڑتا دیکھ شکاریوں نے جال کو ڈھیل دینے کا فیصلہ کیا۔ مولوی ابو الحسن بولا، ایک سعادت مل رہی ہے میاں وسائل کا بندوبست مولا خود کریں گے۔ سب اٹھ کھڑے ہوئے مگر ایک فتنے کی بنیاد پڑ چکی تھی۔
حسن چچا ان ہتھکنڈوں سے قطعی ناواقف تھے۔ اس ناگہانی سے نمٹنے کی صلاحیت خود میں نہ پا کر بہت زیادہ گھبرا گئے۔ دوسرے محرم کے بعد بخاری اپنی فیملی یہیں چھوڑ دس مہینے کے لیے غائب ہو گیا۔ جب واپس آیا تو وہی رونا دھونا کہ لٹ گیا برباد ہو ہو گیا بالآخر حسن چچا کا صبر جواب دے گیا ایک دن بولے بخاری بھائی آپ کو یہاں رہتے ڈھائی برس ہوئے اب اپنا کوئی اور بندوبست کر لیں کیوں کہ اگلے ماہ اوپر شفٹ ہو کر نچلی منزلوں پہ تعمیرات کا ارادہ ہے تاکہ دال روٹی چلتی رہے۔
محرم شروع ہونے سے قبل ہی غنڈوں کا ایک جتھا مستقل حویلی کے ارد گرد منڈلانے لگا، جس کے سرغنہ اسی بد طینت بڈھے مما کا بھانجا طاہر اور مولوی ابو الحسن تھے۔ مہر بانو ان دنوں پانچ سال کی ہوگی۔ ایک دن اسکول سے لوٹی تو دیکھا کہ دروازے پہ تالا پڑا ہے اور چبوترے پہ کئی اجنبی صورتیں براجمان ہیں۔ گھر میں محصور دادی نے گیلری سے آواز دے کر کہا، مہرو شاکرہ بیگم کے گھر چلی جاؤ۔ وہ اس صورتحال سے گھبرا کر رونے لگی۔ اس سے پہلے کہ دادی کچھ کہتیں کہ طاہر نے اس کے نازک گال پہ ایک زناٹے دار تھپڑ جڑ کر دھکا دیا اور چاقو لہرا کر کہا کہ اپنے کافر باپ سے کہہ دینا کہ امام باڑا تو بن کے رہے گا۔
دہشت زدہ مہر بانو سڑک پہ گری تو اس کے سر سے بہتی خون کی دھار دیکھ کر دادی اور سامنے والے گھر سے بھولا اور مسرت کی چیخوں نے آسمان سر پہ اٹھا لیا۔ اس چیخم پکار کے سبب بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ لوگ عموماً دنگے فساد سے دور رہتے ہیں یا پھر دور سے تماش بینی کرتے ہیں اور یہاں تو مذہبی فساد کا عنصر بھی کارفرما تھا مگر نظر کے سامنے کسی بچے پہ ہونے والی زیادتی شاید ضمیر پہ بھاری ہوتی ہے جسے سہن کرنا ممکن نہیں رہتا، کبھی اپنے گھر سے باہر قدم نہ رکھنے والا ذہنی طور پہ پسماندہ بھولا جب روتا ہوا نیچے بھاگا تو باپ اور چچا بھی اسے روکنے پیچھے دوڑے۔ مجمع اکٹھا ہوتا دیکھ کر غنڈے بھاگ لیے ۔ وقت کی ستم ظریفی یہ تھی کہ زندگی کا پہلا جبر پانچ سالہ مہر بانو نے اپنے ہم عقیدہ افراد کے ہاتھوں سہا۔
زندگی کا یہ رخ ایک پانچ سالہ بچے کے لیے کیسا ہو سکتا ہے اس کا صحیح اندازہ لگانا شاید کسی کے لیے بھی ممکن نہ ہو۔ برسوں بعد جب اس نے مجھے یہ واقعہ سنایا تھا تو اس کے چہرے کے دھواں دھواں تاثرات نے مجھے دم بخود کر دیا تھا۔ جب لفظ ساتھ چھوڑ جائیں تو انسان آنسوؤں کی زبان میں بات کرتا ہے۔ آنسو اندر کے بوجھ کو ہلکا کر دیتے ہیں مگر اس کی خشک آنکھوں میں درد کا ایک لا متناہی صحرا تھا، ایسی وحشت تھی جو انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ کہ جیسے وہ سب لمحہ موجود میں اس پہ بیت رہا ہو۔ ذہن کے پردے پہ چلتی ہوئی فلم کا ایسا بھیانک سین جسے وہ دیکھنا نہیں چاہتی ہو اور اسے بار بار دیکھنا پڑ رہا تھا کہ منظر تو ذہن کے اندر ہمیشہ کے لیے ٹھہر گیا ہے۔
وقت کے جبر کی یہ داستان یہیں تک محدود نہیں ہے۔ ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ جہاز ابھی تک ہچکولے کھاتا بادلوں کو چیرتا آگے بڑھ رہا ہے۔ اتنے خراب موسم سے پہلے واسطہ نہیں پڑا۔ ابھی تو بہت لمبا سفر باقی ہے
- یادوں کی برسات میں بھیگا دن - 05/02/2024
- حکایت غم رفتہ و دوراں - 26/01/2024
- سلگتے حرفوں سے لکھی تحریر - 14/01/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).