سندھ گُلال کتاب پر تبصرہ
خسرو دریا پریم کا الٹی وا کی دھار،
جو اترا سو ڈوب گیا، جو ڈوبا سو پار۔
امام مغنیاں، شاعر ہفت زباں، قافلہ عشق کے راہ رو، حضرت امیر خسرو کا شعر سنتے تو مدت سے آئے ہیں مگر تفہیم تب پائی جب ”سندھ گلال“ ہاتھوں میں آئی۔
ہمارے دلبر رانا محبوب سندھ کے مدینے کے عشق میں ایسے ڈوبے ہیں کہ ایک ہی سانس میں، ایک ہی کتاب میں وطن کے پیار میں کندن ہوئے دیوانوں کی امر کہانی بیان کر دی۔
پریم ساگر میں ڈوبا پریمی کبھی شاہ لطیف کے فقیروں کے ساتھ دھمالی ہوتا ہے تو کبھی گنج شہیداں پہ سیس نوائے اپنی جھولی ”جیڑھا رہاوے اوہو کھاوے“ کے پیام سے بھر لاتا ہے۔
عرب ماں کی لوری سننے والا ابوالکلام ”غبار خاطر“ لکھتا ہے جبکہ رسترانی پہاڑ پہ مست و سمو کے گیت گاتا شاہ مری میر و مرزا کی زبان میں لکھنے پر آتا ہے تو دلی والوں کا زبان پہ اجارہ ہوا ہو جاتا ہے۔ آج ہم رقصاں و شاداں کیسے نا ہوں کہ پیر فرید کی کافیوں کی گھٹی میں آنکھ کھولنے والا، شاہکار نثر لکھ کر کٹھور دلوں کو پیغام دے رہا ہے کہ زبانیں سانجھی ہوتی ہیں۔
آئیں پلکوں سے چن کر کچھ موتی، کچھ لعل آپ کے سامنے رکھتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ عاشق زندہ اور تابندہ کیوں اور کیسے رہتے ہیں۔
سندھ گلال تاریخ، موسیقی، آلات موسیقی، لسانیات، معاشیات، تصوف، سامراجیت، آمریت اور بغاوت کی کتھا ہے۔
سندھ گلال کا ہر دوسرا فقرہ،
صفحات پر اترے پیرے کا آدھا حصہ، اقوال زریں جیسا،
ماں کے کلام شیریں جیسا،
باغی کی للکار جیسا، محبوب کے پیار جیسا ہے۔
لکھتے ہیں ”سندھ گلال سیہون سے جاری ہوئی یہ کہانی تھر کے ٹیلوں، کارونجھر کے گلابی جبل، کاسبو کے موروں اور اچھڑوتھر کی ریشمی سفید ریت سے ہوتی ہوئی سہاؤ سوموار کی آگ تاپنے دسمبر کی ایک رات بھٹ شاہ پہنچی“
سندھ کو کیسے دیکھنا چاہیے؟
جواب میں لکھتے ہیں۔
سندھ وادی کو سامراجی آنکھ سے نہیں مقامی کی آنکھ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مقامیت آنکھوں کو وہ بصیرت عطا کرتی ہے کہ آپ چیزوں کو ان کے درست تناظر میں دیکھنے لگتے ہیں۔ پچھتر سال کے پاکستانی کی عمر پانچ ہزار سال ہو جاتی ہے۔ ”
تجارت کے نام پر سامراجیت کے پنجے گاڑنے والوں کے منہ پر یوں طمانچہ رسیدہ کرتا ہے یہ فرزانہ۔
پ ”دخانی جہازوں کی ایجاد سے بہت پہلے کشتیوں پہ بیٹھ کر بابل و نینوا اور برما و چین تک تجارت کا استعماریت سے پاک قصہ ہماری تجارت کا سرنامہ ہے“
”گڑھی خدا بخش کے مزار امام رضا کے مرقد کے میناروں سے منظوم مکالمہ کرتے ہیں۔“
”شہادت سے مونجھ ثقافت کی تشکیل ہوئی ہے۔ مقتول شہروں اور شہید سورماؤں کے خون سے زندگی مونجھ اور اداسی سے بھری ہوئی ہے۔ مقتول شہر اور شہید سورما ہمارے قصوں میں امر ہیں۔ ہم قتل ہو کر سرخرو ہوتے رہے ہیں۔ اور یہ ناقابل فہم اور معکوس منطق ہار کو جیت میں بدل دیتی ہے ہماری مونجھ حاکم کے خلاف مزاحمت اور سستی سول نافرمانی کا قرینہ ہے۔ ہم نے کبھی غیر کی بادشاہی دل سے تسلیم نہیں کی۔ جھوک کے گنج شہیداں سے لاڑکانہ کے گنج شہیدان تک مقامی فقیروں اور سورماؤں کا خون ہماری کتھا کا گلال ہے۔ تاریخ کے جبر نے ہماری سرخروئی کو مقتل سے منسلک کر دیا ہے سندھ وادی میں شہادت کی ثقافت کو قتال کے کلچر پر ابدی برتری ہے۔“
”سندھ دریا اور موہن جودڑو کے بعد بھٹ شاہ سندھ کی مقامیت کی مسجد ہے۔“
عاشق رقص میں ہو یا حال میں ہو۔ ہجر سہے یا پندھ کرے۔ قاتل کو نہیں بھولتا۔ کیا ظالم ہے ہمارا سندھ پریمی۔
شاہ سرکار کی سہاؤ سوموار کی رات آگ کے شعلوں سے بھی زیادہ مقدس چہروں کے بیچ بھی وہ ہمیں یاد دلاتا ہے۔
”سندھ دریا کے بارے میں عام سندھی کی آگاہی ڈیم چیف قاضی سے زیادہ ہے۔ حکمران اشرافیہ کے پنجابی جرنیلوں، ڈیم قاضیوں اور دو بڑے لاہوری سیاستدانوں پر ضیاء الحقی رجعت اور عدم برداشت کی چھاپ نے ریاست کی بدحالی میں اضافہ کیا ہے۔“
ایک ہی فقرے میں ساری درباری تاریخ بیان کر دی ہے۔ ”نصابی تاریخ بندوقچی کا شکار نامہ ہے۔“
سندھ کا سیلانی، قاتل کے چہرے سے نقاب اٹھاتے ہوئے دھاڑیل کو پہچاننے میں ہمارا مددگار ہے۔ گل رنگ دھرتی پر جب نظر ڈالتا ہے تو پھر رنگوں کے کتھا سنانے لگ جاتا ہے۔ سرخ کو جھولی میں ڈال کر نیلے کی اجرک اوڑھ کر گلابوں کو ہاتھوں میں اٹھا کر رنگ کتھا شروع کر دیتا ہے کہ سوریا بھی رنگوں کو گہنانے سے توبہ کرنے لگتا ہے۔ اس کا جیون دڑو کی طرف لے جاتا ہے موہن جو دڑو، سندھ وادی کی پوری جیوت کاری ہے۔ پھر سمبارا اسے اپنے قدیم مسکن سے پوری تہذیب کہانی سنا ڈالتی ہے۔
نگر الفت سے چلا یہ مسافر جب ہاتھ پھیلاتی بے نظریریں دیکھتا ہے تو سوال پوچھتا ہے، اوپر والے سے بھی زمین پر بسنے والوں سے بھی نعروں پہ قدغنیں لگانے والوں سے جھوٹ بونے والوں سے بھی۔
”غریب کی غربت کو دوام دینے کے لئے کالونیل ازم، ہاری کے جھونپڑے کی ایٹم بم سے رکھوالی کرنے والے حاکموں سے بھی، کہ
ایک کا قاتل، قاتل اور لاکھوں کا قاتل ہیرو کیسے؟
سخی لعل قلندر کے دربار میں ایک طرف دھمال اور دوسری طرف نور چہروں پر اترا کال دیکھ کر پوچھتا ہے
صوفی ازم بھی کالونیل ازم ہے کیا؟
رابعہ بصری عورت ہے اسی لئے آدھی قلندر کہلاتی ہے؟
”بالعموم عاشق، مرد اور عورتیں طبعی زندگی کی تکمیل سے پہلے کیوں مرتے ہیں اور موت کے بعد خلقت ان پر کیوں مرتی ہے؟“
محبت کے دیش کا سیلانی جب اجرک اوڑھتا ہے تو پیار کی سرخی میں ایسے رنگ جاتا ہے کہ رنگوں کی تعریف سے تاریخ تک رنگ بننے کے عمل سے لے کر رنگ جانے تک پوری کتاب سرخ گلال کر دیتا ہے۔ اجرک کیسے کھلے ہے کیسے بنے ہے کیسے دھلے ہے کیسے ڈھلے ہے کیسے پہنے ہے۔ حسن بیان کے رنگ ایسے کہ قاری کا سامنے رکھی اجرک بار بار چومنے کو من کرتا ہے۔
سات کے عدد کی کہانی لکھتے لکھتے ہوئے آٹھ سو الفاظ میں سارا عقیدہ اور ساری میتھالوجی سامنے لا رکھتا ہے۔
نوائے وقت کے حافظوں کو یاد دلاتے اس کی آواز اونچی ہوتی ہے۔ چوک کے بیچ کھڑے ہو کر اعلان کرتا ہے لوکو!
”شاہ عنایت کے بعد بھٹو صدیوں بعد غریب کے نام کی مالا جپتے تھے روٹی کپڑا اور مکان میں جو بوئے سو کھائے کی گونج ہے۔“
سندھ وادی کا یہ سیار ہمیں یاد دلاتا ہے کہ
”متعصب قوم پرست ہٹلر کی طرح کمزور اور مظلوم قوموں کا انکار کرتے ہیں اور اپنے اتم درشن میں نازی ازم کے عفریت کا روپ دھار لیتے ہیں“ ۔ اور ساتھ ساتھ سارے ریاستی بیانئے کو چوراہے پہ آگ لگاتے ہوئے کہتا ہے۔
”کٹے پھٹے نئے پاکستان کو قدیم انڈس ریپبلک کی تکثیریت اور مقامی دانش کی ضرورت ہے“ ۔
رانا صاحب! ایک بات تو بتائیں حاکموں کے سارے خرچے، سارے جھوٹ، سارے لکھݨ، سارے چڄ، سارے خنام، سبھے کتاباں چوک پہ جلاتے ہوئے آپ کو ترس نہیں آیا؟
کارونجھر کیا ہے اس کا روپ کیسا ہے اس کے رنگ کیا ہیں اس کے سینے میں کس کس کے خواب زندہ ہیں کس نے کارونجھر سے کیا پایا ہے؟
یہ بتانے کا ہمیں یارا نہیں اس کے لئے کارونجھر آپ خود جائیں اور جس طرح پہلے عرض کیا تھا کہ شمالی بغض، کینہ اور من کمینہ صادق آباد کسی رشتے دار کی صفیل پر رکھتے جائیں۔ گر انڈس روڈ سے شاہ لطیف کی دھرتی پر قدم رکھنے جا رہے ہیں تو اپنی میلی سوچوں کو پٹ فیڈر نہر میں دھوتے جائیں ورنہ خالی ہاتھ واپس آئیں گے۔ شاہ لطیف کے حکم کے مطابق ”آنکھوں کو پاؤں بنائے“ یہ مستانہ ”شاہ کے گیت کلائی سے باندھے“ ”محبت اور موسیقی“ اور بغاوت اور قربانی کے نگر سے ہمیں بتاتا ہے ”سندھ وادی کی سمباری روایت اور سندھی زبان کے مٹھاس سے عشق کی ایسی سلطنت بناتے ہیں جہاں عورت سورما ہے لطیف کی عورت حقیقت کا وہ حسین چہرہ ہے جس کے سامنے فارسی اور یونانی روایت، عطار کے لونڈے کی صورت ہاتھ باندھے کھڑی ہے۔“
ملتان تو مرکز ہے ہمارے سیلانی کا۔ ملتان تو اس کی آکسیجن ہے اسی لئے اس سفر میں ملتان اپنے سارے حسن کے ساتھ، ملتان سارے رنگوں کے ساتھ سیلانی کا ہم رکاب رہتا ہے۔ کولھیوں اچھوتوں سگھڑوں دھمالیوں کے نام کی گئی یہ کتاب ہمیں بتاتے نہیں بھولتی کہ ”لوٹ مار سامراجی آدمی کی نفسیات ہے۔ قبضہ گیر اپنی طبقاتی ساخت کے لحاظ سے متزلزل، بے یقین منتشر اور بے ایمان ہوتا ہے۔“
جس طرح خواجہ فرید فرماتے ہیں
خلقت کوں جیندی ڳول ہے
ہر دم فرید دے کول ہے
اس کتاب میں دھڑکتے دلوں اور سوچتے دماغوں کے لئے بہت کچھ موجود ہے۔ پریم دیس کے لکھاری نے دراصل حسن و عشق کی درسگاہوں، مہر و محبت کی خانقاہوں اور باغیوں کی جامعات کا نصاب لکھا ہے۔
- سندھ گُلال کتاب پر تبصرہ - 18/01/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).