2022 کی نوبل انعام یافتہ مصنفہ اینی ارنو کی کتاب ”گمشدہ“ کا ایک جائزہ
اینی ارنو ادب کا نوبل انعام جیتنے والی پہلی فرانسیسی مصنفہ ہیں۔ اینی ارنو کو 2022 ء کے نوبل پرائز کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ اینی کی زیادہ تر تحریریں سوانحی نوعیت کی ہیں لہذا کچھ ناقدین کے مطابق یہ ان کے ذاتی مشاہدے کی طاقت ہے کہ قارئین انھیں غلط طور پر خود اپنی زندگی کا مورخ سمجھتا ہے۔ ان کے مطابق اینی ارنو نے ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا ہے کہ وہ سوانحی تحریروں کی بجائے افسانے کی مصنفہ ہیں۔ اگر میں تارڑ کی بات کروں تو کہا جا سکتا ہے کہ مستنصر حسین تارڑ کے سفرناموں کا رنگ افسانوی ہے لیکن یہ ان کے مشاہدے کی گہرائی ہے کہ ان کے سفرناموں کی کوکھ سے ناول نکلے ہیں بالکل ویسے ہی اینی ارنو کی تحریریں اگر چہ سوانحی نوعیت کی ہیں جو احساس کی بھرپور شدت لئے ہوئے ہیں لیکن اس کے ناول بھی انھیں سوانحی تجربات کی کوکھ سے ہی نکلے ہیں۔
قوت متخیلہ کا اظہار تو ناول ہی ہوتا ہے اسی لئے اینی نے ہمیشہ اپنی سوانحی تحریروں پر ناول کو ترجیح دی ہے۔ سوانحی تحریر زندگی کا عملی مظاہرہ پیش کرتی ہے جب کہ ناول تجربے کی تخیلی صورت میں متشکل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود کہ تارڑ اور اینی نے اپنے تجربوں کو اپنے اپنے جسموں پر سہا ہے لیکن اینی کی تحریروں میں احساس کی شدت بہت زیادہ ہے۔ تارڑ نے اپنے سفر کے لئے زمین کو چنا ہے جب کہ اینی نے اپنے جسم کو زمین بنا لیا ہے۔
اینی ہمیشہ محبت کی شدت سے طلب گار رہی ہیں۔ اس خلا کو پورا کرنے کے لئے اینی نے ہمیشہ ڈائری لکھی اور پھر انھیں ڈائریز کو کتاب کی صورت پبلک کے لئے عام کر دیا۔ سوانحی تحریریں اکثر میں۔ میں کا مرکب ہی ہوتی ہیں لیکن چونکہ اینی ارنو ذاتی کبریائی یعنی میں۔ میں مکتبہ فکر کا کبھی بھی حصہ نہیں رہیں لہذا اس ناتے سے ناقدین کا کہنا ہے کہ ادب کے حوالے سے ان کا خاصہ اجتماعی انسانی خواص کو تلاش کرنا ہی رہا ہے۔
اینی ارنو، یکم ستمبر 1940 ء کو شمالی فرانس کے نارمنڈی ریجن کے علاقے للی بون ؔمیں پیدا ہوئیں۔ پچھلے پچاس سال سے ان کی تحریریں فرانس میں اشاعت پذیر ہیں۔ انھیں طویل عرصے سے فرانس کی ان چند گنی چنی خواتین مصنفین میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہے جن کی تحریریں اسکول کے نصاب میں شامل ہیں۔ 2019 ء میں جب ان کی کتاب ’‘ سالہا سال ” (The Years ) بین الاقوامی بکر پرائز کے لئے شارٹ لسٹ ہوئی، تو دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر ان کی تحریروں کو پذیرائی ملی۔ ان کی شہرت چہار دانگ عالم پھیل گئی۔ اینی کا کام سوشیالوجیکل آٹو فکشن۔ آٹو بائیوگرافی اور فکشن۔ کی یورپی روایت کا حصہ ہے مغرب کے لئے یہ بھی کوئی نئی اختراع نہیں ہے۔ یہ آفاقیت ہے جو آٹو فکشن کو طاقت مہیا کرتی ہے۔
اینی ارنو نے محنت کش طبقے سے زندگی کی ابتداء کی پھر اپنے تجربے کی وافر جنسی خواہش اور غیر قانونی اسقاط حمل جیسی بہت بڑی ممنوعات کا سامنا کیا۔ سیمون ڈی بووا، جو نوبل انعام حاصل کرنے میں ناکام رہیں، کے مقابلہ میں کم انا پرست ہونے کے باوجود اینی نے حقوق نسواں کے شعور کے عروج اور اس راستے میں درپیش بہت سے چیلنجوں کو بطور ماہر تشریح کار بیان کرنے میں سیمون کی پیروی کی ہے۔
گمشدہ ”اینی ارنو کا ایک روسی سفارت کار ’‘ ایس“ کے ساتھ جنونی تعلقات کا ریکارڈ ہے۔ یہ محبت اور ہوس کی لت میں گلے تک دھنسی ہوئی ایک عورت کا جنسی بے تکلفی کے اظہار کا مطالعہ ہے۔ جب وہ اپنی کہانی سناتی ہیں، تو مصنفہ ایک پھیلی ہوئی دنیا کو بیان کرتی ہیں، مصنفہ کی اپنی کہانی، انسانی کہانی ہے جس کی ساخت اور پیچیدگی ایک ہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ قطعی سچائی نہ ہو جو مصنفہ بتا رہی ہے، لیکن یہ اس کی سچائی ہے جیسا کہ اس نے جیا اور تجربہ کیا۔
ہر شخص کی شناخت کی اپنی ایک کہانی ہوتی ہے، کہ یہ کہیں سے پیدا نہیں ہوتی، کہ یہ ایسی چیز نہیں ہے جسے کوئی شخص خود منتخب کرتا ہے، اپنے بارے میں سچائی پیش کرنے کے لیے ایک خاص قسم کی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے :اپنی اصلیت جاننے کی خواہش، اپنی شناخت بتانے کی خواہش، اپنی جنسیت لکھنے کی خواہش۔ یہی کچھ ہے جو اینی نے کیا۔
اس کہانی کا آغاز 1988 ء سے ہوتا ہے جب مصنفہ اینی ارنو سوویت روس کے سفر پر گئیں۔ اس دورے کے آخری دن، لینن گراڈ میں، اس کا فرانس میں متعین شادی شدہ روسی سفارت کار کے ساتھ معاشقہ شروع ہوا۔ وہ 35 سال کا تھا جب کہ وہ 48 سال کی تھیں۔ جب وہ پیرس واپس آئے تو انھوں نے اس تعلق کو برقرار رکھا۔ اس دوران اینی نے اپنی عادت کے مطابق روزنامچہ لکھنا جاری رکھا۔ ارنو کے مطابق ’‘ گمشدہ ”غیر ترمیم شدہ، اصل روزنامچہ ہے جسے اس نے اپنے اٹھارہ مہینوں کے معاشقے کے دوران لکھا۔ یہ اس کی زندگی کا وہ دور تھا جب اس نے اعتراف کیا کہ وصل کے بعد وہ سست ہو جاتی ہے اور اس طرح کام کے لئے بیکار ( ’‘ شدید خواہش مجھے کام کرنے سے روکتی ہے“ ) اس کے باوجود اس معاشقے سے ایک نہیں دو کتابیں نکلیں ؛ ایک ناول کی صورت ’‘ صرف جذبہ ”اور دوسری ’‘ گمشدہ“ کے عنوان سے یادداشتیں۔
بظاہر اینی یہاں اپنی اقدار سے بغاوت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ اینی کی بغاوت محض صنفی بغاوت نہیں ہے۔ یہاں ایک عورت اپنے معاشقے کے بارے میں لکھ رہی ہے، اس شعبے میں تاریخی طور پر ہمیشہ سے مردوں کا راج رہا ہے لیکن اس کے باوجود کہا جا سکتا ہے کہ یہ اس کے جنسی رویوں کا، غیر معمولی اظہاریہ ہے۔ بہت زیادہ کھلے اظہار کی وجہ سے بہت ساری جگہوں پر کراہت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ بین الاقوامی مبصرین کے مطابق آنا کارنینا اور مادام بوواری کی طرح، ارنو کے معاشقے کو بھی ادب کے بڑے معاشقوں میں شمار کیا جانا چاہیے۔
ارنو فرانس کی شاید پہلی قابل ذکر مصنفہ ہے جس نے ان یادداشتوں میں اپنی زندگی کی انتہائی جنسی سرگرمیوں کو موضوع تحریر بنایا۔ ارنو کی طرف سے اٹھارہ ماہ تک، رومانس کو انتہائی شدت سے جاری رکھا گیا جس کے لئے وہ ہمیشہ اس بدگمانی کا شکار رہی کہ ایس کے قریب کوئی اور عورت بھی موجود ہے جس کی وجہ سے وہ اس کے ساتھ تعلق کو کسی بھی وقت ختم کر سکتا ہے۔ اکثر وہ ایس کی طرف سے خاموشی/ فون نہ کرنے کو افیئر کے خاتمے سے تعبیر کرتی۔
اسے سفارت خانے میں ایس سے رابطہ کرنے سے منع کیا گیا تھا اور اس لئے اس کی کال کا انتظار کرتے ہوئے وہ اپنے جذبے کی سچائی کو روزنامچوں کی صورت لکھتی رہیں۔ وہ مسلسل ایس کی فون کال کے انتظار میں رہتیں۔ اس نے بار بار درج کیا ’‘ سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ ”تعلقات کو ختم کر دیے جانے کا مستقل خوف ہر روز ارنو کو تباہ کرتا اور پھر اسے دوبارہ زندہ کرتا۔ یہ کشمکش روزانہ ایک نیا روپ دھارتی اور وہ روزانہ ایک نئے کرب سے گزرتی۔
اینی سفارت خانے میں بار بار فلم دیکھنے جاتی۔ وہ پریس کی طرف سے جب جب بیرون ملک دوروں پر جاتی۔ وہ ہر جگہ ایس کی خواہش کرتی: دن کے ہر لمحے میں، ہر ملک میں جہاں وہ جاتی ہے وہ اس کی فون کال کا انتظار کرتی ہے۔ لفظ ’‘ کال ”کے ذکر پر محسوس ہوتا ہے کہ اس کے انتظار کی شدت پسندی بہت حد تک خلجان کی ان حدوں کو چھو رہی ہے جہاں سے پاگل پن کا آغاز ہو جاتا ہے۔
وہ خوبی جو ارنو کی جنس پر لکھی گئی تحریر کو اس کے ماحول میں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے شرم کی مکمل عدم موجودگی۔ عورت کی حد تک ایسی بے تکلفی مشرقی تمدن کا خاصہ نہیں ہے۔ ارنو کا خیال ہے کہ یہ شروع سے ہی ایک محبت کی کہانی ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس کی بجائے کہا جا سکتا ہے کہ، یہ ایک عورت کی انتہائی جنسی خواہش کا مطالعہ ہے۔
اینی کی تمام کتابوں کا معیار کمزور انسانی تفصیلات کو فراموشی سے بچانا ہے۔ وہ مختلف ڈائریز میں، بیسویں صدی کی ایک عورت کی کہانی بیان کرتی ہیں جس نے پوری زندگی درد اور خوشی کو یکساں طور پر تلاش کرنے میں گزاری۔ اینی کے مطابق اس نے اپنے اخذ کردہ انتہائی نتائج کو سچائی کے ساتھ کاغذ پر اتارا ہے۔ اینی ایک لا وارث بچہ تھی جسے کوئی دوسری جنگ عظیم میں، بمباری کے دوران، اس کی ماں کے پاس چھوڑ گیا تھا۔
اگرچہ اینی ارنو کی یہ یادداشتیں ’‘ Se Perdre ”کے عنوان سے 2000 ء میں فرانس میں شائع ہو چکی تھیں لیکن یہ یادداشتیں اکتوبر 2022 ء میں انگلش میں ترجمہ ہو کر“ Getting Lost ”کے عنوان سے دنیا بھر میں پھیلے انگلش قارئین تک پہنچیں۔ اس کتاب کی اشاعت کے چند دن بعد ہی معمول کے مطابق اینی ارنو کو نوبل پرائز کے لئے نامزد کر دیا گیا۔ نوبل پرائز اگرچہ لکھاری کو اس کی مجموعی کارکردگی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے لیکن اینی ارنو کی تحاریر میں“ گمشدہ ”ایک اہم مقام رکھتی ہے۔
یہ ایک محبت کی کہانی ہے جو بھرپور شدت لئے ہوئے ہے ایسی شدت سیمون ڈی بووا کی کہانیوں میں ملتی ہے شاید یہ شدت پسندی فرانسیسی ادب کا خاصہ ہے۔ اینی بہ ہر حال یہاں سیمون ڈی بووا سے بہت حد تک متاثر نظر آتی ہیں۔ وہی بات سیمون ڈی بووا نے ڈھکے چھپے انداز میں کہی ہے لیکن اینی نے کھلے بندوں کہہ دی ہے۔ اس کتاب میں سیمون کا ذکر بھی بڑی تفصیل سے موجود ہے جو سیمون کو جاننے اور سمجھنے کی طرف مائل کرتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک بالغ کتاب ہے اور بالغوں کے لئے ہے لیکن اس کی ادبی حیثیت متنازعہ نہیں ہے۔
Getting Lostکا ترجمہ راقم نے ”گمشدہ“ کے عنوان سے کیا ہے اور اسے سٹی بک پوائنٹ کراچی نے شائع کیا ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).