میر واہ کی راتیں: ایک ریویو
کہتے ہیں کہ اچھی کتاب کو آپ نہیں ڈھونڈتے بلکہ وہ خود آپ کو ڈھونڈ لیتی ہے۔ کچھ ایسا ہی میرے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ عموماً میں وہ کتابیں خریدتی ہوں جن کے مصنفین سے آگاہ ہوتی ہوں یعنی جو پاپولر فکشن رائٹرز میں شمار کیے جاتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کتاب کا سرورق اتنا خوبصورت ہوتا ہے کہ وہ میری توجہ کھینچ لیتا ہے تو کبھی کتاب کا عنوان اپنی کہانی خود کہہ جاتا ہے۔ جس ناول کے بارے میں آج میں تبصرہ کرنا چاہ رہی ہوں اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ اس ناول کو میں نے ناول کے نام میں موجود نغمگی کی وجہ سے خریدا تھا۔
میں بات کر رہی ہوں جناب ”رفاقت حیات“ کے لکھے ناول ”میر واہ کی راتیں“ کی۔ نہ جانے اس نام میں کیسی پرسراریت تھی کہ جیسے ہی میں نے اس ناول کا نام پڑھا اسے خریدنے سے خود کو روک نہیں پائی حالانکہ اسے میری نا اہلی سمجھ لیں کہ تب مجھے جناب رفاقت حیات صاحب کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔ لیکن جب یہ ناول پڑھا تو لامحالہ ان کے بارے میں مزید جاننے کی تمنا ہوئی۔ تب پتہ چلا کہ رفاقت صاحب کا یہ پہلا ناول ہے لیکن زبان و بیان سے کہیں یہ نہیں لگا کہ مصنف نے پہلی بار ناول میں طبع آزمائی کی ہے۔ یوں تو رفاقت صاحب سنہ 1991سے مختصر کہانیاں لکھ رہے ہیں جو سنہ 2003 کتابی شکل میں شائع ہو چکی ہیں لیکن ناول کی صنف میں یہ ان کی پہلی حاضری ہے اور کیا خوب ہے۔
جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکی ہوں ”میرواہ کی راتیں“ ناول کا نام پڑھتے ہی ایسا لگتا ہے جیسے ہم راجھستان میں گھوم رہے ہوں جہاں حد نگاہ تک ریت کا سمندر ہے جو دن کے وقت تو اپنی تمازت سے جھلسائے رکھتا ہے لیکن رات ہوتی ہی ٹھنڈی میٹھی چاندنی سے مسافروں کو خواب بننے میں مدد دیتا ہے۔ سندھ کے ضلع خیرپور کا ایک چھوٹا سا قصبہ میرواہ اپنے نام میں کیسی چاشنی رکھتا ہے مجھے معلوم ہی نہ تھا۔ نام میں ہی ایسا ترنم ہے کہ یوں لگتا ہے کہ قاری ٹھنڈی میٹھی چاندنی رات میں کسی دور انجانے اسٹیشن پر رکی ریل گاڑی میں محو سفر ہے۔ وہ خود نہیں جانتا کہ اس نے کہاں جانا ہے کیونکہ اس وقت اس کے پیش نظر صرف وہ سفر ضروری ہے جو وہ اختیار کر چکا ہے۔
نام کی محبت سے آگے بڑھی تو ناول کی کہانی نے مجھے کئی روز تک اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ بلاشبہ کہانی کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مصنف نے دریا کو کوزے میں بند کیا ہے۔ ناول کی کہانی نذیر نامی مرکزی کردار کے گرد گھومتی ہے جو بطور سزا میر پور ماتھیلو سے میرواہ اپنے چاچا کے یہاں بھیجا جاتا ہے۔ بہن بھائیوں میں آٹھویں نمبر پر موجود نذیر کو نہ تو ماں باپ کا پیار میسر تھا اور نہ ہی تعلیم کے حصول کی کوئی خاص ترغیب چنانچہ اس کی آوارہ گردی اور عورتوں سے معاشقے لڑانے کی سزا کے طور پر اس کے بھائیوں نے اسے اپنے بوڑھے چاچا کے پاس بھیج دیا۔ لیکن وہ جو یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ یہاں آ کر سدھر جائے گا بھول گئے تھے کہ چاچا بھلے ہی بوڑھا ہے لیکن اس کی بیوی چاچی خیرالنساء عمر میں چاچا غفور سے کافی کم اور فعال تھی۔ یوں نذیر جن حرکتوں کی وجہ سے میر پور سے نکالا گیا تھا وہ اس کا پیچھا میر واہ میں بھی نہ چھوڑ سکیں۔
صرف یہاں ہی نہیں بلکہ چاچا غفور نے اسے کام کے تسلسل میں جہاں کہیں بھی بھیجا وہ اپنی افتاد طبع کے باعث ہر جگہ اپنے مطلب کی خوشی کشید کر لیتا۔ ناول میں نذیر کے کردار میں انسانی جذبات کی بڑی عمدگی سے عکاسی کی گئی ہے۔ میر پور سے میرواہ، پھر کبھی پڈ عیدن اور کبھی ہنگورہ جہاں جہاں ناول کا مرکزی کردار گیا ہے وہ نہ صرف خود وہاں پہنچا ہے بلکہ مصنف کے بیانیہ نے قاری کو بھی ان ہی جگہوں پر پہنچا دیا ہے۔ پھر کچھ عجب نہیں کہ اگر آپ بھی خود کو کسی بس اسٹینڈ پر بس کا انتظار کرتے یا کسی ریلوے اسٹیشن پر گرم چائے کا کپ پکڑے ٹہلتے پائیں۔
ناول چونکہ بالغ افراد کے لیے ہے اس لیے زبان و بیان بھی اسی طرز پر استعمال کی گئی ہے لیکن کہانی کے ساتھ بہتے ہوئے آپ کو کہیں بھی منظر نگاری یا جزئیات اخلاق سے عاری یا بیہودہ محسوس نہ ہو گی۔ بلکہ اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو ناول میں بڑی عمدگی سے اس بات کی عکاسی کی گئی ہے کہ چھوٹے چھوٹے قصبوں میں رہنے والے مردوں کے لیے عورت کا وجود کیسی کشش رکھتا ہے کہ جس کے حصول کے لیے وہ کبھی کبھی خود پر مشکلات کے نئے در کھول لیتے ہیں جس کے باعث ان کی شخصیت بھی بدل کر رہ جاتی ہے۔ جہاں عورت اور مرد کا آزادانہ میل جول نہ ہو، جہاں مخلوط تعلیمی اداروں کا تصور نہ ہو وہاں عورت سے محض کلام کرنا بھی جذبات میں آگ لگانے کا کام کر سکتا ہے اور اسی بات کو بڑے بہترین انداز میں اس ناول میں بیان کیا گیا ہے۔
انسانی جذبات و احساسات کو جب بھی قلمبند کیا جاتا ہے تو نہ جانے کیوں اس سب سے اہم انسانی جبلت پر بات نہیں کی جاتی جو معاشرے اور انسانی ارتقاء کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں ”جنسی موضوعات“ پر بات کرنا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے چاہے ان موضوعات کو چھپائے رکھنے سے معاشرے میں بچوں کے جنسی استحصال اور اس جیسے کئی دیگر مسائل منہ پھاڑے کسی عفریت کی طرح ہم پر اپنا ”شر“ پھیلائے ہوں۔ رفاقت حیات صاحب کو داد دینا تو بنتی ہے کہ اپنے پہلے ہی ناول سے انھوں نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔ لیکن یہ شاید ان کے قلم کی سچائی ہی ہے کہ ناول کے جملے اور منظر نگاری کہیں بھی قاری کے لیے کسی پریشانی کا باعث نہیں بنی ہے۔
اگر آپ ایک اچھا اور سچا ناول پڑھنے کے شیدائی ہیں، اگر آپ بھی میرواہ کے کسی پان کے کھوکھے یا ہنگورہ کے بس اڈے پر خود کو بہ نفس نفیس دیکھنا چاہتے ہیں تو ایک بار یہ ناول ضرور پڑھیں۔ انسانی جذبات کے گنجلک اور تہہ در تہہ پہلوؤں کو کھولتا یہ ناول آپ پر بہت کچھ باور کر جائے گا۔
میری جانب سے رفاقت صاحب کو ان کے دوسرے ناول ”رولاک“ کے لیے بے حد مبارکباد۔ میں امید کرتی ہوں کہ ان کا یہ ناول بھی ”میرواہ کی راتیں“ کی مانند سوچ کے کئی در وا کردے گا۔
- میر واہ کی راتیں: ایک ریویو - 24/02/2024
- تبصرہ: شاکا - 19/02/2024
- ہم جیسی چاہتے تھے بنا لی ہے روشنی - 14/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).