ایک عالمی درویش،مقامی فقیر کے کوچے پر


میری خوش قسمتی ہے کہ میری زندگی میں علم و ادب کی دولت سے مالا مال ایسے لوگ شامل ہیں جن کا مقصد انسانوں کی خدمت کرنا اور ان کی بہتری کے لیے سرگرم عمل رہنا ہے۔ ایسی ہی شخصیات میں سے ایک شخصیت نامور ماہر نفسیات، شاعر اور ادیب ڈاکٹر خالد سہیل ہیں۔ جن سے میرا تعلق گزشتہ تین سالوں سے ہے، لیکن اس سے قبل بھی میں نے ان کی تحریریں پڑھ رکھی تھیں لیکن ان سے باقاعدہ گفتگو کا آغاز تین سال قبل ہوا۔ اس کے بعد یہ تعلق ادبی دوستی سے مضبوط ہوا اور اب ایک رشتے کی صورت اختیار کر گیا ہے۔

ہماری مختلف موضوعات پر گفتگو اور نئے نقطہ ء نظر پر تبادلہ خیالات ہوتا ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر کے مہینے میں ڈاکٹر صاحب نے مجھے کال کی اور کہا کہ وہ اگلے سال فروری میں پاکستان تشریف لا رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ وہ کراچی میں مجھ سے ملاقات کرنے کے لیے خصوصی طور پر تشریف لائیں۔ میں نے ہاں کی اور یوں ہمارا کراچی کے لیے پلان ہوا۔ گزشتہ دنوں ڈاکٹر خالد سہیل کینیڈا سے لاہور تشریف لائے اور لاہور سے کراچی اس خاکسار کے ہاں قیام پذیر ہوئے۔

یہ زندگی میں میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ ائرپورٹ پر انہیں ویلکم کرتے ہوئے اور گلے لگاتے ہوئے مجھے بالکل بھی احساس نہ ہوا جیسے ہم پہلی دفعہ مل رہے ہیں۔ بلکہ یوں لگ رہا تھا کہ میں ایک ایسے انسان کا انتظار کر رہا ہوں جس کے ساتھ میری روح کا بڑا گہرا اور صدیوں پرانا تعلق ہے۔ اور میں کسی اپنے کا بڑی شدت سے انتظار کر رہا تھا۔ بہت کم لوگ زندگی میں ایسے ہوتے ہیں جنہیں آپ دور سے دیکھتے ہیں اور قریب آنے پر ان کی شخصیت کے بت ٹوٹ جاتے ہیں، لیکن ڈاکٹر خالد سہیل ایک ایسی شخصیت ہیں جن کی قربت سے آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے علمی قد کاٹھ اور ادبی سرگرمیوں سے کہیں بڑے انسان ہیں۔ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے چار دن ڈاکٹر خالد سہیل کی بطور میزبان خدمت کرنے شرف حاصل ہوا ہے۔

ان دنوں میں ہمارا بنیادی مقصد ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنا، ایک دوسرے کے خیالات کو قریب سے جاننا اور مستقبل میں لائحہ عمل کے لیے منصوبہ سازی کرنا تھا۔ میں نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنے یوٹیوب چینل کے لیے دو دن بھرپور توجہ کے ساتھ نفسیات، سماج اور زندگی کہ مختلف موضوع پر مبنی ”زندگی کے رنگ ڈاکٹر خالد سہیل کے سنگ“ کے نام سے 12 انٹرویوز پر مشتمل سیریز ریکارڈ کی۔ یہ انٹرویوز جہاں ڈاکٹر خالد سہیل کی زندگی کے تجربات، عملی مشاہدات اور علمی مہارت کا نچوڑ ہیں، وہیں ٹیکنالوجی اور جدید میڈیا کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے میری ٹیم نے انتہائی شاندار کوالٹی میں اس قیمتی اثاثے کو محفوظ کیا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ یہ انٹرویو سیریز اردو ادب اور پاکستانی میڈیا میں ایک نئی جدت کا اضافہ کرے گا۔ خیر ان بیتے لمحوں میں ڈاکٹر خالد سہیل کے ساتھ بے شمار ایسی یادیں، باتیں اور تجربات ہیں جنہیں ہم وقتاً فوقتاً تحریر کرتے ہوئے قارئین تک پہنچائیں گے۔

میرے لیے یہ کسی بھی اعزاز سے کم نہیں کہ ڈاکٹر خالد سہیل نے اپنی قیمتی لمحات میرے ساتھ گزارنے اور اس خاکسار کو اپنی میزبانی کا موقع دیا ہے۔ ویسے تو ڈاکٹر خالد سہیل کی زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں جو نمایاں اور واضح نہ ہو۔ لیکن جس چیز نے مجھے متاثر کیا وہ ان کا لازوال جذبہ، مسلسل کام کرنے کی لگن اور مستقل مزاجی کے ساتھ ہر انسان کی زندگی میں مثبت پہلوؤں کو تلاش کرنا، سہرنا اور آگاہ کرنا تھا۔ ان شاندار قیمتی لمحات میں ہمیں اکٹھے کھانا کھانے، مختلف شخصیات سے ملنے، انٹرویوز ریکارڈ کرنے اور واک کرنے کا موقع بھی ملا۔

ان سارے قیمتی لمحات میں میرے لیے سب سے قیمتی لمحہ، ڈاکٹر خالد سہیل کا میرے گھر میں آنا اور ٹھہرنا تھا۔ مجھ سے زیادہ خوشی اور انتظار میری تین سالہ بیٹی کو تھا۔ جس نے گھر آمد پر ڈاکٹر خالد سہیل کو پھولوں کا گلدستہ اور سندھی ٹوپی پہنائی، اور اپنی ننھی منی شرارتوں سے ڈاکٹر خالد سہیل کو خوب محظوظ کیا۔ میرے لیے وہ لمحہ انتہائی شادمانی کا تھا جب ڈاکٹر خالد سہیل میرے تخلیق خانے میں، میری اس کرسی پر بیٹھے، جہاں میں اکثر اپنی تحریریں لکھتا، پڑھتا اور نئے خیالات کو قلم بند کرتا ہوں۔

ڈاکٹر خالد سہیل کے ساتھ گزرے ان چار دنوں میں زندگی کے نئے پہلوؤں، جہتوں کو دیکھنے، سوچنے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے، جس کے بارے میں، میں بے شمار باتیں اور پہلو لکھ سکتا ہوں اور لکھوں گا۔ فی الحال میں ابھی تک ڈاکٹر خالد سہیل سے ملاقات کے سحر میں جکڑا ہوا ہوں۔ ایک ایسا انسان جس کی موجودگی آپ کو ہر طرح کے ماحول سے لا تعلق کر دیتی ہے اور خود سے ایسے جوڑ لیتی ہے جیسے مقناطیس اپنی کشش سے لوہے کی چیزوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ ڈاکٹر خالد سہیل کی شخصیت میں وہ کرزما ہے جو انہیں انسانوں کی زندگی میں جھانکنے، ان میں بہترین تلاش کرنے اور انہیں تراشنے کی مہارت رکھتا ہے۔

نہ جانے کیوں مجھے احساس ہو رہا ہے، کہ میں بذات خود انہیں کراچی ائرپورٹ سے الوداع کہہ کر آیا ہوں لیکن ابھی تک یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے ڈاکٹر خالد سہیل میرے پاس ہی موجود ہیں۔ یہ ان کی شخصیت کا خاصہ ہے یا مجھ پر ان کی محبت کا سحر، یہ وقت کا پہر ہی واضح کر سکے گا۔ ڈاکٹر خالد سہیل سے ملنے کے بعد میرا یہ نظریہ بھی بدلا ہے کہ بڑا انسان وہ نہیں جس کے تعلقات بڑے اور بے شمار لوگوں سے ہوں یا جو بہت سارے لوگوں کو جانتا ہو۔

بلکہ عظیم انسان وہ ہے، جو مثبت، اچھی سوچ اور ہم خیال لوگوں کو آپس میں ملاتا ہے۔ ان چند دنوں میں مجھے بے شمار ایسی شخصیات کو جاننے اور ملنے کا موقع ملا اور احساس ہوا کہ ہم ایک ہی موضوع اور سمت میں کام کر رہے ہیں اور ہم سب کی کہانی اور مقصد بھی ایک ہی ہے اور ان سب کو ملانے والی بھی ایک ہی شخصیت ہے جس کا نام ڈاکٹر خالد سہیل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments