جرم بے گناہی میں جیند حفیظ کی اسیری: ایک عظیم المیہ
قید تنہائی کی لامحدود اذیت کا اندازہ محض ہندسے میں نہیں بلکہ ان لمحوں کو شمار کرنے سے ہوتا ہے جو اکیلے انسان پر ایک ایک صدی بن کے گزرتے ہیں۔ 27 سال قید تنہائی کاٹنے والے نیلسن منڈیلا نے اپنی کتاب ”لانگ واک ٹو فریڈم“ میں قید تنہائی کو جیل کی زندگی کا سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ”اس کی نہ کوئی ابتدا ہے اور نہ کوئی انتہا۔ صرف آپ کا اپنا دماغ ہے، جو تنہائی میں محض سوال کر سکتا ہے۔ کیا یہ خواب تھا یا واقعی ایسا ہوا؟ ہر چیز پر سوال کرنا شروع کر دیتا ہے۔ کیا میں نے درست فیصلہ کیا، کیا میری قربانی اس کے قابل تھی؟ اور پھر تنہائی میں، ان پریشان کن سوالات سے نجات پانے کا راستہ بھی نہیں ملتا۔
جنید حفیظ، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے یہ پروفیسر کبھی بھی میری یادداشت سے نہیں نکل سکے۔ وجہ وہ مقدمہ تھا جو انہوں نے بھگتا اور آخر کار انہیں سزائے موت کے حوالے کر گیا۔ جنید حفیظ کے ساتھ ایسا کیا ہوا تھا، یہ جاننے سے پہلے پاکستان میں توہین رسالت کے قوانین کے بارے میں جاننا ضروری ہے، کیونکہ پاکستان میں قوانین ہیں مگر یہاں توہین کے ”نامزد ملزم“ کا فیصلہ عدالتیں نہیں ہجوم کیا کرتے ہیں یہ جانے بغیر کہ ”الزام“ سچا تھا یا محض کسی دشمنی کا شاخسانہ۔
آج پاکستان کے پینل قانون میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا قانون سیکشن 295۔ اے (مذہبی جذبات ابھارنے، غم و غصہ پھیلانے ) ، 295۔ بی (قرآن کی بے حرمتی کرنا) ، 295۔ سی (پیغبمر اسلام کے نام کی بے حرمتی) اور 298۔ اے (پیغمبر اسلام کے اہل خانہ یا ان کے رفقا کی بے حرمتی) ہیں۔ ان میں سے اکثر قوانین کے تحت جب الزام عائد کیا جاتا ہے تو پولیس کو اختیار ہے کہ وہ ملزم کو گرفتار کر سکتی ہے کسی وارنٹ کے بغیر اور مجسٹریٹ کی عدالت کے حکم کے بغیر بھی اپنی تحقیقات کا آغاز کر سکتی ہے۔
وفاقی شرعی عدالت نے 1990 میں جماعت اسلامی کی ایک درخواست کے جواب میں فیصلہ دیا کہ 295۔ سی کے قانون کے تحت سزائے موت لازم ہے۔ اس وقت وزیر اعظم نواز شریف کی مذہبی طور پر قدامت پسند حکومت نے اس فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کی تھی جس سے یہ پاکستان کی تمام عدالتوں میں لازم قرار پائی تھی۔ نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس کے مطابق 1987 سے لے کر اب تک 633 مسلمانوں، 494 احمدیوں، 187 عیسائیوں، اور 21 ہندؤوں کے خلاف ان قوانین کے تحت مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر توہین قرآن کے مقدمات ہیں اور توہین رسالت کے مقدمات قدرے کم ہیں۔ جبکہ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان برسوں سے توہین مذہب کے کیسز پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کیسز میں زیادہ تر مسلمانوں ہی پر گرفت ہوتی ہے۔ سلمان تاثیر، راشد رحمٰن جیسے لوگ بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
جنوبی پنجاب کے اہم شہر راجن پور سے تعلق رکھنے والے جنید حفیظ نے ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں پری میڈیکل میں ٹاپ کیا اور کنگ ایڈروڈ میڈیکل کالج لاہور میں داخلہ لے لیا۔ لیکن ایم بی بی ایس کے پہلے ہی سال کے بعد انھیں احساس ہوا کہ وہ اس شعبے کے لیے نہیں بنے بلکہ ان کی طبیعت لٹریچر کی طرف مائل ہے۔ میڈیکل کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ادب کی دنیا کھوجنے کی ٹھانی۔ اس دوران جنید حفیظ کی پہلی نظم ”Hey You“ خلیج ٹائمز کے ینگ ٹائمز سیکشن میں چھپی۔ جس میں انہوں نے ایک اکیس سالہ نوجوان کے بدکتے ہوئے خیالات کا اظہار کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔
When I see you
I feel fairies smiling at me
Angels sprinkling dewdrops
The sun, the moon and the stars
the larks, the waters and flowers
this whole Universe dedicated to me
میڈیکل کی تعلیم ادھوری چھوڑنے کے بعد جنید حفیظ نے 2006 میں بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی میں انگلش لٹریچر کے شعبہ میں داخلہ لے لیا۔ تعلیمی کیریر میں نمایاں کارکردگی دکھانے کی وجہ سے انھیں فل برائٹ سکالرشپ پروگرام کے لیے منتخب کیا گیا اور وہ 2009 میں امریکہ میں اپنی ماسٹرز کی ڈگری مکمل کرنے چلے گئے۔
جہاں انہوں جیکسن سٹیٹ یونیورسٹی سے امریکی لٹریچر، فوٹوگرافی اور تھیٹر میں تعلیم حاصل کی اور پھر واپس پاکستان کی راہ لی۔ 2011 میں انھوں نے بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے انگلش ڈیپارٹمنٹ میں بطور وزیٹنگ لیکچرار مقرر ہوئے اور ساتھ ہی اپنی ایم فل کی ڈگری کے لیے بھی کلاسز میں داخلہ لے لیا۔ ان کا تھیسز کا موضوع ’این ایتھنوگرافک سٹڈی آف میسکولینیٹی ان پاپولر سنیما ان ملتان‘ یعنی ’ملتان کے مقبول سنیما میں مردانگی سے متعلق نسلی جغرافیے کا ایک جائزہ‘ تھا۔
جنید اپنی مختلف شخصی خوبیوں کی وجہ سے جلد ہی طلبہ میں مقبول ہونے لگے۔ یاد رکھئیے کہ اس یونیورسٹی میں پڑھنے والے زیادہ تر طلباء کا تعلق ارد گرد کے علاقوں سے تھا جنہیں آپ پاکستان کے تنگ نظر اور گھٹن زدہ علاقوں میں شمار کر سکتے ہیں۔ آہستہ آہستہ یونیورسٹی کے قدامت پرست گروپس جن میں طلبہ اور اساتذہ دونوں ہی شامل تھے، کی نظروں میں جنید کھٹکنے لگا مگر اس کے خلاف ”قابل گرفت“ مواد کی عدم دستیابی پر انہوں نے جنید حفیظ کے خلاف لبرل ازم اور دین بیزار کی غیر محسوس کیمپین شروع کر دی۔
جنید حفیظ پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ لبرل خیالات کے حامل لوگوں کو یونیورسٹی میں بلا کر مذہبی منافرت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ پاکستانی نژاد برطانوی مصنفہ قیصرہ شاہراز کے بہاؤ الدین یونیورسٹی میں بلائے جانے کا بھی ہے۔ قیصرہ کو یونیورسٹی کی ایک تقریب میں بلایا گیا جسے منعقد کرنے والوں میں جنید حفیظ بھی شامل تھے۔ اس تقریب کی اجازت وائس چانسلر سے لی گئی تھی اور اس سے شعبہ انگلش لٹریچر کی سربراہ شیریں زبیر سمیت مختلف لوگوں نے خطاب کیا، جن میں قیصرہ شاہراز بھی بطور مہمان سپیکر شامل تھیں۔ اس کے بعد میں کچھ لوگوں نے الزام لگایا کہ اس میں حفیظ نے ایسے کلمات کہے ہیں جن سے مذہبی دل آزاری ہوتی ہے۔
عالمی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق جنید حفیظ پر سوشل میڈیا پر مذہبی دل آزاری پر مبنی تبصرہ کرنے کا مقدمہ 13 مارچ 2013 میں درج کیا گیا تھا۔ سکیورٹی خدشات کے باعث اپریل 2014 کو کیس کی سماعت سینٹرل جیل میں کرنے کی ہدایات جاری ہوئیں۔
مقدمے کا آغاز 2014 میں ہوا جبکہ استغاثہ نے اس میں تیرہ شہادتیں دی تھیں۔ جس میں یونیورسٹی کے دیگر استاد، طالب علم اور پولیس کی شہادتیں بھی شامل ہیں۔
جنید پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے بعض لوگوں کے ساتھ مل کر ’نام نہاد لبرلز آف پاکستان‘ نامی ایک فیس بک صفحہ بنایا تھا جس پر انھوں نے ’ملا منافق‘ نامی ایک یوزر کے مذہبی شخصیات کے متعلق نازیبا کمنٹس (تبصرے ) کو نہ صرف ڈیلیٹ نہیں کیا بلکہ ’لائک‘ بھی کیا تھا۔ پولیس نے اپنی تحقیقات کے دوران اس صفحے کو ایک بڑی شہادت بنایا اور اسی بنیاد پر جنید حفیظ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور ذاتی کمپیوٹر کی بھی چھان بین کی گئی۔ واضح رہے کہ ’ملا منافق‘ کی پوسٹ 10 فروری 2013 کو لگائی گئی لیکن اس پر احتجاج 13 مارچ کو شروع ہوا۔ جبکہ وہ پوسٹ جنید کی نہیں تھی مگر الزام لگایا گیا کہ اس نے پوسٹ ڈیلیٹ نہیں کی۔
ملتان کی سیشن کورٹ نے سابق وزیٹنگ لیکچرار جنید کو مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں سزائے موت سنائی، جس پر اہل خانہ نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تقریباً سات سال تک جاری رہنے والے اس مقدمے میں کئی موڑ آئے، سب سے پہلے تو جنید کے پہلے وکیل راشد رحمان کو مقدمے کی پیروی کرنے پر ہی 7 مئی 2014 کو قتل کر دیا گیا اور یہ کیس لینے والے دوسرے وکیل پیروی سے دست بردار ہو گئے تھے۔ اسی طرح پیروی کرنے والے تیسرے وکیل کو بھی دوران سماعت دھمکیاں دی گئیں جبکہ اس ساری مدت میں مقدمے کی سماعت کرنے والے چھ جج بھی تبدیل ہوئے۔
حساس نوعیت کے اس مقدمے کی سماعت 2014 سے سینٹرل جیل میں کی گئی، جہاں جنید بند تھے۔ جنید کے خلاف 15 گواہوں کی شہادتیں اور زیر دفعہ 342 کے بیانات مکمل کیے گئے جبکہ مقدمے کے بقیہ 11 گواہوں کو ترک کر دیا گیا۔ جنید حفیظ اس وقت جیل میں ہیں اور کسی معجزے کے منتظر۔ ان کے والد اسے ایک جھوٹا مقدمہ قرار دے چکے ہیں جبکہ وکیل کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ کیس دو ہزار پندرہ میں ہی ختم ہو جانا تھا مگر کبھی گواہ پیش نہیں ہوئے تو کبھی سرکاری وکلاء غیر حاضر رہے۔ انتہائی حساس حالات کی وجہ سے اس مقدمے کا ٹرائل ملتان سنٹرل جیل میں ہوا اور اس مقدمے کا فیصلہ بھی ملتان جیل میں ہی سنایا گیا۔ جنید حفیظ کو توہین مذہب کا مرتکب پاتے ہوئے عدالت نے انھیں سزائے موت کا حکم دیا ہے۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کاشف قیوم نے سنیچر کو سنٹرل جیل ملتان میں اس مقدمے کے فیصلے میں جنید حفیظ کو دفعہ 295 اے، بی اور سی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے پھانسی کی سزا، عمر قید، دس سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔ فیصلے کے مطابق جنید حفیظ کی تینوں سزاؤں پر عملدرآمد ایک ساتھ شروع ہو گا۔ جس میں عمر قید اور قید کی سزا پوری ہونے پر پھانسی کی سزا دی جائے گی۔ جنید حفیظ اس وقت ملتان جیل میں اپنی سزا کاٹ رہے ہیں۔ والد نے اعلیٰ عدالت میں پیٹیشن دائر کر رکھی ہے اور انصاف کے منتظر ہیں۔
دوسری جانب دو ہزار انیس میں جب اس کیس کا فیصلہ سنایا گیا تو اس وقت کے وزیراعظم امریکہ دورے پر گئے تو یہ خیال تھا کہ امریکی حکومت وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے دوران جنید حفیظ کو رہا کرنے کی باقاعدہ درخواست کرے گی تاہم ایسا نہیں ہوا۔ یاد رہے کہ توہین مذہب الزامات میں دس سال تک قید رہنے والی آسیہ بی بی سپریم کورٹ سے رہائی حاصل کرنے کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ بیرون ملک منتقل ہو چکی ہیں۔ واضح رہے کہ جہاں ایک طرف پاکستان میں توہین مذہب ایک انتہائی حساس معاملہ قرار دیا جاتا ہے وہیں انسانی حقوق کے مختلف گروپس کا یہ موقف ہے کہ زیادہ تر اس قانون کو انتقام اور ذاتی مفاد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
جیسا کہ 2017 میں سوشل میڈیا پر توہین مذہب کے الزام لگانے کے بعد مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں ہجوم نے ایک طالب علم مشال خان پر تشدد کیا تھا جس سے ان کی موت واقع ہو گئی تھی۔ یہ بھی واضح رہے کہ اب تک ملک میں توہین مذہب کے الزام میں کسی کو بھی پھانسی نہیں دی گئی مگر ایسی قید کسی پھانسی سے کم نہیں۔
- ریاست بمقابلہ شگفتہ کرن اور بلاسفیمی کے گروہ - 15/10/2024
- نیلا آسمان، فسادات کے لیے موزوں وقت - 19/09/2024
- جبری گمشدگیوں کے شکار افراد کا عالمی دن - 31/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).