ترکی میں ایک دانشور اور سیاست دان کی جنگ


پاکستانیوں کا ترکوں کے ساتھ تحریک خلافت کے حوالے سے ایک تاریخی رشتہ رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام میں ایک دوسرے کے لئے پائی جانے والی محبت اور احترام کے پیش نظر پاکستان اور ترکی کی حکومتیں بھی ایک دوسرے کے لئے خیر سگالی کے جذبات رکھتی ہیں۔ بہت سے پاکستانی طلباء ترکی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ ہزاروں پاکستانی وہاں سیاحت اور کاروباری مقاصد کے لئے جاتے ہیں۔ پاکستانی چینلوں پر ترکی ڈرامے خاص طور پر میرا سلطان، فریحہ، عشق ممنوع اور فاطمہ گل بھی بہت مقبول ہوئے اور ان ڈراموں نے ترکی اور ترک ثقافت کو پاکستان میں متعارف کرانے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے اور اب یہاں بھارتی ڈراموں کی جگہ ترکی ڈراموں نے لے لی ہے۔

ڈراموں کے ساتھ ساتھ ترکی کی فلمیں بھی بہت معیاری ہوتی ہیں۔ ہالی ووڈ کی عراق سے متعلق امریکی میرین کی حمایت میں بننے والی فلموں کے برعکس مجھے عراق میں امریکہ کے کردار پر اور فلسطین میں اسرائیل کے کردار پر ترکی کی دو فلمیں وولف آف دی ویلی:عراق اور وولف آف دی ویلی: فلسطین دیکھنے کا اتفاق ہوا جس سے دونوں ملکوں کی طرف سے عراق اور فلسطین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر موثر انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔

ان فلموں نے عالمی سطح پر ریکارڈ بزنس بھی کیا۔ ترکی کے بارے میں عام پاکستانی عوام بھی بہت حساس ہیں اور ان کے دل سے ترکی کے استحکام کی دعائیں نکلتی ہیں۔ رجب طیب اردگان کی قیادت میں ترکی تمام مسلم ممالک کے لئے ایک رول ماڈل کی حیثیت سے ابھرا ہے جہاں کے شہریوں کو زندگی کے تمام شعبوں میں بھر پور مواقع میسر آ رہے ہیں۔ ترکی اس وقت دنیا کی پندرہویں بڑی اکانومی بن چکا ہے۔ پاکستان کی طرح ترکی بھی بہت جغرافیائی اہمیت رکھتا ہے جو ایک طرف مڈل ایسٹ اور ایشیاء تو دوسری طرف یورپ سے منسلک ہے۔

پاکستان اور ترکی رقبے کے اعتبار سے تقریباً برابر ہیں جبکہ ترکی کی آبادی آٹھ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان میں فی کس 1600 ڈالر آمدنی کے مقابلے میں ترکی میں فی کس آمدنی بارہ ہزار ڈالر ہے اور پاکستان کے تیرہ بلین ڈالر کے زر مبادلہ کے ذخائر کے مقابلے میں ترکی کے زر مبادلہ کے ذخائر 71 بلین ڈالر کے قریب ہیں۔ جہاں ترکی کی تیز رفتار ترقی کئی عناصر کے لئے رشک کا باعث ہے وہاں کئی عناصر کے لئے یہ حسد کا بھی باعث ہے اور وہ ترکی میں عدم استحکام چاہتے ہیں۔

اس لئے ترکی کے مرد آہن رجب طیب اردگان کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانے اور ان عناصر سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے جنھوں نے ترکی کو شام کی جنگ میں فریق بنانے پر اکسایا جس کے نتیجے میں اب ترکی بھی دہشت گردی کی زد میں ہے۔ ترکی میں ہونے والی ناکام بغاوت کے پیچھے ترک حکومت کی طرف سے تواتر کے ساتھ فتح اللہ گولن کا نام منسلک کیا جا رہا ہے۔ ترکی کی سیاست کے پس منظر میں طیب اردگان سے جذباتی تعلق کا مظاہرہ کرنے والے بہت سے پاکستانیوں کو فتح اللہ گولن اور رجب طیب اردگان کے مابین جاری چشمک اور خاص طور پر فتح اللہ کی شخصیت کے بارے میں جاننے کی بہت ضرورت ہے۔

یہ کالم اسی تجسس کے پیش نظر لکھا گیا ہے۔ گو محض ایک مختصر مضمون کی تنگ دامنی فتح اللہ گولن کی تعلیمات، خدمات اور کردار کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے کیونکہ فتح اللہ گولن کو سمجھنے کے لئے کئی دفتر درکار ہیں اور ان کی ہمہ جہت شخصیت پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ میری اعتذارانہ مماثلت میں کچھ فرق کے ساتھ آپ یوں سمجھ لیں کہ کسی زمانے میں جس طرح میاں نواز شریف اور ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان جو محبت کا رشتہ تھا ویسا ہی رشتہ صدر طیب اردگان اور فتح اللہ گولن کے مابین تھا (گو طیب اردگان یا ان کے خاندان کا کوئی کاروباری پس منظر نہیں تھا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اب وہ اور ان کا خاندان کئی بلین ڈالر اثاثہ جات کے مالک بن چکے ہیں ) اور رجب طیب اردگان ان کو اپنا روحانی پیشوا مانتے تھے۔

بہرحال امریکہ میں خود ساختہ جلا وطنی کاٹنے والے 82 سالہ حنفی سنی فتح اللہ گولن اسلامی دنیا کی ایک عظیم سیاسی، سماجی، مذہبی، دانشور اور روحانی شخصیت ہیں جو ترک نیشنل ازم پر یقین رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک ریاست کے دوسری ریاست سے جڑے مفادات کے پیش نظر مارکیٹ اکنامکس اور نیو لبرل اکنامک پالیسیوں کا بھی بخوبی ادراک رکھتے ہیں۔ وہ ترکی میں گولن موومنٹ جو عرف عام میں حزمت تحریک (خدمت کی تحریک) بھی کہلاتی ہے کے بانی ہیں۔

ایک معمولی سے دینی گھرانے سے تعلق رکھنے والے فتح اللہ گولن کے والد پیشے کے اعتبار سے ایک گاؤں کے امام تھے اور فتح اللہ کے والدین اتاترک کے سیکولر نظریے کے تحت حکومت کی طرف سے پابندی کے باوجود گاؤں کے بچوں کو اسلام اور قرآن کی عربی زبان میں تعلیم دیتے تھے۔ فتح گولن کی ابتدائی تعلیم کے دوران ہی ان کے گھرانے کو ترکی کے سیکولر تشخص کو مسخ کرنے کی پاداش میں متعدد بار سزا کے طور پر مختلف علاقوں میں ہجرت کرنا پڑی۔

چنانچہ فتح اللہ کو سکول کی تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی اور ازاں بعد انھیں ایک دینی مدرسے میں داخل کرا دیا گیا۔ چودہ سال کی عمر میں انھوں نے اپنا پہلا وعظ سنایا۔ وہ ترقی پسند کرد مذہبی راہنما سعید نورسی کے خیالات سے بہت متاثر تھے جو جدید سائنس اور منطق کو مستقبل کی بنیاد تصور کرتے تھے۔ فتح اللہ گولن مذہبی آزادی دینے والے جمہوری سیکولرازم پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کے بھی حامی ہیں اور خواتین کے حقوق بارے تقی پسندانہ خیالات و نظریات رکھتے ہیں۔

ان کے مطابق ”ایک مسلمان دہشت گرد نہیں ہو سکتا اور نہ ایک دہشت گرد سچا مسلمان ہو سکتا ہے۔“ بظاہر سال 2016 کے دوران ترکی میں مارشل لاء کی ناکام کوشش صدر رجب طیب اردگان اور فتح اللہ گولن کے درمیان سیاسی سے زیادہ شخصی تنازعہ کا شاخسانہ تھا جسے طیب اردگان نے بہت خوبصورتی سے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا کیونکہ اس فوجی انقلاب کا سارا ملبہ فتح اللہ گولن اور حزمت کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ حزمت تحریک کے ترکی سمیت دیگر ممالک میں لاکھوں پیروکار ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ حزمت کے ارکان ترک فوج، پولیس اور عدلیہ سمیت ہر شعبے میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ترکی میں حزمت تحریک کو ریاست کے اندر ریاست بھی کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر رجب طیب اردگان نے بارہا فتح اللہ گولن کی طرف اشارہ کر کے کہا ہے کہ ملک میں ایک متوازی حکومت کام کر رہی ہے، مطلب سرکاری اداروں میں حزمت کے لوگ تنخواہ ترک حکومت سے لیتے ہیں ہے لیکن کام حزمت کے لئے کرتے ہیں۔ یہ طیب اردگان کا خوف اور وہم ہے کہ وہ فتح اللہ گولن کی غیر سیاسی حزمت تحریک کو اپنے لئے خطرہ سمجھنے لگے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ کچھ شرپسند لوگوں نے ترکی کے حالات خراب کرنے کے لئے صدر رجب طیب اردگان کو غیر ضروری طور پر حزمت کے خلاف بھڑکایا ہے۔ ترکی میں ہر دوسرا یا تیسرا خاندان حزمت سے منسلک ہے اور اگر طیب اردگان نے حزمت کے خلاف کارروائیاں شروع کیں تو اس سے ترکی عدم استحکام سے دو چار ہو سکتا ہے۔ طیب اردگان 1974 سے سیاست میں ہیں اور انھوں نے موجودہ مقام سخت محنت کے بعد حاصل کیا ہے۔ اردگان بہترین انتظامی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ایک ذہین آدمی ہیں۔

انھوں نے گڈ گورننس کو فروغ دے کر ایک طرف تو ترکوں کی معاشی اور سماجی حالت کو بدل ڈالا اور دوسری طرف ترک معاشرے کے سیکولر تشخص کو چھیڑے بغیر ترکوں کے مذہبی میلانات کو بھی سیاسی کامیابیوں کے لئے خوبصورتی سے استعمال کیا۔ فتح اللہ گولن کی حزمت تحریک کا ان کی سیاسی کامیابی میں بہت بڑا کردار رہا ہے۔ لیکن جس طرح صدر رجب طیب اردگان ترکی میں ادارہ جاتی استحکام کی بجائے شخصی آمریت کے راستے پر گامزن ہیں وہ چند سالوں بعد ترکوں کو مشکلات میں ڈال سکتا ہے۔ پچھلے سال ہونے والے صدارتی الیکشن میں وہ محض چار فیصد ووٹوں کی برتری حاصل کر سکے جبکہ

اپوزیشن کی طرف سے ان پر شدید دھاندلی کے بھی الزامات عائد کیے گئے۔ ان کی مہم جویانہ طبیعت کو دیکھتے ہوئے بعید از قیاس نہیں کہ ترکی میں فتح اللہ گولن کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے خائف ہو کر انھوں نے یا ان کے کچھ ساتھیوں نے ناکام مارشل لاء کا ڈرامہ رچایا ہو تاکہ اس کے پردے میں انھیں حزمت کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا موقع میسر آ سکے اور بعد میں پیش آنے والے واقعات اس امر کی تصدیق کرتے ہیں۔ ترکی میں حزمت کے زیر انتظام سینکڑوں ادارے حکومت کی طرف سے پہلے ہی بند کیے جا چکے ہیں۔

یاد رہے حزمت تحریک کے ترکی سمیت دنیا بھر میں ملٹی بلین ڈالرز کے نہ صرف کئی ایک مالیاتی ادارے ہیں بلکہ متعدد تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ میڈیا ہاؤسز بھی ہیں۔ نہ صرف ترکی میں بلکہ باقی پاکستان سمیت دیگر کئی ممالک میں بھی جہاں طیب اردگان اثر انداز ہو سکتے تھے حزمت کے دفاتر اور کاروباری اداروں پر زبردستی قبضہ کر کے انھیں ترک حکومت کے حوالے کیا گیا۔ اگرچہ فتح اللہ گولن نے کئی بار کہا ہے کہ ان کی تحریک کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ان کا مقصد لوگوں کی سماجی خدمت کرنا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ طیب اردگان کی شام سمیت دیگر معاملات میں پالیسیوں اور حکومتی کرپشن کے ناقد بھی ہیں۔

ان سب باتوں سے ہٹ کر ترکی کی عوام نے جس طرح فوجی بغاوت کے خلاف اپنی قانونی حکومت کا دفاع کیا تھا وہ لائق تحسین ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا جو ترکی کی دونوں عظیم شخصیات مفاہمت کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ترکی کے بہتر مستقبل کے لئے ایک دوسرے کی معاونت کرتے۔ دیکھتے ہیں ترکی میں ایک دانشور اور ایک سیاست دان کی جنگ آئندہ کیا رخ اختیار کرتی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments