شکست تخت پہلوی (3) – بوڑھا شیر
4 فروری 1949 کی ایک زرد دوپہر تہران یونیورسٹی کی فضا گولیوں سے گونج اٹھی جہاں لوگوں کا مجمع شاہ کی آمد پر جمع ہوا تھا۔ شاہ کھلی جگہ پر درجنوں لوگوں کے درمیان سے گزر رہے تھے جب ایک شخص نے کیمرے میں چھپا ریوالور نکالا، ان کے سر کا نشانہ لیا اور نزدیک سے فائر کر دیے۔ شاہ کہتے تھے۔ ”پہلی تین گولیاں میرے سر کو چھوئے بغیر میری ملٹری کیپ سے ہوتی ہوئی گزر گیں۔ لیکن حملہ آور کی چوتھی گولی میرے رخسار کی ہڈی سے لگ کر میرے ناک سے گزری۔ اب وہ میرے دل کا نشانہ لے رہا تھا۔ میں خود کو بچانے کے لیے ادھر ادھر ہوا۔ اس نے دوبارہ گولی چلائی اور میرا کندھا زخمی ہو گیا۔ اس کی آخری گولی اٹک گئی۔ مجھے عجیب سا احساس ہوا کہ میں زندہ تھا“ ۔ بادشاہ کے باڈی گارڈز نے جوابی فائر کیے اور حملہ آور موقعہ پر ہلاک ہو گیا۔ شاہ کو فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا۔ ان کا خون بہہ رہا تھا۔ اسی شام پٹیوں میں بندھے شاہ نے ریڈیو پر قوم سے خطاب کیا اور عوام کو یقین دلایا کہ وہ خیریت سے ہیں۔
یہ دوسری بار شاہ نے موت کو شکست دی۔ ایک سال سے بھی کم عرصہ پہلے وہ ایک ہوائی جہاز چلا رہے تھے جو غیر متوقع طور پر کنٹرول سے باہر ہو گیا اور تیزی سے زمین کی طرف آنے لگا۔ شاہ کا کہنا تھا ”ہمیں ہنگامی طور پر جہاز کو پہاڑی علاقے پر اتارنا پڑا جو چٹانوں اور پتھروں سے اٹا ہوا تھا۔ انجن کام نہیں کر رہا تھا اور جہاز پر کوئی کنٹرول نہیں تھا۔ انہوں نے بمشکل جہاز کو اوپر اٹھایا اور ایک قدرے مناسب جگہ دیکھ کر چٹانوں سے بچاتے ہوئے لینڈنگ کی۔ جہاز کے پہیے اور نچلا دھڑ ٹوٹ گیا اور جہاز قلابازی کھاتا زمین سے آ لگا۔“ ہم وہاں اپنی سیٹ بیلٹ میں بندھے کھلے کاک پٹ میں بیٹھے تھے ہم میں سے کسی کو ایک خراش تک نہ آئی۔ مجھے یاد ہے کہ میں اس صورت حال سے اتنا محظوظ ہوا کہ ہنسنے لگا۔ لیکن میرا ساتھی جو اوندھا لٹکا ہوا تھا اسے یہ بات مضحکہ خیز نہیں لگی۔ ”جہاز کا حادثہ اور یونیورسٹی کی شوٹنگ نے شاہ کو یہ یقین دلا دیا کہ ان پر خدا کا سایا ہے۔
پولیس نے تہران یونیورسٹی کے باہر شاہ پر حملے کا الزام کمیونسٹوں پر لگا دیا، تحقیق کرنے والوں کو خوب علم تھا کہ حملہ آور ایک مذہبی گروپ ’فدائین اسلام‘ سے تعلق رکھتا تھا یہ ایک شیعہ گروپ تھا جو ایران میں اسلامی قوانین کا نفاذ اور مغربی سیکولرازم سے اثرات سے دور رکھنا چاہتا تھا۔ اسی سال مذہبی جنونیوں نے ایک وزیر علی رزم آرا کو مسجد سپاہ سالار میں ہلاک کر دیا۔
جنگ عظیم دوم تمام ہو چکی تھی لیکن ملک میں استحکام تو کیا آتا ایک سرد جنگ کے خطرے منڈلانے لگے۔ ایران کی تیل کی دولت پر کئی نظریں تھیں۔ جنگ کے اتحادیوں نے تحریری معاہدہ کیا تھا کہ جرمنی کی شکست کے چھ ماہ کے اندر وہ اپنی فوجیں ایران سے واپس بلا لیں گے۔ اسٹالن نے برطانیہ اور امریکہ کو امتحان میں ڈال دیا یہ کہہ کر کہ وہ ابھی روسی فوج میدان میں رکھے گا۔ ایسا وہ آذربائیجان کی کٹھ پتلی حکومت کی مدد کے لیے چاہتا ہے۔ لیکن امریکی صدر ٹرومین کی ڈپلومیٹک ایڈمنسٹریشن نے ماسکو کو بے دخل کیا اور آذربائیجان کو بھی کمیونسٹ غلبے سے آزادی دلائی۔
یہ سرد جنگ کا ایک اہم واقعہ تھا جس نے شاہ اور ان کے ملٹری جنرلوں کو اس بات پر قائل کر لیا کہ اگر ایران کو آہنی پردے سے بچنا ہے تو انہیں امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے چاہیں۔
تہران ماڈرن ہو رہا تھا۔ شہر میں بڑی بڑی سڑکیں تھیں، ٹریفک لائٹیں تھیں، فون تھے اور اونچی اونچی عمارتیں بھی لیکن یہاں اب بھی سینٹری اور پانی کا نظام ناقص تھا۔ تہران امیروں کے ہاتھ صاف کرنے والا جھاڑن تھا۔ قیمتی گاڑیوں کی بہتات تھی۔ شہر کے شمالی مضافات میں اونچی دیواروں والے بنگلے بن رہے تھے۔ دوسری طرف جنوب میں لوگ بدحال تھے۔ شاہ، ان کے وزیروں اور مغربی ڈپلومیٹ کو اندیشہ تھا کہ ایران کی پسماندہ معیشت اور کمزور حکومت کی وجہ سے بادشاہت کو کمیونزم سے خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس وقت یورپ، مشرق وسطی اور ایشیا میں بادشاہتیں گر رہی تھیں اور ایسے میں ملکہ فوزیہ کا یہ فیصلہ کہ وہ تہران چھوڑ کر قاہرہ جا رہی ہیں جہاں وہ طلاق دائر کریں گی۔ ایسا ہی تھا کہ پہلوی خاندان کا خاتمہ صرف ایک گولی کی دوری پر تھا۔ شاہ بے تابی سے اپنے ملک اور اپنی ماں کو ایک وارث دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے نئی بیوی کی تلاش شروع کر دی۔
٭٭٭ ٭٭٭
ثریا اسفند یاری کا تعلق بختیاری قبیلے کے سرداروں سے تھا۔ ان کے والد خلیل اسفند یاری بیس کی دہائی کے آخر میں رضا شاہ کے وقت میں سیاسی مسائل کی بنا پر ایران چھوڑ کر جرمنی جا بسے تھے۔ یونیورسٹی کے زمانے میں انہیں ایوا کارل سے محبت ہو گئی جو جرمنی کے متمول کیمیکل انڈسٹری کے مالک کی بیٹی تھیں۔ خلیل اور ایوا کی لمبی کورٹ شپ کے بعد شادی ہو گئی اور وہ ایران منتقل ہو گئے۔ 1932 میں ان کی بیٹی ثریا پیدا ہوئی۔ ایوا ایرانی ماحول میں خود کو ڈھالنے کی مشکل سے گزرتی رہی اور اسفندیار جوڑے نے واپس جرمنی جانے کا فیصلہ کر لیا لیکن جنگ چھڑ گئی اور انہیں فوری ایران واپس آنا پڑا اور اس کے بعد وہ سوٹزرلینڈ چلے گئے۔
ثریا نے ایک بار بتایا کہ بار بار سکونت تبدیل کرنے سے وہ ہر جگہ سے وابستہ رہی اور کبھی کہیں بھی وابستگی نہ ہو سکی۔ کبھی اپنا تعارف کرسچن کے طور پر اور کبھی مسلم کے طور پر لیکن نہ کبھی پورے طور پر خود کو ایرانی محسوس کر سکی اور نہ جرمن۔ ثریا نے خود ایک بار کہا ”یہ سب عجیب تھا۔ میری آنکھیں جو بہت ہلکے رنگ کی تھیں اور میری جلد کا رنگ بھی زیادہ سفید تھا۔ میں ایرانی آداب سے بھی ناواقف تھی۔ میں اکیلی بھی تھی اور تنہا بھی۔“
اسکول ختم کرنے کے بعد ثریا نے لندن جا کر انگریزی کی کلاسیں لینے کا پروگرام بنایا اس امید پر کہ ایک دن وہ ہالی ووڈ جا کر فلم ایکٹریس بنیں گیں۔ وہ نہیں جانتی تھیں کہ وہ اصلی زندگی میں ایک بہت بڑا کردار ادا کرنے والی ہے جو کسی بھی ہالی ووڈ فلم سے زیادہ ڈرامائی ہے۔ ثریا کی خوبصورتی کی خبریں تہران بھی پہنچیں۔ مادر ملکہ تاج الملوک پہلوی خاندان کی سربراہ تھیں اور کسی بھی حالت میں بھی شکست قبول نہیں کرتی تھیں۔ تحقیق شروع کی کہ کیا اپنے بیٹے کی شادی کا پیغام دیں۔ خلیل اسفند یاری کے ایک رشتے دار نے انہیں ثریا کی تصویر دی۔ ملکہ نے اپنی بیٹی شمس کو کہا کہ وہ اس سبز آنکھوں والی لڑکی کو پیرس بلا کر اس سے ملے اور جائزہ لے۔ شمس جا کر ثریا سے ملی اور بہت متاثر ہوئی۔ اس نے اپنی ماں کو خبر دی کہ ان کی تلاش تمام ہوئی۔ ایران کو نئی ملکہ مل گئی۔ نوعمر ثریا پوری بات سے بے خبر تھی۔ خلیل اسفند یاری نے بیٹی کو یہی بتایا کہ شاہ نے درخواست کی ہے وہ تہران آئے اور شاید ہو سکتا ہے کہ شادی کا پیغام بھی ہو۔ باپ نے یہ بھی کہا کہ دونوں خاندانوں کے بڑوں کا خیال ہے کہ پہلوی اور بختیاری کا یہ بندھن پسندیدہ رہے گا۔ لیکن یہ بات بھی بیٹی کو سمجھا دی کہ آخری فیصلہ اسی کا ہو گا۔ اور یہ شادی اس پر تھوپی نہیں جائے گی۔
ثریا نے کہا ”اگر شاہ نے مجھے پسند نہ کیا تو وعدہ کیجیئے کہ مجھے امریکہ کے ڈراما اسکول میں بھیج دیں گے“ ۔ باپ نے یہ بات مان لی اور یقین دلایا کہ اگر انکار ہوا تو کوئی اسکینڈل نہیں بنے گا۔ ثریا نے دوران پرواز روم سے گزرتے ہوئے ایک اخبار دیکھا جس کی سرخی میں اسے ایران کی نئی ملکہ لکھا ہوا تھا۔ ثریا نے بعد میں یہ اعتراف کیا کہ وہ اس رومانس اور ڈرامے سے متاثر ہوئی۔ اس کی حالت ایک معصوم اسکول گرل جیسی تھی جو ’خوابوں کے شہزادے‘ سے شادی کرنے جا رہی تھی۔ ثریا نے یاد کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ وہ جوان شاہ سے مل کر کتنی متاثر ہوئی تھی جو اپنے محل کی ایک تقریب میں آرمی جرنل کی یونیفارم پہنے ہوئے تھے۔ ”وہ بہت شاندار اور مسحور کن لگ رہے تھے۔ وہ بہت پرکشش بھی تھے اور اگلے دن صبح سے پہلے انہوں نے شادی کا پیغام بھی دے دیا“ ۔ ان کی باہمی محبت اب سب پر ظاہر ہو رہی تھی شادی سے ایک رات پہلے ثریا ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہو گیں اور شادی چھ ہفتوں کے لیے ملتوی کرنی پڑی۔
دلہن اس وقت بھی کمزور اور بخار میں تھی جب 12 فروری 1951 کو اسے گاڑی میں کاخ سفید لے جایا جا رہا تھا۔ وہ زمردوں سے سجی، ’ڈیور‘ کا عروسی لباس پہنے ہوئے تھیں جو اتنا بھاری تھا کہ لگتا تھا کہیں وہ اسے سنبھالتے ہوئے گر نہ جائیں۔ شادی کی تقریب میں دو سو لوگوں سے کھڑے ہو کو ہاتھ ملاتے ہوئے ثریا کی ٹانگیں جواب دے گیں۔ نئی نویلی ملکہ کو ہال سے منسلک ایک چھوٹے سے کمرے میں لے جایا گیا اور انہیں ایمونیا کے نمک سنگھائے گئے۔ ان کے پریشان شوہر آئے اور تجویز دی کہ ملکہ کے لباس کی کچھ اندرونی تہیں جو دس میٹر لمبی تھیں کاٹ دی جائیں۔
لوگوں سے اور ملازموں سے دور وہ خلوت میں بھی ایک دوسرے کو ”آپ“ (شما) کہہ کر بلاتے۔ ثریا اس دور کو یاد کر کے کہتی ہیں ”باوجود اس کے کہ وہ پہلے ایک شادی کر چکے تھے اور یہ کہ مجھ سے پہلے ان کی انگنت معشوقائیں رہ چکی تھیں پھر بھی وہ اپنے جذبات اور محبت کا اظہار پسند نہیں کرتے تھے۔ صرف ان کی آنکھیں تھیں جو بولتی تھیں۔ سیاہی مائل گہری براؤن چمکتی آنکھیں جو ان کے مختلف جذبات کو منعکس کرتیں۔ کبھی سخت، کبھی مہربان۔“
ثریا ایک ضدی نوعمر لڑکی تھی جسے اپنی مرضی کرنے کی عادت تھی۔ ان کا مزاج بھی تیز تھا۔ ایک دفعہ انہوں نے اپنے شوہر کو اپنے بستر سے بیدخل کر دیا، شاہ نے برداشت کیا اور کمرے سے باہر ایک کیمپنگ پلنگ پر سونے لگے۔ کئی ہفتے گزر گئے تو ایک درباری اہل کار نے کہا کہ ملکہ عالیہ اعلی حضرت کو اپنے بستر پر آنے کی اجازت دے دیں۔ ملکہ نے کمرے کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا
”وہ اپنا پلنگ وہاں لگا سکتے ہیں“
باہر کی دنیا میں ثریا کی خوبصورتی کے چرچے تھے۔ لیکن ان کا سرد مہر رویہ اور بے تکی گفتگو بھی وجہ شہرت بنی۔ ثریا کو ہنگامہ کرنے سے کوئی ڈر نہیں تھا۔ ایک شام جب وہ دونوں خاندان کے افراد اور دوستوں کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے ثریا نے سب کو ششدر کر دیا جب انہوں نے ایک گلدان اٹھا کر دیوار پر دے مارا۔ دربار کے ملازموں نے انہیں ’جرمن عورت‘ کا لقب دے دیا۔ وہ اکثر شاہی آداب کو رد کر دیتیں۔ رسمی لباس پہننا جہاں ضروری ہوتا وہ انکار کر دیتیں خود کو دفتری کاموں سے دور کر دیتیں کیونکہ یہ سب ان کے لیے اکتاہٹ کا باعث ہوتا۔ ان کا رویہ غیر ملکی معززین کو شرمندہ کر دیتا اور ان کے برے سلوک وجہ سے ان کی ذاتی خدمت گار خواتین اور دوسرے اہلکار نالاں رہتے۔ انڈیا کے سرکاری دورے پر ایک رسمی تقریب میں گئیں جہاں سے بغیر میزبانوں کا شکریہ ادا کیے۔ وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گیں۔ ایک بار ایک پارٹی میں گفتگو ہوئی کہ ایک آئیڈیل عورت میں کیا خوبیاں ہونی چاہئیں۔ شاہ نے کیا ”میں بہت خوش نصیب ہوں جیسی عورت میں چاہتا ہوں ملکہ بالکل ویسی ہی ہیں۔“ ثریا کے فوری جواب نے کمرے میں موجود لوگوں شاک میں آ گئے۔ ملکہ نے کہا ”میں اعلی حضرت کے بارے میں ایسا نہیں کہہ سکتی“۔
محل کے افسران کے لیے یہ بات خجالت آور تھی کہ ثریا نے شاہ کو قابو میں کیا ہوا ہے۔ شاہ کی نوعمر بیٹی کے ساتھ بھی بدسلوکی کرتی تھیں۔ ثریا نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا کہ انہوں نے پوری کوشش کی شاہناز کو خوشدلی سے اپنانے کی۔ شادی کے بعد شاہ نے بیٹی کو یورپ کے ایک بورڈنگ اسکول میں بھیج دیا جہاں گھر سے دوری کے باعث وہ سخت اداس رہی۔ اسے لگا کہ اسے سب نے چھوڑ دیا ہے۔ ایک بار جب شاہ اور ملکہ شاہناز سے ملنے اس کے اسکول گئے تو حاسد ملکہ نے اپنے احساسات کا برملا مظاہرہ کیا۔ اور شرمندہ کرنے والے جملے کہے۔ ثریا کا رویہ شہزادی کے ساتھ اچھا نہیں تھا۔ شاہ اپنی بیٹی کو بہت چاہتے تھے۔ پھر وہ بھی بدل گئے اور بیٹی کو یکسر الگ کر دیا۔ کیونکہ ثریا کو شاہناز پسند نہیں تھی۔ شاہ کو اپنی پہلی اولاد کو نظرانداز کرنے کی بعد میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔
٭٭٭ ٭٭٭
نئے شادی شدہ جوڑے کا ہنی مون کا پروگرام ملتوی ہو گیا جب فدائین اسلام نے وزیراعظم رزم ٓآرا کو ایک حملے میں ہلاک کر دیا جو کوشش کر رہے تھے کہ کسی طرح اینگلو ایرانین آئل کمپنی سے ایرانی تیل پر ملکیت کا تنازعہ حل ہو جائے۔ پارلیمان کے اسپیکر آیت اللہ عبدالقاسم کاشانی ایک عالم تھے۔ جنگ کے زمانے میں جرمن نازیوں سے ہمدردی رکھتے تھے اور تیل کو قومیانے کے شدید حامی تھے۔ اس کے ساتھ وہ نوجوان ملاؤں کے لیے ایک رہنما تھے جو ملک میں سیکولرازم ہٹا کر اسلامی قوانین لانا چاہتے تھے۔ کاشانی کو پسند کرنے والے بہت تھے جن میں ایک نوجوان ملا روح اللہ خمینی بھی شامل تھے جن کی اپنی سوچ تھی کہ شیعہ علما کو سیاسی طور پر عوام میں جانا چاہیے۔ کاشانی کو فدائین اسلام کی حمایت بھی حاصل تھی۔
’مجلس‘ کی طرف سے محمد مصدق کا نام بطور نامزد وزیراعظم کے لیے لایا گیا۔ مصدق نیشنل فرنٹ سیاسی جماعت کے بانی تھے۔ یہ پارٹی بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھتی تھی اور برطانیہ کے لئے ایرانی تیل کی رعایت کی مخالف تھی۔ مصدق نے جلد ہی لوگوں کے دل جیت لیے۔ شاہ نے مصدق کے حق میں وزارت عظمی کی منظوری دے دی۔ وہ آئینی طور پر ایسا کرنے کے پابند تھے۔ نئی حکومت نے جب تیل کمپنی اینگلو ایرانی آپریشن کو ووٹ کے ذریعہ قومیایا تو شاہ نے کوئی رکاوٹ نہیں کھڑی کی۔ مصدق کی بائیں بازو کی پارٹی نیشنل فرنٹ نے کاشانی کی دائیں بازو مذہبی جماعت سے اتحاد کیا جو خود بھی تیل کو قومیانا چاہتی تھی اور ایرانی سیاست ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔ شاہ نے اس اتحاد کو ’سرخ و سیاہ‘ کا نام دیا۔ ساری زندگی وہ ایک سوشلسٹ پارٹی اور ایک مذہبی اتحاد کو ناپاک کہتے رہے۔ مصدق کی بحیثیت وزیراعظم مقبولیت نے ایک نیا محاذ کھڑا کر دیا۔ دونوں افراد کا تعلق پرانا تھا۔ 1940 میں نوجوان ولی عہد نے اپنے والد کی مرضی کے خلاف جا کر اس عمررسیدہ شخص کی جان بچائی تھی۔
٭٭٭ ٭٭٭
” میں کبھی نہیں بھولوں گا جو آپ کے شوہر نے میرے ساتھ کیا۔ میں کبھی بھی ان کے خلاف نہیں جاؤں گا“ 1951 کے موسم بہار اور پھر موسم گرما میں مصدق بار بار ملکہ ثریا کو یقین دلاتے رہے کہ وہ اپنی زندگی کو ان کے شوہر کی دین سمجھتے ہیں اور احسان مند ہیں جب رضا شاہ نے انہیں جیل میں ڈالا تو محمد رضا نے انہیں نجات دلائی تھی۔ اب 69 سال کی عمر میں یہ ’بوڑھا شیر‘ ایران میں جمہوریت لانے اور ایران کو دنیا میں ایک نئی پہچان دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ مصدق نے ناصر الدین کی پوتی سے شادی کی جو ایران پر پچاس سال بادشاہت کرنے کے بعد 1896 میں گولی کا نشانہ بنے تھے۔ فرانس اور سوئٹزرلینڈ میں سیاست اور قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مصدق پرشیا میں آئینی انقلاب کے دور میں واپس آئے۔ وہ ایران کے صوبوں فارس اور آذربائیجان کے گورنر بھی رہے اس کے بعد ایران کے وزیر خزانہ بنے۔ مصدق ان چند پارلیمنٹیرین میں سے تھے جنہوں نے پہلوی خاندان کی مطلق العنانی کی مخالفت کی اور رضا شاہ کے حکم سے انہیں جیل بھی ہوئی۔ مصدق نے اپنی پارٹی نیشنل فرنٹ کی بنیاد ڈالی جو نیشنلائزیشن کی حامی تھی۔
1951 میں مصدق وزارت اعظمی تک پہنچ گئے اور نیشنلائزیشن کے قانون پر کام شروع کر دیا۔ اس اقدام سے کمیونسٹ مخالف ممالک میں تشویش پائی جانے لگی۔ سب سے بڑھ کر برطانیہ پر اس کا اثر پڑا جو جنگ کے بعد اپنی بیمار معیشت کو سنبھالنے کے لیے ایرانی تیل پر انحصار کر رہا تھا۔ ایرانی تیل کھو دینے سے برطانیہ کی معیشت ایک بحرانی کیفیت میں تھی اور دیوالیہ ہونے کے قریب تھی۔ فوری طور پر برٹش افسروں نے مصدق کی حکومت گرانے کا منصوبہ بنایا۔ مصدق کو ہٹا کر ایرانی تیل پر دوبارہ قبضہ حاصل کرنے کے لیے لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا۔ شاہ عوام میں مصدق کی مقبولیت سے خائف تھے۔ وہ تیل کو اصولی طور پر قومیانے کے حامی تھے لیکن وہ چاہتے تھے کہ اس پر بات چیت ہو تاکہ کوئی بین الاقوامی تنازعہ کھڑا نہ ہو۔
وزیراعظم مصدق شاہ سے اپنی ہفتہ وار ملاقات کے لیے آتے اور ان کی گاڑی سعد آباد کے محل کے باہر آ کر رکتی۔ جو بھی مہمان محل میں آتے ان کی گاڑیاں باہر ہی رکتیں۔ امپیریل گارڈ کے سربراہ نے کہا ”مصدق کمزور تھے اور لاٹھی کے سہارے چلتے تھے۔ شاہ نے کئی بار کہا کہ ان کے لیے گیٹ کھول دیا جائے اور گاڑی محل کے گراؤنڈ میں پارک کر لیں لیکن مصدق نے اصرار کیا کہ وہ شاہی آداب کو ملحوظ خاطر رکھیں گے اور وہی کریں گے جو ان کے پیشرو نے کیا۔ وہ گاڑی سے نکلتے، گیٹ سے اندر آتے شاہی پرچم کو سلام کرتے اور محل کے اندر داخل ہوتے۔ گارڈ ان کی شاہ کے ساتھ اتنی وفاداری دیکھ کر بہت متاثر ہوتے۔ شاہ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ مصدق کی آمد سے پندرہ منٹ پہلے ہی کاموں سے فارغ ہو جائیں۔ وہ بے چینی سے کھڑکی کے پاس کھڑے ان کی آمد کے منتظر ہوتے۔ اور ان کے آتے ہی ڈراما شروع ہوجاتا۔ سب جانتے تھے کہ مصدق کی عادت تھی کہ ان پر اچانک چند لمحوں کے لیے غشی کا دورہ پڑتا تھا۔ ایسا وہ توجہ حاصل کرنے کے لیے کرتے تھے۔ وہ کھڑکی سے لگے شاہ کو دیکھتے ہی ظاہر کرتے کہ وہ گرنے والے ہیں اور شاہ انہیں سہارا دینے کے لیے سیڑھیوں سے نیچے دوڑتے۔
شاہ کے والد کے ساتھ مصدق کی تلخ یادیں وابستہ تھیں انہوں نے طے کیا ہوا تھا کہ وہ شاہی طاقت اور استثنا کو دبا کر رکھیں گے اور شاہ کو محل تک محدود کر دیں گے۔ ہر سمجھوتے کی توہین کرتے، ناپسندیدہ طریقوں سے سیاسی چالیں چلتے۔ ان کی حکمت عملی دھوکے اور دھمکی پر مبنی ہوتی۔ وزیراعظم رزم آرا کے قتل کے منصوبہ کا مصدق کو پہلے سے علم تھا پھر بھی انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ نہ ہی اس بات پر کوئی تاسف یا پشیمانی کا اظہار کیا۔ قتل اور تشدد کی لہر مصدق کے اتحادی آیت اللہ خمینی کی پارٹی فدایان اسلام کی جانب سے تھی۔
جنوری 1953 میں امریکہ میں نیا صدر آئزن ہاور آیا اور ایران اور تیل کی نیشنلائزیشن کے بارے میں ملک کی پالیسی میں تبدیلی آئی۔ صدر آئزن ہاور اور ان کی نیشنل سیکیورٹی ٹیم نے مصدق سے تیل کے ذخیرے واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ یہ تصور کہ تیل پر سوویت یونین اپنے پنجے گاڑ لے گا خطرناک تھا۔ آئزن ہاور کو فکر تھی کہ ان کے برطانوی اتحادی پریشانی میں جنوبی ایران میں تیل پر قبضہ کرنے کے لیے ملٹری آپریشن شروع نہ کر دیں اور جواب میں سوویت بھی میدان میں آ جائیں۔
جب واشنگٹن میں بغاوت کا منصوبہ بنایا جا رہا تھا تہران میں بھی ہلچل مچی۔ مصدق نے بیان دیا کہ معاشی بحران کہ وجہ یہ ہے کہ تیل کی برآمد بند ہے اور اسی عذر کی بنیاد پر سپریم کورٹ اور ایوان بالا کو غیر فعال کر دیا۔ سنسر شپ نافذ کردی۔ آرمی افسران کے رینکس میں ادل بدل کی اور تجویز پیش کی کہ شاہ کو آرمی کی کمانڈ سے الگ کر دیا جائے۔ وزیر اعظم اب کھلے بندوں شاہ کو نظر انداز کرنے لگے اور نئے سال کی تقریب میں بھی شرکت نہیں کی۔ وہ مادر ملکہ اور شہزادی شمس کے اثر و رسوخ سے سب سے زیادہ خائف تھے اور چاہتے کہ وہ ایران چھوڑ کر جلا وطن ہو جائیں۔
مصدق اس بات پر تلے ہوئے تھے کہ شاہ کو ان کے تمام اختیارات سے محروم کر دیا جائے۔ شاہ اپنے محل میں تنہا تھے، ان کے وزرا بھی انہیں نظرانداز کر رہے تھے۔ چند سال پہلے ان کے ’سالے‘ مصر کے شاہ فاروق بے دخل ہوئے اور شاہ کو یہی خدشات اپنے مستقبل کے بارے میں بھی محسوس ہو رہے تھے۔ اپنی بیوی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ”میں نے اپنا درجہ کھو دیا ہے۔ تہران میں رہنا ایسا ہی ہو گا جیسے میں اپنے وزیراعظم کی پالیسیوں سے متفق ہوں۔ اب یہ ازحد ضروری ہے کہ ہم ملک سے باہر چلے جائیں۔“ وہ شدید افسردگی میں ڈوب گئے ان کے قریبی خدمت گار کو اندیشہ تھا کہ نروس بریک ڈاؤن کا شکار نہ ہو جائیں گے۔ کئی مہینوں کے دباؤ کے باعث ان کے معدے میں درد رہنے لگا۔ امریکہ سے خفیہ طور پر بھیجی گئی ایک ڈاکٹروں کی ٹیم نے ایمرجنسی میں ان کا آپریشن کیا۔
ملکہ ثریا پر بھی بہت دباؤ تھا شادی کو دو سال ہو گئے اور وہ ابھی تک تخت کا وارث پیدا نہ کر سکیں اس پر سیاسی شورش، وہ بھی بے چینی اور ڈپریشن کا شکار ہو گیں۔ کئی کئی گھنٹے کمرے میں بند روتی رہتیں اور بستر سے اٹھنے کی توانائی نہ ہوتی۔ مصدق کی ریشہ دوانیاں جاری رہیں لیکن شاہ بے خبر نہیں تھے۔
1953 فروری میں شاہی جوڑے نے چھٹیوں پر جانے کا پروگرام بنایا۔ وہ سوٹزرلینڈ جانا چاہ رہے تھے۔ شک پیدا ہوا کہ وہ مستقل طور پر ملک چھوڑ رہے ہیں۔ لیکن حالات ان کے موافق جا رہے ہیں۔ مصدق کے اتحادی ان سے خوش نہیں ہیں۔ انہیں ڈر تھا کہ اگر شاہ چھوڑ کر چلے جائیں گے تو کمیونسٹ تودہ پارٹی طاقت ور ہو جائے گی اور سویت یونین سے مل کر اقتدار سنبھال لے گی۔ آیت اللہ کاشانی نے ملکہ ثریا سے درخواست کی کہ وہ شاہ کو سمجھائیں۔ مہینوں بعد جا کر شاہ کو کچھ سکون ملا۔ انہوں نے عوام میں آ کر کہا ”میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں تہران میں ہی رہوں گا“ ۔ لیکن شاہ اگلا قدم اٹھانے سے گریز کرتے رہے یعنی مصدق کو فارغ کرنا حالانکہ آئین میں انہیں یہ حق حاصل تھا۔ 1953 کے موسم گرما میں شاہ پر واشنگٹن اور لندن سے مسلسل دباؤ پڑتا رہا کہ مصدق کو برطرف کریں۔ امریکہ کا سفیر شاہ کے اس رویہ سے تنگ آ چکا تھا اور اس نے صاف صاف شاہ کو کہا ”قیادت اپنے ہاتھ میں لیں۔ اگر آپ کا ملک گرتا ہے تو یہ آپ کی ذمہ داری ہو گی“ ۔ ثریا نے بھی اپنے شوہر کو سمجھایا کہ وہ خود آگے بڑھیں اپنے ملک اور عوام کے لیے۔ انہیں غربت اور کمیونزم سے بچائیں۔ ”مصدق کو جانا ہو گا“
”لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کبھی کسی بادشاہ نے اپنی ہی حکومت کو گرایا ہے؟“ ثریا نے آرام سے کہا ”تو آپ پہلے ہوں گے جو ایسا کریں گے۔ آپ کو کوئی حق نہیں کہ یوں افسردہ ہو کر بیٹھ رہیں، آپ کو وہسا ہی مرد بننا چاہیے جیسے آپ پہلے تھے اگر آپ نے مصدق کو رہنے دیا تو آپ ایران کو ماسکو کے ہاتھ بیچ دیں گے۔“
3 اگست 1953 امریکی سی آئی اے کے لوگ ایران میں کوپ کا اہتمام کرنے گئے اور کئی آرمی کمانڈر، علما اور امیر تاجروں سے مل کر فنڈ اکٹھے کیے۔ انہیں اب شاہ کے دستخط درکار تھے اس دستاویز پر جس پر مصدق کو برطرف کرنے کا حکم ہو۔ ان کا خیال تھا کہ شاہ دستخط کر دیں گے۔ وہ شاہ سے ملنے گئے اور شاہ نے انہیں مطلع کیا کہ ان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ وہ یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے۔
جنرل فض اللہ زاہدی فوج کے شجاع ترین جنرل تھے۔ مصدق کے خلاف سازش کرنے والوں کے خیال میں وہ مصدق کی جگہ لے سکتے ہیں شاہ نے انہیں بلایا۔ زاہدی نے دیکھا ملکہ بھی شاہ کے ساتھ کھڑی ہیں۔ گفتگو ہونے لگی۔ زاہدی کافی کچھ سمجھ گئے۔
” میں کب یہ کام کروں؟“ وہ یہ امید کر رہے تھے کہ انہیں دن اور وقت بتایا جائے گا۔
”مصدق کے خلاف کچھ مت کرنا۔ یہ خطرناک ہو سکتا ہے“۔ یہ وہ الفاظ نہیں تھے جن کی ثریا اور زاہدی توقع کر رہے تھے۔ کمرے میں ایک ناگوار خاموشی چھا گئی۔ شاہ نے ایک نظر اپنی بیوی پر ڈالی دوسری زاہدی پر۔ زاہدی نے بھی انہیں دیکھا لیکن کچھ کہا نہیں۔ آخر کار شاہ نے سپر ڈال دی۔ ”ٹھیک ہے میں دستخط کر دیتا ہوں“ ۔
بات طے ہو گئی اور مصدق کو ہٹانے کے لیے تیزی سے کام ہوا۔ اسے آپریشن آجکس کا نام دیا گیا۔ شاہی جوڑے کو اپنی جانوں کا بھی خطرہ تھا۔ شاہ اور ملکہ دونوں اپنی خواب گاہیں بدلتے رہے۔ کبھی آدھی رات کو اٹھ کر کسی اور جگہ چلے جاتے۔ تکیوں کے نیچے ریوالور رکھ کر سوتے۔ پلان 15 اگست کو شیڈول تھا لیکن اس کی بھنک حکومتی اہلکاروں تک پہنچ گئی۔ شاہ اور ملکہ کیسپن سی چلے گئے وہاں پتہ چلا کہ آپریشن آجکس منکشف ہو گیا۔ انہوں نے چند کپڑے اور قیمت اشیا سوٹ کیس میں ڈالیں اور ایک چھوٹے طیارے میں سوار ہر کر عراق پہنچ گئے۔ عراق کے بادشاہ فاروق دوم نے انہیں خوش آمدید کہا۔ شاہ کو لگا اب سب ختم ہو گیا ہے۔ انہوں نے بتایا ان کے پاس بس اتنا ہی سرمایہ ہے کہ وہ کیلیفورنیا میں ایک چھوٹی سی زمین خرید سکیں۔ وہیں شاہ نے امریکی سفیر سے ملاقات کی۔ مصدق کو ہٹانا امریکی مفاد میں بھی تھا۔ تہران میں جو امریکی بغاوت آجکس کی پلاننگ کر رہے تھے حیران تھے کہ شاہ یوں بغیر انہیں بتائے فرار ہو گئے۔
تہران میں مصدق کے وفادار بھی نکل آئے۔ وزیر خارجہ حسین فاطمی نے شاہ کے خلاف سخت الفاظ کہے ”اے خائن، تم کتنے بے غیرت ہو۔ تم نے مجرمانہ پہلوی تاریخ کو مکمل کر دیا۔ لوگ تمہیں تمہاری میز سے اٹھا کر سڑکوں پر گھسیٹیں گے“۔ سی آئی اے ایجنٹوں نے دیکھا کہ کمیونسٹ ہجوم نے شاہ اور ان کے والد کے مجسمے گرا دیے اور سڑکوں پر گھسیٹتے پھرے۔ دوسری طرف بھی احتجاج تھا۔ زاہدی، کاشانی اور روزویلٹ نے تہران میں 19 اگست کو ایک بڑے احتجاج کا اہتمام کیا۔ لوگوں کو قائل کیا کسی کو رشوت دی کسی کو کمیونزم سے ڈرایا اور لوگ نکل آئے۔ سڑکوں پر ”شاہ زندہ باد“ کے نعرے لگنے لگے۔ مظاہرہ بہت بڑا اور کامیاب تھا۔ گو کہ دوسری طرف سے سینکڑوں ہلاکتوں کا دعوی کیا گیا حقیقت میں 43 لوگ جان سے گئے۔ مصدق اور ان کے وزرا گرفتار ہو گئے۔ جنرل زاہدی نے مارشل لا لگا دیا اور خود کو نیا وزیر اعظم بنا لیا۔ شاہ اور ملکہ اٹلی کے شہر روم میں تھے جب انہیں رپورٹروں نے گھیر لیا۔ ”مصدق جا چکا۔ شاہ کی حکومت برقرار، زاہدی نئے وزیراعظم“ شاہ نے طمانیت سے کہا ”مجھے علم تھا کہ ایسا ہی ہو گا۔ لوگ مجھے چاہتے ہیں۔“ آیت اللہ سید حسین بورو جیردی نے شاہ کو پیغام بھجوایا ”آپ واپس آجائیں۔ شیعہ ازم کو آپ کی ضرورت ہے۔ آپ شیعہ ازم کے رکھوالے ہیں“ ۔ شاہ واپس آ گئے انہیں لگا اب وہ سچ مچ تاج کے حقدار ہو گئے کیونکہ ایران کے عوام ان کے ساتھ ہیں۔
ثریا پر دباؤ بڑھایا گیا۔ ان کی ساس اور نندیں بار بار پوچھتیں ”کب ہمیں تخت کا وارث دے رہی ہو؟“۔ انہیں امریکہ اور یورپ کے سرکاری دورے پر شاہ کے ساتھ جانا تھا۔ ایک میٹنگ میں انہوں نے کہا ”اچھا ہے ہم جا رہے ہیں ہمیں بریک مل جائے گا“ اس پر زاہدی نے کہا ”نہیں آپ وہاں بریک لینے نہیں جا رہیں۔ یہ سرکاری دورہ ہے، تعطیلات نہیں“ ۔ شاہ اپنے وزیراعظم کے ملکہ سے ایسی بات کہنے پر برہم ہوئے۔ زاہدی نے بات بنانے کی کوشش کی ”آپ کو میڈیکل چیک اپ کی ضرورت ہے اور کچھ وقت آرام کی بھی“۔
لیکن نقصان ہو چکا تھا۔ شاہ کو اپنی بے عزتی کے علاوہ زاہدی سے اور بھی اختلافات تھے۔ وہ زاہدی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور طاقت سے خائف تھے۔ اپریل 1955 میں شاہ نے زاہدی کو ظہرانے پر مدعو کیا اور کھانے کے دوران ہی بتا دیا کہ انہیں ریٹائر کیا جا رہا ہے۔ جنرل زاہدی کا بیٹا اردشیر باپ کے ساتھ جلا وطن نہیں ہوا اس نے وہیں رہ کر شاہ کی خدمت کرنے کو ترجیح دی۔ اس کا شاہ کی سولہ سالہ بٹیی شاہناز سے رومانس بھی چل رہا تھا۔ شاہ کو ایک تحفظ کا احساس ہوا۔ شاہناز کے تعلقات اپنی سوتیلی ماں سے سخت کشیدہ تھے۔ افواہ اڑی کہ شاہناز نے کہا ”اگر میری شادی ہو جائے اور میرا ایک بیٹا بھی ہو جائے تو وہ تخت کا وارث ہو گا“ ۔
وقت ثریا کے ہاتھ سے نکل گیا۔ جولائی 1957 میں یہ بات ثابت ہو گئی کہ ثریا ماں نہیں بن سکتیں۔ شاہ کا سگا بھائی علی رضا ایک ہوئی حادثے میں ہلاک ہو چکا تھا۔ تخت کا وارث کون ہو گا؟ شاہ ثریا کو کھونا نہیں چاہتے تھے لیکن مجلس اور دربار کی بات مان لی۔ مارچ 1958 میں شاہ نے ریڈیو پر خطاب کیا اور گلو گیر آواز میں اعلان کیا کہ وہ اور ثریا جدا ہو رہے ہیں۔
(جاری ہے)
- شہادت کی پیاس: شکست تخت پہلوی (12) - 30/09/2024
- حالات کا موڑ: شکست تخت پہلوی (11) - 14/09/2024
- تیل کا بادشاہ: شکست تخت پہلوی (10) - 26/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).