ڈر نہیں دیکھا


مجھے میرے ایک دوست نے پوچھا کہ مجھے کس بات پر سب سے زیادہ خوشی حاصل ہوتی ہے؟ میں نے جواب دیا کہ جب میری وجہ سے دو تخلیق کار آپس میں ملتے ہیں، اور مجموعی تخلیق کو منظر عام پر لے کر آتے ہیں، تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے کہ اس تخلیق میں میرا کردار بھی شامل ہے۔ اسی طرح کی خوشی گزشتہ دنوں معروف ماہر نفسیات، شاعر اور مصنف ڈاکٹر خالد سہیل کی غزل ”ڈر نہیں دیکھا“ (DAR NHI DEKHA) ”کی ویڈیو ریلیز کے بعد پذیرائی پر ہوئی ہے۔

مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر خالد سہیل کے ساتھ میرا ادبی تعلق، ہماری مشترکہ تخلیقی سوچ اور سرگرمیوں کو پروان چڑھا رہا ہے۔ فروری کے مہینے میں جب وہ پاکستان تشریف لائے تو کراچی میں میرے پاس آئے، جہاں ہم نے ماسٹر ٹی وی کے سٹوڈیو میں ان کے 10 انٹرویو کیے تھے، جو اب ہمارے یوٹیوب چینل ماسٹر ٹی وی پر نشر ہو رہے ہیں۔ ان انٹرویو کی ریکارڈنگ کے بعد میں اپنے بھائی شیراز سائمن اور ڈاکٹر خالد سہیل اپنے پڑوسی فنکار اور موسیقار عمران اشرف ساجن کے جینیس سٹوڈیو میں گئے جہاں ڈاکٹر خالد سہیل نے باتوں باتوں میں اپنی شاعری سنائی اور عمران اشرف نے اُسی وقت اُس کی دُھن بنا لی، جو ڈاکٹر خالد سہیل کو بہت پسند آئی۔ جس کا مکمل احوال ڈاکٹر خالد سہیل نے 2 جون، 2024 کو ہم سب پر اپنے کالم ”کیا آپ پاکستانی فنکار اور موسیقار عمران اشرف ساجن کو جانتے ہیں؟“ میں بیان کیا ہے۔

جس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ اس غزل کو گایا جائے اور اس کی بھرپور ویڈیو بنائی جائے۔ ڈاکٹر خالد سہیل نے یہ ذمہ داری مجھے دی اور میں نے عمران اشرف کے ساتھ مل کر دیگر معاملات کو بخوبی سرانجام دیا۔ عمران اشرف نے کمال محبت اور محنت کے ساتھ اس غزل کو مکمل کیا اور محمد علی نے بھی خوبصورت انداز میں گایا ہے۔ جس کے بعد اگلے مرحلے میں ڈاکٹر خالد سہیل کی غزل کے خیال کو ویڈیو کی شکل دینا تھا۔ اب چونکہ ڈاکٹر خالد سہیل کینیڈا واپس تشریف لے گئے تھے۔ اس لیے ہم ان کی کوئی ریکارڈنگ نہ کر سکتے تھے۔ تاہم ڈاکٹر خالد سہیل نے آرٹسٹ عظمیٰ عزیز کی بدولت کچھ منظر کی ویڈیو بنائی اور عمران اشرف کو بھیجی تو انہوں نے اس سے مختلف انداز میں ایڈیٹ کرتے ہوئے ایک شاندار ویڈیو بنائی ہے۔ جس پر اب تک دیکھنے والوں اور سننے والوں کا شاندار رد عمل آیا ہے۔ میرا اس تخلیق میں کردار صرف Linking Dots کو کنکٹ کرنے کا ہے۔ عمران اشرف اور ڈاکٹر خالد سہیل مجھے اس تخلیق کا موجد قرار دیتے ہیں۔ جبکہ میں اس بات کا قائل ہوں کہ میں نے صرف اپنی ذات کی اس صفت کا حق ادا کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی تخلیق کار اور فنکاروں کو ضرورت ہے کہ وہ آپس میں مل کر کام کرنے اور ایک دوسرے کی معاونت کرنے کو ترجیح دیں۔ جس طرح ترقی یافتہ معاشروں اور ادیبوں میں یہ خاصیت پائی جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے کام کو سراہتے ہیں اور دوسروں کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

اس غزل کی ویڈیو آنے کے بعد کئی دوستوں نے مشورہ دیا کہ اس پر شارٹ ڈاکومنٹری بننی چاہیے۔ یہ بات جب میں نے ڈاکٹر خالد سہیل کو بتائی تو انہوں نے کہا اس تخلیق کا کریڈٹ آپ کو جاتا ہے۔ تو میں نے انہیں کہا کہ آپ ماہر نفسیات، شاعر، مترجم اور لکھاری تو پہلے تھے لیکن اب ہم نے آپ کو اداکار بھی بنا دیا ہے۔ اب آپ اپنی اس نئی صنف پر غور کریں اور اپنی اداکاری کے مزید جو ہر دکھانے کے لیے تیار رہیں۔ میری نظر میں بڑا اداکار، تخلیق کار اور فنکار وہ ہے جو وقت کے ساتھ اپنی تخلیق اور آواز کو معاشرے تک پہنچا سکے۔ ویڈیو کے اس میڈیم کا بھرپور استعمال ہمارے ادیبوں کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ نوجوان نسل تک پہنچوں کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس غزل کے جہاں کئی منفرد پہلو ہیں وہاں، گلوکار کے ساتھ شاعر کی آواز میں شاعری ایک دلچسپ اور انوکھا تجربہ ہے۔ میری باتوں پر یقین نہ کریں یوٹیوب پر جائیں، دیکھیں، سنیں اور خود فیصلہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments