زعفرانی بھارت اور مدنی پاکستان


Loading

47 میں ہندوستان کے بٹوارے کی بنیاد مذہبی تشخص اور طرز معاشرت کا فرق تھا۔ صدیوں کی ہندوستانی شناخت کو رد کرنے والے علیحدگی پسندوں نے اپنے لیے مسلم اکثریت کے علاقوں میں ایک الگ مملکت حاصل کر کے خود کو محفوظ و مامون تصور کر لیا تھا۔ مذکورہ مملکت کے دونوں بازوں کے درمیان سینکڑوں میل کا زمینی فاصلہ حائل ہونے کے باوجود مذہبی ایکتا نے کروڑوں انسانوں کو مشرقی اور مغربی پاکستان کے دلفریب نعرے سے مطمئن و شاداں کر دیا تھا مگر یہ خوشی محض چند مہینوں بعد ہی قائد اعظم کے اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے کے فیصلے پر پھیکی پڑنے لگی۔

دو قومی نظریے کی اساس پر معرض وجود میں آئی نوزائیدہ مملکت کے قیام کے فوری بعد وقت کی بدلتی کروٹ کے تحت اس سفاک مذہبی تھیٹر کا اگلا سین فلمایا جا رہا تھا۔ ملک چلانے کے لیے دستوری خد و خال کی تیاری، پہلا سب سے بڑا چیلنج تھا، توقعات کے عین مطابق مذہب کے نام پر بنائے ملک کے آئینی ڈھانچے کی بنیاد میں مذہبی کنکریٹ کرش بھرنے کی بھرپور کوشش نے مارچ 1949 میں قرارداد مقاصد کو جنم دیا۔ 50 اور 60 کی دہائیاں یوں بھی اقوام عالم کے لیے زبردست کشمکش اور نظریاتی اٹھا پٹخ کی زد میں تھیں۔ کمیونسٹ سوشلزم کے مدمقابل مذہب پسند اپنی صفیں سنبھال رہے تھے۔ کہیں سیٹو اور سینٹو کے اتحاد معرض وجود میں آ رہے تھے تو کہیں نیٹو اور وارسا کے بند باندھے جا رہے تھے۔

ایسے تلاطم خیز بین الاقوامی حالات میں نو آموز پاکستانی مملکت لڑکھڑاتی لرزتی اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کی سعی کر رہی تھی۔ ریاست کے نظم کی باگ ڈور بیوروکریسی کے چلتر بابوؤں اور مسلم لیگ کے غبی اڑیل فیوڈلز کے ہاتھوں میں تھی۔ اس دوران مشرقی پاکستان کی سیاسی قیادت مملکت کے مغربی بازو میں جیسے پردیسی تھی۔ ملاؤں کا جو ٹولا ہندوستان کی تقسیم کو گناہ کبیرہ قرار دیتا تھا وہ بھی اپنے حلوے مانڈے کے تحفظ کے لیے طاقت کے مرکز میں بن بلائے مہمان کی ڈھٹائی سے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا تھا۔

ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے دور میں پاکستان کی امریکی کیمپ میں بینڈ باجے بارات کے ساتھ شمولیت نے جنوبی ایشیائی خطے کو سپر پاورز کی رسہ کشی کا گڑھ بنا دیا تھا۔ ایکا ایکی برسنے والے امدادی ڈالروں کی سوندھی خوشبو کے مارے جرنیلوں نے چور راستے سے اقتدار پر قابض ہو کر وزراء اعظموں کی فیشن پریڈ شروع کر دی اور یوں ریاست کے سیاسی معاملات کو طفل تماشا بنا ڈالا۔

سانپ سیڑھی کے اس شرمناک کھیل کے کھلاڑیوں کو نو آزاد ریاست کے دونوں حصوں کے سیاسی سماجی اور معاشی جوار بھاٹا کی مطلق فکر نہیں تھی۔ اس پر مستزاد ہمسایہ ملک بھارت سے پنجہ آزمائی کی سراسر غیر حقیقت پسندانہ خواہش کو قومی مزاج کا حصہ بنانے کے سبھی داؤ پیچ آزمائے جانے لگے۔ اس مہم جوئی کے رہتے آپریشن جبرالٹر 1965 کی جنگ پر منتج ہوا اور یوں پاکستانی ریاست، بتدریج سکیورٹی ریاست کے پیراڈائن پر سرپٹ دوڑنے لگی۔

ملکی معاملات کو چلانے والے ناعاقبت اندیشوں نے جغرافیائی قباحتوں میں گھری ریاست کے مشرقی آہنگ کو کچلنے، مسخ کر دینے کی تباہ کن پالیسی جاری رکھی۔ اُدھر اردو بنگالی تنازعے کی چنگاری بنگالی عوام کے سینے میں پہلے ہی سے سلگ رہی تھی، اور آپریشن سرچ لائٹ کے دوران افواج پاکستان کی ملک کے سیاسی معاملات پر تسلط کی کوشش نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی، یوں وسائل اور اختیارات کی غیر مساویانہ تقسیم کے مدعے پر دنیا کی تاریخ کا حیرت انگیز بٹوارہ بنگلہ دیش کے قیام کی صورت ظہور پذیر ہو گیا۔

پاکستان ٹوٹنے کی داخلی وجوہات کا وزن بیرونی عوامل کے مقابلے میں بہرحال کہیں زیادہ تھا، سقوط ڈھاکہ درحقیقت دو قومی نظریے کی واضح ناکامی تھا مگر بھلا ہو ملک کے سیاست دانوں کا کہ جنہوں نے باقی ماندہ پاکستان کے پہلے متفقہ آئین کی تیاری کے دوران مذہبی گماشتوں اور پاپولسٹ مذہبی بیانیے کی تشکیل کی خاطر آئین پاکستان میں مذہبی بھید بھاؤ کی تباہ کن سوچ کو ہمیشگی کے لیے تحفظ دے دیا۔ 70 کی دہائی کے آخر اور 80 کے اوائل کے دوران مڈل ایسٹ میں مچی نظریاتی دھماچوکڑی اور سوویت یونین کی افواج کا افغانستان میں آ دھمکنا سونے پر سہاگا ثابت ہوا۔ امریکہ بہادر نے نیٹو ممالک کے تعاون سے ڈالروں کی ریل پیل سے پاکستان کو دیوبندی سلفی وہابی مجاہدین کا تربیتی مرکز بنا دیا۔

ادھر اسی دور میں بھارت کے سیاسی منظر نامے میں ہندو انتہا پسند چھوٹی بڑی جماعتیں بھی تیزی سے اوپر آئی اور ساجھے داری کی سرکار میں واجپائی حکومت نے اپنی مدت پوری کی۔ 2002 سے بھارت میں ہندوتوا کے بھگتوں کا عروج شروع ہوا، جس کے بعد گجرات کا وزیر اعلیٰ رہنے والا درندہ صفت نریندر مودی 2014 سے حال ہی میں ہونے والے 18 ویں انتخابات میں ہیٹ ٹرک تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہو چکا ہے۔ اس سارے عرصے میں ”گجرات کے قصائی“ کی بدنام زمانہ شہرت کے حامل مودی نے مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے خلاف متعدد اقدامات اور قانون سازیوں سے خود بھارت کے سیکولر لبرل آئینی ڈھانچے کو شدید ضربیں لگائی ہیں۔ مسلم اکثریتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے بدترین ہتھکنڈوں اور ریاست کی خصوصی حیثیت کے خاتمے جیسے اقدامات اسی انتہا پسند زعفرانی سیاست کا نتیجہ ہیں۔

بھارت میں بڑھتی ہوئے مذہبی تعصب اور ہجوم کے ہاتھوں حیلے بہانوں سے مسلمانوں پر تشدد اور موت کے گھاٹ اتارنے کے واقعات کے علاوہ آسام اور دیگر ریاستوں میں عیسائیوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کے خلاف ظلم و ستم کو بڑھاوا ملا ہے۔ مودی، بھارت کے مذہبی انتہا پسندوں کے لیے زمین پر رام کے اوتار کا درجہ رکھتا ہے جسے ہندوستانی سر زمین ہر رہنے والے غیر ہندوؤں کے لیے خوف و دہشت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے مسلسل بڑھتے مذہبی جنون نے دونوں ممالک کے داخلی انتشار میں اضافہ کیا ہے جس کا نشانہ وہاں کی اقلیتیں بنتی رہی ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی کے ضمن میں سب سے خوفناک رجحان ہجوم یا جتھوں کی جانب سے مذہبی بنیادوں پر جلاؤ گھیراؤ اور قتل و غارتگری ہے۔ پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کا بد قسمت ترین پہلو، ریاستی اداروں کی جانب سے گزشتہ 50 سالوں کی پالیسیاں ہیں۔

امریکی مفادات کی جنگوں میں پاکستانی ریاست کی سراسر بے جا حصے داری کا خمیازہ 25 کروڑ عوام کئی دہائیوں مذہبی جنونیت پسندی کی شکل میں بھگت رہے ہیں جبکہ اس کے برعکس بھارت میں بی جے پی اور راشٹریہ سیوک سنگھ جیسی پارٹیوں کو ریاستی اداروں کی ہلہ شیری اور سہولت کاری حاصل نہیں رہی، حالانکہ مرکزی اور ریاستی سطح پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکار ان کی کھلے چھپے پشتبانی کرتی رہی ہے، مگر دیگر سیاسی جماعتوں کے نسبتاً مضبوط موقف اور بھارت کے توانا سیکولر جمہوری سیاسی کلچر کی وجہ سے ہندوتوا کا کھولتا آتش فشاں بتدریج ٹھنڈا پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ حالیہ انتخابات میں کانگریس کی قیادت میں بنے اتحاد نے بی جے پی اتحاد کو جس شدت کا ڈینٹ ڈالا اس سے آنے والے سالوں میں بھارت کے سماجی و سیاسی کینوس میں مذہبی تعصب اور شدت پسندی کا زعفرانی رنگ سمٹتا نظر آ رہا ہے۔

دوسری جانب پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی نے گزشتہ دس سالوں میں پہلے سے کہیں زیادہ مہلک اور تباہ کن شکل اختیار کر لی ہے۔ اب سے پہلے کے جہادیوں کی طرح اس بار میدان عمل میں سرگرم مسلک کو بھی ریاستی اداروں کی سرپرستی اور پشت پناہی سے ہی اتارا گیا ہے لیکن پریشان کن بات یہ ہے کہ یہی مملکت کی اکثریت کا مسلک بھی ہے۔ بریلوی مکتبہ فکر یوں تو صدیوں سے امن و شانتی کا پرچارک تصور کیا جاتا رہا ہے مگر اس امن پسند مسلک کو مخصوص مفادات کے حصول کی غرض سے تکفیر اور شدت پسند جھتوں کے کیل کانٹوں سے لیس کر کے پہلے مرتبہ سیاسی مخالفین کی مشکیں کسی گئیں ہیں۔

بریلوی مدنی مسلک کے پیروکاروں کی جانب جس تواتر کے ساتھ ”سر تن سے جدا“ کرنے کے نعرے پر کام جاری ہے اور اس کی ابتدا سے اب تلک جا بجا مذہبی جھتہ بندی کے ذریعے پر تشدد واقعات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس سلسلے میں 2011 میں پہلے بڑے واقعے میں توہین مذہب کے قوانین پر تنقید کرنے پر گورنر پنجاب، سلمان تاثیر کو ان کے پولیس باڈی گارڈ ممتاز قادری نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔

2017 میں مردان یونیورسٹی کے طالب علم مشعال خاں کو بھی ذاتی رنجش کی بنا پر توہین مذہب کا الزام لگا کر مشتعل جھتے نے بہیمانہ سلوک کے بعد قتل کر دیا تھا جبکہ کمزور پروسیکیوشن اور کمزور عدلیہ کے مرہون منت ایف آئی آر میں نامزد تمام ملزمان یکے بعد دیگرے بری ہوتے چلے گئے۔ 2022 میں سیالکوٹ میں ایک سری لنکن فیکٹری مینجر پریانتھا کمارا کو ایسے ہی ہجوم نے توہین مذہب کا الزام لگا کر زندہ جلا دیا تھا۔

یاد رہے کہ توہین مذہب کا یہ قانون سابق ڈکٹیٹر اور پاکستان میں اسلامائزیشن کے سب سے بڑے چمپئن جنرل ضیا الحق کے دور میں مضبوط تر کیا گیا تھا۔ جس کی بنیاد پر غیر مسلم اقلیتوں اور کئی واقعات میں خود مسلمانوں کے خلاف توہین مذہب کے الزامات پر ہر قسم کے غیر قانونی اور غیر انسانی ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ یہاں اہم ترین نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بھارت میں بی جے پی اور دیگر مذہبی جماعتوں کی ”سیفران پالیٹکس“ کی ہلاکت خیزی کا پاکستان کی مذہبی شدت پسندی سے کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔

پاکستان کی حالیہ مدنی شدت پسندی کے پس پردہ ریاستی ادارے کی سیاسی انجینئرنگ کی شیطانی خواہشات کارفرما رہی ہیں۔ ستم ظریفی کی انتہا تو یہ ہے کہ ملکی وسائل اور طاقت کے مراکز پر قابض رہنے کی ابلیسی خواہش کے حصول کی خاطر قوم کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر کے انتہا پسندی کی گہری کھائی میں دھکیلنے والے کہیں باہر سے نہیں آئے بلکہ خود ریاست کی طاقت کے مرکز پر متمکن ہیں۔

میرے نزدیک مدنی مذہبی انتہا پسندی کی یہ لہر 80 / 90 کی دہائی کی دیوبندی سلفی وہابی طالبانی دہشت گردوں سے کہیں زیادہ گہرائی اور وسعت رکھتی ہے۔ اس نظریے کو جس انداز سے عوام میں پھیلایا اور راسخ کیا ہے اس میں میڈیا، سیاسی جماعتوں کو بھی بروئے کار لا کر اس کی تباہی کو دو آتشہ کر دیا گیا ہے۔ آج پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت بریلوی شدت پسندوں کے خلاف دو بول بولنے کی جرات نہیں کر سکتی، 2018 کے انتخابات میں تحریک لبیک متعدد حلقوں میں تیسری سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت بن کر سامنے آئی تھی، اس جماعت کو سندھ کے شہری حلقوں اور پنجاب بھر میں قابل ذکر مقبولیت حاصل ہے۔

موب لانچنگ کے تازہ ترین واقعے میں چند دن پہلے سوات میں ایک سیاح کو زندہ جلانے کے اندوہناک واقعے کے بعد مذکورہ علاقے میں سانحے کے ذمے داروں کے خلاف کسی فوجی آپریشن کی بازگشت بھی سنی جا رہی ہے۔ میں ایسے کسی آپریشن کی کامیابی کے بارے کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ سنگل نیشنل کریکولم اور سماج کی گہرائی تک اتارے گئے اسلامائزیشن کے وائرس کے رہتے ایسے کسی آپریشن سے خاطر خواہ نتائج نکلنے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان میں مشروم گروتھ کرنے والے مدارس میں زیر تعلیم لاکھوں نوخیز ذہنوں کے علاوہ عام سکولوں، کالجوں یونیورسٹیوں حتی کہ پروفیشنل کالجوں میں اعلی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات میں مدنی اسلام کی جڑیں گہری ہو چکی ہیں۔

حکومت اور اصل ارباب اختیار اگر مذہبی جنونیت کے اس عفریت کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو اتا ترک کے راستے پہ چلتے ہوئے سماج سے مذہبی ٹھیے ختم کرنا ہوں گے ۔ مذہب کو ”ملا“ کے چنگل سے نکال فرد کا ذاتی معاملہ قرار دینا ہو گا۔ ریاست کو سیکولر ترقی پسند بنیاد پر ازسرِ نو استوار کرنا کسی چند روزہ آپریشن سے ممکن نہیں ہے، یہ ایک ہمہ گیر متوازن اور دور رس ریاستی و حکومتی پالیسی کا تقاضا کرتا ہے۔ جس کے دوران نصاب تعلیم، طرز معاشرت، ذرائع ابلاغ، کاروباری حلقوں اور عوام کو آن بورڈ لینا ہو گا۔ ملک میں جمہوری سیاسی قدروں اور سرگرمیوں کی نامیاتی نشوونما کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا پڑے گا۔ بصورت دیگر دو قومی نظریے کی متعفن لاش گھسیٹتا پاکستان، مذہبی شدت پسند ہجوم کے ہاتھوں خاکستر ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments