انسانی دودھ کا بنک اور پاکستان
حضرت حلیمہ سعدیہ کی سرور کونین حضرت محمد ﷺ سے محبت اور نبی پاک کا حلیمہ سعدیہ اور ان کے خاندان کے لئے احترام تمام اہل ایمان جانتے ہیں۔ حلیمہ سعدیہ کا رحمت اللعالمین سے رشتہ کیا تھا؟ رضاعت کا یعنی آپ ﷺ نے بچپن میں حضرت حلیمہ کے دودھ پر پرورش پائی۔ اسلام نے جب رشتوں کی حرمت بیان کی تو رضاعت کے رشتوں کو محرم قرار دیا یعنی جس ماں کا بچے نے دودھ پیا ہو اس سے اور اس کی بیٹی سے بھی نکاح نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ دودھ شریک بہن بھائی ہوئے۔ یعنی خون کے رشتوں کی طرح دودھ کے رشتوں کو محرم قرار دیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ مذہبی گھرانوں میں جب کسی بچی کو گود لیا جاتا ہے تو کوشش کی جاتی ہے کہ منہ بولے باپ کی بہن یا کسی ایسی عورت سے اسے دودھ پلوایا جائے جس سے گود لینے والا باپ کسی رضاعی رشتے میں بندھ جائے تاکہ لے پالک بچی اور باپ کا حرمت کا رشتہ قائم ہو جائے اور جوان ہونے پر بچی کو باپ سے پردہ نہ کرنا پڑے۔
اس کا مطلب ہے سگی ماں کے علاوہ کسی اور ماں کا دودھ پینا سنت ہے اور شریعت کی رو سے اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ چودہ سو سال پہلے فارمولہ ملک یا بچوں کے دودھ کا پاوڈر نہیں تھا لیکن اونٹنی، بکری، گائے وغیرہ تو تھا پھر بھی اہل عرب میں بچوں کو دوسری ماؤں سے دودھ پلوانے کا رواج تھا
میڈیکل سائنس ویسے تو متفق ہے کہ پیدائش کے پہلے چھ ماہ بچوں کو صرف اور صرف ماں کا دودھ پلانا چاہیے تاہم وقت سے پہلے پیدا ہونے والے کمزور مدافعتی نظام والے بچوں کو جو عام طور پر حمل کے ساتویں مہینے پیدا ہو جاتے ہیں یا آنت، معدہ سمیت کسی پیچیدہ عارضہ میں مبتلا، ہونے والے نوزائیدہ بچوں کو ڈاکٹرز صرف اور صرف ماں کا دودھ تجویز کرتے ہیں کیونکہ اس میں موجود اینٹی باڈیز کا کوئی متبادل نہیں۔ اگر ان نوزائیدہ بچوں کی ماں زچگی کے دوران مر جاتی ہے یا کسی بھی وجہ سے اسے دودھ نہیں پلا پا رہی تو بعض اوقات ایسے بچے زندہ نہیں رہ پاتے۔
آج کے دور میں فارمولہ ملک موجود ہے ملٹی نیشنل کمپنیاں اس بزنس سے خوب کما رہی ہیں لیکن بچوں کے بڑے بڑے ڈاکٹر کسی فارمولہ ملک کا برانڈ یا نام اپنے لیٹر پیڈ پر لکھ کر نہیں دیتے کیونکہ وہ چھ ماہ کی عمر تک کسی بھی مہنگے سے مہنگے برانڈ کو ماں کے دودھ کا نعم البدل نہیں سمجھتے اور اس کو تجویز کرنا اپنے پیشے کے اخلاقی تقاضوں کے خلاف سمجھتے ہیں۔
بچوں کی صحت کے حوالے سے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق پاکستان میں ہر ایک ہزار میں سے 54 نوزائیدہ بچے ہر سال موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور پاکستان بدقسمتی سے نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات کے حوالے سے سر فہرست چند ملکوں میں شامل ہے۔
اگر ماں زچگی کے دوران فوت ہو گئی یا کسی اور وجہ سے دودھ پلانے سے قاصر ہے تو بیمار یا کمزور بچے کو دودھ کون پلائے گا؟ کیا بچے کو بچانے کی کوشش میں کسی اور ماں کا دودھ حاصل کیا جائے یا بچے کو مرنے دیا جائے؟
کوئی حادثہ ہو تو بلڈ بنک سے خون لے کر مریض کی جان بچائی جاتی ہے تو کیا اس ننھی جان کو حق نہیں کہ ایسا ہیومن ملک بنک ہو جہاں سے دودھ لے کر اس کی جان بچانے کی کوشش کی جائے؟ انسانی جان بچانے کے لئے تو بعض صورتوں میں حرام کھانا بھی جائز ہے۔ دوا کے طور پر الکوحل بھی لی جا سکتی ہے لیکن بچوں کے لئے ماں کے دودھ کا بنک نہیں بن سکتا۔
جون 2024 کے پہلے ہفتے میں پاکستان کے صوبہ سندھ میں محکمہ صحت نے یونیسف کے تعاون سے ملک بنک قائم کیا جسے شرعی ہیومن ملک بنک کا نام دیا گیا کیونکہ صوبائی حکومت کے مطابق
جامعہ دارالعلوم کراچی نے انسانی دودھ کے بنک کے حق میں فتویٰ جاری کیا تھا۔ تاہم اس فتوے میں پیشگی شرائط بیان کی گئی تھیں۔ جن کے مطابق دودھ فراہم کرنے والی ماؤں اور دودھ پینے والے بچوں اور ان کی ماؤں کا مکمل ڈیٹا شائع کیا جائے۔ اس طرح یہ دودھ صرف مسلم مائیں دیگر مسلم ماؤں کو ہی دے سکتی ہیں اور یہ سروس مفت فراہم کی جائے۔
سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو کا کہنا ہے کہ اس ملک بینک میں کوئی خاتون بچوں کو براہ راست بریسٹ فیڈ نہیں کروائے گی۔ عطیہ کیے جانے والے دودھ کو لے کر عملے نے اسے بیکٹریا سے پاک کر کے فریز کرنا تھا جس کے بعد بچوں کو وہ دودھ ٹیوب یا سرنج کے ذریعے فراہم کیا جانا تھا کیوں کہ وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچے یہ دُودھ خود نہیں پی سکتے۔
انتظامیہ کے مطابق فتوی کی شرائط پر عمل کیا جا رہا تھا جیسا کہ دودھ عطیہ کرنے والی ماؤں کی شناخت بھی عطیہ کے ساتھ درج کی گئی تاکہ بچے کو پتہ ہو کہ اس کی رضائی ماں کون ہے اور شرعی اصولوں کئی خلاف ورزی نہ ہو، ڈونر مائیں بلامعاوضہ دودھ فراہم کر رہی تھیں جن میں سے اکثر وہ ہیں جن کے بچے زچگی میں یا پیدائش کے بعد مر جاتے ہیں لیکن ان کو دودھ آ رہا ہوتا ہے۔ اس وضاحت کو نظرانداز کرتے ہوئے مذہبی طبقوں کی جانب سے ملک بنک کی شدید مخالفت کی گئی 16 جون 2024 کو دارالعلوم کراچی نے نظر ثانی شدہ فتوی جاری کیا جس میں کہا گیا کہ پہلے فتوی میں موجود شرائط کو پورا، کرنا ممکن نہیں اور یہ ملک بنک غیر شرعی ہے۔
جس کے بعد محکمہ صحت سندھ نے اسے باقاعدہ طور پر بند کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کرتے ہوئے رہنمائی کے لئے معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس بھیج دیا۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کراچی سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچے، خاص طور پر جن ماؤں کا حمل 34 ہفتوں سے کم رہا ہو یا نوزائیدہ بچے کا وزن دو کلو سے کم ہو، اکثر ان کی غذائیت کو پورا کرنے کے لیے اپنی ماں کا دودھ کافی نہیں ہوتا اور اس صورت میں جان بچانے کے لئے ڈونر دودھ ان کمزور بچوں کو ضروری غذائی اجزاء، اینٹی باڈیز، اور حفاظتی عوامل فراہم کر سکتا ہے جو ان کی نشوونما میں معاون ہیں۔
امریکہ کے غیر منافع بخش ڈیجیٹل میگزین UNDARK میں شائع شدہ ایک تحقیقی مضمون کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً ستر ملکوں میں ساڑھے سات سو کے قریب ہیومن ملک بنک کام کر رہے ہیں تاہم مسلم ممالک میں یہ ابھی عام نہیں۔ ایران میں ہیومن ملک بنک موجود ہیں ایرانی اعداد و شمار کے مطابق ان بنکوں کے قیام کے بعد نوزائیدہ بچوں کی اموات میں واضح کمی ہوئی ہے۔ ایران میں اس مقصد کے لئے فتوی جاری کیا گیا تھا کہ کیونکہ بچے براہ راست ماں سے دودھ نہیں پی رہے بلکہ سرنج، فیڈر یا کسی اور ذریعے سے پی رہے ہیں اس لئے رضاعت قائم نہیں ہوتی۔
اسی طرح انٹرنیٹ پر موجود معلومات کے مطابق کویت میں بھی اس سے ملتا جلتا تجربہ کیا گیا ہے جہاں اس چیز کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ایک بچہ ایک عطیہ کرنے والی ماں کا دودھ ہی پئے اور اس کی شناخت بچے کے خاندان کو میسر ہو جبکہ بچے کی تفصیلات ڈونر ماں کو فراہم کی جائیں۔ دونوں خاندانوں کی عطیہ سے قبل ملاقات کروائی جائے اور عطیہ کے بعد سرٹیفیکیٹ جاری کیا جائے جس میں فیڈز کی تعداد ’طریقہ کار سب درج ہو تاکہ رضاعت کی حد کی پاسداری ممکن ہو۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا بھی ملک بنک کے حوالے سے غور و خوض کر رہے ہیں۔
جس نے ایک انسان کو بچایا اس نے گویا پوری انسانیت کو بچایا
یہ درس دینے والا مذہب یقیناً بچوں کی جان بچانے کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ رضاعت کی حد کو مد نظر رکھتے ہوئے ایران ماڈل، کویت ماڈل یا دارالعلوم کراچی کے اجازت والے ابتدائی فتوی کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے کس طرح پاکستان میں ملک بنک کام کر سکتا ہے اس کی وضاحت کا اسلامی نظریاتی کونسل سے انتظار ہے اور علمائے کرام اگر ماہرین صحت کی تجاویز کی روشنی میں اس مسئلے پر اجتہاد فرمائیں اور کوئی حل نکالیں تو یقیناً بہت سے نوزائیدہ بچوں کی جان بچانا اور بہت سے بیمار بچوں کو صحت یاب کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔
- ثنا یوسف کا انکار بمقابلہ مردانگی - 04/06/2025
- پلوامہ سے پہلگام تک - 03/05/2025
- انسانی دودھ کا بنک اور پاکستان - 07/07/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).