مغرب میں ابارشن کے حوالے سے منافقت
اس وقت دُنیا کچھ الٹی چال چلنا شروع ہو گئی ہے۔ یعنی جو ممالک اور معاشرے آزاد خیالی اور برداشت کے حوالے سے جانے جاتے تھے، اب وہ سخت قدامت پرستی اور تنگ نظری کی طرف جا رہے ہیں۔
مغرب نے عورت کو مرد کے برابر معاشرے میں رُتبہ دیا لیکن اس وقت وہاں عورت کی آزادی دبانے کا چلن شروع ہو گیا ہے۔
مغربی عورت کو ایک بڑی آسانی اسقاط حمل کی صورت میں ملی۔ لیکن اب اس آزادی کو اس بُرے طریقے سے ختم کیا جا رہا ہے کہ جیسے عورت جب حمل سے ہوتی ہے تو اس کی اپنی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔
ویسے تو کچھ دیگر مسیحی ممالک جیسے کہ آئر لینڈ، ارجنٹینا اور فلپائن وغیرہ بھی اس حوالے سے قرون وسطیٰ کے ممالک جیسے قانون رکھتے تھے لیکن سب سے بڑی مثال امریکا ابھر کر سامنے آیا ہے جہاں جب سنہ 1973 میں امریکی عدالت عظمی ٰ نے اسقاط حمل کو عورت کا حق قرار دیا تو قدامت پرست گروہ اس کے سخت خلاف ہو گئے اور آخر کار سنہ 2017 میں اس وقت کامیاب ہو گئے کہ جب انہوں نے اس پاکستانی محاورے پر عمل کیا کہ اگر مرضی کا فیصلہ لینا ہے تو پولیس والے اور وکیل کو رشوت دینے کی کیا ضرورت ہے، اپنی مرضی کا جج لگوا کر مرضی کا فیصلہ کروا لو اور یہ کام ٹرمپ نے کر دیا جب اُس نے امریکی عدالت عظمیٰ میں تین قدامت پرست سوچ رکھنے والے جج تعینات کیے۔
اِن ججوں نے یہ کہتے ہوئے اسقاط حمل کا حق چھین لیا کہ یہ ریاستوں کا نجی معاملہ ہے کہ وہ اِس بارے میں اپنے علاقے کے عوام کی مرضی کے مطابق قانون بنائیں۔ اور یہ فیصلہ آتے ہی اُن ریاستوں کہ جہاں ری پبلکن حکومت میں اکثریت رکھتے تھے، میں اسقاط پر اس حد تک پابندی لگا دی گئی کہ اس عمل کی ہنگامی حالت میں عورت کی جان بچانے کے لیے بھی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی۔
بہت سی ری پبلکن ریاستوں میں تو اگر عورت کے ساتھ کسی نے زیادتی کی ہو خاص طور پر کسی محرم رشتہ دار کی وجہ سے وہ حاملہ ہوئی ہو تو بھی اسقاط حمل کی اجازت نہیں ہے۔ حالانکہ ایسے بچے اکثر کسی معذوری کا شکار ہوتے ہیں
فلوریڈا، جارجیا، جنوبی کیرولینا اور آئیواء کی ریاستوں نے تو چھ ہفتوں کے بعد حمل کے اسقاط پر پابندی عائد کر دی ہے جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ کوئی اسقاط نہ ہو سکے کیونکہ چھ ہفتوں میں تو نوے فیصد سے زائد عورتوں کو خود بھی علم نہیں ہوتا کہ وہ حاملہ ہیں۔
بعض اوقات بہت سی پیچیدگیوں کی وجہ سے حمل ایسا ہو جاتا ہے کہ بچے کا پیدائش تک زندہ بچ جانا ناممکن ہو جاتا ہے یا بچے کی ذہنی نشو نما رُک جاتی ہے تو اس صورت میں بھی ماں کو اسقاط حمل کی اجازت ختم کر دی گئی ہے یا اس حوالے سے قانون اس حد تک مشکل بنا دیا گیا ہے کہ عملی طور پر اسقاط نہیں ہو سکتا۔ ایسی صورت میں اسقاط حمل کروانے کی خواہش رکھنے والی ماؤں کو ایسی ریاستوں میں سفر کر کے جانا پڑتا ہے کہ جہاں ابھی بھی اسقاط کی اجازت ہے۔ لیکن امریکہ کے جغرافیے سے ذرا سی واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ بعض اوقات ایک سے دوسری ریاست کے درمیان ہزاروں میل کی مسافت آ جاتی ہے تو اِن عورتوں کو انتہائی مہنگا سفر کرنا پڑتا ہے یا بعض اوقات اُن کی جسمانی حالت اس قابل نہیں ہوتی کہ وہ سفر کر سکیں لیکن اُنہیں اپنی جان خطرے میں ڈال کر جانا پڑتا ہے
https://time.com/6208860/ohio-woman-forced-travel-abortion/
https://www.theguardian.com/us-news/2022/sep/14/louisiana-woman-skull-less-fetus-new-york-abortion
https://www.fox7austin.com/news/texas-abortion-austin-couple-travel-out-of-state-medically-necessary
بہت سی ری پبلکن ریاستوں میں جہاں بظاہر قانون ماں کی جان خطرے میں ہونے کی صورت میں اسقاط کی اجازت دیتا ہے، وہاں ڈاکٹر اور ہسپتال کے حکام ایسا کرنے سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ ”ماں کی جان خطرے“ میں ہونے کی کوئی واضح تعریف ہی نہیں ہے۔ اور محض ڈاکٹر کے کہہ دینے کہ ماں کی جان خطرے میں ہے، کو قانون مانتا نہیں ہے یا ڈاکٹر خود قتل کے مقدمے کے ڈر سے ایسا کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
https://lite.cnn.com/2024/06/27/opinions/emtala-scotus-ruling-emergency-abortion-idaho-farmer/index.html
ابھی چند دن پہلے امریکی عدالت عظمیٰ نے ریاست میزوری میں ہنگامی صورت حال میں اسقاط حمل کی عارضی طور پر اجازت تودے دی لیکن پابندی کا راستہ بھی چھوڑ دیا جبکہ سماعت کے دوران قدامت پرست جج اس بات پر بحث کرتے رہے کہ عورت کے کتنے اعضاء ناکارہ ہو جائیں تو تب ڈاکٹر اسقاط کر سکتے ہیں۔ یعنی حمل خراب ہونے کی صورت میں بھی اسقاط کی اس وقت اجازت دی جائے جب عورت مرنے والی ہو جس سے زیادہ امکان یہ ہے کہ مردہ بچے کے زہر سے عورت کے گردے تو ہمیشہ کے لیے ناکارہ ہو جائیں گے۔ اس وجہ سے ماں اور بچوں کی زچگی کے دوران یا بعد میں اموات کی شرح میں اضافہ ہو گیا ہے۔
جبکہ دوسری طرف مسلمان معاشروں میں اس حوالے سے بیداری پیدا ہونے لگی ہے۔ مثلاً ابھی چند دن پہلے متحدہ عرب امارات میں عورتوں کو محرم سے یا ایسے ہی زیادتی کی صورت میں ایسے واقعے کے ایک سو بیس دنوں یا تین مہینوں کے اندر اسقاط حمل کرانے کی قانونی اجازت دے دی گئی ہے۔
جبکہ مغرب کی عورت گھر کے کام اور معاش کی جدوجہد بھی کرتی ہے۔ مغرب کی عورت پر تو دوہرا بار ہوتا ہے۔
زیادتی کی صورت میں عورت کو اپنی مرضی سے بچہ پیدا کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ختم کرنے سے اس کے لیے مسلسل نہ ختم ہونے والے ذہنی و جسمانی درد کی راہ ہموار کی جا رہی ہے کہ اگر وہ بچہ پیدا کر کے کسی دوسرے کو دے دیتی ہے تو بچے کی جدائی کا درد اسے ستاتا رہے گا اور اگر اس بچے کو پالتی ہے تو ہر لمحہ اُسے وہ وقت ذہنی طور پر یاد آتا رہے گا جب کسی مرد نے اُس کی مرضی کے خلاف وہ بچہ اس کی کوکھ میں ڈال دیا تھا۔ یوں یہ زیادتی کرنے والے مرد کی جیت ہے کہ چاہے وہ جیل میں قید ہو، اسے یہ ضرور اطمینان رہے گا کہ اس نے انکار کرنے والی عورت کو ہمیشہ کے لیے اپنے بچے کی صورت میں ایک نہ ختم ہونے والے درد سے دوچار کر دیا ہے۔ صرف یہی
نہیں بلکہ جب اسقاط حمل کی اجازت تھی بھی تو تب بھی اگر کسی عورت نے ایسا بچہ پالنے کو ترجیح دی تو کئی مرتبہ ایسے واقعات بھی ہوئے کہ ایسی عورتوں کے خلاف اُن سے زیادتی کرنے والے مرد معصوم بن کر اُن پر مقدمہ دائر کر دیتے تھے کہ وہ ”اُن کے بچے“ کو باپ سے ملانے جیل میں کیوں نہیں لاتی ہیں یا اُن کو ”اپنے بچے“ سے ملنے کی اجازت دینے سے کیوں انکاری ہیں۔ جیسے کہ کسی عورت سے زیادتی کرنا اور اُسے اُس کی مرضی کے خلاف حاملہ کر دینا کوئی جرم ہی نہ ہو۔
ہٹلر کی والدہ جب حمل سے تھیں تو وہ اسقاط حمل کروانا چاہتی تھیں لیکن ڈاکٹر نے اُنہیں روک دیا۔ اپنی طرف سے تو اُس نے نیکی کا کام کیا لیکن اگر ہٹلر پیدا نہ ہوا ہوتا تو نہ تو ڈھائی کروڑ روسیوں، ساٹھ لاکھ یہودیوں سمیت پانچ کروڑ افراد دوسری عالم گیر جنگ میں لقمہ اجل بنتے اور یہ ”ثواب جاریہ“ اب تک جاری ہے کیونکہ اسی کے نتیجے میں فلسطینیوں کو اب تک یہودیوں کی طرح مارا جا رہا ہے۔ ذرا سوچیں کہ اگر وہ ڈاکٹر یہ ”نیکی“ نہ کرتا تو آج کی دنیا کتنی مختلف ہوتی۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو صرف ایک واقعہ تھا لیکن دوسری طرف یہ سوچیے کہ آج بھی اس دُنیا میں اربوں کی تعداد میں انسان ایک وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں، کتنے ہی انسان محض علاج کے لیے رقم نہ ہونے کے باعث قابل علاج بیماریوں کی وجہ سے اپنی طبعی زندگی پوری کرنے سے قبل فوت ہو جاتے ہیں۔ ایسے افراد میں سالانہ کوئی چالیس ہزار امریکی شہری بھی شامل ہیں۔ لیکن جب اوبامہ نے سارے امریکی شہریوں کو صحت تک رسائی دینے کے عمل کا آغاز کیا تو اس کی شدید مخالفت کرنے والوں میں یہی قدامت پرست امریکی پیش پیش تھے۔ اور آج بھی مخالف ہیں۔
اسی طرح آج امریکی معاشرے میں ہر سو افراد پر ایک سو بیس بندوقیں ہیں جن کی وجہ سے ہر سال ہزاروں بچے غیر ارادی طور پر گولی لگنے سے ہلاک ہو جاتے ہیں، اس کے علاوہ ہر چند ماہ بعد کوئی جنونی بچوں کے سکول یا کالجز میں گھس کر بڑے آرام سے گولیاں چلا کر درجنوں بچوں کو ہلاک کر دیتا ہے لیکن یہی قدامت پرست افراد جو اسقاط حمل کے حوالے سے انسانی زندگی کو بچانے کی اہمیت پر زور دیتے رہتے ہیں، کو کوئی پروا نہیں ہوتی کہ معاشرے میں بندوقوں کی فراوانی سے کتنے ہی خوبصورت، ذہین بچے وقت سے پہلے موت کے منہ میں جا رہے ہیں، اور کتنے بچے جو سکولوں میں گولیاں چلنے کے واقعات کا شکار ہوتے ہیں، عمر بھر کے لیے ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔ لیکن وہی خدا پرست جج جنہوں نے خدا کے غصب سے بچنے کے لیے اسقاط حمل پر پابندی عائد کی ہے، کو بندوقوں سے مرنے والے بچوں کی زندگیوں کی کوئی پروا نہیں ہے۔
سنہ دو ہزار تیرہ میں ایک کمپنی نے ایک ایسی شے ایجاد کی جسے ”بمپ سٹاک“ کہتے ہیں، اس کے ذریعے کسی بھی نیم خود کار بندوق کو مکمل خود کار بندوق میں بدلا جا سکتا ہے، دو ہزار سترہ میں سٹیفن پیڈک نامی جنونی نے اس کے ذریعے لاس ویگاس کے ایک کنسرٹ میں اٹھاون افراد کو ہلاک اور پانچ سو کو زخمی کر ڈالا جس پر مجبور ہو کر صدر ٹرمپ نے بمپ سٹاک پر پابندی عائد کر دی لیکن اب سے چند دن پہلے امریکی عدالت کے انہی خدا کے قہر سے ڈرنے والے ججوں نے اس پابندی کو یہ
کہتے ہوئے ختم کر دیا ہے کہ کانگریس نے تو مکمل خود کار بندوقوں پر پابندی عائد کی تھی لیکن ”بمپ سٹاک“ اس کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔
https://lite.cnn.com/2024/06/15/opinions/bump-stocks-guns-supreme-court-erdozain/index.html
اسی طرح ہر سال تیس ہزار سے زائد امریکی جن میں بچے بھی شامل ہوتے ہیں، کاروں، گاڑیوں کے حادثات کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں، لیکن یہی ری پبلکن ہر طریقے سے ریل گاڑی یا متبادل سفر کے ذرائع کے فروغ کے خلاف ہیں۔ کچھ سالوں پہلے پیرس کی مئیر اینی ہیڈالگو اور دیگر نے ایک منصوبے کی بنیاد رکھی کہ شہروں میں کچھ ایسا نظام کیا جائے کہ چھ سے آٹھ کلو میٹر کے دائرے میں لوگوں کو روزگار سمیت ضرورت کی ہر چیز مل جائے تاکہ انہیں خریداری کرنے کے لیے گاڑی نہ نکالنی پڑے اور یوں آلودگی کم ہو۔
جب اس منصوبے کی کامیابی کے چرچے امریکا تک پہنچے تو کچھ افراد نے اسی منصوبے کو دوہرانے کی تجویز دی تو قدامت پرستوں نے اسے اپنی گاڑی استعمال کرنے کے حق کے خلاف قرار دیتے ہوئے انہیں قتل کی دھمکیاں دیں۔ یہی نہیں بلکہ ری پبلکن قدامت پرست برقی گاڑیوں کو فروغ دینے کے بھی خلاف ہیں۔ مثلاً صدر ٹرمپ کے سابقہ مشیر سٹیو بینن نے کیپٹل ہل پر حملے کے بعد آئندہ انتخابات میں ٹرمپ کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا تھا، اب اس نے کچھ ہفتے پہلے اعلان کیا ہے کہ وہ ٹرمپ کو ووٹ دے گا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ بائیڈن عوام کے سفر کے انتخاب پر پابندی لگانا چاہ رہا ہے۔
یہ صدر بائیڈن کی جانب سے برقی گاڑیوں کو فروغ دینے اور انجن والی گاڑیوں پر پابندی کی جانب اشارہ تھا۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ نو زائیدہ اور چھوٹے بچوں کی سالانہ اموات میں ایک بڑا حصہ دمے کے مرض کا ہے جس کی ایک بڑی وجہ گاڑیوں، ہوائی جہازوں اور کارخانوں سے نکلنے والا زہریلا دھواں ہے جو ہر پل زمین پر سانس لینے کے عمل کو مشکل بنا رہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ٹرمپ نے الاسکا کی سابقہ گورنر سارہ پیلن کے الاسکا کے اہم قدرتی جنگلات کے خطے میں تیل و گیس کی تلاش کے حوالے سے سنہ 2008 کی صدارتی مہم میں دیے گئے نعرے ”ڈرل بے بی، ڈرل“ کو بھی اپنا لیا ہے اور ٹرمپ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ حکومت میں آتے ہی تیل و گیس کی تلاش کے لیے اجازت نامے جاری کرنے اور امریکی تیل کی پیدا وار بڑھا دے گا۔ اور ابھی چند دن پہلے عدالت عظمیٰ کے ججوں نے وفاقی اداروں کے ذریعے آلودگی کے اخراج کے خلاف سنہ 1980 کی دہائی سے چلے آئے ایک فیصلے کو بھی یہ کہتے ہوئے واپس لے لیا ہے کہ اس حوالے سے قانون بنانا کانگریس کا کام ہے اور وہاں موجود ری پبلکن اس حوالے سے کسی پابندی کے قانون کو منظور ہونے نہیں دے رہے ہیں۔
https://lite.cnn.com/2024/06/30/politics/chevron-ruling-explained-supreme-court-meaning/index.html
حالانکہ خود امریکہ سمیت پوری دنیا میں اس وقت شدید گرمی پڑ رہی ہے اور آئندہ نسلوں کی بقاء کے لیے قدرتی ماحول تباہ رہا ہے۔ اور اگر صورتحال یہی رہی تو اس صدی کے آخر تک دُنیا کے بہت سے خطے اور ممالک ناقابل رہائش ہوجائیں گے لیکن ری پبلکنوں کو ایسے علاقوں کے بچوں کی صحت و زندگی کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
چنانچہ اس عمل کو سوائے انتہائی درجے کی منافقت کے سواء اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ ایک طرف اُنہیں اپنے ہی ہم وطنوں کے قابل علاج بیماریوں سے مر جانے کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے، دنیا بھر کے بھوکے افراد کا پیٹ بھرنے سے بھی کوئی غرض نہیں، جنگ، بھوک، غربت، ظالم حکومتوں کے ہاتھوں ستائے افراد اور روزگار کی تلاش میں آنے والوں کے بھی سخت ترین مخالف ہیں لیکن جب بات اسقاط حمل اور اس حوالے سے عورت کی پسند پر پابندی لگانے کی بات آتی ہے تو اس کے لیے انہیں بائبل اور مسیحی حدیث کے احکامات یاد آ جاتے ہیں۔
اور یوں آج دنیا میں نہ آنے والے بچوں کی وجہ سے ان کی ماؤں اور عورتوں کی زندگیاں شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ اِن انتہا پسندوں نے عورت کو محض بچے پیدا کرنے کی مشین سمجھ لیا ہے کہ جس کی حاملہ ہونے کے بعد کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔
اگر اِن لوگوں کو اسقاط حمل کا حق ختم کرنے کی اجازت دی جاتی رہی تو شاید مغرب کی عورت بچے پیدا کرنے سے ہی انکاری ہو جائے۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اسقاط کا حق واپس لیے جانے کے بعد عورتیں (اور مرد بھی) زیادہ بڑی تعداد میں مستقلاْ نس بندی کروا رہے ہیں، یعنی اسقاط کی اجازت ہونے کی صورت میں ہو سکتا تھا کہ ایسی عورتیں اپنا فیصلہ بدل کر بعد میں بچہ پیدا کر لیتیں لیکن اب وہ یہ اجازت نہ ملنے کی یا اسقاط کی راہ میں کھڑی کی گئی مشکلات کی وجہ سے مستقلاْ نس بندی کروا رہی ہیں۔
https://text.npr.org/nx-s1-5025682
صرف یہی نہیں بلکہ ٹرمپ یا کسی دوسرے ری پبلکن کے صدر منتخب ہونے کی صورت میں یہ انتہا پسند مزید پابندیوں کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ مثلاً جب سے امریکی عدالت عظمیٰ نے اسقاط کا حق ختم کیا ہے، ری پبلکن ریاستوں میں ڈاک کے ذریعے اسقاط حمل کی گولیاں استعمال کرنے کا رواج بڑھ گیا ہے چنانچہ اس کے خلاف وہ سنہ 1870 کی دہائی میں بنا یا گیا ایک ایک قانون استعمال کرنے پر اصرار کر رہے ہیں جس میں ”غیر اخلاقی“ چیزوں کی ڈاک کے ذریعے ترسیل پر پابندی لگائی گئی تھی۔ صرف یہی نہیں کچھ ہی دن پہلے امریکی عدالت عظمیٰ میں اسقاط حمل کی گولیوں پر پابندی کے حوالے سے ایک
مقدمہ دائر کیا گیا تھا جس کو عدالت نے فی الحال تو مسترد کر دیا لیکن ادویات کے ادارے ایف ڈی اے کے ذریعے پابندی لگانے کا راستہ یہ کہتے ہوئے چھوڑ دیا کہ کسی دواء پر پابندی مذکورہ ادارہ لگا سکتا ہے۔ اور ٹرمپ کے حامیوں نے ابھی سے کہنا شروع کر دیا ہے کہ ٹرمپ دوسری دفعہ اقتدار میں آ کر ایف ڈے اے کا سربراہ کسی ایسے فرد کو مقرر کرے گا جو ان گولیوں کو غیر قانونی قرار دے کر سارے امریکا میں بل واسطہ طور پر اسقاط حمل پر پابندی عائد کر دے گا۔
اچھا یہ نہیں ہے کہ ساری عورتیں زیادتی کی صورت میں اسقاط حمل کروا لیتی ہیں۔ مثلاً مشہور گلوکار جسٹن بیبر کی ماں سے زیادتی ہوئی لیکن اس نے بچہ پیدا کرنے کا انتخاب کیا اور یوں جسٹن بیبر پیدا ہوا۔ لیکن پھر وہی بات کہ اُس کی ماں ذہنی طور پر اتنی مضبوط تھی کہ اسے اس بات کی پروا نہیں تھی کہ بچہ کس طرح سے اس کے پاس آیا ہے لیکن ہر عورت اتنی مضبوط نہیں ہوتی۔
https://www.boomplay.com/buzz/1497814
تو اس سب کو سامنے رکھتے ہوئے کہ آپ سوال اٹھا سکتے ہیں ایک طرف ان نام نہاد بچوں کی زندگیوں کے رکھوالوں کو آئندہ نسلوں کے لیے اس سیارے کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی بھی کوئی پروا نہیں، سیارے کے ماحول کو انسانوں کے سانس لینے کے لیے صاف ہوا مہیا کرنے سے بھی کوئی دلچسپی نہیں، بچوں کو سرکاری سطح پر مفت صحت و تعلیم کی سہولت دینے کے بھی سخت مخالف ہیں، بچوں کو سکولوں میں بندوقوں سے محفوظ ماحول مہیا کرنے سے بھی انکاری ہیں۔ تو پھر اسقاط کے ذریعے بچوں کی جانیں بچانے پر اتنا زور کیوں دیا جا رہا ہے تو اس کا جواب سوائے مذہبی انتہا پسندی کے سواء کیا دیا جا سکتا ہے۔ انگریزی زبان کا ایک محاورہ ہے
کہ اگر ایک چیز بطخ کی طرح نظر آتی ہو، بطخ کی طرح قیں قیں کرتی ہو، بطخ کی طرح تیرتی ہو تو اے بیوقوف! وہ بطخ ہی ہے۔
- کیلوِن باؤری۔ بے گناہ قید کاٹنے سے کامیاب کاروباری شخصیت بننے تک کا سفر - 30/10/2024
- ایتھوپیا میں برقی کاروں کی حکمرانی - 29/08/2024
- مصنوعی قحط سالی - 11/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).