مرزا ابن حنیف: مرد افگن عشق
یہ کیسا ستم ہے جو مجھے اب بھی محسوس ہوتا ہے کہ جب میں ملتان جاؤں گا تو بیکن بکس کے سامنے یا کہیں آس پاس ابن حنیف مجھے نظر آ جائیں گے۔ سیاہ رنگ کا چھوٹا سا پرانا بیگ دائیں بغل میں دابے، سفید کرتا اور شلوار پہنے، سڑک سے کچھ ہٹ کر سر جھکائے ہوئے، ارد گرد سے بالکل بے خبر اور بے نیاز ہو کر پیدل چلتے ہوئے مل جائیں گے۔ میں ایک دم ان کے سامنے آؤں گا۔ وہ چونک کر رک جائیں گے۔ ”ارے بیٹا تم کب آئے؟“ ۔ میں ان کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کر دوں گا۔ ”ایک تو یہ انوار نے بڑی گڑبڑ کی ہوئی ہے۔ ہر ایک سے کہہ دیتا ہے کہ میں علیل ہوں اور موثر عیادت یہی ہے کہ مجھ سے نہ ملا جائے۔ آرام کرنے دیا جائے۔ میں اب ٹھیک ہوں۔“
قریب ہی تو ان کا گھر ہے۔ ایک آدھ جملے کے بعد گھر آ جاتا ہے۔ ”تم یہیں رکو بیٹا، میں کمرہ کھول دوں“ ۔ ان کی بیٹھک کسی مصری نژاد پاکستانی کا کمرہ دکھائی دیتی ہے لیکن ہلکا پھلکا، اتنا زیادہ بھرا ہوا بھی نہیں کہ طبیعت پر بوجھ پڑے۔ دیواروں پر مصری تصاویر، کشن کے غلافوں پر مصری اہرام اور نقوش۔ چھوٹی میزوں پر کچھ مورتیاں اور بس۔ ”یہ تصویر کس کی ہے؟“ ۔ ”یہ فرعون چہارم ہے۔ جو فرعون بدنام ہے نا! یہ وہ نہیں ہے۔ اس کی اولاد میں سے ہے“ ۔
وہ پھر تفصیل سے سمجھانے لگتے۔ اس عہد کی زبان، تہذیب، مذہب بھی کچھ گفتگو میں آ جاتا۔ اچھا بیٹا، چھوڑو ان باتوں کو یہ بتاو میرا لاڈلا (اصغر ندیم سید) کیسا ہے۔ تمہیں پتہ ہے کہ میں اسے لاڈلا کیوں کہتا ہوں۔ اتنا بڑا ہو گیا ہے، مگر ابھی تک نالائق لاڈ کرتا ہے۔ میری ساری کتابیں بیکن بکس والوں نے چھاپی ہیں۔ سنگ میل والوں نے مایوس ہو کر میرے لاڈلے سے کہا کہ ابن حنیف کی کوئی کتاب لے آئیں۔ بس اب لاڈلا جو ہوا۔ کوئی روک سکتا ہے اسے۔ میری ایک کتاب اٹھا کر لے گیا کہ جی یہ سنگ میل والوں سے چھپوانا ہے۔ ہے کیسا وہ اب؟ اس کے بچے کیسے ہیں؟ اسی طرح ابن حنیف اپنی مغلئی شان کو فراموش کر کے جنوبی پنجاب کے نسل در نسل مکینوں کی طرح اپنے پیاروں کی بابت، ان کے بچوں، ان کے معاملات کے بارے میں تفصیل سے بات کرتے اور سن کر خوش ہوتے تھے۔ ان کے چہرے مہرے سے، بہ ظاہر میل جول سے پر وقار بے نیازی سی ہمیشہ جھلکتی تھی لیکن اندر سے وہ ہمیشہ جڑت میں رہتے تھے۔
یہ بھی تو کیسا ستم ہے جو مجھے اب بھی محسوس ہوتا ہے کہ جب میں ملتان جاؤں گا تو ابن حنیف سے ملنے ان کے گھر حاضر ہوں گا اور وہ بستر پر بیٹھے لیٹے کہیں گے۔ ”معاف کرنا بیٹا! اٹھ کر بیٹھ نہیں سکتا۔“ وہیں کھڑے کھڑے کہوں گا کہ ”سلام کرنے حاضر ہوا تھا۔ اب چلتا ہوں“ ۔ یہ ڈاکٹروں کی سازش ہے بیٹا اور دوسرے دوستوں کی کہ میری علالت کو مشہور کر رکھا ہے۔ میں تو ٹھیک ہوں۔ بس صرف بیٹھنا دشوار ہے لیکن اتنا بھی نہیں۔ چائے پی کر جانا بیٹا۔ یہاں اکیلا پڑا پڑا بور ہو رہا تھا۔ اچھا کیا جو باتوں میں نہیں آئے اور مجھ سے ملنے چلے آئے ”۔
ان سے اسی نوع کی آخری ملاقاتوں میں سے کسی ایک ملاقات کے دوران میں، میں نے ان سے کہا کہ ڈاکٹر اختر شمار لا ہور سے روز نامہ ”خبریں“ کا ادبی صفحہ شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ پہلی اشاعت آپ کے ایک طویل انٹرویو سے ہو۔ کہنے لگے۔ ”اسے کہنا کہ تم مجھے بہت عزیز ہو اور میرے دل میں تمھارا احترام موجود ہے۔ اسے جو محبت مجھ سے ہے نا بیٹا، وہ بھی محسوس کرتا ہوں مگر میں انٹرویو کیا دوں گا۔ میں کوئی ادیب یا محقق تو ہوں نہیں۔“ اب اس پر میں نے جب زیادہ احتجاج تو کہنے لگے۔ ”دیکھو بیٹا! اسے میری بدگمانی نہ کہنا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں آثار قدیمہ کی باریکیاں جاننے والے لوگ نہیں ہیں۔ لکھنے والے بھی یہ سمجھتے ہیں کہ قدیم تہذیبوں کے آثار پر قلم اٹھانا ادب کے زمرے میں نہیں آتا۔ ہم لوگوں نے ادب کو بڑا محدود کر دیا ہے۔ میں اس دائرے میں نہیں آتا اور نہ ہی آنے کی کبھی خواہش کی ہے۔ پوری فضا کو تو کیا کہوں، پڑھے لکھے طبقے نے بھی قدیم آثار تہذیبوں کی طرف کبھی دھیان نہیں دیا۔ میں انٹرویو دے بھی دوں تو کس کے لیے“ ۔ میں نے کہا کہ ان لوگوں کے لیے جن کی خاطر آپ نے مصر کے قدیم ادب، دنیا کے قدیم ترین اور اساطیر پر ضخیم جلدوں میں کام کیا ہے۔ کہنے لگے! ”یہ میں نے اپنے لیے کام کیا ہے بیٹا! مجھے شوق ہے اس کام کا۔ لوگوں سے زیادہ عزیز مجھے اپنا یہ شوق ہے اور اس کے لیے کام کرتا رہا ہوں گا“ ۔ میں جب میڈیا سے دور رہنے پر ان سے زیادہ بحث کی تو فرمانے لگے۔
”پاکستان میں میڈیا آثار قدیمہ اور گزشتہ تہذیبوں کی نزاکتوں سے واقف نہیں۔ میں خود بڑا عرصہ روز نامہ“ امروز ”سے وابستہ رہا ہوں۔ میڈیا یعنی یہاں کا میڈ یا باتوں کو توڑ موڑ کر پیش کرتا ہے۔ میں جو کہتا ہوں یہ لوگ اس سے واقف ہی نہیں۔ لہذا، جب چھپتا ہے تو میں خود حیران رہ جاتا ہوں کہ یہ باتیں میں نے تو نہیں کہی تھیں۔ دوسرا، اس سے میرے کام میں بڑا حرج ہوتا ہے بیٹا۔ میرا یہ مزاج کبھی بن ہی نہیں سکا“ ۔ میڈیا پر جب بات زیادہ چل نکلی تو فرمانے لگے۔
”بیٹا ہے یہ نہایت ہی غیر معقول سی بات اور کچھ حد تک کم ظرفی کی بھی ہے۔ لیکن انسان جو ہوا، نکل جاتی کبھی کبھار منہ سے۔ جو بات اب میڈیا کی آپ کو بتانے لگا ہوں نہایت نامعقول سی بات ہے جو میری زبان سے نکلی۔ ہوا یہ کہ بہت برسوں کی بات ہے جو یورپ کے اہم ترین اور معروف ترین میڈیا سنٹر کی ایک مشترکہ ٹیم ( ابن حنیف صاحب نے دو چینلز کے نام لے کر بات کی تھی) ایک دن اچانک بغیر اطلاع دیے میرے گھر آ گئی۔ میں اپنے کام میں منہمک تھا۔ دروازہ کھولا۔ انہیں اندر بٹھایا۔ کیمرے، روشنیوں کے آلات دیکھ کر طبیعت بڑی مکدر تو ہوئی لیکن آداب میزبانی کی وجہ سے بیٹا چپ رہا۔ ان سے آنے کی وجہ پوچھی تو دو لوگ کہنے لگے کہ یہ فلاں فلاں صاحب برطانیہ سے آئے ہیں۔ انہیں آپ کا انٹرویو کرتا ہے اور سکندر اعظم کی پنجاب میں آمد اور واپسی کے راستوں کے حوالے سے آپ کی رہنمائی لیتی ہے۔ اس موقع پر وہ نہایت نامناسب بات میں نے کہی کہ مجھے اس قسم کی آمادگی کے لیے کوئی خط نہیں آیا۔ ضروری تھا کہ آپ لوگ ایک دم تشریف لانے سے پہلے یہ دیکھ لیتے کہ کیا میں یہ کام کرنے کے لیے آمادہ بھی ہوں یا نہیں۔ وہ سب ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ انہوں نے جب معذرت کی اور پیشگی اجازت یا رضا مندی نہ لے سکنے کی مجبوریاں سامنے رکھیں اور ساتھ ہی ساتھ قدیم خطوں اور تہذیبوں پر کام کرنے کے اپنے عزائم ظاہر کیے تو مجھے ان عزائم میں شوق بھی محسوس ہوا۔
ان کے اس شوق کو دیکھ کر مجھے اندر سے خوشی ہوئی کہ چلو کوئی تو ان موضوعات کو ہاتھ لگا رہا ہے۔ میں نے کہا ان سے کہا کہ بیٹا میری ایک شرط ہے۔ وہ میرے غیر متوقع انکار کے سبب ذرا گھبرائے ہوئے تھے۔ کہنے لگے سو شرطیں بھی ہوں تو ہم ماننے کو تیار ہیں۔ معاوضہ پیشگی دیں گے وغیرہ وغیرہ، تو بیٹا میں نے کہا نہیں صرف ایک شرط کہ آپ لوگوں کے چینل پر پاکستان میں موجود قدیم تہذیبی علاقوں کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو لفظ انڈیا استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ ہڑپہ، موہنجو داڑو، ٹیکسلا، ملتان، ٹلہ جوگیاں وغیرہ یہ سب علاقے اب انڈیا میں نہیں ہیں۔ اب یہ علاقے پاکستان میں ہیں جب بھی ان علاقوں کا ذکر ہو یا کوئی ڈاکومینٹری بنے تو یہ کہا جائے کہ یہ قدیم تہذیبی خطے پاکستان میں ہیں۔ اب تک جو دانستہ طور پر غلطی آپ لوگوں سے ہوتی آئی ہے، اس پر معذرت کی جائے اور آئندہ احتیاط سے کام لیا جائے۔ بس یہی شرط ہے۔ آپ کو اگر اس کا اختیار نہیں ہے تو پھر اپنے افسران سے پہلے بات کر لیں۔ اگر آپ کا ادارہ یہ شرط ماننے کو تیار ہے تو میں آپ لوگوں کی خدمت بلا معاوضہ کرنے پر تیار ہوں۔ وہ صاحب کہنے لگے کہ یہ پالیسی میٹر ہے جو ہمارے اختیار سے باہر ہے۔ میں نے پھر نہایت نامناسب بات کی کہ اختیار والوں کو بھیجیے اور آپ تشریف لے جائیے۔ پچاس برس سے اوپر ہو گئے ہیں اس سرزمین کو شناخت ملے۔ اب یہاں قدیم تہذیبی خطوں کا نام جب بھی لیا جائے گا تو کہا جائے گا کہ علاقے اب پاکستان میں ہیں۔ آپ لوگ انڈیا کیوں کہتے ہیں۔ تو بیٹا تم ہی بتائو کہ ایسے میڈیا کا میں کیا کروں۔ یہ لوگ میرے کام کے نہیں۔ ان سے دور رہنا زیادہ اچھا ہے۔“
اب اس بات پر میں ان سے لاڈ بھرے انداز میں خوب بگڑا کہ ملتان کا قلعہ کہنہ، پرہلاد کے آثار، ہڑپہ، موہنجوداڑو، ٹھٹہ، ٹیکسلا وغیرہ کے آثار کو موجود جغرافیہ کی بنیاد پر کیسے دیکھا جا سکتا ہے۔ ملکوں کی تقسیم اور جغرافیائی حالت کی تغیر تو بہت بعد کی کہانی ہے۔ منٹو کے ہاں ٹوبہ ٹیک سنگھ، ٹیٹوال کا کتا، آخری سیلوٹ اور نہ جانے کتنے حوالے میں بہت پرجوش انداز میں ان کے سامنے رکھے۔ انھوں نے نہایت انہماک اور تحمل سے میرا موقف مکمل سنا۔ جب میں بول بول کر تھک گیا تو انھوں نے ایک ہی جملہ کہا کہ اصول یہی ہے کہ آثار کی موجودگی کو اس کے موجودہ جغرافیہ کے نام سے ہی بتا یا جاتا ہے کہ یہ آثار اس وقت کہاں ہیں۔ مصر میں موجود آثار کو موجودہ مصر ہی کے نام سے دکھایا جائے گا یہ یہاں واقع ہیں۔ ان کے پر سکون لہجے اور اطمینان نے مجھے باور کرا دیا کہ میرے اتفاق یا اختلاف سے یہ اصول اپنی جگہ سے نہیں ہلنے والا۔ مرزا ابن حنیف نے کبھی جذبہ حب الوطنی پر تقریر نہیں کی۔ پاکستان پائندہ باد کا نعرہ نہیں لگایا۔ الفاظ کے استعمال کی کثرت ان الفاظ سے بعض اوقات معانی کی روح کھینچ لیتی ہے۔ جب زبان سرکاری ہاتھوں میں کھیلتی ہوئی حکومتی ایوانوں میں اپنے خاص مقاصد کے حصول کے تحت بروئے کار لائی جاتی ہے تو الفاظ کا نتیجہ کچھ ایسا ہی نکلتا ہے لیکن ابن حنیف طلب پہ عہد وفا کرنے والوں میں سے نہ تھے۔ وہ وفا کے آبرو رکھنے کی رمز خوب جانتے تھے۔
یہ بھی تو کیا ستم ہے جو مجھے اب بھی محسوس ہوتا ہے کہ میرے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہیں گے ”بیٹا قبل از مسیح کا ایک مصری مخطوطہ ایبرس پیپرس ( Ebras Papyrus) کے نام سے ہے۔ اس مخطوطے میں ابنارمل رویوں کے بارے میں کچھ معلومات ملتی ہے۔ مصری تہذیب کی قدیم تاریخ میں جنات یا آسیب زدگی کے رویے اس شدت سے نہیں ہیں جتنی شدت کے ساتھ یورپ کے ازمنہ وسطی میں سامنے آئے تھے۔ مصری تہذیب میں جراحی کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔ ان کے ہاں مشاہدہ ہے، فلسفہ اتنا نہیں ہے۔ آپ جو ایڈون سمتھ پیپرس (Edwin Smith Papyrus) کا حوالہ دے رہے ہونا بیٹا تو اس کے لیے ایک تکلیف کرو۔ ڈاکٹروں کی کیا پروا کرنی، میں اب واقعی اٹھ نہیں سکتا۔ آپ یہ ساتھ والے کمرے میں جاؤ۔ دروازے کے ساتھ جو الماریاں ہیں، ان میں تیسری الماری کے دوسرے خانے میں سفید کاغذ میں لپٹی ہوئی ایک جیسی چند کتابیں پڑی ہیں، پانچویں نمبر والی کتاب تمہارے دائیں ہاتھ سے پانچویں نمبر والی کتاب، وہ ذرا لے آؤ۔ بیٹھ کر اس میں (Ed) والا صفحہ تلاش کرو۔ اس میں شاید معلومات مل جائیں۔ اچھا رہنے دو اس کتاب کو فلاں الماری، فلاں خانہ فلاں کتاب۔ انہوں نے کئی کتب منگوائیں مگر مطلوبہ حوالہ جب نہ ملا تو کچھ فکر مند سے ہوئے۔ “ مجھے اس انٹرنیٹ پر کچھ زیادہ اعتبار ہے نہیں۔ اگر تو وہ مخطوطہ موجود ہے اور جیسا کہ آپ بتا رہے ہو کہ پروفیسر بریسٹڈ (Prof. Breasted) نے اسے انگریزی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ تو اس کا حوالہ ان کتب یا انسائیکلو پیڈیا میں مل جانا چاہیے تھا۔ چلو، بھول چوک انگریزوں سے بھی ہو سکتی ہے۔ ”اس کے بعد وہ بڑی دیر تک لیٹے لیٹے اس موضوع پر باتیں کرتے رہے۔ چہرے پر بشاشت برقرار تھی۔
جیسے غالب نے اپنے بالا خانے کے بارے میں کہا کہ یہ میرے جینے مرنے، سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے کا محل ہے، اسی طرح بیکن بکس ان دنوں مرزا ابن حنیف کے لیے اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے کا محل تھا۔ جس زمانے (1990) کے آس پاس ہم نے انھیں دیکھا، وہ بیکن بکس پر بیٹھ کر اپنا علمی کام جاری رکھے ہوئے تھے۔ یہ ایک طور ان کے گھر کا حصہ بن چکا تھا۔ کبھی کبھار ایسے ہوتا ہے کہ کوئی لکھنے والا کسی اشاعتی ادارے کی شناخت بن جاتا ہے اور اس شناخت سے اس اشاعتی ادارے کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔ بیکن بکس ایسا اشاعتی ادارہ ہے کہ جس کے عروج کو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھا ہے۔ ابن حنیف اس ادارے کی شناخت کا اہم حوالہ بنے۔ آنے والے وقتوں میں بیکن بکس کا نام اگر تاریخ میں لیا جاتا رہا تو اس کا ایک اہم سبب ابن حنیف ہوں گے کہ انھوں نے اپنا بہت سا وقت یہاں بسر کیا اور ان کی بیشتر کتب اسی ادارے نے بہت اہتمام سے شائع کیں۔ اب کوئی جا کر عبرت کے نشان دیکھے کہ گل گشت کالونی میں ایک زمانے میں بیکن بکس دور سے دکھائی پڑتی تھی کہ تب یہ علاقہ رہائش کے لیے مختص تھا۔ اب ملکی اور بین الاقوامی برانڈز کی چمکتی ہوئی دکانوں کی ایک لمبی قطار ہے کہ جس نے گھروں کے مرکزی دروازوں کے ساتھ ملتانی نیلے رنگ کی سلوں پر اردو میں لکھے ہوئے گھروں کے نمبر ہٹا دیے اور ان کی جگہ اونچے اونچے چمک دار پلازوں نے لے لی ہے۔ اب یہ رہائشی علاقہ نہیں، بازار ہے۔ اس بازار کے بیچ میں حسرت کی مثال بنی بیکن بکس ہمارے حافظے پر دستک دیتی ہے کہ کسی زمانے میں کتب کی دکانیں بھی بہت بڑی اور بارونق ہوا کرتی تھیں۔ بیکن بکس الگ سے ایک شخصیت ہے کہ جس کا خاکہ لکھا جانا چاہیے۔ بیکن بکس کی اس شخصیت کا شرف، وقار، تہذیب اور شائستگی کا محور ابن حنیف رہے۔
یہ بھی تو کیسا ستم ہے جو مجھے اب بھی محسوس ہوتا ہے کہ ملتان جاؤں گا تو وہ بتانے کے انداز میں خوش ہو کر پوچھیں گے کہ ڈاکٹر سہیل احمد خان تو اب جی سی آ گئے ہیں۔ تو میرا سلام کہنا۔ جب یہاں رائٹرز گلڈ کے اجلاس ہوئے تھے تو تب وہ شاید بی۔ اے کے طالب علم تھے اور باقاعدگی سے ان جلسوں میں آیا کرتے تھے۔ میں نے ایک زمانے میں کتاب گھر بھی کھولا تھا، ادبی اور علمی قسم کا۔ اس کا مجھے بڑا فائدہ ہوا کہ اس کاروبار کی آڑ میں نے اپنی کچھ پسندیدہ کتابیں منگوا لیں۔ گھر والوں کو کیا پتہ چلتا۔ حیران سبھی تھے کہ میرا کتاب گھر کچھ زیادہ چلا نہیں۔ سارے ادبی رسائل وغیرہ منگوا لیا کرتا تھا۔ یہ سہیل احمد میرے با قاعدہ گاہکوں میں سے ایک تھے جو رسائل وغیرہ لے جاتے تھے اور میری کچھ کاروباری عزت گھر والوں کی نظر میں بن جایا کرتی تھی۔ وہ محنتی اور لائق لوگوں سے باخبر رہا کرتے تھے اور ان کے بارے میں بات کر کے خوش ہوا کرتے تھے۔
ابن حنیف صاحب کی شخصیت میں مغلئی شان کا دریچہ مجھ پر استاد گرامی ڈاکٹر انوار احمد نے کھولا۔ میری ابن حنیف صاحب سے راہ و رسم ایسی تھی کہ مجھے کبھی بھی ان کی شخصیت کے اس پہلو کا اندازہ نہ ہوسکا۔ مغلئی شان تو بہت دور کی بات، ان میں مجھے فقیرانہ بے نیازی ہمیشہ دکھائی بھی دی اور محسوس بھی ہوئی۔ علم مطلق کو پہنچ کر کچھ نہ جاننے کا سا انداز ایسے تو نہیں آ جاتا اور بلھے شاہ ایسے تو کہہ اٹھتے کہ علموں بس کریں او یار۔ مرزا ابن حنیف کو میں نے کبھی کس سے الجھتے، بحث کرتے، اپنی ہی کہتے، اپنی ہی منواتے نہیں دیکھا۔ دیکھنا کیسا، ان کے بارے میں ایسا تاثر بھی سننے میں نہیں آیا۔ نوے کی دہائی کی بات ہے کچھ اس کے بعد کی بھی۔ اردو اکادمی میں آنے والے باقاعدہ لوگوں میں ان کا شمار ہوتا تھا لیکن مجال ہے کہ کبھی وہ اپنی رائے کا اظہار کر جائیں۔ خاموشی سے تشریف لاتے، خاموشی سے چلے جاتے۔ جلسے کے بعد مشترکہ دوستوں کے ساتھ کھڑے ہو کر کچھ باتیں کرتے۔ دیگر احباب اردو اکادمی کے اجلاس کے بعد عام طور پر قریب ہی گول باغ میں بیٹھ جاتے، چائے پیتے، گپ شپ لگاتے لیکن ابن حنیف صاحب راہ میں ہم ملیں کہاں والی وضع داری کو بغل میں دبائے اپنے گھرکی راہ لیتے۔ مغلئی شان کے تصور سے جڑے ظاہری عوامل ان میں نہیں تھے یا کم از کم میرے مشاہدے میں نہیں آ سکے۔ وہ ایک خاموش نگر تھے۔ ان کو دیکھ کر لگتا تھا کہ اطراف کی آوازیں بھی ان کی ذات میں جذب ہوتی چلی جا رہی ہیں اور سارے میں خامشی پھیلی چلی جاتی ہے۔ ایسی خامشی جس میں سکون ہے۔
یہ بھی کیسا ستم ہے کہ مجھے اب بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات پر بات کرتے ہوئے کترا جائیں گے لیکن جب میں زیادہ زور دوں گا تو بتانا شروع کر دیں گے ”میں ایک وقت میں ایک کام نہیں کرتا۔ بیک وقت کئی علمی کام ایک ہی وقت میں شروع کرتا ہوں۔ تھوڑا تھوڑا وقت ہر موضوع کو دیتا ہوں۔ اس طرح میرا ماحول خوش گوار رہتا ہے اور یکسانیت کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا۔ پھر یہ بھی ہو جاتا ہے کہ کوئی کام کسی جگہ آ کر رک جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں وسائل موجود نہیں، کتب خانوں کا حال سب کے سامنے ہے۔ میرے موضوعات قدیم ادب اور مصر اور اساطیر سے زیادہ متعلق ہیں تو ان موضوعات پر رکاوٹیں تو بہت آتی ہیں۔ رکاوٹ پڑنے پر دوسرا کام کھول بیٹھ جاتا ہوں۔ پھر پہلے پر لوٹ آتا ہوں۔ زندگی کے آخری ایام میں ان کی بڑی آرزو تھی کہ مار شناسی سے متعلق ان کا جو کام رسالہ فنون میں ستر کی دہائی میں مضامین کی صورت شائع ہوا تھا، اسے تلاش کر کے ان تک پہنچایا جائے۔ وہ اس کام پر نظر ثانی کر کے اسے کتابی شکل میں لانے کے خواہاں تھے۔ خاکسار نے وہ مضامین ان کو بھجوا دیے تھے۔ نہ جانے پھر ان کا کیا بنا۔
ابن حنیف صاحب نے تادم مرگ سرکاری یا ذاتی ہر قسم کی امداد لینے سے نہ صرف شدت سے انکار کیا بلکہ اس پر خاصا احتجاج بھی کیا۔ یہی کوئی سال بھر پہلے کی بات ہے جو انوار صاحب نے مجھ سے کہا کہ لاہور کے ایک اشاعتی ادارے کی طرف ابن حنیف صاحب کے پانچ ہزار روپے بنتے ہیں، ان سے جا کر کہو کہ وہ ابن حنیف صاحب خط میں یہ لکھ بھیجیں کہ ہم نے واجب الادا رقم انوار احمد کو دستی دے دی ہے۔ اس طرح ابن حنیف صاحب یہ رقم وصول کر لیں گے اور کوئی صورت نہیں۔ ابن حنیف صاحب ان دنوں سخت علیل تھے اور انہیں علاج معالجے کے لیے رقم کی ضرورت رہتی تھی مگر مجال ہے کسی کو جو اس ضمن میں کوئی حرف تک منہ سے نکال جائے۔ اس معاملے میں وہ سچے اور کھرے مغل تھے۔ تاہم، ان کے بشرے سے، باتوں سے اور چال ڈھال سے یہ انا کبھی نہ چھلکی تھیں۔ چہرے پر ہر وقت بچوں کی معصومیت اور لیجے میں نرمی رہتی تھی۔ وہ حلقہ یاراں میں بریشم تھے حلقہ سود و زیاں میں فولاد۔ میں نے لاہور کے ان پبلشرز کے سامنے مدعا بیان کیا تو وہ کہنے لگے کہ انوار صاحب یا آپ کیوں رقم ادا کریں۔ میں خود بھجوائے دیتا ہوں۔ کوئی ایسا خط لکھنا میری شان کے خلاف ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ روز کی ٹال مٹول، بہانوں، معذرتوں کے چھ ماہ گزرنے کے بعد میں نے منی آرڈر رسید کی شکل دیکھی۔ لیکن ان پانچ ہزار روپوں سے کیا ہوتا تھا۔ میں نے ایک دن انوار صاحب سے بھی کہا کہ ان چند ہزار روپوں سے کیا بنے گا۔ جب میں نے بہت زیادہ زور دیا تو فرمانے لگے ”آپ نہیں جانتے ابنِ حنیف کو“ ۔ اس کے بعد جو میری سختی آئی وہ ایک الگ داستان ہے۔ ابن حنیف صاحب نے اس قسم کے تمام راستے بند کر دیے تھے۔ ان کے انتقال سے چار پانچ دن پہلے ان کے لاڈلے اصغر ندیم سید صاحب نے روزنامہ جنگ میں ان کی علالت اور حکومت کی عدم توجہی پر ایک درد انگیز کالم لکھا۔ اس کالم کو پڑھنے کے بعد عطا الحق قاسمی اور دیگر با اثر احباب متحرک ہوئے کہ جگر کی تبدیلی کا یہ علاج بھارت میں ممکن تھا۔ اوروں کو تو ابن حنیف روک لیا کرتے تھے اور اپنی وضع داری نبھا جاتے تھے لیکن اب وہ اپنے لاڈلے کو بھلا کیسے روکتے۔ لاڈلے کو روکنا بھی تو خلاف وضع تھا۔ تین چار دنوں میں وہ وہاں چلے گئے کہ جہاں سے ان کا لاڈلا انہیں لا نہیں سکتا تھا، لاڈ کر کے منا نہیں سکتا تھا۔ ان کے جانے کے بعد سوچتا ہوں کہ کوئی ایسا مرد افگنِ عشق ہے جو اس مے کا حریف ثابت ہو؟
- علامہ اقبال اور ہائیڈل برگ میں شبنم اور ستاروں کا ایک مکالمہ - 25/01/2025
- گستاخ منٹو کی پذیرائی - 17/01/2025
- علامہ اقبال، ہائیڈل برگ اور ‘ایک شام’ - 10/11/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).