ہمارے گھر میں ماہ محرم اور غم حسینؓ


Loading

پچھلے سال میرے عزیز از جان شوہر سید اقبال حسین جنھیں گھر میں پیار سے سب امجد کہتے ہیں حلیم پکاتے ہوئے کہنے لگے ”شہر میں تھک گیا ہوں اب مجھ سے حلیم نہیں پکایا جاتا“ ۔ ان کی اس بات پر دل میں درد کی لہر اٹھی کہ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں یہ تو ہمارے دادا کے زمانے سے لنگر چلا آ رہا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف اللہ کے نام کی نیاز دے کر کربلا کے شہیدوں اور اس لٹے پٹے قافلے کی یاد تازہ کرنا ہے جو حضرت امام حسین علیہ اسلام اور دوسرے شہدا کی شہادت کے بعد مدینہ پہنچے اماں کہتی تھیں بیبیاں جو واپس گھروں کو آئیں تو جو کچھ بچا کھچا گھر میں تھا اس کو ملا کر پکایا جو ایک حلیم یا دلیا جیسی شکل کا کھانا بن گیا جسے کئی دن کے بھوکے اور پیاسے مظلوم بچوں اور غم زدہ عورتوں کو کھلایا گیا۔

ہم حلیم کے لنگر سے اس بے بسی بے کسی اور غم زدگی کو یاد کرتے ہیں اور اللہ کے نام کا لنگر غریبوں کو کھلاتے ہیں۔ عقیدت کی مختلف منزلیں ہوتی ہیں اس میں کسی سنت یا فرض کا پورا کرنا مقصود نہیں ہے۔ بس محبت کا اظہار ہے جس کو اپنے اپنے انداز سے کیا جاتا ہے۔ حضرت اویس قرنی (رح) کے بارے میں آتا ہے کہ جب انھیں غزوہ احد میں رسول اللہ ﷺ کے دندان مبارک شہید ہونے کی اطلاع ملی تو ایک ایک کر کے اپنے سارے دانت توڑ لیے کہ نہ جانے حضور ﷺ کا کون سا دندان شہید ہوا ہو گا۔ یہ عشق کی ایک اور منزل ہے اپنے پیارے رسول سے۔ اپنی اپنی عقیدت اور محبت کا انداز ہو اظہار ہے۔

بہرحال امجد کی بات سے دل پریشان ہوا مگر ان کی تسلی کے لیے کہا آپ پریشان نہ ہوں ہم حلیم اگلے سال باہر سے بنوا لیں گے۔ یہ پتہ نہیں تھا شاید ایسا ہی کرنا پڑے۔ شاید ان کو پتہ چل گیا تھا کہ اب اگلے سال وہ ہم میں نہ ہوں گے ۔ اور میں اکیلی یہ مشقت برداشت نہ کر سکوں گی اس لیے پہلے ہی بند باندھ دیا۔ بتا دیا۔ دل رو اٹھتا ہے یہ سب سوچ کر ۔

کچھ اسی طرح میرے والد نے بھی اسلام آباد میں شہناز باجی کی شادی کے بعد کافی عرصے کے بعد ان کو کہا کہ بیٹا اب تم حلیم پکایا کرو۔ تو باجی کے گھر حلیم پکنے لگا۔ میں اور میری چھوٹی بہن فردوس بانو ہر سال باجی کے گھر جاتے اور حلیم پکوانے میں ان کی مدد کرتے حتی کہ وقت آیا کہ ہم اسلام آباد سے 1992 میں نا مساعد حالات کی وجہ سے کراچی آ گئے۔ یہاں آ کر ایک بار پھیر چھوٹی بہن اور میں نے کمر ہمت کسی اور لانڈھی کے بڑے سے گھر میں حلیم پکانا شروع کیا۔

خاندان والے جو ہمارے اسلام آباد جانے کی وجہ سے ان دنوں کو شدت سے یاد کرتے تھے کہ جب دادی اماں اور بابا حلیم پکاتے تھے اور سارا خاندان جمع ہوتا تھا۔ 1992 سے دوبارہ یہ گھر آباد ہوا اور سالانہ حلیم پکنے لگا۔ میری شادی ہوئی پھر بھی یہ روایت پر قرار رہی۔ ادھر میرے سسرال میں چونکہ ہم دونوں فرسٹ کزنز ہیں میرے سسر سید صدیق حسین بڑے ذوق و شوق سے حلیم پکا یا کرتے تھے۔ تو طے یہ ہوا کہ ہمارے والد 9 اور 10 محرم کو حلیم پکائیں گے اور سب خاندان ہمارے یہاں جمع ہو اور اس سے اگلے ہفتے کی رات بڑے ابا کے گھر حلیم پکے گا اور ہم سب وہاں چلے جائیں۔

سنہ 1999 مین نہ جا نے بابا کو کیا ہوا کہ انھوں نے امجد کو کہا بیٹا اب مجھ سے حلیم نہیں پکایا جاتا اب تم یہ نیاز اپنے گھر کروا لیا کرو۔ امجد نے سر تسلیم خم کیا اور اس طرح ہمارے گھر حلیم پکنا شروع ہو گیا۔

حلیم کی جگہیں بدلتی رہیں مگر محرم ہمیشہ سے ہی ہمارے یہاں ایک انتہائی حرمت والا مہینہ جسے عقیدت و احترام سے منایا جانا تھا۔ پہلی محرم سے ہی ٹی وی اور ریڈیو بند ہو جاتا۔ زور سے ہنسنا۔ نئے کپڑے پہننا۔ کوئی خوشی منانا یا کسی خوشی میں شریک ہونا (ایسا عام طور پر کم ہی ہوتا تھا کیونکہ سب ہی احترام کرتے تھے یہ تو بعد میں خاص طور پر کیا جانے لگا کہ محرم میں ہی شادی رکھیں اس طرح کے کاموں سے فرقہ واریت کو بہت ہوا ملی) اماں اپنے مرثیوں اور نوحوں کی کتابیں نکال لیتیں اور ہم سب باقاعدگی سے ذکر شہادت حسین رضی اللہ عنہ سنتے اور پڑھتے۔

اماں کی آواز کا سوز و گداز اور روایتیں پڑھتے ہوئے ان کی آواز کا لحن اور زیرو بم سننے والے کو رلا دیتا۔ ہمارا سنی گھرانا تھا مگر غم حسین (ع س) ہمارے لیے بھی اتنا ہی محترم تھا اور شہادت حسین ہمیں بھی اتنا ہی رلا دیتی تھی کہ ہم بین یا ماتم تو نہ کرتے مگر معصومین کربلا کا حال سن کر ہر آنکھ اشکبار ہوجاتی۔

میر انیس اور مرزا دبیر کے مرثیے اماں کو زبانی یاد تھے جو وہ جوانی سے پڑھتی آ رہی تھیں۔ اماں بتاتی ہیں کہ بابا سے ان کی شادی بھی ان کے میلاد اور مرثیے پڑھنے کی وجہ سے ہی ہوئی کیونکہ دادی جان نے ان کو میلاد پڑھتے سنا تو نانی اماں کے سر ہو گئیں کہ بس اپنی بیٹی دے دو میرے بیٹے کے لیے اماں ایک بے حد خوبصورت گوری چٹی لمبے قد کی خاتون تھیں۔ نانی اماں کو ہمارے والد کے ذرا درمیانے گندمی رنگ پر اعتراض تھا مگر دادی اماں نے تو جانوؒ اپنی جوتیاں ہی گھس ڈالیں اور دہلیز کی مٹی لے لی۔ ایک دن نانی اماں کو اپنی ٹوٹی چپل دکھا کر کہا اب جب تک نئی چپل نہ خریدوں گی جب تک تم ہاں نہ کردو نانی اماں کو ہاں ہی کرتے بنی۔ اماں اکثر بابا کو کہتیٰ کہ اگر تمہاری اماں کا اتنا محبت بھرا اصرار نہ ہوتا تو میں کبھی بھی شادی کے لیے ہاں نہ کرتی۔

خیر حلیم پکتا رہتا اور اماں ذکر شہادت عین اور دوسری کتابوں سے روایتیں اور مرثیے پڑھتی رہتیں محلے کی عورتیں بھی ہمارے یہاں جمع ہوجاتی تھیں۔ اماں اس محلے کی واحد پڑھی لکھی خاتون تھیں اور انھوں نے اس محلے کی تین نسلوں کو بلا معاوضہ قرآن پڑھایا۔ ہمارے سامنے ہی طاہر بھائی پتنگ والے کا گھر تھا جن کے گھر سے تازیہ نکلتا یہ منت کا تازیہ تھا اور اس کی تیاری محرم کی ابتدا سے ہی شروع ہوجاتی تھی 7 تاریخ کو ان کے گھر سے تازیہ نکلتا اور 3 دن سفر کر کے 10 محرم کو کیماڑی پر جاکر ٹھنڈا کیا جاتا۔

مہمان نوازی ہمارے خاندان کا خاصہ رہی ہے اس تمام عرصے میں ہمارا گھر جو کہ کونے پر واقع تھا اور بہت کشادہ تھا اس کا ایک حصہ طاہر بھائی کے تصرف میں رہتا۔ مہمانوں کے سونے کھانے پینے کا انتظام وغیرہ ہمارے گھر سے ہی ہوتا۔ آج بھی وہ تازیہ نکلتا ہے مگر اب طاہر بھائی اس دنیا میں نہیں رہے اور ہمارے گھر کی جگہ تین گھر بنا لیے گئے ہیں۔ لانڈھی کے لوگ اب بھی ہمارے والدین کی سخاوت یاد کرتے ہیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے اعمال کا بہترین اجر عطا فرمائے۔ آمین۔

میرے والد صاحب بھی نذرو نیاز اور میلاد وغیرہ ماننے والے تھے۔ محرم میں حلیم اور ر بیع الاول میں میلاد شریف کا پرزور اہتمام ہوتا تھا اسلام آباد میں بابا کے آفس میں ان کا حلیم بڑا مشہور تھا۔ حلیم کے لیے ان کا دالوں اور باقی اجناس اور گوشت کا تناسب ایسا ہوتا کہ لوگوں کو عرصہ دراز تک اس کا ذائقہ یاد رہتا۔ اسلام آباد جب دارالحکومت بنا تو کراچی سے کافی سرکاری افسران اور ان کا عملہ اسلام آباد میں حکومت کا انتظام و انصرام چلانے کے لیے اسلام آباد گیا۔

بابا کراچی کے پہلے کمشنر اے ٹی نقوی کے ساتھ اسلام آباد گئے تھے اور پٹرولیم منسٹری میں ملازم ہوئے۔ بابا سے نقوی صاحب کی بہت اچھی علیک سلیک تھی نقوی صاحب خود بھی بے حد رکھ رکھاؤ والے آدمی تھے۔ اس لیے جن لوگوں کو کراچی سے اپنے ساتھ لے کر گئے تھے ان سے بے حد محبت کا سلوک کرتے تھے۔ اسی منسٹری میں ایک اور صاحب جو کراچی سے بابا کے ساتھ گئے وہ عاشق حسین صاحب تھے۔ اس زمانے میں کراچی سے جانے والے ایک دوسرے کے ساتھ اسی طرح گھل مل کر رہتے تھے کیونکہ اسلام آباد ایک نیا شہر تھا اور کراچی کے مقابلے میں بے حد مختلف۔

سرکاری اداروں میں کام کرنے والوں کے علاوہ بس کچھ علاقائی لوگ رہتے تھے کراچی کے لوگ مقامی لوگوں کی زبان بھی نہیں سمجھتے تھے اس لیے مناصب وغیرہ کی پرواہ کیے بغیر کراچی والے ایک دوسرے کے ساتھ بے حد محبت سے رہتے تھے۔ بابا پر عاشق حسین صاحب بہت اعتبار کرتے تھے۔ جب اے ٹی نقوی کو وہاں لوگوں کو آباد کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تو عاشق صاحب نے بابا کو ان کے پاس بھیج دیا۔ وہ پہلے ہی بابا کو جانتے تھے۔ تو اسلام آباد کے کافی سیکٹروں کے گھروں کی چابیاں انھوں نے بابا کے حوالے کر دیں اور بابا کمال تندہی سے نئے آنے والے افسران کو الاٹ ہونے والے گھروں کی چابیاں پہنچا دیتے تھے۔ کافی عرصے تک انھوں نے یہ فرض بڑی ذمہ داری سے ادا کیا۔ یہ سب میری پیدائش سے پہلے کے واقعات ہیں جو اماں کے ذریعے ہم تک پہنچے۔ عاشق حسین صاحب کے عہدے اور میرے والد کے عہدوں کا فرق کبھی ان دونوں کے تعلقات کی راہ میں حائل نہ ہوا۔ نہ انھوں نے اپنی افسری میرے والد پر جھاڑی اور نہ میرے والد نے ان کی افسری کو کبھی زک پہنچائی اور ہمیشہ ان کا احترام کیا۔ سید عاشق حسین صاحب بحیثیت جوائنٹ سیکرٹری پٹرولیم منسٹری سے ریٹائر ہوئے۔

سید عابد حسین صاحب ایک اور پٹرولیم منسٹری کے افسر تھے جو والد صاحب کے گہرے دوستوں میں سے تھے۔ ان سب کو ہم سب لوگ بابا کے یار غار کہتے۔ حلیم پکتا تو یہ صاحبان یا تو ہمارے گھر آتے یا پھر بابا ان کے گھر حلیم پہنچاتے مگر جہاں بھی یہ محفل جمتی ذکر شہادت حسین سے خالی نہ ہوتی۔ ہم بچوں کو خصوصی طور شہادت حسین اور اس کے تمام واقعات، کوفہ کے لوگوں کی دھوکہ دہی اور باقی تمام واقعات ایک ایک بتائے جاتے مجھے بچپن میں جنت اور دوزخ بنانے کی وجہ سمجھ نہ آتی اور میں بابا سے پوچھتی کہ اتنی چھوٹی سی زندگی کے کیے ہوئے گناہ کی سزا کو ابدی زندگی پر کیوں محیط کیا گیا اس پر بابا نے ایک دفعہ شہادت حسین اور دوسرے شہدا کے واقعات جب بتائے تو کہا اب بتاؤ کیا ایسے لوگوں کے لیے دوزخ کی ابدی زندگی نہیں ہونی چاہیے اور وہ شہید جو خالص اللہ کے لیے اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے ان کو جنت کی ابدی زندگی نہیں ملنی چاہیے تب بہت سارے سوالوں کے جوابات ملے۔

سو تربیت اور عقیدت و احترام اس مہینے کا خاصہ تھے۔ ایسے ہی ماحول میں ہم بہنوں نے پرورش پائی۔ ہماری سہیلیاں ہر دو یعنی اہل تشیع اور اہل سنت سے ہوتیں۔ مجلسوں اور سوز خوانی کی محفلوں میں شریک ہوتے ساتھ مل کر مرثیے نوحے پڑھتے بس ماتم نہ کرتے۔ لیکن سارا کام ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کرتے۔ کبھی ایک دوسرے کو اس کے فرقے کی وجہ سے برا بھلا نہ کہا گیا۔ اکثر مذاق میں اہل تشیع سہیلیاں جب نیاز لے کر آتیں تو کہتیں کھا لینا تھوک کر نہیں دیا ہے۔ (یہ اصل میں دونوں فرقوں کے درمیان دوری پیدا کرنے کی ابتدا تھی کہ شیعہ کھانا تھوک کر دیتے ہیں تو ہم بھی کہ دیتے کوئی بات نہیں اگر دیا بھی ہے تو کیا ہوا اس طرح ہماری آپس کی محبت بڑھے گی) ۔

اسلام آباد کے بعد کراچی کا محرم بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ کراچی میں میرے ننھیال اور ددھیال سے سب لوگ ہمارے گھر جمع ہوتے۔ خالہ نانی اماں بڑے ابا بڑی اماں سارے کزنز اور وہی عزت و احترام کا سلسلہ جاری رہتا۔ ساری رات جب حلیم پکتا تو خواتین نوافل کا اہتمام کرتیں۔ روزہ رکھنے والے روزے کی تیاری کرتے۔ پھر بعد میں بانٹنے کا سلسلہ چلتا۔

کراچی آنے کے کچھ عرصے کے بعد بڑے ابا نے میرے رشتے کی بات کی۔ بات کچی پکی تھی کیونکہ کئی رشتے آئے ہوئے تھے۔ لیکن ذہن میں یہ ضرور تھا کہ بابا بڑے بھائی کی بات رکھیں گے اور انہی کو رشتہ دیں گے۔ لڑکیوں کے جوانی کے خواب کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں جس کا نام لگ گیا اس سے ایک انسیت سی محسوس ہونے لگتی ہے۔

مجھے یاد ہے اسی سال ہم بڑے ابا کے گھر حلیم پکانے پہنچے۔ بڑے ابا نگرانی کر رہے تھے میں عابدہ باجی قیصر اور دوسری کزنز کے ساتھ باقی تیاریاں کر رہی تھی۔ میں امجد اور ان کے بڑے بھائی جان سید عتیق حسین دونوں باری باری دیگ میں گھوٹا لگا رہے تھے۔ یہاں میں نے امجد کو ایک نئے اسٹائل سے گھوٹا لگاتے دیکھا۔ ایک ہاتھ پیچھے کمر پر اور دوسرے ہاتھ سے تیزی سے گھوڑے کو مختلف سمتوں میں گھماتے ہوئے تندہی سے حلیم پکانے میں مصروف تھے۔

دس تاریخ کا چاند بھی اچھی خاصی روشنی دیتا ہے۔ اس رات چاند کی روشنی میں سفید کپڑوں میں ملبوس تیزی سے سر جھکائے گھوٹا لگاتے ہوئے امجد کو میں نے غور سے دیکھا۔ کیا شخصیت تھی۔ کیا وجاہت اور بردباری اور شرافت ایسی کہ ساری کزنز گھر میں موجود مگر وہ ہیں کہ ہر طرف سے بے خبر اپنے کام میں سر جھکائے مگن۔ ان کی خاموش بولتی تھی اور شخصیت کا جادو سر چڑھ کو بولتا تھا۔ ایسی کئی چاندنی راتیں میں نے بعد میں بھی ان کو خاموشی سے تکتے ہوئے گزاریں۔ اور اپنی قسمت پر رشک کیا۔ اس وقت میں نے کچھ سوچا اور چپکے سے دعا مانگی اللہ اگر یہ نصیب میں ہیں تو نصیب انہی کے ساتھ لکھ دینا۔ مبارک رات تھی دعا قبولیت کی منزل طے کرچکی تھی۔

کام سے فارغ ہو کر میں بڑی اماں کے ساتھ نوافل پڑھ رہی تھی نوافل پڑھنے کے بعد انھوں نے کہا بیٹا اب ہری مرچیں کاٹ لو۔ گھوٹا مکمل ہونے کو ہے فجر کی نماز کے بعد امجد نیاز دیں گے۔ میں نے حکم کی تعمیل کی مگر آدھ کلو مرچیں کاٹنے کے بعد جو ہاتھوں میں مرچیں لگیں تو تکلیف کے احساس سے آنسو نکل آئے۔ پہلے خاموش آنسو اس کے بعد جو آنسوؤں کی جھڑی لگی تو الاماں۔ سب پریشان۔ اماں، بابا، بڑے ابا۔ عابدہ باجی۔ عتیق بھائی۔ قیصر سب میرے رونے سے پریشان اور میں تکلیف برداشت نہ ہونے سے پریشان۔ بڑی اماں نے جلدی جلدی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا پڑھنا شروع کی۔ قُلْنَا یٰنَارُ کُوْنِیْ بَرْداً وَّ سَلٰماً عَلٰى اِبْرٰھِیْمَ ( 69 ) اور میرے ہاتھوں پر پھونکنا شروع کیا جو اب گہرے سرخ ہو کر پھول گئے تھے۔ آہستہ آہستہ تکلیف قدرے بہتر ہوئی تو بڑی اماں نے امجد کو بلایا۔ امجد حیران پریشان ان کے سامنے سر جھکا کر کھڑے ہو گئے (بڑوں کے سامنے سر جھکانا ان کی عادت دیرینہ تھی) ۔

بڑی اماں نے کہا امجد میری نصیحت یاد رکھنا اس کے ہاتھوں میں مرچیں چڑھتی ہیں۔ میری بیٹی سے کبھی مرچیں نہ کٹوانا۔ گویا رشتے پر اپنی مہر رضامندی ثبت کردی۔ میں اور امجد شرمندہ۔ امجد جی امی کہ کر مسکرا کر کمرے سے چلے گئے۔ گویا چاہتے وہ بھی یہی تھے۔ اور میں نے دل میں اپنے رب کا شکر ادا کیا۔ دعائیں اتنی جلدی بھی قبول ہوجاتی ہیں۔ اب باری بڑی اماں کے باقی لوگوں کے سوال جواب دینے کی تھی جو اس اچانک اعلان سے حیران پریشان تھے جو بڑی اماں نے اپنی ازلی بردباری سے نبٹا دیے۔ اگلے سال بڑی اماں نہ رہیں۔ مگر امجد نے اپنی ماں سے کیا وعدہ ہمیشہ نبھایا۔ یا تو خود مر چیں کاٹ کر دیں یا پھر عابدہ باجی سے کہا۔ یا پھر کچن کی قینچی مستقل کردی کہ ہاتھ لگائے بغیر میں مرچیں کاٹ لوں۔

قصہ کہاں سے شروع ہوا اور کہاں پہنچا۔ یادوں کی بارات ہے جو چھم چھم کرتی ذہن کے کونے کھدروں سے در آتی ہے۔

بڑی اماں دنیا سے رخصت کیا ہوئیں۔ ان کے پیچھے بڑے ابا بھی سدھارے۔ اس کے بعد بابا حلیم پکاتے رہے۔ سنہ 1999 میں بابا نے امجد کو حلیم دے دیا کہ بیٹا تم پکاو میں اب نہیں پکا سکتا جس کا سلسلہ پچھلے سال تک جاری رہا۔ پچھلے سال امجد نے کہا شہر مجھ میں اب ہمت نہیں اور میں نے کہا امجد فکر نہ کریں ہم اگلے سال بازار سے پکوا لیں گے۔ کیا پتہ تھا وہ یہ سب اس لیے کہ رہے تھے کہ اگلے سال وہ خود نہ ہوں گے ۔ اور انھیں معلوم تھا کہ میرے لیے ان کے بغیر یہ مشقت بہت تکلیف دہ ہوگی۔ مجھے یا کسی اور کو وہ تکلیف تو کبھی دینا ہی نہیں چاہتے تھے۔ اب اس سال صرف یادیں ہیں اور وہ نہیں۔ پچھلے سال عابدہ باجی بھی تھیں اور امجد بھی مگر دونوں بہن بھائیوں نے ایسی محبت نبھائی کہ ایک کے پیچھے دوسرے بھی روانہ ہو گئے۔

ابھی بازار سے حلیم کا آرڈر دیا ہے کہ لنگر تو جاری رکھنا ہے۔ جب تک رکھ سکیں۔ لوگ فون کر کر کے پو چھ رہے ہیں کیا جواب دوں۔ کہ اتنے سارے پیارے چلے گئے ہیں۔ غم حسین کو یاد کرتے ہوئے اپنوں کا غم سوا ہو گیا ہے۔ غزہ میں جو کربلا کا میدان سجا ہے اور یزیدیوں کی چیرہ دستیاں جاری ہیں اور بچے اور بوڑھے رزق کے دانے دانے اور پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں اس کا غم ہر لمحہ ذہن پر سوار رہتا ہے۔ کیا اب بھی کسی جواز کی ضرورت ہے کہ دوزخ اور جنت کیوں بنائی گئی یقیناً انہی یزیدیوں کے لیے اللہ نے اپنی دوزخ تیار کر رکھی ہے۔

9 اور 10 محرم ان دس دنوں میں ہمارے گھر میں سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں کہ روزے نوافل صدقہ لنگر کا اہتمام بے حد احترام سے کیا جاتا ہے۔ ان پورے دس دنوں میں ٹی وی صرف شام کے اوقات میں کھلتا جب کجن بیگم مہناز بیگم کے نوحے اور سوز خوانی ٹی وی پر آتی یا پھر مشہور مرثیہ خواں مرثیے پڑھتے۔ طلعت حسین۔ ضیا محی الدین۔ ندیم بیگ۔ راحت کاظمی کے تحت الفظ میں پڑھے گئے مرثیے گئے دنوں کی یا دیں ہیں۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ میں اور میری چھوٹی بہن بابا کے انتقال کے بعد عزت لکھنوی کا مرثیہ ”اب آئے ہو بابا“ سن کر اور پڑھ کر بے حد روتے۔

ساری دنیا سے ہمیں پیارے حسین ہیں ہماری آنکھ کے تارے حسین۔ جیسے مرثیے دل میں سوز و گداز پیدا کرتے تھے۔ اب تو نہ جانے کیا کچھ کیا جا رہا ہے مگر احترام مفقود ہے۔ بس ایک بحث ہے جو جاری ہے۔ پہلے سنی اور شیعہ تازیے ایک ساتھ نکلتے سبیلیں لگتیں اور ایک دوسرے کی مدد کی جاتی اب تو گالیاں اور کفر کے فتوے ہیں اور بس۔

9 اور 10 کے دن گھرمیں اماں جھاڑو نہ دینے دیتیں۔ اگلے تین دن بھی اسی اداسی میں گزرتے۔ آج کی طرح کسی ایک فرقے تک غم حسین محدود نہ تھا حسین تو سب کے ہیں اور سب کے رہیں گے۔ اماں 7 محرم کو شربت بناتیں اور بانٹتیں اور پھر 10 محرم کو حلیم کے ساتھ بھی شربت بٹتا۔ بچپن میں ہم اپنے پیسے جمع کر کے گھر کے دروازے کے آگے سبیل لگاتے سجاتے کورے گھڑوں میں پانی رکھ کر سب کو پانی پلاتے۔ اس سے بہت پہلے اکثر سمیع بھائی ہمیں تازیے دکھانے لے جاتے جو بعد میں اماں نے منع کر دیا کہ گناہ ہوتا ہے۔ 9 کی رات کو مجلس شب عاشور سننا اور 10 کی رات کو شام غریباں کا پٰی ٹی وٰی پر پروگرام سننا ایک معمول تھا اور پھر 10 محرم کا اختتام معروف نوحہ خواں ناصر جہاں کا سلام آخر سن کر ہوتا جسے ان کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے نے پڑھنا شروع کیا ہے۔ ان کا یہ آخری شعر:

بچے تو اگلے برس ہم ہیں اور یہ غم بی بی
جو چل بسے تو یہ اپنا سلام آخر ہو
رلا دیتا۔ میں اور امجد بھی اس کو سن کر روتے۔ مگر اب امجد کو کہاں سے لاؤں کہ اب تو ہر غم اکیلے ہی جھیلنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments