عہد ظلمات – برصغیر میں برطانوی سلطنت


دنیا میں یورپی نوآبادیاتی نظام کی ابتدا سولہویں صدی عیسوی میں ہوئی۔ بعد ازاں صنعتی انقلاب اس نظام کو مستحکم کرنے میں بنیادی محرک کے طور پر دکھائی دیتا ہے۔ ابتدا میں برطانیہ، فرانس، ہالینڈ اور اسپین نے ترقی پذیر اور کمزور ممالک جیسا کہ ایشیائی و افریقی ممالک کو اپنی نوآبادیات بنایا۔ بعد ازاں اس دوڑ میں روس، جرمنی، اٹلی اور امریکہ بھی شامل ہو گئے۔ یورپی استعماریت کا بنیادی مقصد محکوم اقوام کے وسائل پر قبضہ تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے مقامی لوگوں کی زبان، ادب، ثقافت، نظام تعلیم، غرض ہر شعبہ زندگی پر ہمہ گیر اثرات ڈالے۔ یہ سیاسی سے زیادہ ثقافتی اقتدار تھا اور اس بیانیے کی ترویج تھا کہ مغربی اقوام ہی ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ ہیں۔ کپلنگ کی اصطلاح ”سفید آدمی کا بوجھ“ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس نظم میں کپلنگ نے کہا تھا کہ غیر متمدن اقوام کو تہذیب و تمدن سکھانے کا بوجھ سفید فام اقوام پر ہے۔

برصغیر پاک و ہند بھی ایک طویل عرصہ برطانوی نو آبادیات رہا۔ ”عہد ظلمات: ( برصغیر میں برطانوی سلطنت)“ اسی دور پر محیط ایک کتاب ہے، جس کے مترجم عابد محمود ہیں، یہ کتاب ششی تھرور کی کتاب ”An Era of Darkness ( The British Empire in India) کا اردو ترجمہ ہے۔ ششی تھرور ہندوستانی ڈپلومیٹ اور سیاستدان ہیں۔ وہ کیرالہ سے لوک سبھا کے ممبر منتخب ہوئے، وزیر اعظم من موہن سنگھ کے وزیر رہے اور اقوام متحدہ میں بھی اعلی عہدوں پر کام کیا۔ بھارت کے تین بڑے اخبارات (دا ہندو، دا ٹائمز آف انڈیا اور حیدر آباد کرانیکل) میں کالم لکھتے ہیں۔ کئی کتب کے مصنف ہیں، تاہم ان کی شہرت کی وجہ ان کے ٹویٹس ہیں۔ ان کا شمار ان اولین سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے سوشل میڈیا کو بطور ایک ٹول استعمال کیا۔ مذکورہ کتاب کا محرک مئی 2015 میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں ہونے والا ایک مذاکرہ“ Britian Owes Reparations to Her Former Colonies ” ( برطانیہ کے ذمہ اپنی سابقہ نوآبادیات کا تاوان واجب الادا ہے ) ہے۔ اس مذاکرے کی ویڈیو انہوں نے اپنی سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئر کی جہاں سے یہ ویڈیو وائرل ہو گئی۔ وہیں سے انھیں اس موضوع پہ ناشر ڈیوڈ داویدر نے ایک کتاب لکھنے کا مشورہ دیا جو انہوں نے قبول کیا یوں یہ کتاب 2016 میں شائع ہوئی۔

یہ کتاب برطانوی نوآبادیاتی ہندوستان کے استحصال اور لوٹ مار کی مدلل داستان ہے جس کی وجہ سے دنیا کے 23 فیصد جی ڈی پی والی مغل سلطنت برطانیہ کی روانگی کے وقت محض تین فیصد سے کچھ زیادہ رہ جاتی ہے۔ ان کا بنیادی موقف یہ ہے کہ برطانیہ نے ہندوستان کی دولت اور جواہرات کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ ہندوستانی ہیروں کو شہ سرخیوں میں لانے والا کمپنی کا ملازم تھامس پٹ تھا، جس نے 400 قیراط کا ایک نگینہ چوری کیا۔ اس نگینے کی بابت مصنف لکھتے ہیں :

”تھامس نے اسے تاجدار فرانس ڈک ڈی اورلینس کے ہاتھوں 135000 پونڈ کے عوض بیچ دیا۔ اس کثیر رقم نے پٹ کے خاندان کو انگلش معاشرے میں ایک نیا مقام عطا کیا۔ چنانچہ ایک ہندوستانی ہیرے نے ایک برطانوی خاندان کو وہ مالیاتی جست لگوائی، کہ اس نے بہت ہی کم وقت میں دو وزرائے اعظم پیدا کیے۔ ایک اس کا پوتا ولیم پٹ، پہلا ارل آف چیتھم اور دوسرا چیتھم کا اپنا بیٹا ولیم پٹ دوم۔“ ( ص 50 )

ہیرے جواہرات اور نوادرات کے علاوہ، راجاؤں کی اپنی ریاستوں کے الحاق کے وقت ادا کی جانے والی رقوم، برطانوی فوجی دستوں کی بھاری قیمت میں خدمات لینا، ٹیکس، محصول یا لگان کی رقوم ہندوستانیوں کی فلاح پر خرچ ہونے کی بجائے برطانیہ منتقل ہوئیں۔ پاؤل بارن کے تخمینہ کے مطابق ہندوستان کے جی این پی کا 8 فیصد سالانہ برطانیہ منتقل ہوتا تھا۔ یہی دولت برطانیہ میں صنعتی انقلاب کی بنیاد بنی۔ بعد ازاں برطانوی مصنوعات کا سب سے بڑا خریدار بھی ہندوستان بنا۔ اپنی صنعتوں سے بنے کپڑے کو فروغ دینے کے لیے ہندوستانی ہنر مندوں کے انگوٹھے تک توڑے گئے تاکہ وہ کپڑا بننے کے قابل نہ رہیں۔ وسائل کی اس تیزی سے نکاسی کی وجہ سے مصنف کے الفاظ میں ہندوستان ”کھوکھلا، کسل مند اور زخمی“ ہو گیا۔ رہی سہی کسر برطانوی بد انتظامی کی وجہ سے آنے والے قحط اور غربت نے نکال دی۔ اورینٹل ہیرلڈ نے برطانوی ہند کے سات عشروں کے دوران پندرہ قحطوں کو رپورٹنگ کی۔ ان قحطوں میں دو کروڑ سے زیادہ ہندوستانی لقمہ اجل بنے۔

اس کتاب میں اس سوال ”کیا برطانیہ نے ہندوستان کو سیاسی وحدت عطا کی؟ پر بھی مدلل بحث کی گئی ہے۔ بہت سے دانش ور ہندوستان کے برطانوی عہد کو آئیڈیلائز کرتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کو سیاسی وحدت برطانیہ نے عطا کی۔ اس نظریہ کو مصنف نے دلائل کے ذریعے غلط ثابت کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اس تاثر کو ہی غلط قرار دیا کہ انگریز عہد سے قبل ہندوستانی وحدت کا تصور موجود نہیں تھا۔ وہ چندر گپت موریہ سے لے کر مغل عہد تک ہندوستان کی سیاسی و انتظامی وحدت کی کئی مثالیں پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ الٹا انگریزوں نے سیاسی اداروں کو تباہ کیا، غیر ہندوستانی نوکر شاہی بھی اس کی بڑی وجہ ہے جو ہندوستانی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد امپیریل سروس میں شامل ہوئے ان سے امتیازی سلوک برتا گیا۔ وہ جنگ آزادی سے تقسیم ہندوستان تک کی ہندوستانی سیاست پر مفصل گفتگو کرتے ہیں۔ وہ گاندھی جی کو اپنے آئیڈیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کی عدم تشدد اور برطانیہ کے خلاف مزاحمت کو وہ خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں پاپیوں کے درمیان رشی قرار دیتے ہیں۔

مصنف کے مطابق ”جمہوریت، پریس، پارلیمانی نظام اور قانون کی حکمرانی“ بھی محض فریب ہی تھا۔ ہندوستانی پریس کو جرمانہ کیا گیا، کچلا گیا، بند کیا گیا، مدیران کو سزائیں دی گئیں۔ ہندوستانیوں کو معمولی جرائم پر بڑی بڑی سزائیں دی جاتی اور برطانوی مجرموں کو قتل پر بھی معمولی جرمانہ اور نہ ہونے کے برابر سزا دی جاتی۔ مصنف کا ایک اور واضح موقف یہ بھی ہے برطانیہ نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی آزمودہ پالیسی اپنائی۔ آج حد سے زیادہ بڑھی ہوئی شدت پسندی کی جڑیں برطانوی نو آبادیاتی عہد میں تلاش کی جا سکتی ہیں، جہاں مذہبی، نسلی، ذات پات کے اختلافات کو مزید بڑھایا گیا، ہندو مسلم اختلافات، شیعہ سنی تفریق سب اس پالیسی کا شاخسانہ ہے۔ ”روشن خیال استبدادی حکومت کا افسانہ“ کے عنوان سے مصنف قحط، فاقہ زدہ ہندوستان پر تفصیلی بات کرتا ہے۔ بعد ازاں جلیانوالہ باغ کے سانحے کو برطانوی نوآبادیاتی ہالوکاسٹ کہہ کر بھرپور مذمت کرتا ہے۔ جنگ عظیم اول اور دوم کے لیے ہندوستانیوں کی فوج میں بھرتیوں، ہندوستانیوں کی ماریشس اور دوسرے مما لک میں جبری ہجرت، ان مہاجرین کے ساتھ حیوانوں سا سلوک اور نو آبادیاتی قتل و غارت کی تفصیل سے وہ برطانیہ کی نام نہاد روشن خیالی کو رد کرتے ہیں۔

سلطنت کا باقی ماندہ کیس کے عنوان سے سے برطانوی منافع جات، انڈین ٹیکس، ملازمتوں میں امتیازی برتاؤ، ریلوے کا پیدا کردہ معاشی بگاڑ، برطانوی تعلیمی پالیسی، انگریزی زبان کی تعلیم، ہندوستانی یونیورسٹیوں کی حدود و قیود، ہندوستان کو ڈی نیشنلائز کرنا، نصابی ہراس، ہندوستانیوں تک چائے کا پھیلاؤ، کرکٹ کا انقلابی کھیل، کرکٹ اور سماجی مرتبہ اور کرکٹ اور قوم پرستی کے تحت مفصل گفتگو کی ہے۔ علاوہ ازیں دنیا کے سب سے داستانوی ہیرے کوہ نور کی واپسی کا بھی مطالبہ کیا ہے اور جلیانوالہ باغ سمیت دیگر مظالم پر معافی مانگنے کے لیے بھی کہا ہے۔ بنیادی طور پر یہ کتاب اس بیانیے کا رد ہے کہ برطانوی دور ہندوستان اور یہاں کے مقامی لوگوں کے لیے ترقی، خوشحالی اور روشن خیالی کا دور تھا۔ انہوں نے اس دور کو عہد ظلمات قرار دیا ہے۔ ان کے اس نظریے سے اتفاق یا اختلاف کی قاری پر منحصر ہے بہر حال نو آبادیاتی تناظر اور مابعد نوآبادیاتی مطالعات کے حوالے سے یہ کتاب ایک اہم علمی دستاویز ہے۔ اس کتاب کی معیاری اور دیدہ زیب اُردو پیش کش پر عکس پبلی کیشنز اور عابد محمود صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments