کتاب: اے چراغِ عشق (شاعری)


Naheed virk usa

شاعر: نعیم حیدر (برطانیہ)
اظہارِ رائے : ناہید ورک (مشی گن، امریکہ)
۔ ۔ ۔
چراغِ عشق کا نور

بہت کم ایسے شاعر ہیں جو خوش سخن ہونے کے ساتھ ساتھ خوش گلو بھی ہوں اور وہ بھی ایسے کہ جن کا ترنم ان کی اپنی شاعری کو بھی پیچھے چھوڑ دے یا پھر ان کی شاعری ان کے ترنم سے مزید ابھر کر سامنے آئے۔ یہ بات برطانیہ میں مقیم ایک ایسے خوش گلو شاعر پر فٹ آتی ہے جن کی شاعری پڑھ کر میرا ذہن لگ بھگ بارہ برس پیچھے سفر کرتے ہوئے بارسلونا کی اُس تقریب کو یاد کرتا ہے جو ناچیز کے شعری مجموعے (گیلی چُپ) کی پذیرائی میں حافظ احمد نے نومبر 2012 میں منعقد کی تھی جس کے مہمانِ اعزازی نعیم حیدر تھے جو بطور خاص برطانیہ سے تشریف لائے تھے۔

اس تقریب سے قبل چونکہ ان سے فون پر چند ایک بار بات چیت ہو چکی تھی اس لیے بالمشافہ ملاقات پر اجنبیت کا احساس غالب نہیں تھا بلکہ میں اُن کی احسان مند رہی کہ انہوں نے اُس تقریب میں میری ایک دو غزلوں کو اپنے دلکش ترنم سے پڑھ کر ایک الگ ہی رنگ جما دیا تھا۔ وہ تقریب کئی حوالوں سے نہایت یادگار تھی جن میں ایک اہم حوالہ نعیم حیدر خود تھے۔

ہمارے اطراف ”میں“ کا ایسا شور بپا ہے کہ ہماری سماعت بھی گُنگ ہے اور بصیرت بھی۔ ہم اس قدر محدود ہو چکے ہیں کہ اپنے سِوا کوئی دوسرا نہ تو دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی سُنائی۔ ایسے میں نعیم حیدر اپنے تازہ شعری مجموعے ”اے چراغِ عشق“ میں خاموش خود شناسی اور احساسات کی ایک ایسی پناہ گاہ پیش کرتے ہیں جو مختلف کیفیات کی چھاؤں سے مزیّن ہے۔ ہر ایک شعر میں خیال کو ایسے سنوار کر اُتارا گیا ہے کہ وہ گُنگناتا ہُوا کسی ہیرے کی مانند چمکتا دکھائی دیتا ہے۔

”اے چراغِ عشق“ کی شاعری وہ کیفیات ہیں جو قاری کو دل کی گہرائیوں میں ایک ایسے سفر کی دعوت دیتی ہیں جس میں ذات کی شکست و ریخت، تنہائی کی شدت، عشق کی سچائی، محبت پر ایمان اور سب سے بڑھ کر خوداعتمادی کے خیمے نصب ہیں جن میں ہجر و وصال، عشق، محبت، آرزو، اور سمجھوتے دھڑکتے محسوس ہوتے ہیں۔ یہ شاعری پڑھ کر بہ یک وقت مختلف کیفیات آپ کا گھیراؤ کر لیتی ہیں۔ ایسے میں یہ فیصلہ کرنا ہر گز آسان نہیں ہوتا کہ کون سی کیفیت کا رنگ نمایاں ہے۔

اس مجموعے کی نظمیں اتنی ہی کہی باتوں کے بارے میں ہیں جتنی کہ وہ ان باتوں کے بارے میں ہیں جو ان کہی ہیں۔ ہر نظم کو نہایت احتیاط کے ساتھ جذبات کے کینوس پر اُتارا گیا ہے۔ اس شاعری میں فطرت کا حُسن ہے، خود شناسی کا گہرا رنگ ہے۔ چونکہ نعیم حیدر ایک خوش گُلو شاعر ہیں تو ان کی شاعری کی لطافت قاری کو ایک موسیقیت بھری فضا میں لے جاتی ہے جس میں اشعار گنگناتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔

” اے چراغِ عشق“ سے میرے چند پسندیدہ اشعار:

؎ لکّھی ہوں جب نصیب میں محرومیاں تمام
لہجے میں دَر ہی آتی ہیں پھر تلخیاں تمام
اُس کی سماعتوں میں یہ گونجیں گی ایک روز
لب پر سجائے بیٹھا ہوں خاموشیاں تمام
اک عہدِ ناتمام تھیں جو اپنی ذات میِں
دیکھو ملی ہیں خاک میں وہ ہستیاں تمام

؎ آزارِ ہجر بُھول جا، تنہائیاں نہ دیکھ
کرنا ہے عشق تو کبھی رُسوائیاں نہ دیکھ
پہلُو میں پُھول کے ہی تو ہوتے ہیں خار بھی
سو، تُو وفا میں درد کی پرچھائیاں نہ دیکھ

؎ ہمیں چاہیے دین و دنیا کی راحت
سو ہم ذکرِ صلی علی چاہتے ہیں

؎ رُک جائے لمحہ بھر کو ہی شاید خوشی کی ٹرین
دکھ کے پلیٹ فارم پہ کب سے کھڑا ہوں میں

جو چیز ”اے چراغِ عشق“ کو منفرد کرتی ہے وہ اس کے عنوان میں پنہاں ہے۔ چراغِ عشق کا نور ہی حقیقت کے راستے پر ہماری راہبری کرتا ہے اور یہ وہ لازوال قوت ہے جس کی سچائی کی گواہی وجدان و الہام بھرا ہر دل دیتا ہے۔

نعیم حیدر، آپ کو اس نور کی گواہی مبارک ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments