مائکرو فکشن (تین کہانیاں)


کہانی چل رہی ہے

”باتیں کرنے کا کیا فائدہ۔ آتے ہیں کچھ باتوں کے شوقین۔ پوچھتے ہیں کیا کہانی ہے تمہاری، کہاں سے آئی ہو؟“

پر وہ کم ہی ہوتے ہیں۔ زیادہ تر تو ۔ ہاہاہاہا۔ اب میں تمہیں کیا بتاؤں۔

ایک دن کی بات سنو۔ بس اتنا کہا ”کنڈی لگا دو “ میں دروازہ لاک کر کے پلٹی تو توبہ۔ وہ الف ننگا کھڑا تھا۔ لو جی بس یہی تین لفظ بولے اُس نے پوری ملاقات میں۔

کئی باتونی بھی آ جاتے ہیں۔ تمہاری طرح۔ باتیں زیادہ، کام کم، پر کام چھوڑتا کوئی نہیں۔ آج تک مجھے ایسا نہ ملا جو بس باتیں کرنے کے پیسے دے جائے۔

پھر کہانی؟ ارے کہانی کیا ہوتی ہے۔ 20 سال کی ہوں۔ چار سال سے آنٹی کے پاس ہوں۔ آنٹی مجھے کہتی ہے ”میری چڑیا“ میں کہتی ہوں۔ ”ہاں سونے کی چڑیا“

سبھی مجھے پسند کر کے لے جانا چاہتے ہیں۔ کسی کو آنٹی کہہ دیتی ہیں تم کل لے جانا پیسے آج ہی جمع کروا دو ۔ وہ کیا کہتے ہیں پلاٹ کی ایڈوانس بکنگ جاری ہے ہاہاہاہا۔

تھکتی نہیں ہوں۔ پتلی سی تو ہوں۔ میں نے کیا تھکنا ہے۔ تھکتے تو موٹے بندے ہیں۔ ہاں پہلے کبھی گردن کے پٹھوں میں درد ہو جاتا تھا یا ٹانگوں میں۔ اب وہ بھی نہیں ہوتا۔ عادت ہو گئی ہے۔

”کہانی؟ پھر وہی کہانی۔ کہانی کیا ہوتی ہے؟“

ہم چار بہنیں اور باپ کو ایمانداری کا بخار۔ پانچواں بھائی تھا وہ بڑے بخار سے مر گیا۔ پولیس مین کی تنخواہ ہی کتنی ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ تو گول گپے والا کما لیتا ہے۔

ایمان داری کے مرض والا یہاں کئی گنا اذیت سہتا ہے۔ ابا کے ساتھ کے کانسٹیبل دو دو گاڑیوں کے مالک ہو گئے اور ابا کے پاس وہی پرانی سائیکل۔

آج میں سوچتی ہوں تو ابا کی اذیت سمجھ میں آتی ہے۔ ہم سب ابا سے ناراض رہتے تھے۔ بس اماں ابا کا ساتھ دیتیں۔ ہم نے ابا کو پڑوسیوں کی خوشحالی کے طعنے دیے، اُس کے ساتھی کانسٹیبلوں کی دولت کے طعنے دیے کوئی تھوڑی اذیت تھی۔ عید، بقرعید، شادی، بیاہ، بیماری، تعلیم۔ اذیت ہی اذیت۔

ہم چاروں بہنیں دھریکوں کی طرح بڑھ رہی تھیں۔ شاید اسی سوچ میں ابا ایک رات سویا اور سوتا ہی رہ گیا۔
کہانی تو یہاں ختم ہو جاتی ہے لیکن میری کہانی چل رہی ہے۔ کبھی کبھی گھر بھی جاتی ہوں۔ لیکن دل نہیں لگتا وہاں۔ اماں کو کپڑے سیتے سیتے دمہ ہو گیا۔ اب بڑی بہن سیتی ہے۔ اُسے بھی ہو جائے گا۔ بہنیں میرے نئے نئے کپڑوں اور زیورات کو بِٹ بِٹ تکتی ہیں تو میں گھبرا اُٹھتی ہوں۔

کافی سارے پیسے اماں کے تکیے کے نیچے رکھ آتی ہوں۔ اماں نہ پیسے مانگتی ہے نہ دینے سے روکتی ہے۔
کہانی تو چل رہی ہے۔
اب تم بتاؤ۔ باتیں ہی چلانی ہیں یا مگدر بھی چلانا ہے؟

***             ***

بھوک وبال

”یہ مریم ہے۔“

ادھیڑ عمر عورت نے سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی کی طرف پورے ہاتھ کا اشارہ کیا۔ لڑکی نے اپنے بھرپور جوبن کو ڈھانپنے، چھپانے کا کوئی خاص تکلف روا نہ رکھا تھا۔ اُس کا گدرایا ہوا بدن جگہ جگہ لباس سے باہر اُمڈا پڑتا تھا۔

”صاحب جی، اسے رکھ لیں۔ گھر کا سارا کام کرے گی۔ آپ کا ہر طرح سے خیال رکھے گی۔“ اُس نے ”ہر طرح“ پر زیادہ ہی زور دے دیا اور ساتھ ہی صاحب جی کے سفید بالوں کی طرف دیکھا۔

یہ عورت کتنی اونچی آواز میں بولتی ہے۔ انہوں نے سوچا۔

”بی بی اپنا خیال میں خود ہی رکھ لیتا ہوں۔ گھر کی صفائی اور ناشتہ، کھانا، برتن، یہی کام ہیں بس۔“ انہوں نے دھیمی آواز میں کہا۔

”ہاں تو رکھ لیں نا اسے۔ سارے کام کر لیتی ہے۔ میری سب سے بڑی بیٹی ہے۔ بہت سیانی ہے۔“
مریم نے صاحبِ خانہ کی طرف عجیب سی التجا بھری نگاہ ڈالی اور پھر مسکرا دی۔
اُس نے صوفے پر بیٹھے بیٹھے پہلو بدلا تو اُس کی چھاتیوں نے بے تحاشا حرکت کی۔

”کام انہی دنوں زیادہ ہوتا ہے جب امریکہ سے نواسہ اور نواسی آتے ہیں۔ سال میں ایک بار ہی تو ملنے آتی ہے میری بیٹی“ ان کی آواز میں اُداسی گھل گئی۔

عورت نے پھر اپنا باجا بجایا ”جو چاہے دے دیں ہمیں۔ یہ تو اِدھر ہی کھا پی لیا کرے گی۔ ماشاء اللہ اتنا بڑا گھر ہے آپ کا ۔ آپ کے وسیلے سے ہم بھی کھانا کھا لیا کریں گے۔ آپ اسے ضرور رکھ لیں۔ ویسے ہی رکھ لیں یا نکاح کر لیں یہ آپ کی مرضی۔“ بس صاحب جی ”وہ لجاجت سے بولی“ میرے بیٹے کو نیا رکشا لے دیں۔ ”

یہ سنتے ہی صاحبِ خانہ نے عورت کی آنکھوں میں جھانکا۔ وہاں انہیں اُمید اور اصرار تو دکھائی دیے، دکھ یا پشیمانی کی نمی کہیں نظر نہیں آئی۔

***             ***

صلہ رحمی

گل زیب نے بکرے کی اگلی اور پچھلی ٹانگ پکڑ کر اسے ہلکا سا دھکا دیا۔ بکرا دھم کی آواز سے پتھروں پر گر گیا۔ پھر اس نے اپنا گھٹنا بکرے کی گردن پر رکھ کر زور سے دبایا اور دونوں ہاتھوں سے اس کی اگلی اور پچھلی ٹانگیں کس کر رسی سے باندھ دیں۔ اب اس نے جیب سے استرا نکالا اور بکرے کے سامنے اکڑوں بیٹھ گیا۔ اس نے احتیاط سے ایک خصیے کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔ اس سے خصیوں کی تھیلی کے اوپری حصے والی جلد میں تناؤ پیدا ہو گیا۔ اس نے کھنچی ہوئی جلد پر استرے سے ایک لمبا کٹ لگایا۔ بکرے کا پورا بدن لرز کر رہ گیا اور اس نے ممیاتے ہوئے ٹانگیں چلانے کی ناکام کوشش کی۔ تھیلی میں شگاف سا بن گیا تھا جس میں سے خون بہہ رہا تھا۔

گل زیب نے ہاتھ کو مٹھی کی شکل دے کر ایک خصیے کو اوپر دھکیلا جو پھسل کر شگاف سے باہر آ کر لٹک گیا۔ اس نے نالی کاٹ کر اسے دور پھینک دیا۔ اسی طرح گل زیب نے دوسرا خصیہ بھی کاٹ کر دور پھینک دیا۔ اب گرے ہوئے بکرے کے پیٹ کے نیچے ہوا نکلے ہوئے غباروں کی طرح پچکی ہوئی دو تھیلیاں تھیں جس کے کٹے ہوئے شگافوں پر خون جمنے لگا تھا۔ بکرے نے مزاحمت چھوڑ کر خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔

استرا ایک طرف رکھ کر گل زیب نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کی مدد سے تھیلیوں کو اوپر کی طرف گولائی میں لپیٹنا شروع کیا۔ جب تھیلیاں لپٹتے لپٹتے اپنے اپنے شگافوں کے اوپر آ گئیں اس نے میلے سے کپڑے کی دو انگل چوڑی پٹی اس تہ در تہ جلد کے ڈھیلے کے اوپر باندھ کر گرہ لگا دی۔ پٹی خون سے سرخ ہونے لگی۔

گل زیب نے جب بکرے کی رسیاں کھولیں تو وہ فوراً اٹھ کھڑا نہیں ہوا بلکہ کافی دیر پتھروں پر لیٹا ہانپتا رہا۔

اسی شام چوپال میں بیٹھ کر گل زیب صلہ رحمی پر گفتگو کر رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).