تیسرا آدمی
میرے ایک مرحوم دوست محمد سعید چشتی کو بچپن میں اردو اور پنجابی فلمیں دیکھنے کا بڑا شوق ہوا کرتا تھا یہ غالباً ستر کی دہائی کی بات ہے کہ ہم چار دوست اپنے جیب خرچ سے کچھ نہ کچھ بچا کر سینما دیکھنے ہر ہفتے شہر سے دور سینما ضرور جاتے تھے۔ ہمارے پاس صرف ایک سائیکل تھی اور تین کلومیٹر تک جانے اور واپس آنے میں وہی واحد سواری ہوا کرتی تھی۔ ہم چاروں اس ایک سائیکل پر کیسے سوار ہوتے تھے یہ بھی ایک دلچسپ اور پرلطف کہانی ہے۔ جس کے تصور سے ہی اب دل گھبرا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ فلم اور سینما کی صنعت جو اب مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ اس وقت یہی فلم اور سینما سستی ترین تفریح کا واحد اور بڑا ذریعہ ہوا کرتے تھے۔
فلمیں اس دور میں عموماً رومانوی، تاریخی، اور ثقافتی کہانیوں پر بنائی جاتی تھیں جو صرف ہیرو اور ہیروئن کے خوبصورت رومانس کے گرد گھومتی تھیں۔ لیکن ہر فلم میں ایک تیسرا آدمی ایسا ضرور ہوتا تھا جسے برائی کا پیکر یا منفی کردار سمجھا جاتا تھا اور اسے ولن کہا جاتا تھا۔ اس کی اہمیت شاید ہیرو اور ہیروئن سے بھی زیادہ ہوتی تھی۔ شائقین فلم کی ہمدردیاں اور محبتیں ہیرو اور ہیروئن کے ساتھ ہوتی تھیں جبکہ یہ تیسرا آدمی ہمیشہ لوگوں کی نفرت کا شکار ہوتا تھا۔ اس تیسرے آدمی جسے ولن کہا جاتا ہے گو اسے فلموں میں ہمیشہ نفرت اور شکست کا سا منا کرنا پڑتا تھا اور ہیرو سے مار جبکہ ہیروئن سے جھڑکیاں اس کا مقدر ہوتی تھیں۔ جبکہ ہیرو سے ہیروئن کی محبت سرعام دکھائی جاتی اور محبت بھرے نغمے گا گا کر اظہار محبت کیا جاتا تو سینما ہال نعروں اور سیٹیوں کے شور سے گونج اٹھتا تھا۔ ہیرو اور ہیروئن کو بے حد خوبصورت دکھایا جاتا تھا جبکہ ہیرو خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ بہادر بھی ہوتا تھا۔ جو ولن سمیت اس کے درجنوں ساتھیوں کو آرام سے مار دیتا تھا جبکہ ولن کو ایک مکار، بزدل، خوفناک اور بد صورت دکھایا جاتا تھا جو ہیرو اور ہیروئن کی محبت کے کباب میں ہڈی بن جاتا تھا۔ ان فلموں میں جس سے سب سے زیادہ نفرت کا اظہار کیا جاتا وہ یہ ولن ہی ہوتا تھا۔ لیکن حقیقت میں ہم فلم بینوں کی ولن سے نفرت ہی محبت کا اصل پیمانہ ہوتی ہے جتنی زیادہ نفرت لوگ کریں گے وہ ولن اتنا ہی بڑا اور کامیاب فنکار ہوتا تھا۔ کیونکہ کسی بھی فلم کی کامیاب تکمیل کے لیے ولن اتنا ہی ضروری ہے جتنا کی ہیرو اور ہیروئن ہوتے تھے۔ بقول ایک پرانے عاشق کے رقیب کے بغیر محبت کو دوام کبھی نہیں ملتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تیسرے آدمی یعنی ”ولن“ کے بغیر دستاویزی فلم تو بن سکتی ہے مگر فیچر فلم نہیں بن سکتی۔ ہیرو اور ہیروئن کی کامیابی ولن کے کردار کے بغیر زیرو ہوتی ہے۔ بہر حال سینما سے باہر آ کر ہم دوست جہاں ہیروئن کی خوبصورتی اور اداؤں کی تعریف او محبت کا اظہار کرتے اور ہیرو کی بہادری کو سرہاتے وہیں ولن کو گالیاں دے کر اپنی نفرت کا اظہار بھی ضرور کرتے تھے۔ ہر فلم کے اختتام پر محبت جیت جاتی اور نفرت ہار جاتی اور ہم ہیرو اور ہیروئن کی کامیابی پر خوش ہوتے مگر ولن کے مر جانے پر کوئی صدمہ نہ ہوتا۔ ہم میں سے ہر ایک اپنے آپ کو ہیرو سمجھتا تھا۔ ولن کو ایک ظالم بدمعاش سمجھتا تھا جو ہیرو اور ہیروئن کی محبت میں روڑے اٹکاتا تھا۔ ہیرو فلم کے آخر تک ولن سے لڑتا ہوا یا جان دے دیتا ہے یا ولن کی جان لے لیتا ہے لیکن دونوں صورتوں میں ہیرو ہی فاتح قرار پاتا ہے۔ اور دیکھنے والے اپنے آپ کو ہیرو سمجھتے ہیں اور ہیرو کے حق میں نعرے لگاتے ہیں۔ ہیرو اور ہیروئن کے دکھ پر افسردہ ہو کر روتے بھی ہیں اور دل ہی دل میں ہیرو اور ہیروئن کی کامیابی کے خواہشمند اور دعاگو بھی ہوتے ہیں لیکن ولن یا تیسرے آدمی سے کسی کو ہمدردی نہیں ہوتی ہے۔ پھر ڈاکووں پر فلمیں بنی تو ہر نوجوان کا آئیڈیل ڈاکو ہوتا تھا، پھر بدمعاشوں پر فلمیں بنی تو ہر نوجوان گریبان کھول بدمعاش بن گیا غرض ہیرو کسی بھی روپ ہو وہ ہیرو رہتا ہے۔ اسی طرح ہیروئن سیدھی سادی دیہاتی خاتون ہو یا رقاصہ اور طوائف ہیروئن ہی ہوتی ہے جو دیکھنے والے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کر لیتی ہے۔
پچھلے دنوں ایک خبر آئی تھی کہ سانگھڑ نواب شاہ کے ایک گاؤں میں ایک اقلیتی برادری کی گیارہ بچوں کی ماں نے اپنے خاوند کو چھوڑ کر اپنے پرانے محبوب سے پسند کی شادی کر لی جس کے اپنے بھی نو بچے پہلی بیوی سے پہلے سے ہی موجود ہیں۔ یوں یہ گھرانا اب بیس بچوں کا ہو گیا ہے۔ انہوں نے اپنی جان کی حفاظت کے لیے حکومت سے مدد بھی مانگ لی ہے اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ عشق و محبت کی اس داستان میں ہیرو اور ہیروئن کون ہیں؟ اور ولن کون ہیں؟ نو بچوں کے باپ کو ولن کہیں گے یا پھر گیارہ بچوں کی ماں ولن کہلائے گی؟ ان دونوں کا قصور کیا ہے؟ پرانے عشق کے مارے ہیرو اور ہیروئن نے تو اپنی منزل پالی لیکن ان سے جڑے تیسرے لوگوں کا کیا بنے گا؟ وہ دونوں قابل رحم ہیں یا کہ قابل نفرت ہیں؟ یہی ہمارے معاشرے کا وہ تاریک پہلو ہے جو دکھائی نہیں دیتا۔ یہاں ہیرو یا ہیروئن کا تعین کرنا کس قدر مشکل ہو جاتا ہے۔ ہمارا ایک دوست استاد منیر کہتا ہے کہ ہیرو وہ ہوتا ہے جسے ہیروئن پسند کرے جبکہ ولن وہ ہوتا ہے جس سے ہیروئن نفرت کرے۔ ہیروئن کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ دونوں میں سے ایک کو ہی پسند کر سکتی ہے۔ بظاہر تو شادی کرنے والا نو بچوں کا باپ اور گیارہ بچوں کی ماں ہی ہیرو اور ہیروئن نظر آتے ہیں؟
بڑے دنوں بعد جب ہمارے شعور میں کچھ بہتری آئی تو احساس ہوا کہ ہم جوانی میں خود کو ہیرو سمجھنے والے بڑی عمر میں جا کر خود ولن کیوں بن جاتے ہیں؟ دراصل فلموں میں چوری چھپے عشق و محبت کی واردات تو ہیرو اور ہیروئن ہی کرتے تھے۔ ہیروئن اپنے ماں اور باپ سے چوری چوری ان کی عزت خاک میں ملاتی تھی اور ساتھ ہی اپنے والدین سے محبت کا دعویٰ بھی رکھتی تھی جبکہ ہیرو ایک نامحرم اور ہیروئن کے ساتھ عشق و محبت کی پینگیں بڑھا کر دراصل اخلاقی، مذہبی اور قانونی جرم کا مرتکب ہوتا تھا۔ اور تیسرا آدمی جو ان کی ان برائیوں کو روکنے کی کوشش کرتا وہ ولن کہلاتا اور لوگوں کی نفرت کا نشانہ بنتا تھا۔ گھر سے ہیرو کے ساتھ بھاگ جانے والی ہیروئن تو لوگوں کی محبتیں سمیٹ لیتی تھی جبکہ انہیں اس کام سے روکنے والا نفرتوں کا حقدار ٹھہرتا تھا۔ یہ سلسلہ عشق و محبت کی داستانوں میں ازل سے ہی چلا آ رہا ہے۔ ہیر، رانجھا کے ساتھ کیدو کا کردار گو منفی دکھائی دیتا ہے مگر درحقیقت وہ مثبت ہی ہوتا تھا۔ باپ ہو یا ماں، بھائی ہو یا بھابھی، چاچا ہو یا چاچی، ماموں ہو یا مامی، یہاں تک کہ اگر منگیتر یا خاوند بھی ہو اور وہ ان دو دلوں کے درمیان آنے اور برائی سے روکنے پر محبت کا دشمن قرار پاتا ہے اسے ظالم سماج سمجھا جاتا ہے۔ جو دو دلوں کے درمیان دیوار کھڑی کرنے والا ولن ہوتا ہے۔ یہی وہ تیسرا آدمی ہوتا ہے جو حق پر ہونے کے باوجود نفرتیں سمیٹ لیتا ہے۔ انہیں جھوٹی محبتوں کی داستانوں کی وجہ سے نا جانے کتنے ہی گھر برباد ہو چکے ہیں؟ کتنے ہی قتل اور خود کشی جیسے واقعات ہو چکے ہیں؟ اب احساس ہوتا ہے کہ دراصل ولن تو قابل رحم ہوتا ہے۔ تیسرا آدمی تو معاشرے میں بھلائی کا علمبردار ہے۔ کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ”تیسرا آدمی“ ہم خود بن جاتے ہیں۔ ہماری سوچ رفتہ رفتہ ایک ولن کی سوچ بن جاتی ہے جب خود ہم اپنی بہن، بیٹی یا بیوی کی ہیروئن جیسی کوئی حرکت برداشت نہیں کر پاتے۔ یاد رہے کہ آج کا ہیرو کل کا ولن ہوتا ہے۔ ہر ہیرو اور ہیروئن جب ماں اور باپ بن جاتے ہیں تو یکایک سوچ کیوں بدل جاتی ہے؟
آج کل سوشل میڈیا کا ہر طرف زور شور ہے یہاں ہیرو کو ولن اور ولن کو ہیرو بنانا ذرا بھی مشکل نہیں رہا۔ نیک کو بد اور بد کو نیک مشہور کرنا بہت معمولی بات ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ قصور وار کون ہے؟ ہوتا کچھ ہے بتایا کچھ جاتا ہے۔ لوگوں کے رویے بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ ہماری ہمدردیاں ذرا سی دیر میں بدل جاتی ہیں۔ ہمارے سیاسی ہیرو بھی ایسے ہی بدلتے رہتے ہیں۔ ہماری سوچ بدلتی ہے تو ہمارے سیاسی اور رومانوی نظریات بھی بدلتے جو ہمیں کبھی ہیرو تو کبھی ولن بنا دیتے ہیں۔ ہمیں جذبات کی بجائے دنیاوی حقیقتوں کو تسلیم کرنا ہو گا۔ اور یہ دیکھنا ہو گا کہ بظاہر ہیرو نظر آنے والے کہیں ولن تو نہیں ہیں؟ یہی سوچ کا مقام ہے کہ آخر کیوں شیر جنگل کا خونخوار، ظالم، چیر پھاڑ کرنے والا، انسان کا دشمن ہونے اور اپنی تمام تر خوفناکی کے باوجود ہمارا ہیرو سمجھا جاتا ہے اور ہم اشرف المخلوقات اور انسان ہو کر بھی شیر کہلانا قابل فخر سمجھتے ہیں؟ آخر ہمارا ہیرو ہرن جیسا معصوم جانور کیوں نہیں ہوتا؟ عجیب بات ہے ہم شیر سے ڈرتے ہیں لیکن ہرن کے شکار کو اپنا حق سمجھتے ہیں؟
- چڑیاں کیوں غائب ہو رہی ہیں؟ - 05/09/2024
- وہ بادشاہ نہیں بادشاہ گر ہے! - 02/09/2024
- تیسرا آدمی - 29/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).