عورت کے قتل کا خطرہ، ہر وقت: فیمی سائیڈ!
پاکستان کے طوفانی دورے میں ہم نے باتیں کیں، بلا تھکان اور آپ نے سنیں۔ کچھ ہوئے متفق، کچھ نیوٹرل اور کچھ بیزار۔ سوالوں کا سامنا کیا اور جواب دینے کی کوشش کی۔ کچھ نے مان لیا کچھ نے سوچنے کی حامی بھر لی اور کچھ نے نفی میں سر ہلا کر مسترد کر دیا۔ کچھ نے کہا یہ مرد و عورت کا نہیں بلکہ انسانی مسئلہ ہے کہ مرد بھی عورت کی طرح پدرسری کے متاثرین میں شامل ہے۔
کچھ نے کہا عورت ذمہ دار ہے کہ تربیت نہیں کر پاتی۔ کچھ بولے، مرد پہ اتنی تنقید؟ کچھ درست نہیں۔
کچھ نے کہا کہ انسانی حقوق پہ بات کیجیے، عورت کے حقوق کا علیحدہ سے کیا جھنجھٹ؟
ہم نے سب کچھ سنا۔ سمجھنے کی کوشش کی اور اب چاہتے ہیں کہ کچھ باتوں کی وضاحت کی جائے۔
بات شروع کرنے سے پہلے پچھلے ایک یا دو ماہ کی خبریں جو ہم تک پہنچیں اور ہو سکتا ہے بے شمار پہنچ ہی نہ پائی ہوں۔
چکوال میں شوہر کے ہاتھوں بیوی کا قتل، گجرات میں حاملہ بیوی کو ڈنڈے مار کر ہلاک کرنا کہ پیٹ میں بچی ہے، باپ کا تین ماہ کی بچی کو نہر میں پھینک دینا، جڑواں نوزائیدہ بچیوں کو تالاب میں ڈبو کر مار دینا، بھائی کا بہن کو گلا گھونٹ کر مار دینا۔ کراچی میں بارہ برس کی گنگا کی لاش بوری میں ملنا۔
لاشیں ؛ عورتوں کی لاشیں، لڑکیوں کی لاشیں، بچیوں کی لاشیں۔
قاتل ؛ باپ، بھائی، شوہر، محبوب، رشتے دار۔
سوچئیے کیا ماں کو بیٹے کی تربیت کرتے ہوئے اسے پوٹینشل قاتل سمجھ کر یہ بھی بتانا ہو گا کہ عورت کے خون سے ہاتھ نہ رنگنا؟
کیا مسئلہ عورت و مرد کا ہے یا انسان کا؟
کیا اس بات پہ احتجاج کرتے ہوئے مرد سڑک پہ نکل رہا ہے کہ کچھ انسان ان کے ہم صنف کے ہاتھوں قتل ہوئے، قتل ہو رہے ہیں اور کچھ خبر نہیں کہ کب تک ہوتے رہیں گے؟
لیکن ایک اہم سوال اور ہے کہ کیا عورتوں کا قتل ویسا ہی ایک قتل ہے جیسا معاشرے کے کسی دوسرے فرد کا؟
جواب ہے ؛ نہیں!
ہر وہ عورت جو عورت ہونے کی بنیاد پہ مرد کے ہاتھوں قتل ہو گی اسے تشدد کی ایک اور صنف میں گنا جائے گا جس کا نام ہے فیمی سائیڈ ( جیسے سو سائیڈ ) ۔
عورت پہ ظلم کے خلاف کھڑی ہونے والی عورت فیمنسٹ اور قاتل مرد کے ہاتھوں مرنے والی فیمی سائیڈ کا شکار!
ڈبلیو ایچ او نے فیمی سائیڈ کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی تعریف یوں بیان کی ہے۔
” عورت کا عورت ہونے کی بنیاد پہ ہونے والا قتل فیمی سائیڈ ہے۔ اس تعریف کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اس میں سب قتل ہونے والی عورتیں اور بچیاں شامل کی جائیں گی“
سو مان لیجیے کہ فیمی سائیڈ اس تشدد کی آخری سیڑھی ہے جس میں گھریلو تشدد، نوکری پہ ہونے والا تشدد اور سڑک پہ ہونے والا تشدد شامل ہے۔ فیمی سائیڈ کی بہت سی اقسام ہیں اور بعض اوقات ایک قتل میں کئی اقسام گڈمڈ ہو جاتی ہیں۔
قریبی تعلق فیمی سائیڈ ؛
ان میں شوہر، سابقہ شوہر، بوائے فرینڈ، باپ اور بھائی شامل ہیں۔ یہ قتل تب ہوتا ہے جب قاتل کو گھر کی خواتین پہ تشدد کرنے کی عادت ہو۔ نور مقدم، سارہ انعام، ملتان میں پنکھے سے لٹکائی جانے والی ثانیہ شامل ہیں۔
یہ سن کر ان سب خواتین و حضرات پہ سوچ کا ایک در وا ہونا چاہیے جو سمجھتے ہیں کہ عورت کا گھر اس کی محفوظ ترین پناہ گاہ ہے اور اگر وہ باہر نکلے گی تو تشدد کا نشانہ بنے گی۔
ان لوگوں کے لیے بھی یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہیے جو سمجھتے ہیں کہ عورت پہ تشدد ایک گھریلو معاملہ ہے۔ یاد رکھیے گھریلو تشدد قتل کی پہلی کڑی ہے اور تشدد کرنے والا کوئی بھی ضرب ناپ تول کر نہیں لگاتا۔ کسی بھی ضرب سے موت واقع ہو سکتی ہے۔
تیسری اہم بات عورت کے سمجھنے کی ہے۔ عورت کی سب سے بڑی خام خیالی یہ ہے کہ وہ سمجھتی ہے یا اس کو یہ فیڈ کر دیا جاتا ہے کہ اس کی محبت بگڑے تگڑے مرد کو راہ راست پہ لا سکتی ہے۔ تیسرے درجے کے رومانوی ناولوں اور ڈراموں تک تو یہ بات درست ہو سکتی ہے لیکن اصل زندگی میں نہیں۔ اس لیے اگر کبھی کسی نزدیکی تعلق میں لال بتی روشن ہو جائے تو خدارا اسے نظر انداز مت کیجیے۔
اجنبی فیمی سائڈ ؛
اس میں وہ لوگ شامل ہیں جو عورت /لڑکی کو ریپ کرنے کے بعد قتل کر دیتے ہیں۔ نام لینے کی تو ضرورت ہی نہیں، بے شمار مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ حال ہی میں کراچی میں کچرے کے ڈھیر پہ دس سالہ گنگا کی لاش اس کی مثال ہے۔
عزت فیمی سائڈ ؛
اس میں قاتل مرد عورت کے کسی بھی ایسے فعل کو معاف نہیں کرتا جس سے اسے محسوس ہو کہ معاشرے میں اس کی خود ساختہ عزت / ناک کو خطرہ ہے۔ اس میں عورت کی تعلیم، نوکری، لباس، پسند کی شادی یا گھر والوں کی پسند پہ چلنے سے انکار شامل ہے۔
قاتل مرد سمجھتا ہے کہ وہ پدرسری معاشرے میں تب ہی سر اٹھا کر چل سکتا ہے جب وہ اس عورت کو مار ڈالے گا جو اس کے بتائے گئے راستے پر چلنے سے انکار کرتی ہے۔ سنگساری، گلا گھونٹ کر مار دینا، زہر خورانی، سر کاٹ دینا، عورت کو خودکشی پر مجبور کرنا سب کچھ عزت فیمی سائڈ میں آتا ہے۔ یونائٹیڈ نیشنز کے مطابق اسے آنر کلنگ کی بجائے خاندانی فیمی سائیڈ کہنا چاہیے کہ عورت کو قتل کرنا کسی بھی طرح آنر نہیں ہے۔
صنفی فیمی سائیڈ ؛
نوزائیدہ بچیوں کو قتل کرنا اسی کیٹگری میں آتا ہے۔ معاشرے میں عورت نچلے درجے کی مخلوق سمجھی جاتی ہے سو اس کو اپنے خاندان سے قتل کر کے نکالنا صنفی فیمی سائڈ ہے۔ نوزائیدہ کو گولی مار کر ہلاک کرنا یا نہر میں پھینک دینا اسی مائنڈ سیٹ کی نشانی ہے۔
جہیز کی بنیاد پر فیمی سائیڈ ؛
دلہنوں اور بہوؤں کا چولہے میں جل کر مر جانا اسی کی ایک کڑی ہے۔ یہ عورتیں جہیز نہ ملنے کی وجہ سے اپنی وقعت کھو بیٹھتی ہیں۔
ادارہ جاتی فیمی سائیڈ ؛
اس کی بہترین مثال انڈیا میں قتل ہونے والی ڈاکٹر مومیتا ہے جسے ہسپتال میں گینگ ریپ کر کے قتل کیا گیا۔
ٹرانس جینڈر فیمی سائیڈ ؛
معاشی کی روایت سے اختلاف ان کا قصور سمجھا جاتا ہے اور جسمانی تشدد سے لے کر گولی مارنے تک کی مثالیں ہم سب جانتے ہیں۔
دو ہزار تئیس میں گلوبل پیس انڈیکس نے بیس خطرناک ترین ملکوں کی فہرست جاری کی جس میں پاکستان اٹھارہویں نمبر پہ ہے۔ پہلے نمبر پہ افغانستان پایا جاتا ہے۔
اس سے پہلے ہم یہ جان چکے ہیں کہ صنفی تفاوت انڈیکس میں پاکستان اور افغانستان سر فہرست ہیں۔
کیا ابھی بھی آپ یہ کہیں گے کہ مرد عورت جتنا ہی مظلوم ہے؟ اور کیا ابھی بھی آپ کی گفتگو میں ان عورتوں کا ذکر آئے گا جو مرد پہ چیخ چلا کر اپنے غصے کا اظہار کرتی ہیں۔
ضرور کیجیے بات لیکن یاد رکھیے کہ فیمی سائیڈ کا شکار عورت ہے مرد نہیں اور ایسا دنیا بھر میں ہے۔ سو فیمنسٹ عورتوں کو لعن طعن کرنے کی بجائے ان کا ہاتھ پکڑ کر اس ظلم کو ختم کرنے میں اس کا ساتھ دیجیے جس کا آغاز گھریلو تشدد اور مساجنی سے ہوتا ہے۔
چلتے چلتے یہ سن لیجیے کہ فیمی سائیڈ کا آئیڈیا امریکہ کی فیمنسٹ ڈیانا رسل نے 1972 میں پیش کیا اور اسے دنیا بھر میں قبول کیا گیا۔ عورتوں کے قتل کو علیحدہ سے تفتیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ انگلستان میں فیمی سائیڈ رجسٹر تشکیل دیا گیا جس کے مطابق ہر تیسرے دن ایک عورت کسی مرد کے ہاتھوں قتل ہوتی ہے۔
فیمنسٹ عورت کو محض ننگا ہونے کی شوقین عورت مت سمجھیے۔ فیمی سائیڈ ختم کرنے کے لیے اس کا ساتھ دیجیے اور یہی اصل فیمن ازم ہے!
- ریپ کا جن! - 08/09/2024
- عورت کے قتل کا خطرہ، ہر وقت: فیمی سائیڈ! - 31/08/2024
- بدکار/ ٹھرکی مرد کی بیوی کو کیا کرنا چاہیے؟ - 27/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).