اصول یا انسانیت؟ جیل سے ایک کہانی


جب میری نظر پڑی بچہ خوشی سے کلکاریاں مار رہا تھا۔ کبھی باپ کی گود میں چڑھ جاتا، کبھی اس کے کندھوں پر چڑھنے کی کوشش کرتا۔ کبھی ماں کی طرف لپکتا۔ خاوند بیوی دونوں سامنے گراؤنڈ میں بیٹھے باتیں کرنے میں مصروف تھے۔ میں اپنے آفس میں بیٹھا کھڑکی سے باہر انہیں دیکھ رہا تھا۔ یہ بنگالی فیملی تھی بارڈر کراس کرنے کے جرم میں پاکستانی اداروں نے انہیں گرفتار کیا تھا۔ اب یہ دونوں بچے سمیت قیدی کی حیثیت سے بہاولپور جیل میں نظر بند تھے۔ بچے کی عمر کوئی تین چار سال تھی۔ بہاولپور جیل تمام غیر ملکی قیدیوں کے لیے مخصوص کی گئی تھی۔ اس میں زیادہ تر بنگلہ دیش اور انڈیا کے قیدی تھے جو کسی نہ کسی وجہ سے بارڈر کراس کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔

اس وقت جیل میں دو سو سے زائد غیر ملکی قیدی تھے۔ روٹین کے مطابق جیل میں موجود مردوں کی جب فیملی ملاقات کے لیے آتی ہے تو مردوں کی ان سے ملاقات کروا دی جاتی ہے۔ لیکن اگر کوئی خاوند بیوی کسی جرم میں جیل میں قید ہوں تو عام طور پر ان کی ملاقات نہیں کرائی جاتی تھی۔ مجھے یہ بات عجیب محسوس ہوتی تھی میں نے خاوند بیوی کی جیل کے اندر ملاقات کی روٹین شروع کرا دی۔ کیونکہ میں نے سوچا کہ اگر وہ قانونی طور پر میاں بیوی ہوں تو ان کی ملاقات کی اجازت دینے میں کیا قباحت ہے چنانچہ میرے آفس کے سامنے اندر کی طرف ساتھ والے پلاٹ میں ان کی ملاقات کرا دی جاتی۔ میاں شوکت محمود پہلے آئی جی پرزن تھے جنہوں نے انگریزی دور کے جیل مینول میں بے شمار تبدیلیاں کیں۔ جہاں قیدیوں کی سکیورٹی ان کے مد نظر تھی وہاں ان کی خوراک میں بہتری اور انسانی سہولتوں کو بھی مدنظر رکھا گیا۔ حتیٰ کہ خواتین کے خصوصی ایام کے دوران ان کی مخصوص ذاتی جسمانی ضروریات تک کا خیال رکھا گیا۔ یہ ایسا شخص تھا جو ہر جیل کے سالانہ دورہ کے دوران تمام عملہ کی موجودگی میں پوچھتا تھا کہ کوئی ایسا مسئلہ یا ایسی تجویز جس پر میں ابھی تک عمل درآمد نہ کر سکا ہوں۔ وہ جیل کے حالات بہتر بنانے کے لیے نئی سے نئی تجاویز کے منتظر رہتے۔

چنانچہ جب اس بے سرو سامان قیدی جوڑے کی ہم ملاقات کراتے تو اس کے بچے کے لیے غبارے اور کھلونے اور بیوی کے لیے فروٹ اس کے حوالے کرتے تاکہ وہ ملاقات کے وقت اپنی بیوی اور بچے کو کچھ نہ کچھ دے سکے۔ تو قیدی بچے کی خوشی کی انتہا نہ رہتی اور بچہ باپ کے ہاتھوں کھلونے دیکھ کر اس کی طرف لپکتا، دوڑتا، بھاگتا۔ دن گزرتے رہے تو ایک دن اطلاع ملی کہ کل انڈین ایمبیسی کے فرسٹ سیکرٹری نے اپنے قیدیوں کی ملاقات کے لیے آنا ہے۔ اگلے روز پروگرام کے مطابق وہ تشریف لائے میں نے ڈپٹی سپرٹینڈنٹ کو ساتھ بھیجا اور انہوں نے تمام نئے آنے والے قیدیوں سے ملاقات کرائی فرداً فرداً ان کے مسائل سنے۔ زیادہ تر تو رہائی اور اپنے ملک واپس جانا چاہتے تھے۔ اس میں انڈیا کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے قیدی اور ان کے کیسوں کی نوعیت پوچھی۔ جب وہ اپنا ہوم ورک مکمل کر کے میرے آفس میں آئے۔ تو انہوں نے اور باتوں کے علاوہ جو ایک خاص بات بتائی وہ یہ تھی کہ یہ جو معصوم بچے والا جوڑا ہے یہ اصل خاوند بیوی نہیں ہے۔ یہ سن کر میرے پاؤں سے زمین نکل گئی۔ میرے سامنے اس ننھے منے بچے کی معصوم شکل تھی۔ جو اس کو اپنا حقیقی باپ سمجھ کر اس سے لپٹ جاتا۔ اس پر لوٹتا پوٹتا۔ اسے دیکھ کر اتنا خوش ہوتا پورا ہفتہ انتظار کرتا ہو گا ابو آئیں گے اور کھلونے لائیں گے۔ جب ان کی ملاقات بند کر دی جائے گی تو اس ننھے دل پر کیا گزرے گی۔

اب کیا ہو گا اصولاً تو مجھے اس جوڑے کی ملاقات بند کرا دینی چاہیے تھی اور ہمارے لیے یہ بات کون سی مشکل تھی۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ اس بچے کی محرومی کا کیا بنے گا۔ انڈین فرسٹ سیکرٹری صاحب تو اپنی کارروائی بتا کر چلے گئے۔ لیکن میرے لیے اسی لمحے سے پریشانی شروع ہو گئی کہ ملاقات تو آئندہ کے لیے ہم بند کرا دیں گے لیکن اس معصوم جان کے دل پر کیا گزرے گی۔ ملاقات کا دن جوں جوں قریب آ رہا تھا میری پریشانی بڑھ رہی تھی اور یہ عرصہ میرے لیے کچھ پریشان کن تھا۔

کئی دن اسی شش و پنج اور پریشانی میں گزر گئے لیکن کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ اچانک ایک رات ایک خیال کوندے کی طرح ذہن میں لپکا۔ میں نے امریکی میگزین ریڈرز ڈائجسٹ میں زندگی میں وقوع پذیر ہونے والا ایک سچا واقعہ پڑھا تھا جو میرے ذہن پر نقش ہو گیا۔ وہ کچھ یوں تھا کہ امریکہ میں ایک بوڑھے آدمی کا سڑک کراس کرتے ہوئے ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے اسے فوری طور پر ہسپتال منتقل کر دیا جاتا۔ اس سے اس کے بیوی بچوں کے بارے میں معلوم کیا جاتا ہے چونکہ وہ غنودگی کے عالم میں ہوتا ہے اس لیئے الفاظ اس کے ہونٹوں پر ٹوٹ رہے ہوتے ہیں وہ اچھی طرح بات نہیں کر سکتا۔ کافی کوشش کے بعد ہسپتال انتظامیہ کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا بیٹا آرمی میں میجر ہے اس کا نام جو وہ بتاتا ہے۔ آرمی کو اس کی اطلاع کر دی جاتی ہے تو اسی رات کو اس کا بیٹا ہسپتال پہنچ جاتا ہے اور جب وہ اس کے کمرے میں داخل ہوتا ہے باپ کو آواز دیتا ہے۔ باپ بات کرنے سے قاصر ہے البتہ بوڑھا غنودگی میں اپنا ہاتھ آگے کرتا ہے۔ بیٹا فوراً اپنے باپ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بیٹھ جاتا ہے اور اسی حالت میں صبح ہو جاتی ہے۔ صبح کو بوڑھا آدمی فوت ہو جاتا ہے۔ میجر اٹھتا ہے باپ کی پیشانی پر بوسہ دیتا ہے اور ہسپتال کے عملے کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ میں جا رہا ہوں میرے جانے کے بعد آپ ان کی تجہیز و تکفین کر دینا کیونکہ وہ میرے والد نہیں تھے۔ رات جب میں کمرے میں داخل ہوا اور اونچی آواز میں ابو کہہ کر مخاطب کیا، انہوں نے مجھے پہچانا نہیں وہ غنودگی میں تھے البتہ انہوں نے میری طرف ہاتھ بڑھا دیا تو میں نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے لیا تو ان کو سکون سا محسوس ہوا کہ میرا بیٹا آ گیا ہے تو میں نے بیٹا بن کر رات بھر ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں رکھا۔

یہ خیال آتے ہی میری آنکھیں نم ہو گئیں اور دل کو سکون سا آ گیا۔ میں نے سوچا ملاقات تو انہوں نے علیحدگی میں نہیں کرنی سب کے سامنے پلاٹ میں کرنی ہے، اس میں قابل اعتراض تو کوئی بات نہیں، ایسی ملاقات کرانے میں کیا مضائقہ ہے، البتہ اس ملاقات میں جو بچے کو ”باپ“ سے مل کر اور اپنے تحفے لے کر خوشی ہو گی وہ بے پایاں ہو گی اور جس کا کوئی انت نہیں۔ چنانچہ اگلے روز وہ جوڑا میرے آفس کے سامنے حسب معمول بیٹھا ملاقات کر رہا تھا اور بچہ اپنے تحفے لے کر باپ سے لپٹ رہا تھا۔ کبھی ماں کی گود میں بیٹھ کر لولی پوپ منہ میں ڈالتا، کبھی غباروں سے کھیلتا، کبھی بانسری بجاتا، کبھی باپ کے کندھوں پر سوار ہوتا اور میں انہیں دیکھ کر اندر دفتر میں بیٹھا ایک الوہی مسرت محسوس کر رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments